سمندر کا پھوڑا۔۔۔ آج بقعہ نور بنا ہوا تھا !-لیکن اب وہ سمندر کا پھوڑا نہیں کہلاتا تھا۔۔ اس کے بہت سے نام تھے – نوجوانوں میں وہ لڑکیوں کے جزیرے کے نام سے مشہور تھا- ویسے سرکاری کاغذات پر وہ سمندر کا پھوڑا ہی لکھا جاتا ہے- انگریزوں نے اسے یہی نام دیا تھا اور وہ بندرگاہ سے چار میل کے فاسلے پر واقع تھا-8177ع سے پہلے اس کا نام سمندر کا پھوڑا بھی نہیں تھا-اس وقت شاید اس کا کوئی نام ہی نہیں تھا-۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ ویران جزیرے کے نام سے اسے یاد کیا جاتا رہاہو-1877ع میں انگریزوں نے اس پر بحری فوج کی ایک چھوٹی سی چوکی قائم کی-اور وہ جزیرہ آہستہ آہستہ آباد ہوتا گیا! – پھر ٹھیک دس سال بعد 1887ع میں وہ یک بیک تہہ نشین ہو گیا- بہت تھوڑے سے آدمی اپنی جانیں بچا سکے -۔۔۔۔ لیکن ان میں ان کے ارادے کو دخل نہیں تھا! سینکڑوں لاشیں بڑی بڑی گہروں کے ساتھ شہری ساحل سے آ لگیں تھیں ۔ ان لاشوں میں کچھ بیہوش آدمی بھی تھے جب کی جانیں بر وقت طبی امداد سے بچ گئیں تھیں — اس جزیرے کا ڈوبنا انیسویں صدی کی سب سے بڑی ٹریجڈی تھی !-اس کا ماتم عرصے تک ہوتا رہا ! پھر آہستہ آہستہ لوگ بھول ہی گئے کے وہاں بھی کوئی جزیرہ ہوتا تھا ۔۔۔۔!
1905ع میں جزیرہ پھر سمندر کی سطح پر ابھر آیا !-۔۔۔ لیکن چونکہ اس سے بڑی تلخ یادیں وابستہ تھیں -اس لئے اس کی طرف دھیان تک نہ دیا گیا-اور وہ اسی طرح پڑا رہا! اور سرکاری طور پر “ سمندر کے پھوڑے “ کے نام سے یاد کیا جاتا رہا !۔۔۔۔
دس پندرہ سال بعد اس کی ہیئت بدل گئی پہلے وہ ریت کا ایک بہت بڑا تودہ معلوم ہوتا تھا- مگر اب اس پر ہریالی نظر آنے لگی تھی -۔۔ خاصی زرخیز زمیں معلوم ہوتی تھی لیکن وہ ویران ہی رہا!۔۔۔ اکثر ماہی گیر وہاں شب بسری کر لیے کرتے تھے ! ۔۔۔
پھر آہستہ آہستہ وہ ایک تفریح گاہ میں تبدیل ہوتا گیا- لوگ وہاں پکنک کے لئے جانے لگے ۔۔۔ پھر ایک بار دوسری جنگ عظیم کے دوراں وہان ریڈ کراس چیریٹی فنڈ کے سلسلے میں تقریبات منعقد کی گئیں !۔۔۔۔ اسی دن سے سمندر کا پھوڑا ایک بہترین تفریح گاہ قرار دے دیا گیا۔۔۔ شہر کی سالانہ نمائش کے لئے منتخب کر لیا گیا! لہذا آج بھی وہ جزیرہ روشنیوں کا جزیرہ معلوم ہو رہا تھا-۔۔۔۔ شہر سے یہاں تک بے شمار لانچیں اور بادبانی کشتیاں چل رہی تھیں ۔۔۔ پہلے پہل تو نمائش کے منتظمیں کے درمیان کچھ اختلاف رائے ہو گیا تھا-۔۔۔۔۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہاں اس ویرانے میں تجارتی نقطہ نظر سے نقصان ہی ہوگا-۔۔۔ لیکن ان کا یہ خیال غلط نکلا کیونکہ پہلے ہی دن وہاں اتنا اژدھام ہو گیا کہ منتظمین کے ہاتھ پیر پھول گئے-!۔۔۔
صد ہا سال کے ویران جزیرے پر رنگ و نور کا طوفان سا آ گیا تھا!-شاید ہی کوئی درخت ایسا رہ گیا ہو جس پر رنگین برقی قمقمے نظر نہ آتے ہوں !-مائیکروفون فضا میں موسیقی منتشر کر رہا تھا اور زمین پر حسن کی مورتیں متحرک نظر آ رہی تھیں -اور یہ اس وقت سچ مچ لڑکیوں کا جزیرہ معلوم ہو رہا تھا –
تماشائیوں کا انہماک اتنا بڑھا ہوا تھا کہ جیسے انہیں یہ رات یہیں گزارنی ہو!- کوئی بھی جلدی میں نہیں معلوم ہوتا تھا—
آج نمائش کا پہلا ہی دن تھا مگر عمران وہاں تفریح کی غرض سے نہیں گیا تھا-ان دنوں اس کے پاس ایک کیس تھا – حالانکہ کیس کی نوعیت ایسی نہیں تھی جس کا تعلق ایکس ٹو یا اس کے محکمے سے ہوتا۔ لیکن عمران اس میں دلچسپی لے رہا تھا!- یہ ایک گمنام لڑکی کے قتل کا کیس تھا-جس کی لاش شہر کی ایک سڑک پر پائی گئی تھی!۔۔۔۔لڑکی گمنام ہی ثابت ہوئی تھی کیونکہ اس کی لاش شناخت نہیں ہو سکی تھی !- مگر کیس پراسرار تھا۔۔۔۔
پراسرار یوں کہ جس شام شہر کے ایک بڑے آدمی کے مینیجر کی لڑکی کے اغوا کی رپورٹ درج کرائی گئی اس رات کو لاش بھی ملی! مغویہ لڑکی کے حلیہ شناخت میں اس کا ایک زخمی پیر بھی شامل تھا جس پر پٹی چڑہی ہوئی تھی!۔۔۔
لاش کے داہنے پیر پر بھی ویسی ہی پٹی پائی گئی ۔۔ سینے پر خنجر کا زخم تھا۔۔۔ چہرے کی شناخت مشکل تھی کیونکہ وہ کار یا ٹرک کے پہیوں کے نیچے آ کر بری طرح کچلا گیا!لیکن اس کے جسم پر وہ ہی لباس تھا جو مغویہ لڑکی کے جسم پر بیان کیا جاتا تھا !۔۔۔
