(رائے برائے سرورق)
محمد حنیف کاتب میرے قیمتی دوستوں میں سے ہیں جن سے میری ملاقات کویت میں ہوئی اور ہماری شناسائی ان کی شعری حسیت کے تناظر میں مضبوط تر ہوتی گئی۔ وہ ایک ایسے شاعر ہیں جس کے کلام میں ہم عصر سوچ بھی ہے، علامتی اظہار بھی، ملت کا درد بھی ہے اور علوم دینی و دنیاوی کا عرفان بھی۔ اس لیے ان کے شعر سراسر ذاتی تجربات کے پس منظر میں گہری معنی خیز بلکہ عمیق فلسفیانہ فکر کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری بیش تر واحد متکلم لب و لہجہ میں اظہار کا وسیلہ بن کر ابھرتی ہے۔ ان کی زبان شستہ اور مستعمل لفظیات نئے پن کے سبب متوجہ کر لیتے ہیں۔
محمد حنیف کاتب زبان برتنے میں بے حد احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ بحور اور اوزان کے تجربوں کا شوق بھی ہے لیکن ہمیشہ مناسبت، معیار اور مقیاس کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ زبان معرب بھی ہے اور مفرس بھی اور پھر اس میں ہندی کا رس بھی ہے۔ تراکیب، تشبیہات، علامات اور مصطلحات کا استعمال بے حد توازن سے کرتے ہوئے جدت کا زاویہ بھی خوب ملحوظ رکھا ہے۔ اس لیے ان کا کلام جدید تر شاعری کا آئینہ دار بن گیا ہے اور اس کے لیے شاعری کا کامیابی باعث تحسین ہے۔
الفاظ کے اندر پوشیدہ جو صوتی، فکری اور معنوی قوتیں ہوتی ہیں ان کا ادراک ایک خلاق ادیب و شاعر کو اس کی عبقریت اور مہارت کے سبب بدر جہا بڑھ کر ہوتا ہے ایک عام قلم کار کے مقابل! اور شاعر تو افکار اور الفاظ میں اپنی فن کاری سے جان ڈال دیتا ہے۔ محمد حنیف کاتب کی شاعری کو پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس چونکا دینے کی حد تک ہوتا ہے کہ ان کی غزلیات میں تازہ کاری بھی ہے، ندرت بھی ہے اور کچھ کہنے کی کسک بھی اور یہی ان کی شاعری کی قبولیت کا جواز ہے۔ لب و لہجہ منفرد، ڈکشن جداگانہ اور تجربات اظہار ذات سے معنون!!
حمد و نعت جذب کے عالم میں وہ ڈوب کر کہتے ہیں اور ان کی عقیدت اور حسن بندگی اس ضمن میں کچھ اس قدر خالص اور پر درد ہوتی ہے کہ قاری اس کی حدت محسوس کیے بغیر نہیں رہتا۔ وہ زندگی کے حقیقی تجربوں کو اپنی فکر کی فضا میں تحلیل کر کے بالکل نئے معانی اور نتائج کے ساتھ پیش کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اپنے دل کے آپریشن کے تجربے کو انھوں نے حیات و موت کے درمیان کشاکش اور اندھیرے اجالے کی بدلتی کیفیات سے متعلق کرتے ہوئے بڑی کامیابی سے اپنی فکر کی ترسیل کی ہے۔
محمد حنیف کاتب اردو شاعری کی بساط پر ایک نیا اور معتبر نام ہیں اور میں ان کے اس مجموعہ کلام کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اہلِ نظر ضرور اس کی پذیرائی کریں گے۔
٭٭٭