لندن کے گنجان آباد علاقے میں واقع اس پاکستانی ریستوران کو دیکھتے ہی مجھے لکشمی چوک کا وہ ہوٹل اور اس کا بوڑھا مالک یاد آ گیا جس کے تکے کھلانے کے لئے عاطف بٹ مجھے بڑے اصرار سے لے گیا تھا۔
عاطف بٹ میرا دوست تھا۔ سال بھر پہلے انٹرنیٹ پر چیٹنگ کرتے ہوئے اتفاقاً اس سے ہیلو ہائے ہوئی تھی جو رفتہ رفتہ گہری دوستی میں ڈھل گئی۔ گذشتہ ماہ میں چھوٹی بہن فاطمہ کی شادی میں شرکت کے لئے وطن لوٹا تو اس سے ملاقات کرنے خصوصی طور پر لاہور گیا۔ وہ بڑے تپاک سے ملا۔ سارا دن اپنی گاڑی میں اِدھر اُدھر گھماتا رہا۔ شام ہوئی تو تکے کھلانے لکشمی چوک لے گیا۔
لاہور کے اس مشہور چوک میں جہاں فلم کمپنیوں کے دفاتر اور سینما گھر برساتی کھمبیوں کی طرح اُگے ہوئے ہیں، چھوٹے بڑیبے شمار ہوٹل ہیں جہاں چکن کڑاہی، مٹن کڑاہی، سیخ کباب، تکے، گردے کپورے، نہاری، حلیم اور دیگر انواع و اقسام کے کھانے دستیاب ہیں۔ یہ ہوٹل کسی پہلوان کی توند کی مانند اپنی مقر رہ حدود سے تجاوز کر کے سڑک تک پھیلے ہوئے ہیں۔ لوگ گاڑیوں کے زہریلے دھوئیں اور گرد و غبار سے بے نیاز، سڑک کنارے بچھی کرسیوں پر بیٹھ کر شکم سیر ہوتے ہیں اور خدا جا نے بیمار کیوں نہیں ہوتے …
ہم جب وہاں پہنچے تو اندھیرا خاصا پھیل چکا تھا مگر برقی قمقموں کی روشنی نے اندھیرے کی بساط یوں لپیٹ ڈالی تھی جیسے ہمارے ملک میں جمہوریت کا بستر گول کیا جاتا ہے۔ عاطف بٹ نے ایک سینما کے پہلو میں گاڑی روکی اور قریبی ہوٹل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا:
’’لو چن جی۔ یہ ہے وہ ہوٹل جس کے تکے پورے لہور میں مشہور ہیں۔ میں شرط لگاتا ہوں کہ ایسے لذیذ تکے تم نے اس سے پہلے کبھی نہیں کھائے ہوں گے۔‘‘
’’یار یہاں تو بڑا رش ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں بیٹھنے کی جگہ ملے گی۔‘‘
’’او چن جی! فکر کیوں کرتے ہو۔ مالک اپنا واقف کار ہے۔ تم بیٹھو میں تِنی مِنٹی میز خالی کرواتا ہوں۔‘‘
وہ گاڑی سے اُتر کر ہوٹل میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد سڑک کنارے ایک میز ہمارے لئے خالی ہو چکا تھا۔ اس نے ایک ساٹھ پینسٹھ سالہ آدمی سے میرا تعارف کروایا جو حلیے اور بات چیت سے ہوٹل کا مالک لگ رہا تھا۔
’’حاجی صاحب! یہ میرا دوست یعقوب ہے۔ مجھ سے ملنے لندن سے خاص طور پر آیا ہے۔‘‘
پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولا:
’’یہ حاجی فاروق بٹ ہیں، اس ہوٹل کے مالک اور لہور کے سب سے بڑے کاریگر۔ ان کے مقابلے کے تکے پورے لہور بلکہ پاکستان میں بھی کوئی نہیں بنا سکتا۔‘‘
’’او رین دیو جی۔۔۔‘‘
اس کے ہونٹوں پر عاجزانہ مسکراہٹ ابھری۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوا:
’’باؤ جی بیٹھو، میں آپ کے لئے شپیشل تکے بنواتا ہوں۔ آخر آپ میرے تنویر کے شہر سے آئے ہیں۔‘‘
