روشنی کی کرنیں کھڑکی سے پری کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔
پری! بیگم فریال نے آکر اٹھایا۔
جی ماما!
خیریت جو آج صوفہ پر ہی سوئی ہوئی ہو؟
بیگم فریال نے پری کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے پوچھا۔
وہ ماما رات کو پانی لینے نیچے اتری تھی پتا ہی نہیں چلا کب آنکھ لگ گئی۔
بات کو وہ گول کر گئی۔
اسے یاد تھا کہ وہ تلاوتِ قرآن پاک سنتے سنتے سو گئی تھی۔
اچھا چلو فریش ہو جاؤ میں ناشتہ لگاتی ہوں پھر کالج بھی جانا ہے۔
اوکے ماما پری یہ کہہ کر فریش ہونے کے لئے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام علیکم!
میڈم سعدیہ نے لائبریری میں بیٹھے ارحم کو سلام کیا۔
ارحم سب سے پہلے لائبریری جاتا تھا تاکہ اچھے سے لیکچر کی تیاری کر سکے۔
وعلیکم السلام!
ارحم نے چونک کر جواب دیا۔
اسے سعدیہ کی آمد کا علم نہیں تھا۔
ارحم مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔
جی کہیے ارحم نے شائستگی سے جواب دیا۔
آپ کی آواز بہت اچھی ہے سروو سا ہے اور بہت سکون سا ملتا ہے سن کر مجھے سعدیہ نے یہ بات ایک ہی سانس میں کہہ دی تھی۔
اوکے شکریہ میڈم! ارحم یہ کہہ کر دوبارہ کتابوں میں مگن ہوگیا۔
ارحم ایک اور بات۔
کہیے میڈم جو کہنا ہے بے زار ہو کر کہا ارحم نے۔
میں آپ کو پسند کرنے لگی ہوں۔
یہ سن کر ارحم کے تاثرات بدل گئے۔
اسکے ماتھے پر غصہ کے شکن واضح نظر آرہے تھے۔
بہت ہوا میڈم ارحم نے غصہ کو ضبط کرتے ہوئے جواب دیا۔
آج تو ایسی بات کردی آئندہ کبھی بھی ایسا مت کہیے گا۔
ایک اور بات میری یاد رکھیں
آپ ایک لڑکی ہیں عزت کروانا سیکھئے۔
ایک لڑکی حیا و شرم کا پیکر ہوتی ہے۔
ایسا بنیے لوگ آپ جیسا بننے کی چاہ کریں۔
آپ کا لہجہ نرم ہونے کی بجائے نامحرم سے بات کرتے وقت سخت ہونا چاہیے۔
بس یہی کہنا تھا۔ارحم یہ سب کہہ کر لائبریری سے نکل گیا۔
سعدیہ کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر امڈ آیا تھا۔
وہ روتے ہوئے ارحم کی باتوں کو یاد کرنے لگی۔
اور کہنے لگی۔
یارب تیرے نیک بندے بہت کم ملتے ہیں ہر انسان ایسا نہیں ہوتا جس میں آپکی عنایت جھلکے
تیری بندگی کا وجود ہر انسان میں نہیں اترتا۔
آنسو صاف کرتے ہوئے کہنے لگی۔
مجھے بھی ایسے لوگوں میں شامل کرلے جن پر تیرا خاص کرم ہو۔
میرے مالک ایسا بنادے تیری بندگی ہو میری زندگی ہو۔
یہ کہتے ہوئے لیکچر دینے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلحہ بے چینی کے عالم میں کمرے میں ادھر ادھر ٹہل رہا تھا
اسے یہی فکر ستائے جارہی تھی کہ اپنی ماما کو کیسے منائے۔
احمد کا گزر جیسے ہی طلحہ کے کمرے کے سامنے سے ہوا اسکی نظر طلحہ پر پڑی۔
جو اسے پریشان دیکھائی دیا۔
طلحہ کو یوں پریشان دیکھ کر اسکے کمرے میں چلا گیا۔
طلحہ ! جی بھائی ۔
کیا بات ہے پریشان لگ رہے ہو۔
نہیں بھائی ایسی بات نہیں ہے۔
پریشانی واضح طور پر تمہارے چہرے سے عیاں ہو رہی ہے۔چلو بتاؤ شاباش جو بھی بات ہے احمد نے مزید بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
اب اپنے بھائی کو نہیں بتاؤ گے تو کسے بتاؤ گے۔
بھائی! میں انعم کو پسند کرتا ہوں اور اسسے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
طلحہ نے جواب دیا۔
اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔
بھائی امی نہیں مان رہی ہیں
میں ماما کو منا لوں گا میری جان میرے ہوتے فکر کیسی۔
وعدہ کرو بھائی اوکے وعدہ ۔
یہ سن کر طلحہ نے احمد کو گلے لگا لیا۔