لڑکی کے باپ نے لاش شناخت کر لی ! لیکن ماں نے تسلیم نہیں کیا کہ یہ اس کی لڑکی کی لاش ہے اس نے محکمہ سراغرسانی کے سپرنٹنڈنٹ کو اپنی لڑکی رابعہ کی ایک خاص پہچان بتائی جو اس کے باپ کو بھی معلوم نہیں تھی !۔۔۔۔ پھر کیپٹن فیاض بھی مطمئن ہو گیا کہ یہ رابعہ کی لاش نہیں! ہے اب کیپٹن فیاض نے اس کے باپ کو پکڑا جو اسے مغویہ ہی کی لاش سمجھنے پر مصر تھا۔۔۔۔ بڑی ردو قدح کے بعد باپ رو پڑااس نے بتایا کہ اسے بھی یقین نہیں ہے کہ یہ اس کی لڑکی کی لاش ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ بات وہیں ختم ہو جائے ۔۔ بدنامی کے اس دھبے کو موت ہی مٹا ڈالے!۔۔۔۔
پھر وہ لاش کس کی تھی اور اسے مغویہ لڑکی ثابت کرنے کی کوشش کیوں کی گئی تھی-یہ ایک الجھا ہوا سوال تھا جس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا! کیپٹن فیاض مغویہ کے باپ سے کچھ معلوم نہیں کر سکا-
عمران اس کیس میں دلچسپی لے رہا تھا ! اور یقیناً یہ الجھاوا ہی اس کی دلچسپی کا باعث تھا- ورنہ اگر کوئی سیدھا سادا قتل کیس ہوتا تو وہ اس کی طرف توجہ بھی نہیں دیتا – کیونکہ اس کیس کا اس کے فرائض سے کوئی تعلق نہیں تھا!۔۔۔
وہ یہاں اس لئے آیا تھا کہ کم از کم مغویہ کے باپ ہی پر ایک نظر ڈالے !۔۔۔۔ یہاں اس سے گفتگو کا موقع بھی مل سکتا تھا کیونکہ وہ بھی نمائش کے منتظمین میں شامل تھا!۔۔۔ لیکن یہ بھی ایک اتفاق تھا کہ وہ عمران سے نہیں مل سکا-عمران کو اتنا ہی معلوم ہو سکا کہ وہ کچھ دیر پہلے یہاں موجود تو تھا لیکن کسی ضرورت کے تحت شہر واپس چلا گیا!۔۔۔
عمران منتظمین کے آفس سے نکل کر ایک جگمگاتی روش پر آ گیا-یہاں جگ جگہ خوشنما پودوں کے درمیاں روشیں بنائی گئی تھیں -عمران نے اس طرح اپنی پلکیں جھپکا کر دیدے نچائے جیسے سچ مچ وہ کوئی الو ہو اور اسے کوئی اس روشنی کے طوفان میں زبعدستی چھوڑ گیا ہو! حالانکہ یہاں اس وقت اس قسم کی ایکٹنگ کی ضرورت نہیں تھی – مگر عمران عادتاً سچ مچ احمق ہوتا جا رہا تھا !
عورتوں اور مردوں کے غول کے غول اس کے قریب سے گزر رہے تھے-۔۔۔ اور عمران کے چہرے پر برسنے والی حماقت کچھ اور زیادہ بڑھ گئی تھی ۔۔۔ اور اسے دوسری طرف جانے کے لئے تقریباً تین منٹ تک کھڑا رہنا پڑا-۔۔۔ کیونکہ ابھی تک اس روش سے گزرنے والوً کے درمیاں اتنا فاصلہ نہیں دکھائی دیا تھا جس سے گزر کر وہ دوسری روش تک پہنچ سکتا!
اچانک دو لڑکیاں اس کی طرف مڑیں اور دفتر والی روش پر آ گئیں ۔۔۔۔۔ عمران سمجھا تھا کہ اس کے قریب سے گذر کر شاید آفس میں جائیں گی! لیکن وہ دونوں اس کے سامنے رک گئیں !
“کیوں! یہی حضرت تھے نہ“ ایک نے دوسری سے کہا –
“شاید یہی تھے“ دوسری نے کہا!
“ نہیں ! سو فیصد یہی تھے“-
“ہائیں“ عمران آنکھیں پھاڑ کر بولا “ میں تھا نہیں بلکہ ہوں “-
“ تم نے پچھلے سال مجھے گالی دی تھی“ پہلی لڑکی بولی !
“آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ! وہ میرے بڑے بھائی صاحب رہے ہونگے! میری ہی جیسی صورت شکل والے ہیں ! خیر اب آپ کیا چاہتی ہیں ! بات تو سال بھر پہلے کی ہے “
“ کہیں اطمینان سے بیٹھ کر باتیں ہونگی“ جواب ملا ۔۔ “ کیفے رونیک میں ۔۔۔۔ کیوں ؟“
اس نے دوسری لڑکی کی طرف دیکھا اور سر ہلا کر بولی “ٹھیک ہے!“
“ ٹھیک ہے تو چلئے “- عمران لا پروائی سے بولا-
“نہیں! انہوں نے گالی نہیں دی ہوگی“- دوسری لڑکی نے پہلی سے کہا-
“ یہ تو بڑے اچھے آدمی معلوم ہوتے ہیں“-
“جی ہاں!مجھے گالی آتی ہی نہیں “۔۔۔۔۔۔ صرف ایک جانتا تھا وہ کیا ہے ! حرازمادہ۔۔۔۔ ہمارزادہ۔۔۔ ارر یہ بھی بھول گیا ۔۔۔۔۔ کیا کہتے ہیں اسے ۔۔۔ لاحول والا۔۔۔۔ نہیں یاد آئے گا! حراد مازہ۔۔۔۔“
عمران کے چہرے پر حماقت آمیز سنجیدگی تھی!الجھن کے آثار تھے بالکل ایسے ہی جیسے یادداشت پر زور دیتے وقت پیدا ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔ لڑکیوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا! اور پھر بے ساختہ مسکرا دیں – آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ اشارے ہوئے اور پھر پہلی بولی-
“تو چلئے نہ وہیں گفتگو ہوگی!“
عمران چل پڑا ! اس کی چال بھی بڑی بے ڈھنگی نظر آ رہی تھی- لیکن اب لڑکیاں بھی سنجیدو ہو گئیں تھیں ! ۔۔۔۔۔ وہ کیفے رونیک میں آئے !۔۔۔۔۔ نمائش میں شاید یہی سب سے شاندار کیفے تھا! ۔۔۔۔۔۔ ورنہ وہ لڑکیاں اسی کا نام کیوں لیتیں!
