ذوقی صاحب کی اکثر کہانیوں یا ناول کی پہلی قاری عموماً میں ہی ہوتی ہوں۔ کبھی کبھی وہ لکھنے سے پہلے ہی آئیڈیا سنا دیتے ہیں۔ مجھے اس وقت جو سمجھ میں آتا ہے، بول دیتی ہوں، یا پھر کہہ دیتی ہوں کہ ابھی مجھے سوچنے دیجئے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ جب لکھ چکے ہوتے ہیں تو مجھے پڑھنے کے لیے دے دیتے ہیں۔ اکثر تکرار بھی ہوتی ہے۔ وہ میری کئی بات مان لیتے ہیں اور کئی بار میری باتوں کو سننے کے بعد ایک مرد ذوقی بھی سامنے آجاتا ہے۔ میں اس وقت صرف مسکرا کر اتنا سوچتی ہوں کہ اپنی کہانیوں میں عورت کو مضبوط کردار کے طور پر پیش کرنے کے اعلان کے باوجود کیا سچ مچ ذوقی صاحب کے یہاں یہ توازن موجود ہے؟ کیا سچ مچ ان کے ناولوں کی عورتیں زندگی کے سرد وگرم سے لڑتی ہوئی مضبوط ہیں یا صرف یہ دکھاوا ہے۔ مضبوط عورتوں کے نام پر یہ خیال بھی آتا ہے کہ کیا آج کی عورتیں سچ مچ محفوظ ہیں یا مضبوط ہیں؟ دلی میں آئے دن ریپ یا زنا بالجبر کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ لڑکیاں عام گھروں میں سلامت نہیں— باپ بیٹی کے ناجائز تعلقات جیسے واقعات بھی شرم میں مبتلا کرتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں عورت نہ محفوظ ہے نہ آزاد تو وہ طاقتور کیسے ہوسکتی ہے؟ انصاف کا تقاضہ ہو تب بھی ہر ملک کے اپنے اپنے قانون سامنے آتے ہیں۔ اور غور کیجئے تو زیادہ تر قانون مرد کی حمایت میںہیں، عورت کی حمایت میں نہ کے برابر ہیں۔ زنا کے واقعات کو ہی لیجئے، کیا گناہ ثابت ہوجانے کے بعد بھی گنہگار کو سزا ملتی ہے؟ سویڈن کا قانون دیکھیے تو صرف دس ہی فیصد مجرم گرفتار ہوتے ہیں ہندستان میں ایک سروے کے مطابق صرف ۲۶ فی صد لوگوں کو سزاد دی گئی۔ اور سزادکے فیصلے کے لیے ایک عورت کو کتنا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ وہ اس درمیان کتنی بار مرتی ہے۔ کیا کوئی نفسیاتی معالج اسکا اندازہ لگا سکتا ہے۔ میں ذوقی صاحب سے سب سے پہلے یہی پوچھتی ہوں کہ وہ مضبوط عورت تمہاری کہانیوں میں نظر کیوں آتی ہے، جب وہ ہے ہی نہیں۔ اور ان کا جواب ہوتا ہے، وہ ان عورتوں کو آنے والے وقت کے لیے تیار کررہے ہیں۔ اور میں کہتی ہوں۔ یہ صرف لکھنے کی حد تک قطعی ممکن نہیں ہے۔ ذوقی نے اپنی کہانیوں کی عورتوں کو لے کر بہت پہلے ایک مضمون بھی لکھا تھا۔ میں اس مضمون سے ایک اقتباس درج کررہی ہوں۔
