عفاف تم یونی سے کب آئی؟
ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آئی ہوں آپی۔
اچھا۔
اور آپ سنائیں۔ کہاں رہتی ہیں سارا دن؟ گھر میں نظر ہی نہیں آتیں۔
وہ اس کے ساتھ بیٹھتے ہوۓ بولی۔
کیا مطلب تمہارا لڑکی۔
میں تو گھر ہی ہوتی ہوں۔ تم ہی گھر نہیں پائی جاتی۔
کبھی بازار ، کبھی خالہ جان کی طرف تو کبھی کہیں۔
عنیزہ جوابًا بولی۔
آپی۔۔
عفاف چلائی۔
کیا ہے؟
میں یہی ہوں امریکا نہیں بیٹھی ہوئی جو ایسے چلا رہی ہو۔
آپی آپ بہت تیز ہیں یار۔
اپنے سارے کام میرے سے کرواتی ہیں اور پھر کہتی ہیں کے میں گھر میں نہیں پائی جاتی۔
وہ عنیزہ کو گھورتے ہوۓ بولی۔
شرم کرو کچھ۔
تھوڑے دن ہی تو اب میں اس گھر میں ہوں۔
میری تھوڑی بہت عزت کر لیا کرو۔
پھر پتہ نہیں کب آؤں۔
عنیزہ نے چہرے پر معصومیت سجائے کہا۔
افففف اللّه آپی۔
میں نے کب آپ کی عزت نہیں کی۔
اور مجھے ایسا لگ رہا ہے ضرور آپ کو کوئی کام ہے جو مجھے اموشنل بلیک میل کرنے کی کوشش کرنے لگی ہیں۔
اگر کوئی کام ہے تو بتا دیں۔
میں ویسے ہی کر دیتی ہوں۔ اموشنل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
عفاف تم تو بہت تیز ہو یار۔ میں تو تمھے بہت معصوم سمجھتی تھی۔
عنیزہ مصنوعی حیرت سے بولی۔
آپی۔۔۔
بتائیں کیا کام ہے؟
عفاف نے اس کے سامنے کھڑا ہوتے ہوۓ پوچھا۔
وہ بی جان پاس۔۔
پلیز اس بار نہیں۔
عنیزہ ابھی بول رہی تھی جب وہ بولی۔
دادو نے لاسٹ ٹائم مجھے لاسٹ وارننگ دی تھی کے میں آپ کی حمایت میں ان کے پاس نہیں جاؤں گی۔ اور لاسٹ ٹائم تو انھوں نے مجھے بھی ڈانٹ دیا تھا۔
پلیز عفاف۔۔
تم تو میری پیاری سی بہن ہو نا۔
تم میرے کام نہیں آؤ گی تو اور کون آئے گا۔ اور ویسے بھی تم تو ان کی فیورٹ ہو۔ وہ تمھیں دے دیں گی۔
جاؤ نا پلیز۔
آپی آپ دیکھ کر کیوں نہیں چلتیں۔
ہر دو دن بعد بی جان سے ٹکرائی ہوتی ہیں۔
اور کیا رکھا ہے ان نوولز میں۔
دفع کریں۔
عفاف تم مجھے جو مرضی کہ لو۔
خبر دار جو میرے نوولز کو کچھ کہا۔
عنیزہ تیکھے انداز میں بولی۔
چلیں پھر ٹھیک ہے میں بھی بی جان پاس نہیں جا رہی۔
وہ سیدھی ہو کر صوفے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
پلیز چلی جاؤ نا۔
بی جان نے آج تو ساجدہ سے ساری بکس اٹھوا کے اپنے روم میں رکھوا لیں ہیں۔
اور مجھے ڈانٹ کے میرا فون بھی لے گئیں ہیں۔
عنیزہ نے آنکھیں مٹکا مٹکا کے معصومیت سے بتایا۔
آپی آپ اتنی معصوم ہیں نہیں جتنی اب بن رہی ہیں۔
اور یہ میں لاسٹ ٹائم جاؤں گی ان کے پاس۔
اس کے بعد میں کبھی نہیں جاؤں گی۔
وہ بےزاریت سے بولی۔
مطلب تم جا رہی ہو۔
ہائے اللّه۔
کتنی اچھی ہو تم۔
اللّه تمہارے جیسی بہن ہر کسی کو دیں۔
عنیزہ اس کے گلے لگتے بولی۔
اچھا اچھا بس۔
آپ پرومیس کریں آئندہ خیال رکھیں گی۔
وہ اس سے الگ ہوتے ہوۓ بولی۔
ہاں پکا وعدہ۔
اوکے میں جاتی ہوں۔
عفاف کہتی ان کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
شکر ہے چلے گئی۔
اللّه کریں اب وہ دے دیں۔
اتنے اچھے موڑ پر کہانی تھی اور۔۔
اس نے دل میں سوچا۔
وہ صبح اپنے دیہان چل پھر کے ناول پڑھ رہی تھی جب اس کی ٹکڑ بی جان سے ہو گئی۔
پھر کیا تھا اس کے فون سمیت سارے نوولز بی جان کے کمرے میں تھے۔
انھوں نے اسے تو خوب صلاواتوں سے نوازا تھا۔
اور آگ لگانے کا کہ دیا تھا۔
اس کے نوولز میں تو اس کی جان تھی۔ صبح سے وہ عفاف کے آنے کا ہی ویٹ کر رہی تھی اور اب ہمیشہ کی طرح اس نے عفاف کو اپنی حمایتی بنا کر بیجھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
السلام علیکم!!
