اس لڑکی نے اپنی کہانی جاری رکھتے ہوئے کہا
“وہ ندیدہ قوت مجھے اسی طرح گھسیٹتے ہوئے تہہ خانے تک لے گئی۔ اب تک میری حالت غیر ہوچکی تھی۔خاردار تار کے کانٹے میری ٹانگ کو تقریباً ناکارہ بنا چکے تھے۔سر سے بہنے والا خون مجھے لاغر کر چکا تھا۔اس قوت نے مجھے تہہ خانے کی دیوار کے ساتھ لگایا۔پھر سناٹا چھا گیا۔تہہ خانے کے بلب کی مدہم سی روشنی ماحول کو مزید خوفناک بنا رہی تھی۔ “کون ہو تم آخر؟۔۔۔کیا چاہتے ہو؟” میں زور سے چلائی۔ جواب ندارد۔ پھر ایک دم شور سا اٹھا۔میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ ڈرل مشین تھی۔جو بظاہر خودبخود ہوا میں تیرتی میری طرف بڑھ رہی تھی۔خوفزدہ میں دیوار کے سہارے کھڑی ہونے کی کوشش کرنے لگی۔مگر زخمی ٹانگ میں اٹھنے والی درد کی شدید لہر نے میری یہ کوشش ناکام بنا دی۔ڈرل مشین اب میری دوسری ٹانگ کے بہت قریب پہنچ چکی تھی۔میں چلانا چاہتی تھی مگر میری آواز حلق میں ہی دب گئی۔میں نے سختی سے اپنی آنکھیں بند کر کے چہرہ دوسری طرف کر لیا۔”
اس کے چہرے پر خوف کے ساتھ ساتھ آواز میں بھی لرزش پیدا ہونے لگی۔ میں نے اس کے سر اور ٹانگ پر توجہ دی تو دونوں سے ابھی بھی خون بہہ رہا تھا۔۔
“پھر۔۔۔ وہ مشین میری ٹانگ کے مختلف حصوں میں سوراخ کرتی گئی۔خون کے فوارے نکلنے لگے۔ وہ درد۔۔۔آہ۔۔۔ وہ درد شاید کبھی کسی نے محسوس نہ کیا ہو۔ میرے منہ سے بس کراہنے کی آواز ہی نکل پائی”
اب کے میں نے چونک کر اس کی دوسری ٹانگ دیکھی۔۔۔ ٹانگ کے اوپر کپڑے میں پانچ چھ سوراخ ظاہر ہونے لگے۔اور خون۔۔۔۔۔ میں اس پر بیتنے والا ایک ایک پل دیکھ رہا تھا۔سامنے۔۔۔اپنی آنکھوں سے۔۔۔سب کچھ۔۔۔ میرا دل بیٹھا جارہا تھا۔ آخر وہ کیا چیز تھی جو اس قدر حسین اور معصوم سی لڑکی کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک کر رہی تھی؟ میری رگوں کو نکوٹین کی ضرورت شدت سے محسوس ہونے لگی۔ میں نے کانپتے ہوئے ایک سگریٹ نکالی اور مشکل سے اسے سلگایا۔پہلا کش لیتے ہی کچھ حواس بحال ہوئے۔ مجھے سگریٹ جلاتا دیکھ وہ ایک پل کو خاموش ہوگئی۔جب میں اپنا کام نمٹا چکا تو اس نے کہانی وہیں سے شروع کی۔۔۔
“پھر مشین رک گئی۔رفتہ رفتہ ہوامیں تیرتی ہوئی میز پر جاپڑی۔ “میرے۔۔۔ ساتھ ایسا۔۔۔ کیوں؟؟ ککک ۔۔۔کیا۔۔کیا بگاڑا ہے ۔۔۔۔تتتتم تمہارا۔۔۔ میں نے؟” یہ جملے ادا کرنے میں مجھے جیسے صدیاں لگیں۔۔اور پھر تب مجھے ایسے لگا جیسے میرا ذہن اور سوچ کسی کے قابو میں آگئے ہوں۔مجھے اپنے تخیلات میں ایک فلم چلتی محسوس ہوئی۔شاید وہ جواب تھا۔۔۔”