’’پانی:اندر اندر گھاس‘ اور نئی کہانی ’’ڈراکیولا‘‘ تک میں عورت کو سہمے ہوئے ’جانور‘کی طرح نہیں دیکھ سکتا تھا۔ شاید اس لئے کہ خدا کی اس ’بے مثال تخلیق‘ کو میں کسی قید خانے میں گھٹتے ہوئے یا مسلسل استحصال کا شکار ہوتے ہوئے برداشت نہیں کر سکتاتھا___
جیسی وہ ہے،
آپ اسے ویسا کیوں نہیں دیکھتے،
ایک جادو/
ایک طلسم کی طرح/
کہ اس طلسم میں ہزاروں کہانیاں ہیں/
اور شاید اسی لئے کسی بزدل، مظلوم عورت کا کوئی تصور، آپ کو میری کہانیوں میں نہیں ملے گا۔ میں نے ہر بار اُسے مضبوطی کے ساتھ جیا ہے۔ Female Foeticide یعنی نسائی نطفے کے قتل اور ہزار اُداس کرنے والی کہانیوں کے باوجود میں ہر بار عورت میں امید اور یقین کی ایک ’نئی عورت‘ کو بہرصورت تلاش کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتا ہوں۔ یہ نئی عورت نہ صرف میری مضبوطی کی علامت ہے بلکہ میری کہانیوں کی مضبوطی بھی۔‘‘
—میری کہانی کی عورت(مشرف عالم ذوقی
ذوقی صاحب اپنی فکر کے لیے اسی طرح آزاد ہیں، جیسے ایک عام لکھنے والا آزاد ہوتا ہے۔ لیکن میر ا اعتراض ذوقی کی اسی نفسیات کو لے کر ہے۔ کیا عورت واقعی مضبوط یا آزاد ہے؟ یا وہ قاری کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان عورتوں کی باتیں چھوڑ دیجئے جو اینٹے توڑتی ہیں، مٹی ڈھوتی ہیں، جو بیڑی کے کارخانوں میں کام کرتی ہیں یا کوئلہ کھانوں میں اپنی زندگی کو موت کے سپرد کررہی ہیں؟ ایک لڑکی جب پیدا ہوتی ہے، تو اس کا پیدا ہونا ہی آج بھی اس سماج اور معاشرے کے لیے ایک ہمدردی بھرا عمل ہوجاتا ہے۔ وہ پڑھنے جاتی ہے تو حجاب سے لے کر لڑکوں سے ملنے جلنے تک ہزاروں طرح کے سوال اسے پریشان کرتے ہیں۔ وہ کالج جاتی ہے، جوان ہوتی ہے تو مردانہ نگاہوں سے پریشان ہوجاتی ہے اور کبھی کبھی تو اسے اپنوں کی نگاہوں سے بھی ڈر ستانے لگتا ہے۔ لے سانس بھی آہستہ کا مطالعہ کرتے ہوئے وہ تمام کردار میری آنکھوں کے سامنے تھے اور میں ان کرداروں میں ذوقی صاحب سے معذرت کے ساتھ، اس مضبوط عورت کو تلاش کرنے میں ناکام رہی، وہ جس کا دم بھرتے ہیں۔ کیا عبد الرحمن کاردار کی ماں کو مضبوط کہا جائے گا، جس نے ایک خستہ ہوتی حویلی میں، قیدی بن کر ساری زندگی گزار دی، ہاں یہ اس عورت کا فریسٹریشن ضرور تھا جو کئی موقعوں پر شوہر کے سامنے غصے کی وجہ بن کر بھی سامنے آیا۔ میں یہاں ایک اقتباس درج کررہی ہوں۔