وہ اندر گیا تو میں نے عاطف سے پوچھا:
’’یہ کیا کہہ رہا تھا؟‘‘
عاطف کے ہونٹوں پرافسردہ سی مسکراہٹ ابھری۔ کہنے لگا:
’’ بیچارے کا اکلوتا بیٹا تنویر لندن میں رہتا ہے۔ وہاں اس نے اسی قسم کا ہوٹل بنایا ہوا ہے۔ وہ باپ سے ناراض ہو کر سات آٹھ سال پہلے لندن چلا گیا تھا۔ آج تک واپس نہیں آیا۔‘‘
’’ناراضی کی کیا وجہ تھی۔۔۔؟‘‘
میں نے سلاد کی پلیٹ سے کھیرے کا قتلہ اُٹھا تے ہوئے پوچھا۔
’’وہ ایک میم سے شادی پر بضد تھا، مگر یہ راضی نہیں تھا۔ میم یہاں برطانوی قونصلیٹ میں کام کرتی تھی۔ چنانچہ اس نے باپ سے بالا بالا شادی کی اور میم کے ساتھ لندن چلا گیا۔‘‘
’’آئی سی۔۔۔‘‘
’’اب بیچارا اکلوتے بیٹے کے غم میں گھل رہا ہے۔ دو بیٹیاں ہیں۔ وہ بیاہی ہوئی ہیں۔ بیوی فوت ہو چکی ہے۔ اوپر چوبارے میں اکیلا رہتا ہے۔‘‘
عاطف نے دوسری منزل کی طرف اشارہ کیا۔
ہم یہی باتیں کر رہے تھے کہ ویٹر تکے لے آیا۔ میں نے چکھے تو عاطف بٹ کے دعوے کی صداقت کا قائل ہونا پڑا۔
’’یار! اس کے تکے تو واقعی لاجواب ہیں!‘‘
’’چن جی! اس بندے کے ہاتھ میں جادو ہے۔ ایویں سارا لہور پاگل نہیں ہو
گیا۔‘‘ اس نے سر دھنتے ہوئے کہا۔
’’ہور باؤ جی! کوئی کمی بیشی تو نہیں؟‘‘
تھوڑی دیر بعد اس نے خود آ کر پوچھا۔ پھر مجھ سے کہا۔
’’باؤ جی! جانے سے پہلے ذرا مجھ سے مل کر جائیے گا۔‘‘
’’ضرور۔۔۔‘‘ میں نے عاطف کی طرف دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
عاطف نے ویٹر سے بل طلب کیا تو معلوم ہوا کہ حاجی صاحب نے منع کیا ہے۔ ہمیں اٹھتے دیکھ کر وہ ہماری طرف آیا تو عاطف نے کہا۔
’’حاجی صاحب یہ زیادتی ہے۔۔۔‘‘
’’زیادتی کیسی۔ آپ کے دوست پہلی دفعہ آئے ہیں۔ یہ ہمارے مہمان ہیں۔‘‘ وہ میری طرف دیکھ کر مسکرایا۔ ’’آپ نے نام کیا بتایا تھا۔ بیٹا جی۔؟‘‘
’’یعقوب۔۔۔‘‘
’’بیٹھو۔۔۔‘‘
اس نے ہمیں دوبارہ بیٹھنے کی دعوت دی۔ قدرے توقف کے بعد مجھ سے کہا:
’’باؤجی! آپ میرے بیٹے جیسے ہو۔ میرا تنویر آپ سے دو چار سال ہی بڑا ہو گا۔ وہ ایک میم سے شادی کرنا چاہتا تھا، جس پر میں راضی نہیں تھا۔ آپ خود لندن میں رہتے ہو۔ آپ کو خوب علم ہو گا کہ انگریز عورتیں اپنے بندے کے ساتھ کتنی کُو وفادار ہوتی ہیں۔ میں نے اسے منع کیا۔ تھوڑا غصہ بھی کر لیا۔ ایک آدھ چپیڑ بھی بندہ اولاد کو لگا ہی دیتا ہے۔ اس بات سے ناراض ہو گیا۔ باہر و بار میم سے شادی کی اور لندن چلا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن۔۔۔ او خدا دا بندہ واپس نئیں جے آیا۔‘‘
اتنا کہہ کر اس کی سانس پھول گئی۔ اس نے چند لمبے اورگہرے سانس لئے اورسلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا:
