وہ یہاں وہاں دیکھتا سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔۔
سیکنڈ فلور پر پہنچ کر اس کا رخ سامنے کی طرف تھا۔۔
اس نے وہ شیشے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔۔
“مسٹر وصی۔۔” آواز پر وہ پلٹا۔۔
سامنے ہی ڈاکٹر حمنہ کھڑی مسکرا رہی تھی۔۔
“کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی آپ کو یہاں آنے میں؟” حمنہ نے پوچھا۔۔
“نہیں۔۔یہ رپوٹس۔۔” وصی نے اس کی طرف فائل بڑھائی۔۔
“تھینک یو۔۔آئیں بیٹھیں نا” حمنہ نے کہا
“نو تھینکس۔۔میں اب چلتا ہوں۔۔” وصی نےسنجیدگی سے کہا۔۔
“ایسے کیسے آپ میرے کام کے لیے یہاں آئے اور ایسے ہی جارہے ہیں۔۔” حمنہ نے خوش دلی سے کہا۔۔۔
“نو اٹس اوکے۔۔۔میں چلتا ہوں۔۔” وصی کہتے ہی مڑا۔۔
اور حمنہ کچھ کہ نہیں سکی۔۔
“ویسے ڈاکٹر حمنہ۔۔ایک بات کہوں مائنڈ تو نہیں کریں گی؟” وصی نے پوچھا
“نہیں ۔۔آپ کہیں” حمنہ نے کہا۔۔
“شفی کے ساتھ اگر آپ ریلیشن میں ہیں تو۔۔آپ لوگوں ایٹلیسٹ دنیا کو نہیں بتانا چاہیے” وصی نے سنجیدگی سے کہا۔۔
“کیا مطلب ہے آپ کا؟” حمنہ چونکی۔۔
“وہاں۔۔ سب کو شفی کہتا پھر رہا ہے آپ کو وہ پسند کرتا ہے اور سارا سارا دن آپ اور۔۔وہ۔۔۔کال پر۔۔۔” وصی نے شانے اچکائے۔۔
“یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔میں۔۔اس سے کال پر بات نہیں کرتی۔۔”حمنہ کو جھٹکا لگا۔۔
“لیکن وہ تو نمبر بھی دکھا رہا ہے۔۔” وصی نے بتایا
“ہاں۔۔میں نے بات کی ہے اسن سے مگر ہمارے بیچ ایسا کچھ نہیں۔۔” حمنہ نے صفائی دینی چاہی۔۔
“دیکھیے میں آپ پر یا شفی پر کوئی روک ٹوک نہیں کر رہا۔۔بس آپ ایک لڑکی ہیں۔۔اور میں نہیں چاہتا کسی لڑکی کی عزت پر انگلی اٹھے۔۔۔وہ میرا بھائی ہے مگر۔۔۔میں آپ کا بھی تو خیر خواہ ہوں۔۔” وصی نے سادگی سے کہا۔۔
حمنہ کے چہرے سے غصہ عیاں تھا۔۔
“اب میں چلتا ہوں۔۔برا مت مانیے گا۔۔ ٹیک کیئر” وہ کہتا پلٹ کر قدم بڑھانے لگا۔۔
“تو کیا سمجھتا ہے شفی اسے میرے پیچھے لگائے گا اور تو بچ جائے گا” وصی نے سیڑھیاں اترتے ہوئے خود کلامی کی۔۔
“اماں۔۔۔یہ دیکھیں۔۔یہ لڑکی کیسی ہے؟”
شائستہ بیگم نے تصویر دکھاتے ہوئے پوچھا
“ہاں۔۔ٹھیک ہے۔۔مگر دیکھ کر ہی پتا لگے گا۔۔”
اماں نے جائزہ لیتے ہوئے کہا
“کل چلتے ہیں دیکھنے۔۔” شائستہ بیگم نے کہا
“ہاں۔۔۔” اماں نے کہا
“اماں وصی سے بات کی۔۔؟” شائستہ بیگم نے پوچھا۔۔
“نہیں۔۔اس سے کیا بات کریں؟” اماں نے پوچھا
“اماں اس کے علم میں تو ہو ہم لڑکی دیکھ رہے ہیں۔۔اگر اسے اعتراض ہوا تو۔۔۔مجھے ایسا لگتا ہے۔۔” شائستہ بیگم نے کہا۔۔
“ہممم میں شفی سے بات کرتی ہوں۔۔” اماں نے کہا