اچھا چلو اب میں چلتا ہوں امی کو بھی منانا ہے۔اوکے بھائی بہت شکریہ بھائی اسکی کی آنکھوں میں خوشی کی چمک دیکھ کر احمد بھی مسکرا کر کمرے سے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پری کالج کے گراؤنڈ میں بیٹھی ہوئی تھی احتشام بھی پاس آکر بیٹھ گیا۔
پری میں ایک بات کہوں احتشام نے پری سے پوچھا۔
جی کہیے پری نے بنا دیکھے جواب دیا۔
میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں پری۔
پری نے حیرانی سے احتشام کی جانب دیکھا۔
ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔ شادی کرنا گناہ تھوڑی ہے۔
نہیں میرا یہ مطلب نہیں لیکن اتنی جلدی پری نے شش وپنج میں جواب دیا۔
ابھی تو سبکی شادی ہونا باقی ہے ۔
تو کیا ہوا ہم پہلے کر لیں گے احتشام نے دو ٹوک جواب دیا۔
پری تم مجھے پہلی نظر میں ہی پسند آگئی تھی
اور تب میں نے تمہیں کہا تھا تو زور دار تھپڑ پڑا تھا۔
اور وہ تھپڑ کبھی نہیں بھولتا۔
ہاہاہا
اب بس بھی کردیں احتشام پری نے شرمندہ ہوتے کہا۔
احتشام نے پری کو پھر مخاطب کیا۔
ویسے اسی دن سوچ لیا تھا کہ اسی لڑکی کو لائف پارٹنر بناؤں گا۔
ورنہ تمہیں جھیلنا آسان نہیں آفت کی گھنٹی کون اپنے گلے میں باندھے۔ہاہاہا
احتشام میں تمہیں آفت لگتی ہوں پری نے ناراضگی والی شکل بنا کر پوچھا۔
ارے نہیں میں تو مزاق کررہا تھا
چلو اب ناراض نا ہونا احتشام نے پری کو کہا۔
اسکا حساب تمہیں دینا ہوگا احتشام مرتضیٰ پری نے احتشام کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
حساب تو تم بھی بہت چکاؤ گی پارسا سبحان بڑبڑاتے ہوئے کہنے لگا۔
کچھ کہا کیا احتشام ۔
نہیں پری جی میری اتنی مجال کہاں آپ کی شان میں گستاخی ہو۔
بس بس اتنا عاشق بننے کی ضرورت نہیں پری نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
ا چھا جی چلو کلاس میں لیٹ ہو رہے ہیں ہم یہ کہہ کر وہ کلاس کی جانب چل دیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما۔جھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے احمد نے اپنی ماما نگینہ کو کہا۔
جی کہوں۔
ماما آپ طلحہ کے لئے انعم کا رشتہ لیکر جائیں
طلحہ کا تو دماغ خراب ہو رہا ہے نگینہ نے تلخ لہجے میں جواب دیا۔
ماما انعم ایک نیک لڑکی ہے۔
اچھا اب تم بھی اسکی وکالت کرو گے۔
پہلے کیا ایک کم تھا نگینہ نے غصہ میں جواب دیا۔
احمد نے اپنی بات جاری رکھی
ماما میں اپنی باری پر خاموش ہو گیا تھا جب آپ نے رشتہ توڑا تھا۔
تو کیا ہوگیا کم سے کم سبیحہ جہیز تو اچھا خاصا لائے گی۔
ماما جہیز کا کیا ہے احمد نے بھی جواب دیا ۔
چیزوں کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔
اصل وجود تو رشتوں کا ہوتا ہے۔
چیزیں تو آنی جانی ہیں
لیکن رشتے ہمیشہ دائمی رہتے ہیں۔
بس کرو احمد مجھے کوئی بات نہیں سننی نگینہ نے انتہائی غصہ میں جواب دیا۔
ماما مان جائیں نا پلیز احمد منت سماجت کرنےلگا۔
ماما اگر آپ کسی اور کو دلہن بنانا چاہے گی۔طلحہ کبھی بھی خوش نہیں رہ پائے گا نہ وہ لڑکی پلیز مان جائیں ۔
اگر انعم کی جگہ ہماری بہن کے ساتھ ایسا ہو ماما بہت برا لگے گا ۔۔ماما دنیا مکافات عمل ہے۔
اولاد کی خوش کے لیے مان جائیں نا پلیز۔
نگینہ نے سوچتے ہوئے جواب دیا اوکے ٹھیک ہے طلحہ کو خوشخبری سنا دو۔
یہ ہوئی نا بات ماما احمد سن کر خوش ہوگیا۔
آپ عظیم ہیں ماما ۔
اچھااب مکھن نہ لگاؤ ۔
ہاہاہا ایسا نہیں ماما احمد نے جواب دیا۔
اب جاؤ مجھے آرام کرنے دو نگینہ بیگم یہ کہہ کر لیٹ گئی ۔
اوکے میری عظیم ماما احمد یہ کہہ کر کمرے سے باہر آگیا۔