(Last Updated On: )
لایا تھا مانگ کے میں زیست کے دو چار برس
ختم ہوتا نظر آتا نہیں اب کارِ ہوس
تشنگی اور بڑھا اور بڑھا اور بڑھا
اے گھٹا، اور برس اور برس اور برس
صبح ہونے بھی نہ پائے مگر آنکھیں مند جائیں
ظلمتِ شام جدائی، مجھے اتنا بھی نہ ڈس
نو کے آگے کوئی گنتی نہیں، مانا، لیکن
ایک کے ساتھ صفر رکھ دیں تو ہو جاتے ہیں دس
آئی آندھی تو اڑا لے گئی پھولوں کی مہک
اور ایسی گری بجلی کہ بچا خانہ نہ خس
دم نکل جائے، نہ قسمت اگر اس کو کہیئے
خواب دیکھا تھا نشیمن کا مگر پایا قفس
چاند کی مٹی اٹھا لایا ہے دیوانے کو
اے ضیا گردشِ ایام پہ قابو ہے نہ بس
٭٭٭