موسم آج بہت اچھا تھا۔۔
ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھی
آسمان پر بادل چھائے تھے۔۔
وہ چائے کا کپ تھامے باہر آکر بیٹھ گیا۔۔
تبھی سامنے سے آتی حمنہ پر اس کی نظرپڑی۔۔
وہ تیور چڑھائے اس قریب آکر رکی۔۔
“مسٹر شفی مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی۔۔”
سینے پر ہاتھ باندھے وہ سامنے کھڑی تھی۔۔
“کیا ہوا؟” وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔
“آپ نے مجھے خود کہا وصی سے اٹیچ ہونے کا اور کال بھی آپ ہی نے کی۔۔آپ مجھ سے کال پر بات کرتے ہیں یہ افواہ آپ نے سب میں پھیلا دی۔۔۔” حمنہ نے غصہ سے کہا
“میں نے ایسا کب کہا؟” شفی چونکا
“آپ نے وصی کو نہیں بتایا۔۔اور میرا نمبر بھی دکھایا۔۔” حمنہ نے تلخی سے پوچھا
“نو۔۔میں نے ایسا کچھ نہیں کیا” شفی نے صاف انکار کیا
“مجھے یہ سب وصی نے خود کہا ہے۔۔چاہو تو بلا کر پوچھو۔۔اس نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ مجھے لائق کرتے ہیں” حمنہ نے کہا
“نہیں میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا۔۔” شفی روہانسی ہوا۔۔
“اس نے ایسا کیوں کہا؟” شفی سوچنے لگا۔۔
“چلیں ٹھیک ہے آپ نے نہیں کہا بٹ میں۔۔اب آپ کے پلان کا حصہ نہیں۔۔آپ کوئی اورلڑکی ڈھونڈیں” ڈاکٹر حمنہ نے صاف گوئی کی۔۔
“مگر۔۔۔” شفی نے کچھ کہنا چاہا۔۔پر حمنہ نے بات کاٹ دی۔۔
“پلیز آئی کانٹ ڈو دس اینیمور۔۔۔” وہ کہتی وہاں سے نکل گئی۔۔
اور وہیں کھڑا اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔۔
“کیوں کیسا لگا میرا پلان” وصی کی آواز پر وہ پلٹا۔۔
“وصی۔۔تو نے ڈاکٹر حمنہ کو کیا کہا ہے؟” شفی نے غصہ سے پوچھا
“کیوں۔۔پلان اچھا نہیں لگا۔۔؟” وصی نے مزے سے پوچھا
“وصی۔۔تو۔۔۔”
“شروعات تو نے کی۔۔کیوں میرے پیچھےلگایا تونے اسے؟” وصی نے سوال کیا
“میں نے تو تیرے لیے کیا تاکہ تو پھر سے پہلے والا وصی بن جائے۔۔” شفی نے کہا۔۔
“پہلے والا وصی اب کہیں نہیں ہے شفی۔۔” وصی نے سنجیدگی سے کہا
“وصی۔۔کسی کے جانے زندگی رک نہیں جاتی تجھے لائف میں آگے بڑھنا چاہیے۔۔ہمیں۔۔ہمیں پھر سے وہی وصی چاہیے جو ہنستا تھا۔۔کھیلتا تھا۔۔” شفی نے تلخی سے کہا
“مجھے تھوڑا وقت چاہیے یار۔۔” وصی نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا
“کتنا وقت۔۔؟۔۔۔ددو تیرا رشتہ ڈھونڈ رہی ہے” شفی نے کہا
“رشتہ؟”وہ چونکا
“ہاں۔۔۔تاکہ تو اپنی لائف میں مگن ہوجائے اور سب بھول جائے۔۔” شفی نے سمجھانا چاہا
“تم سب کو کیا لگتا ہے شفی۔۔میری شادی کردو گے تو میں نور کو بھول جاؤں گا۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہوگا میرے بھائی۔۔میں نہیں بھول سکتا اسے” وصی کہ کر پلٹ گیا۔۔
