عدیل اپنے کمرے میں کتابیں کھولے بیٹھا تھا جب رخسار بیگم پریشان سی اس کے پاس چلی آئیں۔
” عادی !! ”
” کیا ہوا اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہیں؟ ” وہ کتابوں سے سر اُٹھا کر ان کے بجھے ہوئے چہرے کو دیکھتا ہوا بولا۔
” تم میری نور سے بات کروا دو۔”
” کیوں؟ آج صبح ہی تو بات ہوئی تھی آپ کی ان سے۔” عدیل نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔
“ہاں !! لیکن میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے کچھ غلط ہو گیا ہو۔” وہ پریشانی سے بولیں۔
عدیل خاموش انہیں دیکھتا رہا پھر کتابیں بند کرتا ان کے پاس چلا آیا اور شانوں سے تھام کر بولا۔
” آپ یونہی پریشان ہو رہی ہیں۔ پہلے بھی آپ کو ایسا محسوس ہو رہا تھا مگر آپی بالکل ٹھیک تھیں اور دیکھے گا وہ اب بھی ٹھیک ہی ہونگی۔”
” اللّٰه کرے ایسا ہی ہو !! ” رخسار بیگم نے دل میں سوچا۔
” تم۔۔۔ تم فون ملاؤ مجھے بات کرنی ہے۔”
” ماما پلیز !! بار بار فون نہ کریں انہیں اور بھی کام ہونگے۔ اب ہر وقت تو ہم سے بات نہیں کر سکتیں نا۔” عدیل تنک کر بولا۔ رخسار بیگم خاموش ہوگئیں۔
” اچھا !! رات تک انتظار کر لیں پھر بات کر لیے گا۔” رخسار بیگم کے افسرده چہرے کو دیکھ کر وہ فوراً بولا۔
” ٹھیک ہے۔”
وہ بجھے دل کے ساتھ اثبات میں سر ہلاتی وہاں سے چلی گئیں۔ عدیل بھی گہرا سانس لیتا واپس اپنی پڑھائی کی طرف متوجہ ہو گیا۔
۔*****************۔
سیما خالہ اس وقت نماز ادا کرنے گئی ہوئی تھیں۔ رحیم اکیلے ہی آپریشن تھیٹر کے سامنے پریشان سا کھڑا تھا۔ وہ کردم کو فون پر آئینور کو گولی لگنے کے بارے میں بتا چکا تھا اور فون پر بھی کردم کے لہجے کی سختی اس سے چھپی نہیں تھی۔ وہ انتہا پر جا کر اپنا بدلہ سامنے والے سے لیتا تھا۔ اس لیے اب وہ کردم کے متوقع رویے کو سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ تبھی منہ پر رومال باندھے، اپنی گہری کالی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھتے۔ وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا آپریشن تھیٹر کی جانب آتا دکھائی دیا۔
” کردم دادا !! ”
رحیم اسے دیکھتے ہی اس کی طرف بڑھا۔
کردم نے رحیم کے پاس آتے ہی اُسے کالر سے دبوچ کر دیوار سے لگایا دیا۔ آس پاس کھڑے لوگ تماشائی بنے ان دونوں کو دیکھنے لگے۔ رحیم نے اپنا سر جھکا دیا۔
” یہ سب کیسے ہوا۔۔۔؟ آخر تمہیں ساتھ بھیجنے کا فائدہ کیا ہوا، جب تمہاری موجودگی میں بھی اُسے گولی لگ گئی۔؟ ” کردم لوگوں کی موجودگی کا خیال رکھتے ہوئے دبا دبا سا چلایا۔
” دادا وہ۔۔۔” اور پھر رحیم نے سر جھکائے سارا واقع کردم کے گوش گزار کر دیا۔