صرف تین یا چار میزیں خالی تھیں !۔۔۔۔۔ لڑکیوں نے ایک منتخب کر لی۔۔۔۔۔ جیسے ہی وہ بیٹھے ایک ویٹر سر پر مسلط ہو گیا!۔۔۔۔
“کیا لاؤں!۔۔۔۔ “ وعٹر نے جھک کر نہایت ادب سے پوچھا!
لڑکیاں عمران کی طرف دیکھنے لگیں اور عمران بوکھلائے ہوئے لہجے میں بولا“ تت۔۔۔۔۔ تین گلاس پھنڈا ٹانی۔۔۔۔۔۔۔!-
“ جی صاحب۔۔۔۔“
“ ٹھنڈا پانی۔۔۔۔۔!“
“ اوہ نو۔۔۔۔۔ نو!“ ایک لڑکی ہنستی ہوئی لپک کر دوہری ہوگئی !“ گرلڈ چکن تین پلیٹ۔۔۔۔۔ تین اسٹک ۔۔۔۔ اور کافی جاؤ۔۔۔۔!“-
اب عمران کے چہرے کی حماقت انگیز سنجیدگی میں بوکھلاہٹ بھی شامل ہو گئی تھی!
“ کیوں ڈیئر ! ۔۔۔تم پریشان کیوں ہو ۔۔۔ “ ایک لڑکی نے عمران کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بڑی محبت سے کہا اور عمران اس طرح اپنا ہاتھ کھینچ کر شرما گیا جیسے کسی کنواری لڑکی سے اس کے ہونے والے شوہر کا نام پوچھ لیا گیا ہو!۔۔۔“
“ تم مجھے بڑے اچھے لگتے ہو !“ دوسری نے جھک کر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر آہستہ سے کہا !
“ میں گھر ۔۔۔۔ جاؤں گا!“ عمران پیچھے ہٹنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا- اور اس کی کرسی الٹ گئی !۔۔۔۔۔ وہ بھی کرسی پر ہی تھا !۔۔ پھر وہ کیوں نہ الٹتا! بہیترے لوگ اچھل کر کھڑے ہو گئے-! کچھ ہنسنے لگے! دونوں لڑکیاں سناٹے میں آ گئیں ! جب عمران پڑا ہی رہا تو وہ بھی اٹھ کر اس کی طرف جھپٹیں ! عمران آنکھیں بند کئے گہری گہری سانسیں لے لے رہا تھا !-
“ انور بھائی ۔۔۔۔۔ انور بھاےئ “ ایک لّکی نے عمران کو جھنجھوڑ کر ہانک لگائی مگر عمران کے پپوٹوں میں بھی حرکت نہ ہوئی !-
“ کیا ہوا۔۔۔۔۔ ! “ “ کسی نے پوچھا“
“ بے ہوش ہو گئے ہیں !“ دوسری لڑکی نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا-
پہلی لڑکی عمران کے کوٹ کے بٹن کھولنے لگی اور عمران نے محسوس کیا کہ اس کا پرس اندرونی جیب سے اوپر کی طرف کھسک رہا ہے – لیکن وہ دم مارے پڑا ہی رہا- پرس اس لڑکی نے اس کی جیب سے کھسکایا تھا جس نے روش پر اس کو چھیڑا تھا!۔۔۔۔۔ عمران نے اسے بھی محسوس کر لیا! کیونکہ وہ ہی اس کے کپڑوں کو چھیڑ رہی تھی مگر اب بھی اس طرح پڑے رہنا دانشمندی سے بعید تھا-
عمران کو ہوش آ گیا! وہ دو تین بار ہولے ہولے کراہا پھر اٹھ بیٹھا! اس کے گرد کافی بھیڑ اکٹھا ہو گئی تھی ! لوگ بیہوشی کی وجہ پوچھنے لگے اور عمران کسی گھبرائے ہوئے بچے کی طرح ہاتھ اٹھا کر بولا “ باہر !“-
لڑکیوں نے اس کے دونوں بازو پکڑتے ہوئے کہا “ چلئے چلئے ! “ عمران لڑکھڑاتا ہوا باہر آیا۔۔۔۔۔ اس کے پیچھے شور ہو رہا تھا ! لوگ ہنس رہے تھے ۔۔ قہقہے پگا رہے تھے!۔۔۔۔ کبھی کبھی کوئی فقرہ بھی کس دیتا! ۔۔۔۔۔ بہرحال لوگوں کا خیال تھا کہ وہ پئے ہوئے ہے !-
“ آ پ کو کیا ہوگیا تھا ! “ ایک لڑکی نے پوچھا-
“ پتہ نہیں ! میں نہیں جانتا! مجھے گھر پہنچا دیجئے “ عمران گھگھیایا!
“ کیوں ! اب گھر بھی پہنچادیں ! واہ یہ ایک ہی رہی “
“ خدا کے لئے ۔۔۔۔۔۔ ورنہ میں لانچ سے سمندر میں گر کر ۔۔۔۔۔۔۔ ارے باپ رے !“
ایسا معلوم ہوا جیسے عمران سچ مچ سمندر میں ڈوب رہا ہو!وہ دونوں بے تحاشہ ہنسنے لگیں ! ان میں سے ایک نے جس نے پرس اڑایا تھا کھسک جانے کا موقع ڈھونڈ رہی تھی!
