مشرف عالم ذوقی اردو اور ہندی کے مشہور افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔انھوں نے کئی اہم ناول بھی لکھے ہیں ۔ حال میں ان کا ایک ناول’’ لے سانس بھی آہستہ‘‘ منظر عام پرآیا ہے۔ذوقی کے بارے میںمیرا ذاتی خیال ہے کہ ان کے اظہار میںاتنی پختگی ہے کہ وہ جس موضوع کو بھی اٹھاتے ہیں وہ اس سے بڑی کامیابی کے ساتھ عہدہ بر آ ہوتے ہیں۔ چونکہ ان کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ تیز ہے اس لئے ان کے قلم سے نکلی ہوئی عبارتیں ہمیشہ اپنی توجہ کھینچتی ہیں۔
مشرف عالم ذوقی کا نیا ناول ’’لے سانس بھی آہستہ۔۔۔۔‘‘ دراصل میر کے شعر کا ہی ترجمان نہیں بلکہ اس شعر کی معنویت کی پرتیں ان کے تخلیقی عمل سے وابستہ ہیں۔میں تو سمجھتی ہوں کہ اس ناول کی تشکیل و تعمیر میں وہ ایک ناول نگارسے زیادہ ایک شیشہ گر نظر آ رہے ہیں۔ ظاہر ہے شیشہ گر دوران تخلیق جس نازک عمل سے گزرتا ہے وہ مرحلہ بڑا نازک ہی نہیں پر آشوب بھی ہوتا ہے۔ اس ناول کے موضوع کے انتخاب اور اس کی فصیل میں رہ کر فصیل سے باہر کی دنیا کے وقوعات کا اپنے مشاہدات اور معاملات سے وابستہ ہو کر جن پیچیدہ عوامل سے ان کا سامنا ہوا ان کا راست بیان ان کی بھرپور تخلیقی آگہی کی نشاندہی کرتا ہے۔
ذوقی کا ناول’’لے سانس بھی آہستہ۔۔۔۔‘‘ اکیسویں صدی کا ایک بڑا واقعہ بن کر سامنے آیا ہے۔ادبی دنیا میں اس ناول کا استقبال بڑے پر جوش طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ شاید یہ ہے کہ اس میں جس موضوع کو لیا گیا ہے وہ ایک بڑے طبقے کے لئے قابل حیرت ہے۔اس ناول میںباپ اور بیٹی کے مابین جنسی اختلاط جیسے سنگین وقوعے کو لے کر قارئین کو ورطہ ء حیرت میں ڈال دیا گیا ہے۔ باپ اور بیٹی کے جس پاکیزہ رشتے کو تعجب خیز انداز میں عکس ریز کیا گیا ہے وہ ہمارے معاشرے با لخصوص مسلم معاشرے کے لئے ایک تازیانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ دراصل ذوقی نے رشتوں کی تہذیب کے پیچھے انسانی حیوانیت یا جبلت کو نفسیاتی ژرف بینی کے ساتھ پیش کرنے کی جرأ ت کی ہے۔ قدیم تہذیب میں اس کی مثالیں تو موجود ہیں، لیکن نئی تہذیب بھی اس المیے کی شکار ہونے سے نہ رہ سکی۔نور محمد کے کردار میںزندگی کے کئی ایسے پہلوؤںکومرکز گفتگو بنایا گیا ہے، جو ہمارے لئے ممکن ہے ناقابل یقین ہو لیکن یہ سب سچ ہیں۔ وسیع الرحمٰن کاردار(پیدائش ۱۹۰۲ء) سے نگار( پیدائش ۱۹۹۳ء) ، نور محمد (پیدائش ۱۹۵۰ء ) کے خاندانی کوائف تو بس سطح پر چلنے والے سایے ہیں ۔ناول کے اندرون میں جو کردار ان کے ساتھ ہیں ان میںسارہ، نواب لٹھن، سفیان ماموں ، رقیہ کے کردار نے مل کر ایک ایسی فضا تیار کی ہے جو ناول کوintact بناتا ہے۔