وہ لاؤنج میں داخل ہوتا بلند آواز میں بولا۔
وعلیکم السلام۔
سب یک زبان بولے۔
کیا حال ہے آپ کا حازم؟
ٹھیک بابا جان۔
آپ سنائیں۔
میں بھی ٹھیک۔
بیٹا پانی منگواوں؟
نہیں ماما۔
آپ ایسا کریں چائے میرے روم میں بجھوا دیں۔ میں بہت تھکا ہوا ہوں کچھ دیر ریسٹ کرنا چاہتا ہوں۔
اچھا۔۔
میں ابھی بجھواتی ہوں۔
شام کو ملتے ہیں ڈنر پر۔
وہ کہتا اٹھ گیا۔
نوال جاؤ بھائی کے لیے چائے بناؤ۔
عفت بیگم نے پاس بیٹھی نوال سے کہا۔
اوکے ماما۔
بابا آپ لوگوں کے لیے بھی بناؤں؟
نہیں بچے ہم نے ابھی تھوڑی دیر پہلے پی ہے۔
اچھا جی۔
وہ اٹھ کے کچن کی طرف چلے گئی۔
عفت آج حیدر کا بھی فون آیا تھا۔ وہ شادی کا کہ رہا تھا۔ پہلے بھی اس نے کافی دفعہ کہا پر میں نے روک دیا پر اس دفعہ وہ کہ رہے ہیں کے ہم دو مہینوں تک پاکستان آ رہے ہیں پھر شادی کر کے ہی جانا ہے۔
اچھا۔
میں کروں گی حازم سے بات۔
عفت بیگم کچھ سوچتے ہوۓ بولیں۔
وہ تو جاب تک رکنے کا کہ رہا تھا اب تو ماشاءاللّه سے سیٹ ہے بلکل۔
جی۔
وہ بس اتنا ہی بولیں۔
کس کی شادی کی بات ہو رہی ہے؟
ابراھیم لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے حیرت سے بولا۔
ابراھیم کوئی سلام دعا؟
عفت بیگم نے اسے آنکھیں دکھائیں۔
اوہ سوری ماما۔
وہ زبان دانتوں تلے دباتا بولا۔
السلام علیکم بابا جان اور ماما۔
وعلیکم السلام۔
فواد صاحب نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا۔
اب بتا دیں کس کی شادی؟
تمہاری۔۔
پیچھے سے نوال کی آواز آئی۔
ہیں سچ۔۔
اتنی خوشی کی بات اور مجھے اب بتا رہے ہو۔
وہ چہچہاتا ہوا خوشی سے بولا۔
ہائے۔۔
تمہارے چھوٹے چھوٹے خواب۔
جو کبھی پورے نہیں ہونے۔
نوال نے اس کا مذاق اڑایا۔
تم سے بڑا ہوں میں۔
تھوڑی سی شرم کرو۔
وہ چہرے پر مصنوعی خوفگی سجائے بولا۔
میں بھی تو چھوٹی ہوں میری بھی عزت کرو۔
وہ بھی جوابًا بولی۔
ماما اب اسے بھی تو کچھ کہیں۔
وہ عفت بیگم کو دیکھ کے بولا۔
پھر کیا ہوا۔
چھوٹی بہن ہے تم سے مذاق نہیں کرے گی تو کس سے کرے گی۔
واہ ماما۔
میری تو کوئی زندگی ہی نہیں ہے۔
بھائی بڑے ہیں اور یہ چھوٹی۔
تو میں کیا ہوں۔
وہ حیرت ذدہ بولا۔
فواد صاحب اور عفت بیگم دونوں ہی مسکرا دیے۔
تم ہمارے نہیں ہو۔
ہم نے تمھے اٹھایا ہوا ہے۔
نوال ہنستے ہوۓ بولی۔
چڑیل کہنا مجھے کے میں کہیں لے کے جاؤں۔
پھر بتاؤں گا تمھے۔
وہ منہ بسورتا وہاں سے اٹھ گیا۔
تم ہی لے کے جاؤ گے ڈرائیور ہو میرے۔
وہ بلند آواز بولی۔
نوال نا تنگ کیا کرو اسے۔
عفت بیگم اس کے جانے کے بعد بولیں۔
کرنے دیا کرو تنگ۔
بچے ہیں۔
فواد صاحب نے کہا۔
آفندی ہاؤس میں پانچ لوگ مقیم تھے۔
اس گھر کے سربراہ فواد صاحب اور ان کی بیوی عفت بیگم۔ ان کے تین بچے تھے۔ بڑا حازم اس سے چھوٹا ابراھیم اور اس چھوٹی نوال۔
حازم پولیس میں تھا۔ ابراھیم اور نوال دونوں پڑھ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
ہاں یار کیوں نہیں۔
آئیں گے ان شاء اللّه۔
اچھا ٹھیک ہے پھر بات ہو گی۔
دوسری طرف سے آواز آئی۔
اوکے۔
اللّه حافظ۔
کہ کے اس نے فون بند کر دیا۔
پتہ نہیں کیا بنے گا اس کا جس سے اس کی شادی ہو گی۔ میں تو اس کے لیے صبر کی دعا کرتا ہوں۔ اس کی ہمت کو داد۔
وہ دل میں سوچتا مسکرا دیا۔
رات کا وقت تھا وہ چائے لیے بالکونی میں کھڑا تھا۔ جب اسے فائق کی کال آئی۔ بند کرنے کے بعد وہ سوچ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...