شاید نور کے ذکر سے ایک بار پھر اس کی آنکھوں میں امڈنے والے آنسوں وہ چھپانا چاہتا تھا۔۔
“مگر وصی۔۔ددو نے لڑکی دیکھ لی ہے۔۔ان کی خوشی کے لیے شادی کرلے۔۔” شفی نے کہا۔۔
“نہیں میں کسی کی زندگی خراب نہیں کرنا چاہتا۔۔آپ ددو کو منا کردیں مجھے شادی نہیں کرنی” وصی نے اسی انداز میں کہا
“آخر کب تک نہیں کرے گا؟” شفی نے پوچھا۔۔
“فلحال تو بلکل نہیں۔۔” وصی کہ کر وہاں سے نکل گیا۔۔
اورشفی سوچ میں پڑ گیا۔۔
پھر فون جیب سے نکال کر پھپھو کا نمبر ڈائل کیا۔۔
“ہیلو۔۔پھپھو” شفی نے کہا
“ہاں شفی کیسے ہو؟” پھپھو نے کہا
“ٹھیک ہوں۔۔پھپھو آپ لڑکی دیکھنے جارہے تھے نا؟”
شفی نے پوچھا
“ہاں۔۔جائیں گے۔۔کیوں؟” پھپھو نے پوچھا۔۔
“آپ منا کردیں۔۔مت جائیں۔۔وصی کسی صورت راضی نپیں شادی کے لیے۔۔” شفی نے ہار مانتے ہوئے کہا ۔
“مگر کیوں؟” انہوں نے حیرانی سے پوچھا
“بس پھپھو اسے کچھ ٹائم چاہیے۔۔ہمیں زبردستی نہیں کرنی چاہیے” شفی نے کہا
اور فون بند کر دیا۔۔
وقت ایسے ہی گزر رہا تھا۔۔
اسی روٹین میں۔۔
وصی پر کوئی خاص بدلاؤ نہیں آیاتھا۔۔
وہ اپنی زندگی اب اپنے مطابق جی رہا تھا۔۔
جہاں صرف نور کی یادیں تھیں۔۔
اس کی باتیں تھیں۔۔
وصی کی زندگی میں کسی دوسری لڑکی کے لیے جگہ نہیں تھی۔۔
شاید کوئی نور کی جگہ لے بھی نہیں سکتا تھا۔۔
وہ تھی ہی ایسی۔۔
سب سے الگ سب سے جدا۔۔
حور امتحان سے فارغ ہوچکی تھی۔۔
شفی اور وصی بھی گھرآئے ہوئے تھے۔۔
رات دیر سے پہنچنے پر وہ دونوں ہی سورہے تھے۔۔
شائستہ بیگم کچن میں ناشتہ بنا رہی تھی۔۔
جب حور کچن میں آئی۔۔
“مما ناشتہ تو کرلیا سب نے پھر یہ۔۔” حور نے پوچھا۔۔
“شفی اور وصی آئے ہیں نا۔۔” شائستہ بیگم نے بتایا
“وہ لوگ کب آئے؟” اسے حیرانی ہوئی
“کل رات میں آئے تھے۔۔۔تمہارے سر میں دردتھا رات۔۔ دوا لے کر سوچکی تھی میں نے اٹھایا نہیں۔۔” شائستہ بیگم نے کہا
“حور یہ چائے دیکھنا میں ان دونوں کو اٹھا کر آتی ہوں” شائستہ بیگم نے کہا
“جی مما۔۔” حور نے مختصر کہا۔۔
اور شائستہ بیگم باہر نکل گئی۔۔
“کیا پھپھو چائے میں اتنا میٹھا تیز کردیا آج” شفی نے چائے کی سپ لیتے ہی کہا۔۔
“میٹھا تیز ہوگیا؟” وہ پوچھنے لگی۔۔
“ارے پھپھو۔۔آپ سمجھ نہیں رہی۔۔یہ ڈائریکٹ تو بول نہیں سکتا کہ شادی کروا دو۔۔۔یہ حور کے ہاتھ کی چائے پینا چاہتا ہے ساری زندگی۔۔”
وصی نے چھیڑتے ہوئے کہا۔۔
“میں نے ایسا تو نہیں کہا۔۔” شفی نے اسے گھورا۔۔
“تو بچپن سے پھپھو کے ہاتھ کا کھا رہا تب تو نقص نہیں نکالے۔۔یہ جان بوجھ کر رہا ہے پھپھو تاکہ آپ لوگ اس کی شادی کروادیں۔۔” وصی نے شرارت سے کہا۔۔