اس نے وقفہ دیا۔جیسے اب اس کی توجہ اس تخیلاتی فلم کی طرف ہو۔میں نے بے چینی سے کروٹ بدلی۔
“آہ!!!! اب مجھے معلوم ہونے لگا کہ میرا قصور کیا تھا۔ کاش میں نے وہ غلط راستہ نہ اپنایا ہوتا۔کاش میں نے اس کا حق نہ مارا ہوتا۔کاش کہ وہ نہ مرتا۔۔۔۔”
وہ پھر خاموش ہوگئی۔اب کے اس کی آواز میں پچھتاوا تھا۔ جو کہ میں واضح محسوس کر سکتا تھا۔
“میں جس پوسٹ پر تھی وہاں مجھ سے پہلے کوئی اور تھا۔اس لیے وہاں تک پہنچنے کے لیے پہلے اسے راہ سے ہٹانا تھا۔ میں ایک امیر کبیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس لیے ایساکرنا میرے لیے چندا مشکل نہ تھا۔اس بندے پر کرپشن کا جھوٹا الزام لگا کر زبردستی اس سے استعفیٰ لیا گیا۔ اس کی جگہ میں نے لے لی۔بدنامی کا داغ لیے وہ شخص جب باہر نکلا تو سارا معاشرہ اس پر تھو تھو کرنے لگا۔کوئی بھی اسے ملازمت دینے کو تیار نہ تھا۔اور پھر ایک دن اس نے خودکشی کر لی۔وہ خبر مجھ تک بھی پہنچی۔بجائے پشیمان ہونے کے الٹا میں نے اسے بزدل کہا۔”
وہ اب باقاعدہ رو رہی تھی۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ آج اس حالت میں واقعی اپنے کیے پر شرمندہ تھی۔ یا صرف اس لیے پچھتا رہی تھی کہ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو بچ جاتی؟مگر پھر سوال یہ تھا کہ اس سارے معاملے کا اس ندیدہ قوت سے کیا تعلق تھا؟ وہ کیوں اس سے انتقام لینے پر تلی ہوئی تھی؟ بہت سے سوالات تھے جن کا جواب صرف اسی لڑکی کے پاس تھا۔
“پھر وہ فلیش بیک ختم ہوگیا۔ میرے سامنے دیوار پر ایک سایہ بننے لگا جو آہستہ آہستہ گہرا ہوتا ہوگیا۔ پھر۔۔۔ پھر سب کچھ واضح ہو گیا۔وہ میرے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر درندگی اور وحشت تھی۔ وہ مر کر واپس آیا تھا۔مجھ سے اپنے ساتھ کی گئی ناانصافی کا بدلہ لینے۔اب میرا انجام واضح تھا۔ میں نے اپنی تمام تر توانائی یکجا کی اور اس کے سامنے ہاتھ باندھے۔ مگر۔۔۔وہ تو بس نفرت اور حقارت سے مجھے تکے جارہا تھا۔”
اس لڑکی نے جو کچھ بھی کیا تھا اس کے باوجود وہ میری ہمدردی کا مرکز تھی۔ شاید اس لیے کہ وہ خوبصورت تھی۔یا پھر محض اس لیے کہ وہ ایک لڑکی تھی۔
“وہ آہستہ آہستہ میری طرف بڑھنے لگا۔اس کی کنپٹی میں ایک گہرا گڑھا تھا۔جس سے مسلسل خون اور کوئی مائع بہہ رہا تھا۔ میں وہاں سے بھاگنا چاہتی تھی۔میں مدد کے لیے چلانا چاہتی تھی۔مگر زبان کے ساتھ ساتھ میرا پورا جسم گنگ ہوچکاتھا۔وہ میرے قریب پہنچ کر دوزانوں بیٹھ گیا۔اور دیوانہ وار ہنستے ہوئے پاگلوں کی طرح مجھے دیکھنے لگا۔اس نے اپنے دونوں ہاتھ میری کنپٹیوں اور انگوٹھے آنکھوں پر رکھے۔اور پھر وہ انگوٹھے دباتا گیا۔درد۔۔۔درد تو بہت حقیر سالفظ ہے اس سب کے سامنے جس سے میں گزر رہی تھی۔ اس کے انگوٹھے میری دونوں آنکھوں میں پیوست ہوگئے۔کچھ دیر بعد جب اس نے ہاتھ ہٹائے تو میں نابینا ہوچکی تھی۔اپنے گالوں پر خون کی دھاریں محسوس کر رہی تھی”
