اس پرتعیش اور وسیع کمرے میں ڈبل بیڈ پر دراز خود سے بھی بے خبر وجود کی ساکن پلکوں میں جنبش ہوئی تھی۔ چند لمحوں کے توقف کے بعد اس نے آنکھیں کھولیں لیکن اس نیم اندھیرے کمرے سے مانوس ہونے میں آنکھوں کو کچھ وقت درکار تھا۔ اس کا سر بھاری بھاری سا ہو رہا تھا۔ وہ پھر سے آنکھیں موند گئ۔ یونہی بند آنکھوں سے ہاتھ بیڈ پر ادھر ادھر مارتے اس نے اپنا سیل فون تلاشنا چاہا۔ تکیوں کے نیچے بھی ہاتھ مارا لیکن فون نہیں ملا تھا۔
وہ آنکھیں کھولے خالی خالی نگاہوں سے چھت کو دیکھنے لگی جہاں لگے فانوس سے نکلتی ہلکی نیلی روشنی پورے کمرے میں بکھری تھی یوں جیسے چودھویں کا چاند نکل آیا ہو کمرے میں۔ اس کے ذہن میں نہیں آیا کہ وہ کب سوئ تھی۔ شاید رات ہو چکی تھی تبھی اندھیرا تھا کمرے میں۔ اسے ایک دم شدید بھوک کا احساس ہوا۔ پیاس سے حلق میں کانٹے سے چبھنے لگے۔
“سارہ! کھانے میں کیا بنا ہے آج؟؟” دماغ پر زیادہ زور دئیے بغیر اس نے آنکھیں بند کر کے پیشانی مسلی۔ نہ جانے سر اتنا بھاری بھاری سا کیوں تھا۔ سارہ کی طرف سے کوئی جواب نہ ملنے پر اس نے گردن کا رخ دائیں جانب موڑا۔ لیکن پھر چونکی۔
“ہیں! سارہ کا بیڈ کہاں گیا؟؟” وہ جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھی۔ چاروں طرف نگاہ گھمائ تو دیوار پر سوئچ بورڈ دکھائ دیا تھا۔ وہ تیزی سے بیڈ سے اتری اور ایک ہی پل میں سارے بٹن دبائے تو کمرہ روشنیوں میں نہا گیا۔ نمرہ نے نظریں چاروں طرف دوڑائیں تو اس اجنبی لگژری بیڈروم میں موجود بیش قیمت اشیاء اور سازو سامان دیکھ کر اسے کسی خواب کا سا گمان ہونے لگا۔ گرے اور سفید پینٹ شدہ دیواروں پر سجی خوبصورت پینٹنگز، چھت سے لٹکتا بیش قیمت فانوس، فرش پر بچھا سرخ مخملیں قالین، بیڈ کے بالکل سامنے تھری سیٹر صوفہ اور سائیڈ ٹیبل پر موجود گلدان میں سجائے گئے تازہ سرخ گلاب جن کی مسحور کن خوشبو پورے کمرے میں گردش کر رہی تھی۔ اس کمرے میں ہر وہ چیز موجود تھی جن کا ان کے ہاں کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ایک پل کو وہ سحرزدہ ہو کر رہ گئ۔
“یہ سب کیا ہے؟؟ کہیں میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہی؟؟؟” اس نے اپنے ہی بازو پر چٹکی کاٹی لیکن پھر کراہ کر رہ گئ۔ یہ کوئی خواب نہیں تھا بالکل حقیقت تھی۔ وہ بیڈ کی جانب بڑھی۔ اپنا سیل فون تلاشنا چاہا لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ پریشان سی ہو گئ۔
ذہن پر زور دینے سے سبھی منظر نگاہوں کے سامنے گھومنے لگے۔ مرتضٰی اور اس کی شادی کا طے ہونا، اس کا گھر والوں سے ضد کر کے مرتضٰی کے ساتھ بارات کا جوڑا لینے جانا، واپسی پر گاڑی کا خراب ہونا اور مرتضٰی کا پانی لینے جانا، اس کا فون گاڑی میں ہی رکھتے ہوئے باہر نکل کر مرتضٰی کی راہ تکنا اور۔۔۔ عقب سے کسی ہاتھ کا نمودار ہو کر سفید رومال سے اس کا منہ اور ناک دبا کر اسے بے ہوش کرنا۔