یہ دورہ جب بھی پڑتا ہے ایک گھنٹے کے بعد پڑتا ہی چلا جاتا ہے ! ۔۔۔۔ خدا کے لئے مجھے گھر پہنچا دیجئے !۔۔۔ جو معاوضہ چاہئے لے لیجیئے “ ہزار ۔۔۔ دو ہزار ۔۔۔ پانچ ہزار!“
“ ہائیں ہائیں ! کیوں الو بناتے ہو!“
“ میں کوئی مفلس آدمی نہیں ہوں ایک بڑی عمارت میں تنہا رہتا ہوں ! لاکھوں کا مالک ہوں !“
“ دوسرے گھر والے۔۔۔۔۔“
“ سب اللّہ کو پیارے۔۔۔۔ ہو گئے ! ایک دن میں بھی مر جاؤں گا!“
“ دوسرے گھر والے۔۔۔۔۔“
“ سب اللّہ کو پیارے۔۔۔۔ ہو گئے ! ایک دن میں بھی مر جاؤں گا!“
“ نہین تم زندہ رہوگے ڈارلنگ ۔۔۔۔“ دوسری اس کا بازو تھپتھپا کر بولی !-
“ہایہں ڈارلنگ۔۔۔۔۔ یہ کیا سن رہا ہوں میں !۔۔۔۔۔ ڈارلنگ ۔۔۔۔“ عمران لفظ ڈارلنگ اس طرح مزے لے لے کر دھراتا رہا جیسے یہ لفظ زندگی مٰن پہلی مرتبہ اس کے لئے استعمال کیا گیا ہو۔۔۔۔۔۔ پھر وہ طویل سانس لے کر گلوگیر آواز میں بولا !“ تم لوگ بڑی اچھی ہو ! مجھے اج تک کسی بھی ڈارلنگ نہیں کہا۔۔۔!۔۔۔۔ بچپن میں میرے ماں باپ بالکل مر گئے تھے!بالکل کیا بس مر گئے تھے!۔۔۔۔۔ پھر آج تک کسی نے بھی مجھ سے پیار محبت سے باتیں نہیں کیں !“
لڑکیوں نے ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا پھر وہ لڑکی بولی جس نے پرس اڑایا تھا-
“ یہ تمہیں گھر پہنچا دے گی ! مجھے ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے “
“ نہیں تم بھی چلو! چلو ورنہ میں یہیں کسی پٹھر سے اپنا سر ٹکرا دوں گا!“
عمران نے کچھ اس طرح غل غپاڑے کے سے انداز ظاہر کئے کہ دونوں لڑکیاں بوکھلا گئیں!
“ اچھا! اچھا ۔۔۔۔ چپ رہو! ہم چلتے ہیں ! تمہارے پاس کار ہے !“ پرس اڑانے والی نے پوچھا!
“ ایک نہیں تیں ہیں !“
“ تم صبح ہمیں کار سے شاداب نگر بھجوا دوگے!“
“بالکل! بالکل ۔۔۔۔ دوناں کو الگ الگ کاروں سے ۔۔۔۔۔ پروا نہ کرو !“ عمران سر ہلا کر بولا! پھر دونوں لڑکیاں عمران کو چھیڑنے لگیں ! اور عمران شرماتا ہوا لجاتا ہوا نمائش کے احاطے سے باہر نکلا!۔۔۔۔۔۔ اب وہ ساحل کی طرف جا رہے تھے جو ایک فرلانگ سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا! یہاں بہت بھیڑ تھی ! خصوصاً اس حصے میں جہاں لانچ رکتے تھے انہیں بدقت تمام ایک لانچ میں جگہ مل سکی !
ساحل سے کافی دور نکل جانے کے بعد عمران بو کھلائے ہوئے انداز میں اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا! پرس اڑانے ولی اس سے کچھ دور کھسک گئی ! پھر اس نے اسے ہنستے دیکھا!
“ کیا بات ہے“ پرس اڑانے والی نے گھبرائے ہوئے لہجے میں اس سے پوچھا- وہ اسے اس طرح ہنستے دیکھ کر کچھ خوفزدہ ہو گئی تھی!
“ جیب صاف ہوگئی!“ عمران نے قہقہہ لگا کر کہا!
“ کیا!“ دوسری لڑکی متحیرانہ لہجے میں بولی “ اوہ آپ اس طرح ہنس رہے ہیں !“
“ ارے کیوں نہ ہنسوں! گرہ کٹ بھی تو سر پیٹ پیٹ کر رویا ہوگا!“
“کیوں ؟“ پرس اڑانے والی نے پوچھا-
“ میرے پرس میں صرف ساڑھے چار آنے تھے!-۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ مرگا بنا دیا اس کو۔۔“
“ ساڑھے چار آنے؟“
“ ہاں میں جب بھی کسی بھیڑ بھاڑ میں جاتا ہوں تو یتنے ہی پیسے ہوتے ہیں ۔۔ بڑے نوٹوں کے لئے ہمیشہ اپنے کوٹوں میں چور جیبیں بنواتا ہوں !۔۔۔۔
عمران نے اپنے پرس کے بارے میں جو بھی کہا تھا بالکل سچ کہا تھا ۔۔ اس کے پرس میں ساڑھے چار آنے ہی تھے وہ زیادہ رقمیں عموماً چور جیبوں میں ہی رکھتا تھا!۔۔
“ تو اب لانچ کا کرایہ ہم سے ادا کرواؤگے“ ایک لڑکی نے کہا-
“ فکر نہ کرو پائی پائی ادا کر دوں گا اس کے علاوہ اور بھی جو خدمت۔۔۔۔ جی ہاں!“
شہر کے ساحل پر پہنچ کر عمران نے ایک ٹیکسی لی اور ٹیکسی ڈرائیور کو دانش منزل کا پتا بتایا۔۔۔ دانش منزل جو سیکرٹ سروس کے پراسرار چیف آفیسر کا ہیڈ کوارٹر تھا–
لڑکیاں دانش منزل کے کمپاؤنڈ میں پہنچ کر بڑبڑائیں “ واقعی اپ سچ کہتے تھے مگر یہاں بہت اندھیرا ہے!“
“ اب میں روشنی کروں گا“
“نوکر کہاں ہیں ؟“
“ میں پڑھے لکھے نوکر چاہتا ہوں مگر سب جاہل ملتے ہیں اس لئے نوکر رکھتا ہی نہیں ہوں !۔۔۔۔ کھانا ہوٹل سے آتاہے۔۔۔۔ اور مروں گا ہسپتال میں ۔۔ کیوں کیا خیال ہے!“
“ شادی نہیں کی!۔۔۔۔“
“ کم از کم ایسی بیوی چاہتا ہوں جو فرنچ اور جرمن بول سکتی ! لاطینی اور عبرانی لکھ سکتی ہو!“
“ ہا۔۔۔۔ یہ ایک بہت بڑی ٹریجڈی ہے“ ۔۔ عمران نے مقفل میں کنجی گھماتے ہوئے کہا- “ میں تمہیں سب کچھ بتاؤں گا شاید تمہاری نظروں میں کوئی ایسی لڑکی ہو!“
دروازہ کھول کر اس نے راہداری میں روشنی کر دی- نیچے پوری راہداری میں قالین بچھے ہوئے تھے- تھوڑی ہی دیر میں وہ عمارت کا ایک ایک کمرہ دیکھتی پھر رہی تھیں-
“ آپ بہت بڑے آدمی ہیں “ پرس اڑانے والی نے ایک جگہ رک کر کہا!