’’اماں کی آواز اچانک بلند ہوگئی تھی۔ ’منہ مت کھلوائیے— میں کچھ نہیں بھولتی۔ جب پہلی بار ڈولی چڑھ کر یہاں آئی تھی‘ تب سے لے کر آج تک کی ساری بات یاد ہے۔ بلند حویلی۔ ارے خاک بلند حویلی—کبھی شان رہی ہوگی۔ اب شان مٹی میں مل چکی ہے— درو دیوار کو دیمک چاٹ رہے ہیں۔ کبھی اس حویلی کی چھتیں دیکھی ہیں— کھوکھلی ہوچکی ہیں— بارش اور طوفان میں ڈر لگا رہتا ہے کہ خدا نخواستہ حویلی کی کوئی دیوار بیٹھ نہ جائے۔ آپ کو تو یہ بھی یاد نہیں ہوگا کہ آج سے پہلے کب اس حویلی میں چونا گردانی یا پتائی ہوئی ہوگی— خدا قسم کھا کر بولیے۔ یاد ہے—؟ میں نے تو برسوں میں نہیں دیکھا— اور چونا گردانی کرائیں گے کہاں سے— دیواریں جھڑ رہی ہیں۔ محرابیں ٹوٹ رہی ہیں— چھت بیٹھ رہی ہے— اورنام ہے بلند حویلی— اور سن لیجئے— بڑے بول نہیں بولتی— ذرا حویلی کے دروازے سے باہر نکل کر دیکھے۔ یہ موچی اپو، چچو تھے— جو کل تک آپ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے— اب ذرا ان کی ٹھس، ان کی اکڑ، ان کی شان دیکھیے— اللہ بھی اُن کی مدد کرتا ہے جو محنت کرتے ہیں۔ آپ لوگوں نے کیا کیا—؟ بس ساری زندگی حویلی حویلی کرتے رہے— حویلی حویلی چاٹتے رہے— اب چاٹنے کے لیے بھی حویلی نہیں بچی— محلے کے بنیوں، چماروں نے دو منزلہ، چار منزلہ مکان بنا لیے۔ اُن کے بچے بھی شان سے انگریزی اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں— اور آپ کے پرکھے—؟ بس جاگیردارانہ نظام پر چلتے رہے— لوگوں پر ظلم کرتے رہے— کہتے تھے، خیرات کرتے ہیں— اب خیرات کر کے دیکھئے— خیرات کرنے کے لیے بھی بچا کیا ہے—؟‘‘
—لے سانس بھی آہستہ سے
یہ غصے کی عام شکل ہے، جسے ہمارے سماج یا معاشرے کی عام عورتوں میں بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس سے ان عورتوں کی قوت یا طاقت کا اندازہ لگانا صحیح نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ عورتیں بھی عبدالرحمن کاردار کی اماں کی طرح وقت کی ستائی ہوتی ہیں اور ایک قید معاشرے میں ایک دن اپنی گھٹن بھری زندگی کا خاتمہ کردیتی ہیں— ہاں ایک موقع پر اس عورت کی طاقت کا اندازہ ضرور ہوتا ہے۔ اس ناول کا ایک مختصرسا اقتباس دیکھیے۔
’’اماں منہ سے آگ اگل رہی تھیں—
’دیکھئے مجھے— کوئی پردہ نہیں— حجاب اور برقعہ کو گھر چھوڑ کر آئی ہوں— بلند حویلی تو کجا، محلے کی کسی عورت نے آج تک ایسا نہیں کیا— میں سارا پردہ، سارا حجاب ختم کر کے آج آپ کے پاس یہ پوچھنے آئی ہوں کہ اگر میرے شوہر کو آپ کے آنے کی وجہ سے کچھ ہوجاتا ہے تو کیا آپ خود کو مجرم مانیں گے— ؟ وہ آپ کے جاتے ہی بیمار ہوگئے— صبح ہوش آیا اور ابھی بھی ان کی طبیعت خراب ہے… میں نہیں جانتی ان کا کیا ہوگا— اس صدمے کو وہ کس طرح لیں گے… میں اُنہیں اس وقت اسی حال میں چھوڑ کر آپ کے پاس آئی ہوں۔ یہ پوچھنے کہ آپ کی ہمت کیسی ہوئی، ایک شریف اور مہذب آدمی سے سوال کرنے کی— ایک زمانہ تھا جب کاردار خاندان کی طرف دیکھتے ہوئے بھی نگاہیں خوف سے جل جایا کرتی تھیں— بلند حویلی کی طرف آپ نے آنکھ اٹھانے کی ہمت کیسے کی…؟‘