شائستہ بیگم ہنسنے لگی۔۔
تبھی وہاں حور آئی۔۔پلیٹ تھامے۔۔
“آئیے مس حور۔۔آپ ہی کا انتظار تھا۔۔” وصی نے اسے مخاطب کیا۔۔
“میرا۔۔۔کیوں۔۔؟” حور نے آہستہ سے کہا۔۔
“آپ کی شادی کی بات ہورہی ہے۔۔آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟” وصی نے شرارت سے پوچھا۔۔
“جی۔۔۔” حور چونکی۔۔
“وصی۔۔” شفی نے اسے ٹوکا۔۔
“کیا؟” وصی نے ابرو اچکائی۔۔
اور چپ چاپ تیزی سے وہاں سے نکل گئی۔۔
“لو بھئی لڑکی کی بھی ہاں ہے۔۔پھپھو تیاری کریں” وصی پھپھو سے مخاطب تھا۔۔
“ہاں۔۔کرتی ہوں ابا سے بات” پھپھو نے ہنستے ہوئے کہا۔۔
وہ سب لاؤنج میں بیٹھے۔۔
شفی اور حور کی شادی کی تاریخ فکس کر رہے تھے۔۔
“اگلے مہینے کی تاریخ رکھ لیتے ہیں۔۔”
ددو نے کہا۔۔
“لیکن اماں۔۔ایک مہینے میں کیسے تیاری ہوگی؟”
شائستہ بیگم نے کہا
“ارے پھپھو سب ہوجائے گا۔۔آپ فکرنہیں کریں”
وصی نے جواب دیا
“اچھا تم لوگ تو چھٹی پوری ہوتے ہی چلے جاؤ گے پیچھے مجھے ہی تیاری کرنی ہے اکیلی کو” پھپھو نے کہا۔۔
“تو کیا ہوا۔۔ابھی کرتے ہیں نا تیاری۔۔جو رہ جائے گی وہ پھر کرلیں گے”
وصی نے تسلی دی
“اچھا۔۔پھر شام کو چلتے ہیں مارکیٹ” شائستہ بیگم نے کہا۔۔
“ہاں۔۔یہ دولہے میاں بھی تو ہیں نا۔۔یہ کروائیں گے کام” وصی نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔۔
“میں کوئی نہیں جارہا مارکیٹ۔۔” شفی نے کہا۔۔
“شادی اس کی ہے اور کام میں کروں۔۔منگنی میں بھی میں پھنسا تھا”
وصی نے گلہ کیا
“تو کیا ہوا۔۔ثواب ملے گا” شفی نے ہنس کر کہا۔۔
“تو بھی تھوڑا کما لے۔۔” وصی نے منہ بنایا
“تیری شادی میں۔۔۔ میں کروں گا نا”
شفی نے سادگی سے کہا۔۔
“میری ابھی نہیں ہورہی فلحال آپ اپنا سوچیں۔۔”
وصی نے ددو کی گود میں سر رکھتے ہوئے کہا۔۔
“اس کے بعد تیرا ہی نمبر ہے۔۔” ددو نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔۔
“ددو مجھے تو کبھی ایسے پیار نہیں کیا آپ نے۔۔” شفی نے خفگی سے کہا۔۔
“یہ چھوٹا ہے نا۔۔” ددو نے پیار سے کہا۔۔
مجھے تو بس پھپھو پیار کرتی ہیں۔۔” شفی نے کہا۔
“ساسو اماں جو ہیں تیری۔۔” وصی نے یک دم کہا۔۔
اور پھپھو کا ہاتھ اس کے سر پر لگا۔۔
“سدھر جا۔۔” پھپھو نے ہنس کر کہا۔۔
شفی اور حور کی شادی کی تیاریوں میں سب مصروف تھے۔۔
شفی بہت خوش تھا۔۔
وہ اپنے کمرے میں بیٹھا۔۔کسی گہری سوچ میں تھا۔۔
جب دروازے پر دستک ہوئی۔۔
“کم ان۔۔” شفی نے کہا۔۔
حور ہچکچاتی اندر داخل ہوئی۔۔
“یہ آپ کی چائے۔۔۔” اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی۔۔