اس ناول کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ بنیادی موضوع کے حصار میں کئی واقعات ساتھ ساتھ چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ ذوقی کا کمال فن ہے کہ انھوں نے قومی، بین الاقوامی حالات کو پیش نظر رکھا ہے اور مغربی تہذیب نے ہمارے معاشرے کو جن الم ناک صورت حال سے دوچار کیا ہے، ان کی طرف بھرپور اشارہ کیا ہے ۔ پورے ناول میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم جس عہد میں جی رہے ہیں یا جس عہد سے ہمارا سامنا ہے وہ عہد طلسماتی کرشمہ سازیوں اورفریب آلودہ معاشرت سے عبارت ہے، جہاں ہر انہونی ہونی اور ہر ہونی انہونی لگتی ہے۔ باپ اور بیٹی کے درمیان کا جنسی رشتہ کوئی نیا سانحہ نہیں یہ تو ہم نے اس عہد قدیم سے حاصل کیا ہے، جہاں سے ہماری نسلیں آباد ہوئیں۔
یہ ناول خیالی طور پرجہاں کئی دہائیوں کو محیط ہے وہاں اصلاً یہ آزادی کے بعد کا تاریخ نامہ ہے کہ ہم نے چھ سات دہائیوں میں کیا کھویا اور کیا پایا۔ذوقی نے تخلیقی زبان کے سہارے جو تاریخ گوئی کی ہے اور عہد بہ عہد گزرنے والے واقعات کوجس انداز سے ناولتی فن میںپرویا گیا ہے ،ان سب نے قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ کیونکہ آزادی کے بعد سے اب تک کی ہندوستانی معاشرت کن روشن اور مبہم موڑوں سے گزرتی ہوئی ایک ایسی نئی دنیا میں قدم رکھ چکی ہے، جہاں ہمارے تصورات اور احساسات پر دبیز پردے پڑ گئے ہیں۔ انھوں نے اس ناول میں جن تلخ حقائق کو روز روشن کی طرح عیاں کیا ہے وہ ہمارا آج کا سچ ہے جس سے ہم قطعی رو گردانی نہیں کر سکتے۔ یہ ناول اس عہد کے ایک معتبر گواہ کاحلف نامہ ہے جو مختلف ادوار کا شاہد ہے۔
بعضوں کے نزدیک ممکن ہے یہ ناول اپنے کسی وقوعے کی بنیاد پرمتنازعہ ہو، لیکن ذوقی کے قلم کی جادو بیانی، بیانیہ کی روانی ، بنت کاری کی ہنرمندی اور کردار کی شفافی نے اسے قابل قدر بنا دیا ہے۔ ذوقی کی تخلیقی ذہانت، فکری بصیرت اور اظہار بیان پر قدرت قاری کو ساتھ ساتھ لے کر چلتی ہیں۔ ہر سطر سے ذوقی کی دو ٹوک اور بے ساختگی نمایاں ہے۔ ذوقی نے کئی صفحوں پر اپنے فلسفیانہ تصورات اور فکریات کے ایسے ایسے خوبصورت جملے تراشے ہیں کہ ناول قراء ت کے دوران کئی امیجز خود بہ خود تخلیقی مرحلوں سے گزرتا ہواوضع کرتا جاتا ہے۔ اس ناول سے ذوقی کی بھرپور فنی پختگی واضح ہے۔ذوقی کا یہ ناول گزشتہ چار پانچ دہائیوں میں لکھے گئے ناولوں کا ایسا اگلا سفر ہے جو سب سے آگے نکلتا ہوا نظر آتا ہے۔ ذوقی کا Boldness اور ان کی بے باکی ،ان کا معاشرے سے دوٹوک سروکار اور معاشرتی مسائل کا بیان ۔۔۔۔ ان سب نے مل کر ناول کو اس عہد کا عظیم تخلیقی کارنامہ بنا دیا ہے۔