“ہاں مگر لوگ مجھے خبطی کہتے ہیں اور میں
ہوں بھی کچھ کریک!“ عمران نے جواب دیا وہ انہیں نشست کے کمرے میں لایا!-۔۔۔ پھر وہ اطمینان سے بیٹھ گئیں تو عمران نے اس لڑکی کو مخاطب کیا جس نے پرس اڑایا تھا-
“ اب میرا پرس واپس کرو!“ لڑکی کے چہرے پر ہوائیوں اڑنے لگیں –
“ ضروری نہیں کہ خوبصورت عورتیں دل کی بھی اچھی ہوتی ہوں !“ جی ہاں میرا پرس واپس کیجئے -“ بہتری اسی میں ہے !“
دوسری لڑکی جھپٹ کر کھڑی ہوگئی- عمران کو چند لمحے گھورتی رہی پھر بولی-
“آپ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے- سمجھے اگر ہم نے شور مچا دیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔!“
“ کوشش کرو ! اس کمرے کے دروازے مقفل ہیں اور دیواریں ساؤنڈ پروف ۔۔ تیز سے تیز آواز بھی گونج کر رہ جائے گی۔۔۔ شاباش کرو نا کوشش ۔۔۔۔!“
“ آپ کیا چاہتے ہیں !“ پرس اڑانے والی نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا!
“ اپنا پرس “ عمران نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا!-
لڑکی نے اپنے بیگ سے اس کا پرس نکال کر اس کی گود میں پھینک دیا! عمران نے بڑی لا پروائی سے اس میں سے ساڑھے چار آنے نکالے اور اس کے سامنے پھینکتے ہوئے کہا انہیں رکھو!
“ میں جاؤنگی !“ وہ اٹھتی ہوئی بولی!
“ ابھی سے! میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں شاداب نگر پہنچا دیا جائے گا۔۔۔۔ اور ہاں اب مجھے یاد آ گیا ہے کہ میں نے تمہیں شاداب نگر میں کہاں دیکھا تھا!-
“ میں جاؤنگی !“ وہ ایک دروازے کی جانب جھپٹی اور اسے کھول لینے کے لئے اپنا پوارا زور صرف کرنے لگی- لیکن وہ آٹومیٹک دروازے تھے! ۔۔۔ جن کے اندر سیسہ بھرا ہوا تھا!۔۔۔۔ اب وہ ایک مخصوص خود کار قفل کو استعمال کئے بغیر نہیں کھل سکتے تھے!-دوسری لڑکی چپ چاپ بیٹھی رہی ۔۔ ویسے اس کے چہرے پر بھی گھبراہٹ کے اثار تھے- “ بیکار ہے محترمہ!۔۔۔ واپس آئیے ۔۔۔ آخر آپ کس بات سے ڈر رہی ہیں ؟“ ۔ عمران نے کہا-“ میں آپ کو پولیس کے حوالے نہیں کروں گا!“
وہ اس طرح واپس آئی جیسے خواب میں چل رہی ہو!
“بیٹھ جائیے! کیا آپ شاداب نگر کے موڈل سکول کی ایک استانی نہیں ہیں!”
لڑکی دہڑام سے کرسی میں گر گئی۔ اس کے چہرے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں تھیں!
“آپ کون ہیں!” دوسری لڑکی نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا!
میں پاگل ہوں! لیکن مجھے اپنی یاداشت پر بڑا اعتماد ہے میں نے یہ بات غلط تو نہیں کہی۔ کیا یہ محترمہ ٹیچر نہیں ہیں! اور کیا موڈل گرلز سکول شاداب نگر سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔”
دوسری لڑکی نے بھی اس کا کوئی جواب نہیں دیا! ان دونوں کی حالت غیر ہوتی جا رہی تھی پھر پرس اڑانے والی نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔
“تمہارا پیشہ بڑا معزز ہے! تم اپنی طالبات کو بھی اسی قسم کی تعلیم دیتی ہوگی! کیوں؟۔۔۔ تم اور زیادہ محنت کرکے اپنے اخراجات ایمانداری سے نہیں پورے کر سکتیں!”
لڑکی روتی رہی!۔۔۔ عمران نے دوسری لڑکی سے کہا “اب تم بتاؤ! تم کون ہو! تم بھی مجھے کسی شریف ہی گھرانے کی فرد معلوم ہوتی ہو! کیا میں غلط کہہ رہا ہوں!”
“آپ کون ہیں!” لڑکی نے پھر سہمی سی آواز میں سوال کیا!
میں کوئی بھی ہوں! تمہیں اس سے سروکار نہیں ہونا چاہئے! اور میں ابھی تمہیں دھکے دے کر یہاں سے نکال دوں گا! بری عورتوں کا حسن مجھے ذرہ برابر بھی متائثر نہیں کرسکتا!”
“شیلا چپ رہو!”۔۔۔ رونے والی نے کہا۔۔۔
“کیوں چپ رہیں شیلا!” عمران نے کسی جھلائی ہوئی عورت کی طرح کہا! “نہیں شیلا تم بولو! آخر تم مجھے کیا سمجھتی ہو!”
کر دیجئے!” شیلا نے مضمحل آواز میںکہا ” میں اس زندگی پر موت کو ترجیح دیتی ہوں!”
پھر رونے والی کی طرف دیکھ کر بولی “ناہید! میں اب سب کچھ کہہ دوں گی… ویسے بھی ان حالات میں مجھے خود کشی کرنی پڑتی! کبھی نہ کبھی ضمیر ضرور جاگ پڑتا!”