“اف میرے خدایا!” وہ سر تھام کر رہ گئ۔ تو کیا۔۔۔ وہ اغواء ہو چکی تھی؟؟ لیکن کیوں؟؟ اسے اغواء کرنے والے کون لوگ تھے؟؟ اسے اغواء کرنے کا مقصد کیا تھا؟؟ مرتضٰی کہاں تھا اس وقت؟؟ اور اس کے گھر والے؟؟ کیا انہیں خبر تھی کہ ان کی بیٹی اس وقت یہاں اس انجان جگہ پر کسی کے قبضے میں ہے؟؟ اس وقت کیا کر رہے ہوں گے سب؟؟ اسے گھر میں نہ پا کر کیا حالت ہو گی سب کی؟؟ بہت سی زہریلی سوچوں نے اس کے وجود کو ڈسنا شروع کیا تھا۔ چہرے پر خوف و ہراس کی پرچھائیاں اپنی جھلک دکھانے لگی تھیں۔ اس نے سر اٹھا کر دروازے کی جانب دیکھا۔ پھر ایک لمحے کی دیر کیے بغیر دروازے کی جانب لپکی۔ زور سے ہینڈل گھمایا لیکن دروازے شاید لاکڈ تھا۔ وہ بار بار زور آزمائ کرتی رہی۔ پھر دروازہ نہ کھلنے پر دونوں ہاتھوں سے دروازہ بجانے لگی۔
“کوئی ہے؟؟ دروازہ کھولو پلیز! مجھے باہر نکالو یہاں سے۔۔۔” کچھ دیر پہلے اس کمرے کے قیمتی سازو سامان کو دیکھ کر اور کمرے کی خوبصورتی میں کھو کر وہ جن خوش کن خیالات کو اپنے دل میں جگہ دے چکی تھی اب وہ سارے خیالات بھک سے اڑ گئے تھے۔ یاد تھا تو صرف اتنا کہ وہ اپنے گھر سے، گھر والوں سے دور یہاں اس انجان جگہ پر تھی جہاں اسے لانے والے کون تھے؟؟ اس کے علاوہ اور کون کون موجود تھا؟؟ اور اسے یہاں کیوں لایا گیا تھا وہ ہر بات سے انجان تھی۔
“کھولو دروازہ۔۔۔” وہ چینخ چینخ کر تھک گئ لیکن دوسری جانب ہلکی سی آہٹ تک نہ ہوئی تھی۔ وہ جو ہر وقت ناولز کی دنیا میں کھوئ یہ خواہش کرتی تھی کہ اس کے ساتھ بھی یہ سب ہو اس وقت اپنی خواہش پوری ہونے پر بلک رہی تھی۔ ہاتھ شل ہو گئے تھے، ٹانگوں پر لرزش سی طاری تھی تبھی وہ دروازے کے ساتھ ہی بیٹھتی چلی گئ۔ پورا وجود اس وقت کپکپا رہا تھا۔ ذہن میں مختلف سوچیں وارد ہو رہی تھیں۔ ناولز میں ایسے بہت سے سینز پڑھے تھے اس نے، لڑکیوں کا اغواء، ان کی سمگلنگ، ان پر ظلم و تشدد، ریپ اور پھر قتل کیا جانا۔۔۔ اللّہ! اس کا خون رگوں میں جمنے لگا تھا یہ سب سوچ کر ہی۔۔۔ اور اگر۔۔۔ سچ میں اس کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہو گیا تو۔۔۔؟؟ وہ لرز اٹھی تھی۔۔۔
“دروازہ کھولو! ” وہ پھر سے چلائ تھی۔ پورا زور لگا کر ایک بار پھر دروازہ بجایا۔ آواز میں آنسوؤں کی آمیزش تھی۔ اس بار بھی دوسری جانب سے کوئی جواب نہ ملا تھا۔۔۔
“مما۔۔۔” وہ تڑپتی ہوئی ماں کو پکارتی سر گھٹنوں میں دے گئ۔ چند ہی لمحے گزرے ہوں گے جب سائیڈ ٹیبل پر پڑا انٹرکام بج اٹھا۔ اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔ خوفزدہ نظروں سے انٹرکام کی جانب دیکھا۔ پھیر تیر کی سی تیزی سے اس کی جانب لپکی۔۔۔