“حور۔۔بیٹھو۔۔” شفی نے مسکرا کر کہا۔۔
“نہیں ۔وہ مجھے کچھ کام ہے ۔” حور نے نظریں جھکائے کہا۔۔
“بیٹھو تو سہی تمہیں کچھ دینا ہے۔۔” شفی نے کہا۔۔
اور اٹھ کھڑا ہوا۔۔
وہ چپ چاپ بیٹھ گئی۔۔
شفی نے دراز سے ایک ڈبہ نکالا۔۔
اور اس کی طرف بڑھایا۔۔
حور نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔
“پکڑو۔۔تمہارےلیے ہے” شفی نے مسکرا کر کہا
حور نے ہچکچاتے ہوئے ڈبہ تھام لیا۔۔
“کھولو۔۔” شفی نے کہا۔۔
اور وہ کھولنے لگی۔۔
سامنے ہی اس کے ایک خوبصورت موبائل تھا۔۔
اسے دیکھ حور کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔
“کیسا لگا۔۔؟” شفی کی آواز پر اس نے سر اٹھا کراسے دیکھا۔۔
“بہت اچھا۔۔” حور نے خوشی سے کہا۔۔
“وہ کیا ہے نا۔۔۔۔تم مجھ سے بات ہی نہیں کرتی۔۔میں وہاں تم یہاں۔۔اب اسی سے کام چلانا ہوگا” شفی نے شرارت سے کہا۔۔
اور وہ مسکرا کر سر جھکا گئی۔۔
“کرلوگی نا مجھ سے بات۔۔” شفی نے پوچھا۔۔
“مگر مجھے تو نہیں آتا یہ چلانا۔۔” حور نے معصومیت سے کہا۔۔
“میں سکھا دوں گا۔۔۔” شفی نے مسکراتے ہوئے اس کی معصومیت کو دیکھا۔۔
“بلکل بھئی۔۔۔یہ سکھانے میں بڑا ایکسپرٹ ہے۔۔” وصی کہتا کمرے میں داخل ہوا۔۔
اور وہ دونوں چونکے۔۔
“وصی۔۔۔تو کباب میں ہڈی ہی بنا کر۔۔۔” شفی نے منہ بناتے ہوئے کہا۔۔
“میں تو وہ ہڈی ہوں جس کے بنا کباب بننا مشکل ہے۔۔بھول مت میں نے شادی کی بات آگے بڑھائی تھی۔۔”
وصی نے احسان جتایا۔۔
اور شفی کا قہقہہ گونجا
“حور اٹھ کر باہر جانے لگی۔۔کہ وصی نے اس کا ہاتھ پکڑا۔۔
“کہاں جا رہی ہو؟۔۔۔موبائل تو سیکھتی جاؤ”
وصی نے شرات سے کہا۔۔
اور اس کا ہاتھ چھوڑ شفی کے ساتھ مل کر ہنسنے لگا۔۔
حور لمحہ بھر اسے دیکھتی رہی۔۔
کتنے دن بعد وہ اسے ہنستا دیکھ رہی تھی۔۔
پھر سے اسی وصی کی جھلک نظر آرہی تھی۔۔جو کہیں گم ہوگیا تھا۔۔
پھر مسکرا کر باہر نکل گئی۔۔
“مما۔۔یہ دیکھیں۔۔موبائل۔۔”
حور نے کمرے میں آتے ہی کہا۔۔
شائستہ بیگم جو وارڈ روب سے کپڑے نکالنے میں مصروف تھی۔۔اس کے ہاتھ میں موبائل دیکھ چونکی۔۔
“یہ کہاں سے آیا۔۔” انہوں نے حیرت سے پوچھا۔۔
“یہ مجھے شفی نے دیا ہے۔۔اچھا ہے نا مما؟”
حور نے خوش دلی سے پوچھا
“ہاں۔۔اچھا ہے۔۔مگر تمہیں تو آتا ہی نہیں چلانا” شائستہ بیگم نے مسکرا کر کہا۔۔
“اوہو مما۔۔۔سیکھ لوں گی۔۔چلاؤں گی تو آئے گا نا”
حور نے کہا۔۔
“اچھا۔۔۔جاؤ۔۔لان سے چائے کے کپ اٹھا کر کچن میں رکھو۔۔چائے پی لی ہوگی سب نے۔۔” شائستہ بیگم نے کام سونپا۔۔
“جی۔۔مما” وہ کہتی موبائل سائیڈ ٹیبل کے دراز میں رکھ کر چلی گئی۔۔
اور شائستہ بیگم پھر سےکام میں مصروف ہوگئی۔۔