“نہیں! تم ایسا نہیں کر سکتیں!” ناہید یک بیک اچھل کر کھڑی ہو گئی! اب اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے. وہ چند لمحے شیلا کو گھورتی رہی پھر بولی “میں اپنی اندھی اور بوڑھی ماںکے لئے زندہ رہنا چاہتی ہوں! میں اپنے چھوٹے بھائیوں کے لئے جینا چاہتی ہوں! تم اپنی زبان بند رکھو گی شیلا! خدا کے لئے رحم کرو! اتنی ظالم نہ بنو…”
“نہیں میں مجبور ہوں!” شیلا نے ناخوشگوار لہجے میں کہا.
“ہاں ہاں! ٹھیک ہے!” عمران سر ہلا کر بولا “ضمیر بہرحال ضمیر ہے… وہ ماں باپ بھائی بہن کسی کی بھی پروا نہیں کرتا!.. ناہید بیٹھ جاؤ!”
“شیلا رحم کرو! اگر کسی نے ہمیں یہاں آتے ہوئے دیکھ لیا ہو تو…!”
“تو کیا ہوگا…” عمران اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا “کیا تمہیں اپنی بدنامی کا ڈر ہے!”
“مجھ سے سنیئے!” شیلا نے اسے مخاطب کیا!”مگر آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ آپ سرکاری سراغ رساں ہیں!”
“میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے!… میں کب کہتا ہوں کہ میں سرکاری سراغ رساں ہوں! مگر اب… میں تم دونوںکا راز معلوم کروں گا! تم مجھ سے کیا کہنا چاہتی تھیں!”
“تب تو پھر بتانے سے کوئی فائدہ نہیں!”
“شیلا!” ناہید پھر چیخی!
“نہیں میںکچھ نہ بتاؤں گی تمہیں غلط فہمی ہوئی تھی یہ سرکاری جاسوس نہیں ہیں!”
“خدا کے لئے ہمیںجانے دیجئے!” ناہید نے رو دینے والی آواز میں کہا!” ویسے پرس نکالنے کے جرم میں جو سزا دل چاہے دے لیجئے!… رحم کیجئے!”
“تم شاداب نگر کے ایک گرلز سکول کی ٹیچر ہو نا!” عمران نے پوچھا!
جی ہاں! مجھے اس کا اعتراف ہے!”
“وہاں تمہیں کتنی تنخواہ ملتی ہے…!”
“ایک سو بیس روپے… اس میں بسر اوقات نہیں ہوتی!… پانچ چھوٹے بھائی ہیں! ایک اندھی ماںہے! آج کل ٹیوشن بھی نہیں ملتے پھر بتائیے کیا کروں!”
“کیا تم لوگوں کے ساتھ ان کے گھر بھی چلی جاتی ہو!”
لڑکی نے اس کا جواب جلدی نہیں دیا!… وہ چند لمحے خاموش رہی پھر سر جھکا کر مردہ سی آواز میں بولی “جی ہاں”
“میں سمجھا!” عمران سر ہلانے لگا!”مگر اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کے لئے تمہیں کسی سرکاری سراغ رساں سے ڈرنا پڑے!… اس شہر کی بہتیری عورتیں اس قسم کی حرکتیں کھلم کھلا کرتی ہیں!”
“جج. جی ہاں!… مم… مگر میں ڈرتی ہوں!… اگر اسکول کے سیکرٹری کو اس کی اطلاع ہو گئی تو ملازمت جاتی رہے گی… بس اب رحم کیجئے!…”
“تم تو اس طرح سینکڑوں کما لیتی ہوگی! لہٰذا تمہیں ایک سو بیس روپے کی ملازمت کی پروا ہونا بڑی غیر فطری سی بات ہے.”
ناہید پھر کچھ سوچنے لگی… شیلا کے چہرے پر اکتاہٹ کے آثار تھے اور اب وہ زیادہ خوفزدہ نہیں معلوم ہو رہی تھی!… ناہید نے تھوڑی دیر بعد کہا!”کل جب میں بوڑھی ہو جاؤں گی تو میرا کیا بنے گا!… اسی لئے میں ملازمت برقرار رکھنا چاہتی ہوں!”
“اب تم فلسفیوں کی سی باتیں کرنے لگیں… کوئی بہت بڑی حقیقت چھپا رہی ہو! تم مجھے احمق ہی سمجھ کر یہاں آئی تھیں نا!… لیکن اب بتاؤ کیا میں احمق ہوں…”
“نہیں ڈارلنگ!” شیلا اٹھلائی!”تم تو شرلاک ہومز کے بھی نانا ہو! اسے جانے دو! میں یہیں ٹھہروں گی اس کی اندھی ماں رو رو کر مر جائے گی!”
“تم یہاں رہو گی!”
“ہاں! میں یہاں ٹھہروںگی! مجھے بہت سی کہانیاں یاد ہیں! اگر تمہیں ان سے بھی نیند نہ آئی تو میںلوریاں سناؤں گی!”
“اچھا تو تم جا سکتی ہو!” عمران نے ناہید کی طرف دیکھ کر کہا!” لیکن جب کبھی میری ضرورت محسوس ہو! دانش منزل کے پتہ پر ایک خط ڈال دینا!”
عمران نے اٹھ کر دروازہ کھولا!… ناہید اٹھی لیکن شیلا بدستور بیٹھی رہی! دونوں جیسے ہی باہر نکلے دروازہ خود بخود بند ہو گیا!
پھر جب وہ برآمدے سے نیچے اتر رہی تھی! عمران نے ہمدردانہ لہجے میں پوچھا “کیا تمہیں پیسوں کی ضرورت ہے!”
“نہیں!” ناہید نے رکے بغیر جواب دیا! اور تیز قدموں سے پھاٹک کی طرف جانے والی روش طے کرنے لگی!… پھر عمران اس وقت تک وہیں کھڑا رہا جب تک کہ وہ پھاٹک سے نکل نہیں گئی!
پھر وہ اسی کمرے میں واپس آیا! شیلا ایک آرام کرسی پر نیم دراز تھی!
“تین سو روپے!” وہ خواب آلود آواز میں گنگنائی!
“تین ہزار روپے بھی میرے لئے کم ہیں!” عمران نے بھی راگ بنانے کی کوشش کی!
“مجھے کچھ نہیں چاہئے!” شیلا سیدھی بیٹھتی ہوئی سنجیدگی سے بولی “مجھے اپنی حقیقت سے آگاہ کردو! تم سچ مچ بہت چالاک معلوم ہوتے ہو! میں تمہیں بالکل گاؤدی سمجھی تھی!”