“ہ۔۔۔ ہیلو۔۔۔ ” کانپتے ہاتھوں سے اس نے ریسیور کان سے لگایا۔۔۔
“ویلکم ٹو مائ لائف سویٹ ہارٹ۔۔۔” دوسری جانب سے دلکش اور مسرور سی مردانہ آواز میں سوگوشی سنائی دی تھی۔ نمرہ کو لگا تھا کسی نے اس کے کانوں میں صور پھونک دیا ہو۔۔۔
“کک۔۔۔ کون ہو تم۔۔۔؟؟” اس نے لبوں پر ہونٹ پھیرتے ہوئے ہمت جمع کرنی چاہی۔ دوسری جانب سے لطیف سا قہقہہ سنائی دیا تھا۔
“وہی۔۔۔ جس کا آج تک انتظار کرتی رہی ہو تم۔ تمہارے خوابوں کا شہزادہ۔” دوسری جانب سے مسکراتی ہوئی سی آواز میں کہا گیا تھا۔۔۔
“مم۔۔۔ مجھے باہر نکالو پلیز۔میرا دم گھٹ رہا ہے یہاں۔ مجھے اپنے گھر جانا ہے۔” وہ خود پر سے ضبط کھوتی ہوئی رو دی تھی۔
“اتنی بھی کیا جلدی ہے ہنی! تھوڑا صبر کرو۔ ابھی تو روبرو ہونا باقی ہے، کچھ شرائط ہیں میری ان کا پورا ہونا ضروری ہے کیونکہ اس بار تمہیں کھونا افورڈ نہیں کر سکتا میں۔ جیسے ہی میری شرائط پوری ہوتی ہیں تمہیں آزاد کر دوں گا۔ لیکن ہمیشہ کے لیے خود سے باندھ کر۔ اینڈ ڈونٹ وری۔۔۔ تم یہاں بالکل محفوظ ہو۔ فی الحال تم آرام کرو۔ جلد ملتے ہیں۔ ” وہ شاید اس کی آواز سے ہی اس کے خوف کا اندازہ لگا چکا تھا تبھی اسے تسلی دیتے ہوئے نہ جانے کونسی پہیلیاں بجھوا کر فون بند کر چکا تھا جبکہ نمرہ سن سی ریسیور کان سے لگائے کھڑی اس کی باتوں کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتی رہ گئ۔۔۔
وہ بیڈ سے ٹیک لگائے نیچے فرش پر اکڑوں بیٹھی تھی۔ سر گھٹنوں میں دے رکھا تھا۔ گھر والوں کی یاد شدت سے حملہ آور ہوئی تھی اس پر۔ اسے یوں لگ رہا تھا گویا اس کا آخری وقت آ چکا ہو۔ اگر ذرا سا بھی اندازہ ہوتا کہ گھر سے نکلنے پر یہ قیامت ٹوٹے گی تو وہ ساری عمر گھر میں بند رہ کر گزار دیتی۔ لیکن افسوس۔۔۔ وہ وقفے وقفے سے دروازہ کھٹکھٹاتی رہی تھی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ نہ جانے کتنا وقت گزر چکا تھا اسے یونہی بیٹھے بیٹھے۔ کبھی رونے لگتی تو کبھی خود ہی آنسو صاف کر کے اپنے آپ کو ہمت دینے لگتی۔ مسلسل رونے سے آنکھوں کے پپوٹے سوج چکے تھے۔ آنکھوں میں لالی سی تیر رہی تھی جبکہ چہرہ ستا ہوا تھا اس وقت وہ کہیں سے بھی وہ لاپرواہ نمرہ نہیں لگ رہی تھی جیسی اپنے گھر میں ہوتی تھی۔ پتا نہیں رات تھی یا دن۔ اس کمرے میں کوئی کھڑکی تک نہ تھی جس سے باہر کا منظر دیکھ کر دل کو ڈھارس ملتی۔ وقت کا کچھ اندازہ نہ تھا۔ پہلے وہ باہر جاتے وقت کلائ میں گھڑی پہن کر رکھتی تھی لیکن مرتضٰی کے ساتھ شاپنگ پر جاتے وقت نہ جانے کیوں ذہن سے ہی نکل گیا۔ کلائیاں بالکل خالی تھیں۔کمرے میں کوئی وال کلاک تک نہ تھا۔