کردم اس کا کالر چھوڑتا پیچھے ہوا۔ غصّے کے باعث اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ اس نے اپنی پیشانی مسلتے ہوئے خود کو کنٹرول کرنا چاہا۔ تبھی سیما خالہ بھی نماز ادا کرنے کے بعد ان کے پاس چلی آئیں اور کردم کو غصّے میں دیکھ کر وہ رحیم سے مخاطب ہوئیں۔
” ڈاکٹر نے کچھ بتایا نور کا؟ ”
” ابھی نہیں۔” رحیم نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔
سیما خالہ خاموشی سے بینچ پر بیٹھ گئیں۔ کردم ادھر سے اُدھر چکر کاٹتا اپنی سوچوں میں غرق تھا۔ کہ اچانک اسے وہ ویڈیو یاد آئی۔ جس میں جمشید کردم کے خلاف بول رہا تھا۔
” تو پاشا ٹھیک بول رہا تھا۔ یہ سب جمشید کا کیا دھرا ہے۔ لڑکیوں کی سمگلنگ کے کیس میں اُس کی مدد نہیں کی تو یہ اوچھے ہتھکنڈے اختیار کر لیے اُس نے۔ پر وہ جانتا نہیں مجھے، وہاں لے جا کر ماروں گا کہ سب کے لیے عبرت کا نشان بن کر رہ جائے گا۔”
کردم نے سوچتے ہوئے آپریشن تھیٹر کے دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے ڈاکٹر بابر آ رہا تھا۔ اس نے فوراً رحیم کو اشارہ کیا۔ وہ اثبات میں سر ہلاتا ڈاکٹر کی طرف بڑھ گیا۔ سیما خالہ بھی ڈاکٹر کو دیکھ کر اُٹھ کھڑی ہوئیں۔
” کیسی طبیعت ہے اب؟ ” رحیم چہرے پر سختی لیے گویا۔ ڈاکٹر فوراً دو قدم پیچھے ہٹا۔
” گولی اُن کے دائیں بازو پر لگی تھی۔ ہم نے گولی نکال دی ہے۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے پیشنٹ اور بےبی دونوں ٹھیک ہیں۔ تھوڑی دیر میں اُنہیں روم میں شفٹ کر دیا جائے گا۔”
ڈاکٹر کی بات پر تینوں نفوس ساکت سے کھڑے اُسے دیکھنے لگے۔ ڈاکٹر گھبراتا ہوا فوراً وہاں سے چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی سب سے پہلے سیما خالہ ہوش میں آئیں۔
” میرے مالک تیرا شکر !! ” انہوں نے شکر ادا کرتے کردم کی طرف دیکھا جو ابھی بھی ساکت کھڑا تھا۔
” مبارک ہو بیٹا !! تم باپ بننے والے ہو۔” وہ خوشی سے چور لہجے میں بولیں۔
کردم کا ایکدم سکتہ ٹوٹا۔ اس نے رحیم کی طرف دیکھا جو حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ فوراً خود پر قابو پاتے وہ گویا ہوا۔
” میں اڈے پر جا رہا ہوں رات ہوتے ہی کسی بھی صورت اُسے گھر لے آنا اور ہاں !! کسی کو بھی اس بارے ميں خبر نہیں ہونی چاہیئے۔ سمجھے؟ ”
” جی دادا !! ” رحیم نے فوراً سنبھل کر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
کردم ایک نظر آپریشن تھیٹر کے دروازے پر ڈالتا فوراً وہاں سے چلا گیا۔
۔*****************۔
دوپہر شام اور شام رات میں ڈھلی۔ تبھی ایک بلیک جیپ کردم کے دروازے کے سامنے آ کر رکی۔ چوکیدار نے دیکھتے ہی فوراً دروازہ کھولا تھا۔ گاڑی آگے بڑھتی سیدھا پورچ میں جا رکی۔
گاڑی سے باہر نکلتے ہی رحیم نے آئینور کی طرف کا دروازہ کھولا۔ وہ ہسپتال میں سارا ریکارڈ ختم کروا کر انہیں گھر لے آیا تھا۔ سیما خالہ نے ہسپتال میں ہی اُسے بچے کی آمد کی خبر سنا دی تھی اور تب سے آئینور کو چُپ سی لگ گئی تھی۔ ابھی بھی وہ بےتاثر چہرے کے ساتھ گاڑی سے باہر نکلی۔