“ناہید نے غلط نہیں کہا تھا! میں سرکاری سراغ رساں ہوں! ورنہ میں وہاں خود کو احمق ظاہر کرکے تمہیں یہاں کیوں لاتا!”
“کیا تم ہمارے متعلق پہلے سے بھی کچھ جانتے رہے ہو!”
“ہو سکتا ہے!” عمران اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا!
“کیا جانتے ہو!”
“بہت کچھ جانتا ہوں” لیکن اگر تم خود ہی مجھے بتاؤ تو زیادہ اچھا ہوگا ویسے تم نے یہ تو دیکھ لیا کہ میں کتنا رحم دل آدمی ہوں. میں نے ناہید کو چلی جانے دیا… ورنہ…”
“ہاںمیں نے یہ دیکھا ہے اب بھی محسوس کر رہی ہوں کہ تم کوئی برے آدمی نہیں ہو. میں اطمینان کر لینا چاہتی ہوں کہ تم سرکاری سراغ رساں ہی ہو!”
“میں کہتا ہوں! اگر نہ ہوتا تو اس سے تمہیں کیا نقصان پہنچتا!”
“نقصان… یہ نہ پوچھو!… میں جو کچھ بتاؤںگی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو کر بتاؤں گی. یہ لوگ بڑے چالاک ہیں انہیںایک ایک پل کی خبر ہوتی ہے. کہ کون لڑکی کیا کر رہی ہے! ایک نہیں. ایسی کئی لڑکیاں موت کا شکار ہوتی ہیں اور اب میں مرنا چاہتی ہوں! اس زندگی سے اکتا گئی ہوں! مجھے ہر وقت محسوس ہوتا ہے جیسے گردن تک غلاظت میں غرق ہو گئ ہوں!”
“میں تمہیں اس غلاظت سے نکال سکتا ہوں. یقین کرو! وہ کتنے ہی چالاک آدمی کیوں نہ ہوں مجھ پر قابو نہ پا سکیں گے!”
“آں… ہاں!”مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے یہ میری زندگی کی آخری رات ہو!”
وہ عمران کی طرف نشیلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی! اور اس کے ہونٹوں پر ایک مضمحل مسکراہٹ تھی… عمران کچھ نہ بولا! اسے اب خود انتظار تھا کہ وہ خود ہی اصل موضوع پر آجائے.
“کبھی میں بھی ایک اچھی لڑکی تھی!” شیلا نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا”مگر اب نہیں ہوں! انہوں نے مجھے غلاظت کا ڈھیر بننے پر مجبور کر دیا! میں ایک گرلز سکول میں ٹیچر تھی. تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا. تعلیم ختم کرنے کے بعد ملازمت کی فکر ہوئی! اسی دوران میں میری جان پہچان ایک ایسے گھرانے سے ہوئی جو بہت با رسوخ تھا! اس نے مجھے ایک ماہ کے اندر ہی اندر ایک گرلز سکول میں ملازمت دلا دی! میں اس کی شکر گذار تھی! وہ مجھ سے برابر ملتا رہا!… اس کے احسان کا بار میرے کندھوں پر تھا!
اس نے مجھ سے شادی کا وعدہ کیا تھا! لیکن ایک دن وہ اچانک غائب ہو گیا! آج تک غائب ہے۔ اس دن سے اس کی شکل نہیں دکھائی دی!۔۔۔ بہرحال اس کے غائب ہو جانے کے دو ماہ بعد مجھے بذریعہ ڈاک چند تصویریں موصول ہوئیں! یہ میری اور اس آدمی کی ایسی تصویریں تھیں جو میری زندگی برباد کر سکتی تھیں۔ پہلے صرف تصویریں موصول ہوئیں! پھر ایک خط ملا جو کسی گمنام آدمی کی طرف سے ٹائپ کیا گیا تھا! جس میں کہا گیا تھا کہ صرف ایک ہی تصویر مجھے ملازمت سے برطرف کرا دینے کے لئے کافی ہوگی۔ میں بری طرح سہم گئی۔ میری ملازمت سے گھر والوں کو بڑا سہارا ہو گیا تھا! اور زندگی تھوڑی بہت خوشحالی میں بسر ہو رہی تھی! تیسرے دن پھر ایک خط ملا اور مجھے یقین ہو گیا کہ خط لکھنے والا کوئی بلیک میلر ہے اس خط میں لکھا گیا تھا کہ میں اس کے لئے ہر ہفتہ پچاس روپے مہیا کروں! روپیہ مہیا کرنے کی تدبیر بھی بتائی گئی تھی یعنی میں مردوں کو اپنے جال میں پھنسا کر روپے پیدا کروں!۔۔۔ وہ ایک بڑا بھیانک تجربہ تھا! مجھے پچاس روپے مہیا کرنے پڑے۔ یہ میں نے قرض لئے تھے۔ کچھ دن تک قرض سے کام چلاتی رہی پھر قرض خواہوں کے تقاضے جان کو آئے !۔۔۔ اب تو میں بہت مشتاق ہو گئی ہوں! اب مجھے ہر ہفتہ پانچ سو روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اسکول کی ملازمت عرصہ ہوا ترک کر چکی ہوں۔ گھر والوں سے اب کوئی تعلق نہیں رہ گیا !”
“تو پھر اب تمہیں کس بات کا ڈر ہے!” عمران نے پوچھا۔ “اگر اب وہ بلیک میلر تمہیں بے نقاب کردے تب بھی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا!”
“ٹھیک ہے! اب مجھے نہ اس کا خوف ہے کہ ملازمت سے برطرف کردی جاؤں گی! اور نہ اس کا ڈر کہ گھر والوں کو علم ہو جائے گا۔ پھر بھی میں ہر ہفتہ پانچ سو روپے ادا کرنے پر تیار ہوں!”
“آخر کیوں؟”
“ٹھہرو، بتاتی ہوں!” یہ کوڑے کے نشانات ہیں! جب دوسرے ہفتے بھی رقم نہیں پہنچتی تو مجھے اس وقت تک پیٹا جاتا ہے! جب تک میں بیہوش نہیں ہو جاتی!”
“تو پھر تم انہیں جانتی ہو!” عمران نے مضطربانہ انداز میں کہا!
“نہیں میں ایک کو بھی نہیں جانتی!”
“یہ کیسے ممکن ہے!”