وہ ذہن کو مختلف سوچوں کی آماجگاہ بنائے گٹھڑی سی بنی بیٹھی تھی جب دروازے کے اس پار کسی کے قدموں کی آہٹ محسوس ہوئی۔ نمرہ تیزی سے اٹھی۔ کلک کی آواز سے شاید دروازے کا لاک کھلا تھا۔ اس نے بیڈ پر پڑا اپنا دوپٹا اٹھا کر اپنے گرد لپیٹا گویا حفاظتی بند باندھنا چاہا ہو۔ اس کی آنکھوں میں بے تحاشا خود سمٹ آیا تھا۔ نہ جانے آنے والا کون تھا اور اس کے ساتھ کیا ہونے والا تھا اب۔۔۔ وہ اپنے بچاؤ کے لیے ادھر ادھر نگاہ دوڑاتی کچھ ڈھونڈنے لگی۔ نگاہ سائیڈ ٹیبل پر موجود گلدان پر پڑی۔ وہ اس کی جانب بڑھ ہی رہی تھی جب دروازہ کھلا۔ نمرہ نے گلدان پکڑتے ہوئے دروازے کی جانب دیکھا تو اندر داخل ہونے والی کوئی لڑکی تھی۔ اپنی ڈریسنگ اور حلیے سے وہ ملازمہ تو بالکل نہیں لگ رہی تھی۔ نمرہ کی گرفت گلدان پر ڈھیلی ہوئی۔ شاید یہاں اپنے علاوہ کسی لڑکی کو دیکھ کر اسے ڈھارس ملی تھی۔
“گڈ ایوننگ۔ یہ رہا آپ کا کھانا۔ سر کا آرڈر ہے کہ چونکہ آپ نے دوپہر کو بھی کچھ نہیں کھایا اسی لیے اب یہ سارا کھانا ختم کرنا ہے آپ کو۔ ” وہ لڑکی اس کے ہاتھ میں گلدان دیکھ کر ایک پل کو رکی تھی لیکن پھر ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر سجائے آگے بڑھی اور کھانے کی ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھی۔
“آپ کو کچھ اور چاہیے تو بتا دیجیے۔ میں کچھ دیر تک آ کر برتن لے جاؤں گی۔” وہ بغور نمرہ کے سرخ چہرے کی جانب دیکھ رہی تھی۔
“مم۔۔۔ مجھے یہاں کیوں لائے ہو تم لوگ؟؟” نمرہ نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہیں۔
“آئم سوری بٹ۔۔۔ یہ تو سر ہی بتا سکتے ہیں۔ آپ کو اگر کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو بتا دیجیے گا۔” وہ لڑکی خشک سے لہجے میں کہتی واپسی کے لیے مڑ گئ۔
“خدا کا واسطہ ہے تم لوگوں کو۔ جانے دو مجھے۔۔۔ میں نے کیا بگاڑا ہے تم لوگوں کا؟؟” نمرہ نے التجا کی تھی۔ لیکن وہ سنی ان سنی کرتی باہر نکل گئ۔ دروازہ پھر سے لاک ہو چکا تھا۔ جبکہ نمرہ شدید بے بسی کے احساس سے پھر سے رونے لگی۔۔۔
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد دروازے پر پھر سے ہلچل سی محسوس ہوئی تھی۔ نمرہ نے فقط سر اٹھا کر دیکھا تھا لیکن اپنی جگہ سے ہلی تک نہیں۔ وہ زمین پر ہی بیٹھی تھی۔ بازو گھٹنوں کے گرد باندھ رکھے تھے۔ کندھے پر پڑا دوپٹہ کھسک کر آدھا نیچے رل رہا تھا۔ بال بھی الجھے الجھے سے تھے۔ چہرے سے میک اپ مٹ چکا تھا۔ بھوک کے باعث اب کچھ بولنے اور رونے کی ہمت بھی ختم ہوتی جا رہی تھی۔
دروازہ کھلا اور وہی لڑکی دوبارہ اندر داخل ہوئی۔ ایک نظر بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی نمرہ پر ڈالی۔ پھر سائیڈ ٹیبل پر رکھی ٹرے پر جس میں موجود کھانا جوں کا توں تھا۔ نمرہ نے پانی کے گلاس میں سے ایک گھونٹ تک نہیں لیا تھا۔