’’بیٹا جی! آپ لندن میں رہتے ہو۔ میری درخواست ہے کہ آپ اس سے جا کر ملیں اور اسے سمجھائیں کہ وہ ناراضی ختم کرے اور لہور واپس آ جائے۔ میں بوڑھا آدمی ہوں۔ بیوی پہلے فوت ہو چکی ہے۔ اکیلا اور بیمار ہوں۔ میرا جگر خراب ہو گیا ہے۔ میو ہسپتال کے بڑے ڈاکٹر نے آپریشن کرانے کو کہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ آپریشن جلدی نہ ہوا تو میری جان بھی جا سکتی ہے۔ بیٹا! اسے بولنا زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ بوڑھے باپ کو اور نہ ستائے۔ واپس آ جائے۔‘‘
وہ روہانسا ہو گیا۔
’’اسے کہنا میں نے اسے معاف کر دیا ہے۔ مجھے اس کی گوری بیوی بھی قبول ہے۔ اگر وہ اس کے ساتھ سات آٹھ سال ٹپا گئی ہے تو میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں کہ میمیں اپنے خاوندوں کی وفادار نہیں ہوتیں۔۔۔‘‘
اپنے آنسو پونچھتے ہوئے اس نے دوبارہ سانسیں استوار کیں اور جیب سے ایک کاغذ نکال کر مجھے دیتے ہوئے بولا:
’’میں نے اس رقعے میں اس کے لئے سب کچھ لکھ دیا ہے۔ آپ بس اسے یہ رقعہ دے دینا۔‘‘
وہ ایک تہہ کیا ہوا لکیر دار کاغذ تھا جسے ٹیپ لگا کر عجلت میں بند کیا گیا تھا۔ اس پر مکتوب الیہ کا پتا ندارد تھا۔
میں نے کہا:
’’بزرگو! آپ نے رقعے پر کوئی ایڈریس وغیرہ تو لکھا نہیں۔‘‘
’’بیٹا جی تنویر کا پتا تو مجھے بھی معلوم نہیں۔ بس یہ علم ہے کہ اس نے وہاں لندن میں، جہاں پاکستانی اور انڈین رہتے ہیں، ایک ہوٹل بنایا ہوا ہے۔ کاریگر کا بیٹا کاریگر ہی ہوتا ہے نا جی۔‘‘
وہ مسکرایا۔
’’وہ بھی ادھر تکے کباب ہی بناتا ہے۔ سُنا ہے اس کے تکوں کی پورے لندن میں دھوم ہے۔ انگریز بھی آ کر کھاتے ہیں!‘‘
اس کے لہجے میں فخر جھلکنے لگا۔
’’ہوٹل کا نام بھی نہیں معلوم آپ کو؟‘‘
’’نہیں بیٹا جی۔‘‘
’’اس طرح تو ڈھونڈنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘
میں نے عاطف کی طرف دیکھا۔ اس نے میرا کندھا دبایا۔
’’تم کوشش کر دیکھنا۔ آگے اللہ مالک ہے۔‘‘
’’ہاں جی اللہ مسب الاسباب ہے!‘‘
حاجی صاحب نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر بڑے سوز سے کہا۔
میں نے رقعہ اپنے بٹوے میں ڈال لیا اور ہم دونوں اجازت طلب کر کے وہاں سے اٹھ گئے۔
جب میں لندن واپس گیا تو کام کے بکھیڑوں میں مجھے یہ بات بھول ہی گئی۔ چند ہفتے بعد ایک ویک اینڈ پر میں کسی کام سے ساؤتھ لندن گیا تو بازار میں گھومتے ہوئے ایک پاکستانی ریستوران کے بورڈ پر میری نگاہ پڑی۔ یہ درمیانے درجے کا ایک صاف ستھرا ریستوران تھاجس کے نیون سائن پر جلی حروف میں ’’بٹ جی تکہ ہاؤس‘‘ لکھا ہوا تھا۔ بورڈ پڑھتے ہی میرے ذہن میں جھماکا ہوا اور حاجی فاروق بٹ کا سراپا میری نظروں کے سامنے آ گیا۔ وہ مجھ سے کہہ رہا تھا۔
’’باؤ جی میرا کام یاد ہے ناں۔‘‘