“میں بتاتی ہوں!۔۔۔ اس دوران میں جہاں کہیں بھی ہوتی ہوں مجھے زبردستی اٹھوا لیا جاتا ہے! کہاں؟۔۔۔ یہ مجھے آج تک علم نہیں ہو سکا! کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوا ہے کہ میں اپنے کمرے میں سوئی ہوئی ہوں! آنکھ کھلی تو کوڑے پڑتے ہوئے محسوس کئے۔ ایسے مواقع پر میں میری آنکھیں چمڑے کے تسمے سے جکڑی ہوئی ہوتی ہیں” میں اندھوں کی طرح مار کھاتی ہوں پھر غشی طاری ہو جاتی ہے!۔۔۔ اور جب ہوش آتا ہے تو خود کو اپنے پلنگ پر پڑا پاتی ہوں، اپنے ہی کمرے میں! لیکن مجھے یقین ہے کہ میں نے کبھی اپنے کمرے میں مار نہیں کھائی ورنہ وہ لوگ پکڑے جاتے! کیونکہ پٹتے وقت میں جانوروں کی طرح آسمان سر پر اٹھا لیتی ہوں۔ پھر بتاؤ ایسی صورت میں کیا میرے پڑوسیوں کو خبر نہ ہوتی! میرا کمرہ اس کمرے کی طرح ساؤنڈ پروف نہٰں ہے۔”
عمران تھوڑی دیر اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر بولا! “تم وہ روپے کسے اور کس طرح ادا کرتی ہو!”
“پوسٹ بکس نمبر دو سو تیرہ کے پتہ پر منی آرڈر کر دیتی ہوں!”
“کیوں مذاق کرتی ہو یار!” عمران ہنس کر بولا “یہ تو بہت آسانی سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ پوسٹ بکس نمبر کس کا ہے!”
“مگر اتنی ہمت کون کرے! دو تین لڑکیوں نے اس کی کوشش کی لیکن انہیں ملک الموت کا منہ دیکھنا پڑا۔ وہ کسی نہ کسی طرح مار ڈالی گئیں اور اس کی اطلاع سارے شکاروں کو دی گئی تھی۔ ایک خط مجھے بھی ملا تھا جس میں تحریر تھا کہ یہ پوسٹ بکس نمبر کے متعلق چھان بین کرنے کا نتیجہ ہے کچھ لڑکیاں پولیس سے گٹھ جوڑ کر رہی تھیں۔ انہیں بھی ختم کر دیا گیا! اس کی اطلاع بھی مجھے اس بلیک میلر سے ملی تھی! ظاہر ہے کہ وہ دوسری لڑکیوں کو بھی اس سلسلے میں باخبر ہی رکھتا ہوگا۔ دیکھئے ٹھہریئے میں بتاتی ہوں! چند روز قبل بھی شہر میں ایک لڑکی کی لاش ملی تھی شاید آپ کو اس کا علم ہو۔۔۔ اس کا چہرہ کسی کار یا ٹرک کے پہیئے کے نیچے آ کر کچلا گیا تھا اور سینے پر خنجر کا نشان تھا! وہ ہمیشہ مقتولوں کے چہرے کو ناقابل شناخت بنا دیتے ہیں!”
“اوہو!” عمران سیدھا ہو کر بیٹھ گیا! پھر اس نے پوچھا “کیا اس قتل کی اطلاع بھی تمہیں ملی تھی!”
“ہاں ملی تھی!”
“اور تم ان حالات کے باوجود بھی مجھے یہ سب بتا رہی ہو!”
“ہاں! میں اب مرنا چاہتی ہوں! مسٹر! کتنی بار کہوں! میرا چھٹکارا بس اسی طرح ہو سکتا ہے کہ میں مر جاؤں! آج کی دنیا شریف آدمیوں کے لئے نہیں ہے! ہر آدمی اسے اس کی زندگی میں کوئی نہ کوئی کمینہ پن ضرور سرزد ہوتا ہے خواہ وہ کتنا ہی دامن بچائے!”
“ضروری نہیں ہے کہ تم بھی مر ہی جاؤ! میں تمہاری حفاظت کروں گا!”
“جس کے وہ لوگ دشمن ہوں اسے کوئی نہیں بچا سکتا! کیا ان لڑکیوں کو پولیس کا سہارا نہ ملا ہوگا! پھر وہ کس طرح قتل کر دی گئیں! مجھے تو یقین ہے کہ اس وقت یہ عمارت بھی ان لوگوں نے گھیر لی ہوگی!”
“یہ عمارت! نہیں یہ ناممکن ہے!” عمران نے مسکرا کر کہا!”یہ عمارت میرے قبضہ میں ہے۔”
“مگر تم یہاں تنہا ہو!۔۔۔ انہیں کیسے معلوم ہوگا کہ تم یہاں ہو! کیا وہ ہر لڑکی کے پیچھے لگے رہتے ہیں!”
“ناہید!۔۔۔ وہ ضرور انہیں اطلاع دے گی! اسے یقین ہو گیا ہے کہ میں تمہیں ضرور کچھ نہ کچھ بتاؤں گی!۔۔۔”
“وہ کیوں اطلاع دینے لگی۔ وہ خود بھی تو اس پیشے سے بیزار معلوم ہوتی ہے!” عمران نے کہا۔
“ہوگی بیزار۔۔۔! لیکن شاید تمہیں یہ نہیں معلوم کہ اگر اس کی دی ہوئی اطلاع ان لوگوں کے لئے صحیح ثابت ہوئی تو چار ہفتوں کی رقم معاف کر دی جائے گی۔۔۔ یعنی ناہید کو دو ہزار روپے نہ دینے پڑیں گے۔ چار ہفتوں تک خواہ وہ خود اپنے لئے کمائے یا صرف آرام کرتی رہے!”
“تب تم نے بہت ہی بڑی غلطی کی!۔۔۔ اسے کیوں جانے دیا!” عمران نے تیز لہجے میں کہا!
“میں کتنی بار کہوں کہ میں سچ مچ مرنا چاہتی ہوں!”
“میں تمہیں بچانے کی کوشش کروں گا!”
اچانک اس کمرے میں سرخ اور نیلی روشنی کے جھماکے ہونے لگے!۔۔۔نیلے اور سرخ بلب جلدی جلدی جل اور بجھ رہے تھے۔۔۔ عمران اچھل کر کھڑا ہو گیا۔