’دیکھئے… آپ بہت زیادہ بولے جا رہی ہیں…‘ سب انسپکٹر بانکے بہاری کے ہوش فاختہ تھے— آواز سن کر دو تین کانسٹبل اور سپاہی بھی جمع ہوگئے تھے۔
’ابھی صرف بول رہی ہوں— شکر کیجئے کہ کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہوں— آپ بتائیے، آپ کے مجسٹریٹ کہاں بیٹھتے ہیں، مجھے ان سے آپ کی شکایت کرنی ہے۔ بولیے…، اماں کی دہاڑ گونجی— یا یہ بھی نہیں جانتے کہ آپ کے مجسٹریٹ کو اس وقت کہاں ہونا چاہئے…‘‘
—لے سانس بھی آہستہ سے
لیکن کیا عام حالات میں یہ غصہ عام عورتوں کے اندر پیدا نہیں ہوتا جب اس کا شوہر کسی وجہ سے کسی بڑی مشکل میں گرفتار ہوتا ہے۔ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی مثالوں سے ہم کسی عورت کے کردار کو طاقتور بتانے کی بھول نہیں کرسکے۔ عمر کے آخری حصے تک وہ پرانی حویلی کے دروبام سے چپکی ہوئی ایک کمزور عورت ہی تھی۔ اور حویلی کے واقعات بتاتے ہیں کہ تا عمر وہ بدنصیبی اورگھٹن کا شکار رہی۔
نور محمد کی ماں اس ناول کا دوسرا کمزور کردار ہیں جن پر شاہ جنات کا سایہ رہا اور ایک دن وہ مری ہوئی پائی گئیں یا شاہ جنات انہیں اپنے ساتھ لے گئے، خدا معلوم— سفیان ماموں کی بیٹی نادرہ کا کردار اس ناول کا سب سے اہم کردار ہے۔ نادرہ جو رحمن سے پیار کرتی ہے اور رحمن اس کی محبت کو سمجھ نہیں پاتے اور اس کی شادی اس کے دوست نورمحمد سے ہوجاتی ہے۔ سفیان ماموں سقوط بنگلہ دیش کے المیہ کے بعد لٹے لٹائے ہندستان آئے تھے۔ نادرہ اتنی سمجھدار تو ہوہی چکی تھی کہ محبت اور شباب کی لذت کا ادراک اسے ہوسکے۔ اور اسی لیے شروعات میں رحمن کی حرکتوں اور شرارتوں کا وہ کوئی جواب تو نہیں دے پاتی مگر آہستہ آہستہ اس بات کا اقرار ضرور کرلیتی ہے کہ وہ بھی رحمن سے محبت کرتی ہے۔ ادھر جب نور محمد کی والدہ کا انتقال ہوتا ہے تو نادرہ نور محمد کی طرف جھکائو محسوس کرتی ہے۔ اس کا نفسیاتی تجزیہ یوں تھا کہ نادرہ نے بھی اپنی ماں کو کھویا تھا اور اسے نور محمد سے ہمدردی تھی۔ مگر رحمن کاردار اس ہمدردی کو نادرہ کا پیار سمجھ لیتے ہیں— وقت گزرتا ہے اور نادرہ نورمحمد کی ہوجاتی ہے۔ اس درمیان ناول میں تیزی کے ساتھ کئی واقعات کروٹ لیتے ہیں۔ نادرہ بیمار رہنے لگتی ہے۔ اسے اس بات کا احساس ہے کہ وہ اب زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہے گی۔ عبدالرحمن کاردار جب ملنے آتا ہے تو وہ اس کا ہاتھ تھام کر جذباتی ہوجاتی ہے۔