میں نے ایک لمحے کا توقف کیا اور پھر شیشے کا دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہو گیا۔ سہ پہر تین بجے کا وقت تھا، لیکن اِکا دُکا لوگ اب بھی لنچ کے لئے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے اچٹتی ہوئی نگاہ گاہکوں پر ڈالی اور استقبالیہ کاؤنٹر کی طرف بڑھ گیا۔ فرنچ کٹ داڑھی اور سنہری فریم کے چشمے والا نوجوان کلرک فون پر مصروف تھا۔ فارغ ہو کر میری طرف متوجہ ہوا:
’’مے آئی ہیلپ یو؟‘‘
’’دیکھیے یہاں کوئی تنویر بٹ صاحب ہیں۔۔۔ لاہور کے رہنے والے؟‘‘
’’جی ہاں۔ وہ اس ریستوران کے مالک ہیں۔‘‘
اس نے متانت سے جواب دیا۔
میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ میں نے جلدی سے کہا:
’’پلیز ان سے میری ملاقات کروا دیں۔ میں پاکستان سے آیا ہوں۔ میرے پاس ان کے لئے ایک میسج ہے‘‘
’’ آپ کا نام؟‘‘
’’یعقوب۔ میں وکٹوریہ انٹرپرائزز میں کلرک ہوں۔ تنویر صاحب مجھے نہیں جانتے۔ آپ انہیں صرف اتنا بتا دیں کہ میں لاہور سے آیا ہوں اور ان کے والد صاحب کی طرف سے ایک پیغام لایا ہوں۔‘‘
اس نے انٹر کام پر دو تین بٹن دبائے اور کسی شخص سے دھیمے لہجے میں بات کرنے لگا۔ ہینڈ سیٹ نیچے رکھ کر اس نے بائیں جانب سیڑھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
’’اوپر تشریف لے جائیں۔۔۔ بالکل سامنے ہی دفتر کا دروازہ ہے۔‘‘
اس کا شکریہ ادا کر کے میں نے زینہ طے کیا اور دفتر کے دروازے پر ہلکی سی دستک دی۔ داخلے کی اجازت ملی تو میں اندر چلا گیا۔ سامنے بڑی سی خوبصورت میز کے پیچھے گردشی کرسی پر ایک وجیہہ اور خوش لباس مرد بیٹھا تھا۔ اس کی عمر چونتیس پینتیس سال ہو گی۔ اس کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں سونے کی انگوٹھی تھی جس میں کوئی قیمتی پتھر جڑا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ اپنی کرسی سے اٹھا اور مصافحہ کر کے صوفے پر بیٹھنے کی دعوت دی۔
’’آپ میرے ابا جی کا کوئی پیغام لائے ہیں؟‘‘
اس نے بیٹھتے ہی سوال کیا۔
’’جی۔۔۔ میرے پاس ان کا دیا ہوا یہ رقعہ ہے۔‘‘
میں نے بٹوے کے اندر سے مڑا تڑا کاغذ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔ ’’میں اپنے دوست کے ساتھ ان کی دوکان پر تکے کھانے گیا تھا۔ تب انہوں نے مجھے یہ رقعہ دیا تھا۔‘‘
اس نے آہستگی سے اسے کھولا اور ٹیبل لیمپ کی روشنی میں پڑھنے لگا۔ اس لمحے میں نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ ہو بہو اپنے باپ کی تصویر تھا۔ جتنی دیر وہ رقعہ پڑھتا رہا اس کے چہرے پر نوع بہ نوع تاثرات ابھرتے رہے۔ کبھی اس کے ماتھے پر شکنیں ابھر آتیں، کبھی ہونٹ بھینچ لیتا اور کبھی زیر لب مسکرا نے لگتا۔ پھر یکدم اس کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی۔ اس نے رقعہ تہہ کیا اور مجھ سے بولا:
’’ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے ابا جی کا پیغام مجھ تک پہنچا دیا۔ آپ ان سے مل کر آئے ہیں، کیسے ہیں وہ۔۔۔؟‘‘