” آرام سے لڑکی !! ”
سیما خالہ اس کی طرف آتے ہوئے بولیں اور آئینور کو لیے اندر کی جانب بڑھ گئیں۔
۔******************۔
” تم مجھے فون دو میں خود ہی اُسے فون کر لوں گی۔” رخسار بیگم غصّے سے بھری عدیل کے کمرے میں آئیں اور اس پر برس پڑیں۔
” کیا ہو گیا ہے ماما؟ آپ بلا وجہ ہی پریشان ہو رہی ہیں۔” عدیل بیزار سا بولا۔ وہ تنگ آ گیا تھا، ان کی ایک ہی رٹ سے۔
” ٹھیک ہے !! میری ایک دفعہ نور سے بات کروا دو۔ میرا وہم دور ہوجائے گا۔” وہ اُس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولیں۔ عدیل نے نہ چاہتے ہوئے بھی موبائل ان کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
وہ خود بھی آئینور کو کئی بار کال ملا چکا تھا۔ بیل جا رہی تھی مگر وہ فون نہیں اُٹھا رہی تھی، جس کی وجہ سے عدیل خود بھی پریشان ہو گیا تھا۔ اس لیے وہ نہیں چاہتا تھا، رخسار بیگم کو یہ بات معلوم ہو ورنہ وہ اور بھی پریشان ہو جاتیں۔ لیکن اب ان کی ضد کے آگے وہ ہار گیا اور نا چاہتے ہوئے بھی فون انہیں دے دیا۔
رخسار بیگم اسے گھورتی موبائل لے کر کمرے سے باہر نکل گئیں وہ بھی ناچار اُن کے پیچھے چل دیا۔
۔******************۔
” ہاں پاشا بھائی !! تمہارا منصوبہ ناکام رہا۔ وہ بچ گئی۔” وہ دروازے کے باہر کھڑا اس محل نما گھر کو دیکھتے ہوئے بول رہا تھا۔ جو اس وقت اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ بس ایک کمرے کی بتی روشن تھی۔
“ناممکن !! ایسا نہیں ہو سکتا۔” پاشا کی غصّے سے بھری آواز ابھری۔
” مگر ایسا ہو گیا ہے۔ وہ زندہ ہے اور اس وقت کردم دادا کے گھر موجود ہے۔” وہ طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے بولا۔
تبھی دوسری طرف سے کچھ ٹوٹنے کی آواز آئی تھی۔
” میں کردم دادا کو اتنی آسانی سے جیتنے نہیں دوں گا۔ آج بچ گئی، لیکن ایک دن چڑیا جال میں پھنسے ہی جائے گی۔ تم بس مجھے خبر کرتے رہنا۔” پاشا خود پر قابو پاتا بولا۔
“وہ تو ٹھیک ہے لیکن۔۔۔ مجھے میرا پیسہ کب ملے گا؟ اب تک تو پہنچ جانا چاہیئے تھا۔” کمرے کی کھڑکی پر نظریں جمائے وہ کمینگی سے بولا۔
“کل تک تمہیں تمہارا پیسہ مل جائے گا۔ بس میرا کام ٹھیک سے ہوتے رہنا چاہیئے ورنہ تمہارے لیے اچھا نہیں ہوگا۔”
” اُس کی فکر تم نہ کرو پاشا بھائی !! پل پل کی خبر ملتی رہے گی بس تمہارا ہاتھ میرے سر پر ہونا چاہیے۔”
” ہمممم ٹھیک ہے !! اب فون رکھتا ہوں۔” پاشا نے کہہ کر کال کاٹ دی۔ وہ شخص موبائل جیب میں رکھتا ہوا مسکراتے ہوئے گھر کے اندر چلا گیا، جہاں اس کے دوسرے ساتھی اپنے اپنے کاموں میں لگے تھے۔
۔*******************۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...