’’میرے ہوش و حواس پر جیسے کوئی بجلی گری ہو—
وہ مسکرا رہی تھی… ’کہیں تم یہ تو نہیں سمجھ رہے تھے کہ میں نور سے پیار کرنے لگی تھی…‘
’ہاں…‘ میں نے گہری سانس کھینچی—
’مجھے بھی بعد میں یہی احساس ہوا— پاگل تھے تم۔ اس کی کہانی میری جیسی تھی۔ اس نے بھی ماں کو کھو دیا تھا— میری بھی ماں نہیں تھی— بس، ہمدردی تھی مجھے اس سے… سنا—‘ وہ چیخی— ’اور آج بھی ہمدردی ہے… میں پیار نہیں کرتی اسے— پیار صرف تم سے کیا۔ پیار صرف تم سے کرتی ہوں رحمن— تم کیوں نہیں سمجھ پائے مجھے… پوچھا کیوں نہیں ایک بار بھی کہ سچ کیا ہے… میں سب بتا دیتی… اس زمانے میں، مجھے ابو سے نفرت ہوگئی تھی— بس کچھ بھی اچھا نہیں لگتا تھا— ابو شادی کرنے والے تھے— اور میں اس شادی کے خلاف تھی— میں امّی کو کیسے فراموش کرسکتی تھی— ابو میرا درد نہیں سمجھتے تھے۔ مگر— تم تو سمجھتے تھے۔ ان دنوں میری دنیا اجڑ گئی تھی— تم تو سہارا بن سکتے تھے میرا…‘
وقت ٹھہر گیا تھا…
وان گاگ کی پینٹنگ جاگ گئی تھی… تتلی کی طرح ایک لڑکی کی چمکتی، بولتی آنکھیں— اور یہ بولتی آنکھیں پوچھ رہی تھیں…
بتاؤ تو… وہ کیا ہے جو اچانک گوند کی طرح ہمیں ایک دوسرے سے چپکا دیتی ہے؟
زمان و مکان سے بے خبر—
جنگ اور تباہیوں سے الگ—
ہمیں کچھ اور سوچنے نہیں دیتی—
بتاؤ تو… وہ کیا ہے… جو دھماکوں کے باوجود ہونٹوں پر مسکراہٹ لا دیتی ہے…
اندھیرے کے باوجود آنکھوں میں چمک…
وہ کیا ہے… جو یاد کی رہ گزر پر آپ کو بے سہارا نہیں چھوڑتی… مرنے نہیں دیتی…
اور پینٹنگس سے نکل کر چپکے سے اڑ جانے والی تتلی کہتی ہے… محبت … یہ تو بس محبت ہے…‘‘
—لے سانس بھی آہستہ سے
اس میں شک نہیں کہ یہ مکالمے انتہائی حسین ہیں مگر یہاں بھی نادرہ کی شکل میں ایک عام لڑکی یا عورت کا چہرہ ہی ابھرتا ہے۔ ہمارے سماج میں ہزاروں نادرائیں ہیں جو اپنے پیار کا اقرار نہیں کرپاتیں اور وقت کی قربان گاہ کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ اس نظریہ سے دیکھیں تو نادرہ اپنی محبت کو پانے کی خاطر جنگ لڑ سکتی تھی۔ مگر نادرہ ایسا کرتی تو پھر یہ ناول آگے ہی نہیں بڑھتا۔ ناول میں نادرہ ایک بیمار بچی کی پیدائش کے بعد مرجاتی ہے۔ یہاں ناول نگار کا کمال فن ضرور جھلکتا ہے جس نے اس ناول کو تہذیبوں کے تصادم کی بحث میں الجھا کر اسے عام ہندستانی ناولوں سے بلند کردیا ہے مگر اس کے باوجود میں یہی کہوں گی کہ نادرہ کی بیٹی نگار کے ساتھ جو المیہ سامنے آیا ہے، اس میں نگار کا کیا قصور۔ معذور ذہن کی بچی جو نہ ہنس سکتی ہے نہ انسانی لمس واحساس سے واقف ہے نہ وہ رشتے کے معنی جانتی ہے نہ سیکس کے— لیکن یہی باتیں نورمحمد تو سمجھتا ہے۔ نورمحمد تو نادرہ کی امانت سنبھال رہاتھا۔ پھر یہ کیسی محبت تھی جہاں وہ رشتے اور جنس کا فرق بھول گیا۔ یہ عبارت دیکھیے۔
’’نور محمد نے نگاہیں پھیرلی تھیں— ’رات کے تین بجے کا وقت ہوگا— وہ دوا کھا کر سو گئی تھی— مجھے بھی نیند آگئی تھی— اچانک تین بجے کے آس پاس میری نیندکھل گئی… مجھے جسم میں چیونٹیاں سی رینگتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں… اچانک مجھے احساس ہوا… میں نیچے کچھ بھی نہیں پہنے ہوں… کسی نے پائجامے کا ازاربند کھول لیا ہے…میرا پائجامہ اتر چکا ہے… اور اچانک میں نے دیکھا…
’کیا—؟‘ میں زور سے چلایا… کیا دیکھا نور محمد…
’یہ نگار تھی… جو میرے پاؤں کے پاس جھکی ہوئی تھی… اور میرے ننگے جسم کو غور سے دیکھ رہی تھی… اور فقط ان تین دنوں میں…‘
وہ مجھ سے کہیں زیادہ زور سے چیخا— ’اس کے اندر سیکس کے مطالبے جاگ گئے ہیں۔‘‘
—لے سانس بھی آہستہ سے
نورمحمد اس مقام سے گزرا جہاں آتش نمرود سے زیادہ خطرہ موجود تھا۔ ایک ایسا خطرہ جہاں تہذیب کا جنازہ سامنے تھا۔ ہوسکتا ہے، ذوقی صاحب نے تہذیبوں کے زوال کے قصے کو آگے بڑھانے کے لیے یہ پورا قصہ گڑھا ہو مگر اس کے باوجود اماں سے نادرہ اور نادرہ سے نگار تک کمزور عورتوں کی قطار ہے جہاں ہمارے سماج اور معاشرے کی گھٹن آلودہ زندگی جیتی ہوئی عورتوں کا چہرہ صاف طور پر نظر آجاتا ہے۔
ناول میں نادرہ سے زیادہ خوبصورت کردار رقیہ کا ہے جو عبدالرحمن کاردار کی بیوی ہے۔ پہلے ناول سے یہ اقتباس دیکھیے۔
’’تم پریشان رہتے ہو تو سب سے زیادہ میں ٹوٹتی ہوں— اسی لیے آج تقدیر کی بات کی— کیونکہ جانتی ہوں— تم تقدیر کو مانتے ہو— ایک بات اور جانتی ہوں، جو تم نے کبھی بتائی نہیں…‘
’کیا…؟‘ میں چونک گیا تھا…
’نہیں بتاتی…‘ وہ معنی خیز انداز میں مسکرائی۔
’تم لوگ ایسا کیوں سمجھتے ہو کہ ساری بیویاں ایک جیسی ہوتی ہیں— کمزور، بزدل اور ہر بات کو غلط سمجھنے والی…‘
مسکراتے ہوئے اس کے ہونٹ اچانک میرے ہونٹ پر آگئے… وہ مجھ پر جھکی ہوئی والہانہ انداز سے میری طرف دیکھ رہی تھی…
’اور شاید اسی لیے تقدیر کو میں بھی مانتی ہوں— اور تم بھی مانتے ہو…‘
وہ کھلکھلا کر ہنسی…
میں ایک دم سے چونک گیا تھا…
’یہاں تقدیر کہاں سے آگئی…؟‘