“کھانا نہیں کھایا آپ نے؟؟” وہ لڑکی براہ راست اس سے مخاطب ہوئی تھی۔ نمرہ نے فقط ایک نگاہ اس پر ڈالی اور بغیر کوئی جواب دئیے گردن واپس موڑ لی۔
“نمرہ میں آپ سے پوچھ رہی ہوں۔ آپ نے کھانا کیوں نہیں کھایا؟؟” وہ دوبارہ سوال کر رہی تھی۔ نمرہ نے آنکھیں سختی سے میچ کر خود کو کچھ سخت کہنے سے روکا۔ وہ جانتی تھی کہ اس وقت وہ انہی لوگوں کے رحم و کرم پر ہے۔ اگر غصے یا بدتمیزی سے کام لیا تو معاملہ مزید بگڑ سکتا تھا۔ اسے حیرت ہوئی تھی کہ اس لڑکی کو اس کا نام کیسے پتا جبکہ نمرہ نے آج پہلی بار اسے دیکھا تھا۔ اور نمرہ تو اس کا نام بالکل نہیں جانتی تھی۔
“مجھے میرے گھر جانا ہے۔ پلیز مجھے جانے دو۔” وہ اٹھی تھی۔ اس لڑکی کی جانب آنے کی کوشش کی تھی۔
“آئم سوری لیکن یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ ہمیں بھی سر کے آرڈرز کو ہی فالو کرنا ہوتا ہے۔ یہاں آپ ان کی مرضی سے آئ ہیں تو جائیں گی بھی انہی کی مرضی سے۔” توقع کے عین مطابق پھر سے پرانا جواب ہی ملا تھا۔
“تم۔۔۔۔ تمہارے پاس فون تو ہو گا نا۔ میری گھر بات ہی کروا دو۔ سب پریشان ہوں گے۔ ” نمرہ چلتی ہوئی ایک دم لڑکھڑائ تھی۔ خالی معدے کے سبب اسے چکر سا آیا تھا۔
“آپ کھانا کھا لیں پلیز۔ آپ کی طبیعت بگڑ جائے گی ایسے۔” اس لڑکی نے ہمدردی بھری نگاہ نمرہ پر ڈالی جو کپٹی کو دباتی بیڈ کے کنارے بیٹھ گئ تھی۔ شاید مزید چلنے کی سکت نہیں تھی اس میں۔
“نہیں کھانا مجھے کچھ بھی۔ میں کھانا اپنے گھر جا کر ہی کھاؤں گی۔” اس کا لہجہ ضد لیے ہوئے تھا۔ وہ لڑکی اسے دیکھ کر رہ گئ۔ کچھ کہنے کا قصد کیا لیکن پھر نہ جانے کیا سوچ کر خاموش ہو گئ۔ آگے بڑھ کر ٹرے اٹھائ اور کمرے سے نکل گئ۔ چند لمحوں تک کوئی آواز سنائی نہیں دی تھی۔ نمرہ کو لگا شاید دروازہ لاک نہیں کیا گیا۔ وہ تیزی سے اٹھی لیکن اس سے پہلے کہ دروازہ کھول کر باہر نکل پاتی دروازہ لاک کر دیا گیا تھا۔ وہ لب بھینچے آنکھوں میں نمی لیے بند دروازے کو دیکھے گئ۔
علیزے نے ٹرے لا کر کچن میں رکھی۔ اس کے کچن میں داخل ہوتے ہی کچن ٹیبل پر موجود دو افراد نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔
“کیا ہوا علیزے؟؟ سب خیریت ہے؟؟” ایان نے ہی سوال کیا تھا۔ جواب میں علیزے نے نفی میں سر ہلایا۔
“کھانا نہیں کھایا اس نے۔ الجھی بکھری سی لگ رہی تھی۔ شاید روتی رہی ہے۔ آنکھیں سرخ پڑ رہی تھیں اس کی۔ شاید بھوک کے باعث ہی چکر بھی آ رہے ہیں اسے لیکن ایک ہی ضد ہے کہ کھانا صرف اپنے گھر جا کر کھائے گی۔ کہہ رہی تھی گھر بات کروا دیں۔ میں نے کہہ دیا باس کی طرف سے اجازت نہیں ہے۔ تم لوگوں کو نہیں لگتا کہ ہم غلط کر رہے ہیں؟؟” وہ خود عورت تھی اور نمرہ پر گزرتی ہر تکلیف اسے خود پر محسوس ہو رہی تھی۔ وہ نمرہ کے احساسات اچھی طرح سمجھ سکتی تھی۔