اس کی وہ خوبصورت سبز آنکھیں۔۔۔جو اب تک مجھ پر مرکوز تھیں۔۔۔آہ۔۔۔اب محض دو گڑھے بن چکی تھیں۔اس کے گالوں پر خون کی دھاریں بہہ رہی تھیں۔ میں وہ منظر نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔مگر شاید میں ہیپنوٹائزڈ ہوچکا تھا۔شاید مجھے وہ منظر دیکھنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔
“اب ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اسی وقت میرے کانوں میں ایک بھاری بھرکم آواز پڑی۔۔۔”مہرین میڈم۔۔۔تم نے فطرت کی تزلیل کی ہے۔ فطرت خوبصورت ہے۔تم نے اسے بدصورت بنانے کی کوشش کی۔مگر قانونِ فطرت ہے کہ جو بھی اس کی خوبصورتی کو بگاڑنے کی کوشش کرتا ہے فطرت اسے نہیں بخشتی۔۔۔” اس آواز میں۔غصہ،حقارت،نفرت،طنز سب کچھ تھا۔تب مجھے اپنی گردن پر دو طاقتور ہاتھوں کا بوجھ محسوس ہوا۔وہ ہاتھ میری گردن پر اپنا گھیرا تنگ کرتے جاتے اور میری سانسیں رکتی جاتیں۔۔۔۔اور پھر میں۔۔۔مر گئی۔۔۔”
اس کے آخری الفاظ جیسے میرے دل و دماغ پر ہتھوڑے بن کر برسے۔اب میرے سامنے بولتی ہوئی لڑکی نہیں بلکہ ایک مردہ جسم تھا۔وہ جسم زمین بوس ہوچکا تھا۔میرے ہاتھ پاوں پھولنے لگے۔۔۔۔میرا وہم وگمان سب جواب دینے لگا۔یہ سب کیا تھا؟ مجھے اپنی حواس پر شبہ ہونے لگا۔کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔۔۔نہیں یہ خواب نہ تھا۔وہ لڑکی،اس کی کہانی،اور اب اس کا مردہ جسم سب حقیقت تھا۔باہر ایک بار پھر بادل گرج رہے تھے۔۔۔بجلی شدت سے چمک رہی تھی۔مگر اس سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ وقت رک چکاتھا۔۔۔جیسے یہ رات ہمیشہ یونہی رہنی ہو۔ تب مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میراہاتھ خودبخود واپس کتاب کی طرف بڑھ رہا ہو۔۔۔میں نے کسی انجانی طاقت کے ذیرِ_اثر وہ کتاب دوبارہ اٹھائی۔۔۔میرے سامنے دوسری کہانی کھلی پڑی تھی۔میری نظر عنوان پر پڑی۔۔۔
“گورکن”۔۔۔۔
میں نے ناچاہتے ہوئے کہانی پڑھنا شروع کی۔۔۔
نادر کاکوروی اور آئرلینڈی شاعر تھامس مور کی نظم نگاری کا تقابلی مطالعہ
نادؔر کاکوروی اردو کے ممتاز شاعر اور تھامس مور آئرلینڈ کے انگریزی زبان کے شاعر ہیں، دونوں شعرا کی شاعری...