’آگئی نا…، وہ ہنس رہی تھی… ’اسی راستے سے، جہاں سے تم آئے… تقدیر نہ ہوتی تو تم اس راستے سے میرے پاس کہاں آنے والے تھے…‘
اس کی متوالی ہنسی میں، ہزاروں گھنگھرؤں کی کھن کھن شامل تھی… میرے اندر کا چور الجھن میں تھا—
رقیہ کی باتیں سمجھ میں نہیںآ رہی تھیں— میں بغور اس کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا—
’آج تم پہیلیاں بجھا رہی ہو… جان…‘
’جان…‘ اس کی آنکھیں بند تھیں… ’جان… ذرا پھر سے اس لفظ کو دہرانا… جان… تم نے ان سناٹوں میں اپنے اس لفظ کے خمار سے آگ لگا دی ہے— جان… کہاں چھپا کر رکھا تھا یہ لفظ…‘
وہ میرے جسم پر بچھ گئی تھی… اس کے لب کانپ رہے تھے…
’دیکھو… سب کچھ جانتے ہوئے بھی، کبھی بھی تم سے کچھ جاننے کی کوشش نہیں کی— جانتے ہو کیوں؟ اس لیے کہ پورے پورے میرے تھے تم… اور پھر تم نے اپنا عکس بھی مجھے تحفہ میں دے دیا… شان… جب تم نہیں ہوتے تو میں گھنٹوں شان سے کھیلتی ہوں… تمہیں محسوس کرتی ہوں…‘‘
—لے سانس بھی آہستہ سے
عبدالرحمن کاردار کی شادی رقیہ سے ہوجاتی ہے۔ یہ ارینج میرج تھی۔ لیکن رقیہ ایک اچھی بیوی کی طرح شوہر کی محبت اور بچوں کی تربیت کی ذمہ داری اٹھالیتی ہے۔ عبدالرحمن کاردار بیوی سے محبت کا بھرم بھی رکھتے ہیں اور ادھر نادرہ سے اپنی محبت کا اقرار بھی کرلیتے ہیں۔ مگر رقیہ یہ سب جانتے ہوئے بھی خاموش رہتی ہے۔ اورخوبصورتی سے اس بات کا احساس بھی کرا دیتی ہے کہ وہ یہ سب جانتی ہے۔ رقیہ کا کردار ایک عام عورت کی عکاسی کرتا ہے جو اپنی ذہانت اور ہوش مندی سے اپنے مردوں کو سنبھالنے میں کامیاب رہتی ہیں۔ نہ وہ شک کے مرض میںمبتلا ہوتی ہیں اور نہ ہی وہ شکوے شکایتوں پر یقین رکھتی ہیں۔ یہ رقیہ کے کردار کا مضبوط پہلو ضرور ہے مگر اس مضبوط پہلو سے کوئی ایسی بات نکل کر سامنے نہیں آتی جو عورت کے کردار کا گراف بڑا کرتی ہو۔ یہاں احتجاج اور غصے کی کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جو ان کرداروں کو عام کرداروں سے مختلف کا درجہ دیتی ہوں۔ یہ وہ عورتیں ہیں جو آسان دائرے میں خوش رہنا جانتی ہیں۔ کھانا پینا، بچوں کی دیکھ بھال کرنا، شوہر سے میٹھی میٹھی باتیں کرنا اور رات میں چادر تان کر سوجانا۔