’’ٹھیک نہیں ہیں۔۔۔‘‘
میں نے صاف گوئی سے کام لیا۔
’’وہ بہت بیمار ہیں۔۔۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر ان کے بیمار جگر کا آپریشن بروقت نہ ہوا تو ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ پتہ نہیں آپ مجھے یہ حق دیں گے یا نہیں۔۔۔ لیکن میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ اپنے ابا جی سے ناراضی ختم کر دیں۔۔۔ اور پاکستان جا کر ان سے مل لیں۔‘‘
’’ہوں۔۔۔‘‘ اس نے ایک گہری سانس لی۔ ’’لگتا ہے ابا جی نے آپ کو ہر بات بتائی ہے۔‘‘
میں نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’انہوں نے یہ تو نہیں بتایا ہو گا کہ انہوں نے مجھے خود دھکے دے کر گھر سے نکالا تھا اور کہا تھا کہ ساری عمر مجھے اپنی شکل نہ دکھانا؟ ابا جی اپنی غلطی کبھی تسلیم نہیں کریں گے، مجھے ہی برا بنائیں گے۔‘‘
’’چلیں کوئی بات نہیں۔ وہ بزرگ ہیں، آپ کا حج کعبہ ہیں۔ اگر انہوں نے کوئی زیادتی کی بھی ہے تو اب خاصے نادم ہیں۔‘‘
میں نے صلح جوئی کی کوشش کی۔
’’اب آپ بھی غصہ جانے دیں۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ میں اس پر غور کروں گا۔‘‘
تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بالآخر وہ نرم لہجے میں بولا۔
’’آئی ایم ساری! مجھے باتوں میں محو ہو کر یہ خیال ہی نہیں رہا کہ آپ کو چائے پانی ہی پوچھ لوں۔ آپ نے کھانا کھایا ہے؟‘‘
’’ مگر مجھے کوئی خاص بھوک محسوس نہیں ہو رہی۔ آپ تکلف نہ کریں۔‘‘
’’تکلف تو جناب آپ برت رہے ہیں۔‘‘
وہ مسکرایا۔
’’اگرچہ لنچ کا وقت گزر چکا ہے لیکن آدھے گھنٹے میں تکے تیار ہو سکتے ہیں۔ اسی بہانے میں بھی لنچ کر لوں گا۔ آج کام میں کھُبے رہنے کی وجہ سے لنچ کرنے کا وقت ہی نہیں ملا۔‘‘
’’جیسے آپ کی مرضی۔‘‘
’’میرا خیال ہے پہلے ایک ایک سافٹ ڈرنک ہو جائے۔‘‘
اس نے انٹرکام پر ایک نمبر ڈائل کرتے ہوئے کہا۔
جب ہم لنچ کے لئے بیٹھے تو وہ مجھے بتانے لگا کہ دیار غیر میں اپنا مقام بنانے کے لئے اسے کتنی جد و جہد کرنا پڑی۔ وہ مختلف ہوٹلوں میں بیرا گیری کرتا رہا تھا اور کئی جگہوں پر بطور باورچی کام کیا تھا۔ جس ریستوران کا اب وہ مالک تھا، یہیں اس نے کبھی پلیٹیں بھی دھوئی تھیں۔ وہ صحیح معنوں میں ایک سیلف میڈ آدمی تھا۔ کھانے کے دوران اس نے اچانک مجھ سے سوال کیا:
’’آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کو میرے ریستوران کے تکے کیسے لگے ہیں؟‘‘
’’بہت اچھے ہیں۔ بالکل آپ کے ابا جی کے تکوں جیسے!‘‘
’’ نہیں!‘‘
اس نے نفی میں سر ہلایا۔
’’میرا خیال ہے میں دوبارہ پیدا ہو کر بھی تکے بناؤں تو اپنے ابا جی جیسے نہیں بنا سکتا!‘‘
یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں یکایک آنسو امنڈ آئے، جنہیں اس نے رو مال نکال کر پونچھ ڈالا۔ یہ اس کے دل میں چھپی ہوئی اپنے والد کی محبت تھی جو آنسوؤں کی صورت بہہ نکلی تھی۔
میں نے کہا:
’’مجھے یقین ہے کہ آپ کو اپنے ابا جی سے بہت محبت ہے اور آپ دل سے ان کا احترام کرتے ہیں۔‘‘
’’یہ سچ ہے۔۔۔‘‘
اس نے اعتراف کیا۔
’’تو پھر۔۔۔ تو پھر ان سے دُور رہنے کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی۔ آپ ان سے کیوں نہیں ملتے۔۔۔؟‘‘
’’میں آج تم سے سچ بولوں گا۔‘‘
اس نے سر جھکا کر لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔
’’میرا دل بہت دفعہ ابا جی کو ملنے کے لئے تڑپا۔ مگر میری مجبوری یہ ہے کہ میں ان کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہا۔ در اصل جس کی خاطر میں نے ان کی ناراضی مول لی تھی، وہ دو سال پہلے مجھ سے بے وفائی کر کے اپنے ایک ہم وطن کے ساتھ مانچسٹر چلی گئی۔۔۔‘‘
’’اوہ۔۔۔!‘‘
میرے منہ سے بے اختیار نکلا اور اس کے بعد ہمارے درمیان خاموشی کا ایک طویل وقفہ حائل ہو گیا۔ وہ اداس تھا اور سر جھکائے کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ رہا میں تو میرے ذہن میں بار بار ایک ہی سوال اٹھ رہا تھا:
’’ دنیا میں ہر والد کی بات اکثر درست کیوں ثابت ہوتی ہے؟‘‘
کافی دیر بعد اس نے مہر سکوت توڑی۔
’’میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں بہت جلد اپنے ابا جی سے ملنے لاہور جاؤں گا۔‘‘
اس نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے میرا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مجھے بہت خوشی ہو گی۔‘‘
’’بلکہ یہ میرا خیال ہے، میں اپنی بیٹی کو لے کر مستقل پاکستان ہی چلا جاؤں گا۔ اس کا یہاں کے مادر پدر آزاد ماحول میں پلنا بڑھنا قطعاً ٹھیک نہیں۔۔۔‘‘
میں نے اس پر کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
اس نے ویٹر کو برتن سمیٹنے کا اشارہ کیا اور ہم دونوں میز سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
جب میں اس سے رخصت لے کر واپس آیا تو خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ مجھے خوشی تھی کہ میری تھوڑی سی کوشش باپ بیٹے کی ناراضی دُور کرنے کا سبب بن گئی ہے۔
رات کو میں یاہو میسنجر پر لاگ ان ہوا تو میرا دوست عاطف بٹ بھی آن لائن تھا۔ میں نے اسے فوراً پیغام دیا:
’’عاطف! تم میری طرف سے حاجی فاروق بٹ صاحب کو خوشخبری سناؤ کہ میں نے ان کے بیٹے تنویر کو ڈھونڈ لیا ہے۔ اس نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ جلد ہی ان سے ملنے پاکستان جائے گا۔‘‘
’’چن جی! اب انہیں اس کی ضرورت نہیں رہی۔۔‘‘
اس نے کچھ توقف کے بعد جواب دیا۔
’’بے چارے حاجی صاحب فوت ہو گئے ہیں۔ آج عصر کے بعد ان کا جنازہ تھا۔‘‘
٭٭٭
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...