“ٹھیک ہو جائے گی وہ۔ ” ایان کے ساتھ بیٹھے دوسرے نیلی آنکھوں والے مرد نے بھاری آواز میں کہا تھا۔
“جب میں پہلے کھانا دینے گئ تھی تب آہٹ محسوس کر کے وہ گلدان کی طرف لپکی تھی۔ شاید اسے کسی مرد کے آنے کی توقع تھی اور اس نے اپنے بچاؤ کے لیے ہی گلدان تھاما تھا لیکن مجھے دیکھ کر پھر گلدان رکھ دیا تھا اس نے۔ میں تو ایک پل کو گڑبڑا کر رہ گئ تھی کہ کہیں سیدھا میرا ہی نشانہ نہ لے لے۔” علیزے کی بات پر ایان کے لبوں پر مسکراہٹ کی جھلک دکھائ دی۔
“”دیکھ لے یار! تیری محبت میں میں اپنی محبت کو بھی قربان کرنے پر تیار ہو گیا۔ اگر ہونے والی بھابھی میری بیوی کے سر میں گلدان دے مارتی تو میں کہاں سے اسے ڈھونڈتا؟؟ اکلوتی بیوی ہے میری۔” ایان کے لہجے میں شرارت سی تھی۔
“دوسری شادی کر لے۔ اکلوتی بیوی کا غم جاتا رہے گا۔” نیلی آنکھوں میں شرارت دکھائ دی تھی۔
“سوچ تو یہی رہا ہوں۔” ایان نے نچلا لب دانتوں تلے دباتے ہوئے علیزے کی طرف دیکھا جس نے زوردار مکا اس کے بازو پر رسید کیا تھا۔
“تم کر کے تو دکھاؤ دوسری شادی۔ تمہاری جان لے لوں گی میں۔” علیزے نے خفگی سے ایان کو گھورا۔
“اف ظالم لڑکی! کیوں میرے اور میری ہونے والی دوسری بیوی کے درمیان ظالم سماج بنی ہوئی ہو تم؟؟” ایان نے بازو سہلاتے ہوئے پھر شرارتی لہجہ اپنایا۔
“ایان تم سے کتنی بار کہا ہے میں نے کہ میرے سامنے یہ فضول باتیں مت کیا کرو۔ اب اپنا منہ بند کر لو ورنہ کچھ بولنے کے قابل نہیں رہو گے تم۔ سمجھے؟؟” علیزے نے سنجیدہ ہوتے ہوئے ایان کو لتاڑا تو ایان نے فوراً ہونٹوں پر انگلی رکھ لی۔
“ہاں لالے؟؟ اب کیا ارادے ہیں؟؟ بھابھی تو بڑی ضدی نکلیں۔ کھانے سے کیا دشمنی ہے بھلا؟؟ اگر ایسے ہی ضد کرتی رہیں تو طبیعت خراب ہو جائے گی ان کی۔” ایان نے دوبارہ اسے مخاطب کیا جس کی نیلی آنکھوں میں گہری سوچ کی پرچھائیاں تھیں۔
“وہ بہت ٹیڑھی کھیر ہے۔ اسے سیدھا کرنے کے لیے ہمیں بھی اپنی انگلی ٹیڑھی کرنی پڑے گی۔ علیزے! کھانا گرم کر دو۔ ” وہ کہتا ہوا اٹھا۔
“کدھر؟؟؟” ایان نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
” ملاقات کا وقت آ چکا ہے۔” وہ اب اپنی جیب ٹٹول رہا تھا۔
“لیکن تم اگر ان کے سامنے جاؤ گے تو ساری پلاننگ خراب ہو جائے گی۔ تمہیں تو فوراً پہچان لیں گی وہ۔ کیا فائدہ اتنی محنت کا پھر؟؟” ایان الجھا تھا۔
“ڈونٹ وری۔۔۔ کچھ نہیں ہو گا۔” دوسری جانب سے تسلی دی گئ تھی۔ ساتھ ہی اس نے جیب سے رومال برآمد کرتے ہوئے اسے تکون کی شکل دی اور اپنے چہرے پر باندھا۔ یوں کہ اب اس کی آنکھیں دکھائ دے رہی تھیں بس۔ ناک سے نیچے کا سارا چہرہ چھپ چکا تھا۔
“بیسٹ آف لک۔” ایان نے انگوٹھا دکھایا۔ علیزے جو کھانا گرم کر چکی تھی ٹرے لے کر اس کے پیچھے ہی چلی آئ جبکہ کچن میں بیٹھے ایان نے سیب اچکتے ہوئے اس پر دانت گاڑے تھے۔۔۔