اسی طرح سارہ اور جینی کا کردار نوجوان لڑکیوں کا کردار ہے جن کی معصوم آنکھوں نے ابھی ابھی زندگی کو سمجھنا شروع کیا ہے۔ اس لیے ان کرداروں سے کسی مضبوط لڑکی کی امید کرنا ہی میرے نزدیک فضول ہے۔ ہاں، ان کرداروں سے الگ دیکھیے تو سارے مرد کردار اپنی اپنی جگہ نہ صرف مضبوط ہیں بلکہ اپنی اپنی دنیائوں کے حاکم بھی ہیں۔ یہاں وہ اپنی اپنی سلطنتوں کے بادشاہ ہیں۔ جھوٹ سچ، جائز نا جائز، غلط صحیح کے فیصلوں کے ذمہ دار خود ہیں—یہاں اگر ڈھائی انچ کا جھوپڑہ ہے تو اس چھوپڑے کو مردوں نے ہی اپنے دم پر آباد کیا ہے— عبدالرحمن کاردر کے والد شان سے زندگی جیتے ہیں— جاگیردار جو ٹھہرے۔ اور جاگیریں ختم ہونے کے بعد بھلا یہ کیوں سوچتے کہ آگے بھی کچھ کرنا ہے۔ عبرت کے لیے بادشاہوں اور نوابوں کی کہانیوں کا منظرنامہ دیکھ لیجئے۔ خود عبدالرحمن کاردار نے کیا کیا؟ بلند شہر اور بلند شہر کے بعد رہنے کے لیے ایک پہاڑی مقام کی تلاش۔ یعنی۔ یہاں بھی زندگی عبدالرحمن کاردار کی شرطوں کے ساتھ تھی۔ نورمحمد کی زندگی میں جو بھی، جیسے بھی واقعات آئے مگر ہر جگہ آپ ایک مرد کی شہہ اور مات کے قصے کو ہی دیکھیں گے۔ ناول کے آخر میں مریٹھا باندھے کھیتی کرتا ہوا نورمحمد بھی اپنی سلطنت کا بادشاہ ہی نظرآتا ہے۔ سفیان ماموں اپنی خوشی کے لیے شادی کرتے ہیں اور جو زندگی گزارتے ہیں وہ ایک حاکم مرد کے قصے کو ہی آگے بڑھاتی ہے— مجموعی طور پر دیکھیں تو ذوقی صاحب کے ناولوں میں مرد ہی حاکم مرد ہی بادشاہ، عورت بے چاری تو فقط رعایا جس کے لیے قرآن شریف میں مردوں کو پہلے ہی حکم سنایا جاچکا ہے۔ یہ عورتیں تمہارے لیے کھیتیاں ہیں۔
میں اپنے سوال پر اب بھی قائم ہوں۔ ناول لکھتے ہوئے بھی یہ مرد، مرد ہی رہتا ہے۔ مرد ناول نگاروں کے یہاں عورت جب کردار کے طور پر سامنے آتی ہے تو یہاں بھی عام سلوک مردوں جیسا ہی ہوتا ہے۔ مرد عورت کے نفسیاتی تجربے میں اسی لیے ناکام ہے کہ وہ عورت کے اندر اندر جھانکنے کی ہمت ابھی بھی نہیں رکھتا۔ اس لیے مرد ناول نگاروں کے یہاں زیادہ تر ایک عام کمزور عورت کا چہرہ ہی سامنے آتا ہے۔ ذوقی میں ہمت ہوتی تو وہ نورمحمد جیسے مشکل کردار کا عکس کسی نسوانی کردار میں رکھ کر دیکھتے— ذوقی صاحب بھی دراصل لکھتے ہوئے انہی مردوں میں شامل ہوجاتے ہیں جو عورت کے غصہ یا احتجاج سے گھبراتے ہیں اور اسے وہ آنچ، وہ رتبہ نہیں دے پاتے، آج جس کی عورتوں کو زیادہ ضرورت ہے— کیا حق ہے کہ مرد ہی حکومت کرے؟ عبدالرحمن کاردار کا وجود کمزور ہوتااور رقیہ گھر اور باہر کی ذمہ داریوں کو سنبھالتی نظر آتی تو یہ ایک پہلو ہوتا ۔ نادرہ نورمحمد کی شادی سے پہلے ہی بغاوت کرجاتی تو یہاں بھی ایک باغی عورت کا چہرہ سامنے آسکتا تھا۔ مگر سچائی یہی ہے، مرد ناول نگار عام زندگی سے الگ، اپنی تخلیقات کے آئینہ میں بھی عورتوں کا مضبوط ہونا تصور نہیں کرسکتے۔