“خود کو تمہارے حوالے کرنے سے بہتر ہے میں اللہ کے حوالے کردوں۔ اور ابشام زبیر۔۔۔! میں نے خود کو اس کے حوالے کردیا ہے جو تم جیسے ناخداؤں سے زیادہ طاقتور ہے۔”
عشال نے اپنی سرخ کلائی تھام کر کہا تھا۔
ایک جھٹکے سے شامی نے عشال کو دبوچا اور بیڈ پر دھکیلا تھا۔ وہ توازن کھو کر نرم بستر پر گری تھی۔ شامی نے اس کے دونوں ہاتھ مضبوطی سے جکڑ کر اس پر پوری طرح حاوی ہوا۔ عشال کسمسائی لیکن شامی کی گرفت کمزور نہیں پڑی۔ شامی اس کی آنکھوں میں اپنی نظریں گاڑتے ہوئے کہا۔
“تمہارا اور میرا خدا، ہم دونوں کو ایک راستے کا مسافر کر چکا۔۔۔۔،اب صرف میں ہوں عشال! صرف میں۔ تمہاری ساری کشتیاں جل چکیں۔ تمہاری حقیقت صرف میں ہوں۔”
اور پھر پیچھے ہٹ گیا۔
عشال اپنی جگہ سے ہل نہ سکی۔ تذلیل کے احساس نے اس کی آنکھیں بھگو دیں۔ جبکہ وہ کمرے سے باہر جا چکا تھا۔
رات کچھ اور لمبی ہوگئی تھی۔ عشال نے بے بسی سے چھت کے پار آسمان کو کھوجنا چاہا تھا۔ یا پھر شاید آسمان کے مالک کو۔
****************
“مجھے سمجھ نہیں آرہا، اب تک آپ لوگ کیا سوچ رہے ہیں؟ فوری طور پر پولیس سے رابطہ کیوں نہیں کیا گیا؟”
ساری روداد سننے کے بعد شہیر کے کان سرخ ہوگئے تھے۔ اور یہ وہ موقع ہوتا تھا۔ جب شہیر ضییر ضیاء سے بحث نہیں کی جاسکتی تھی۔ صرف اس کی مانی جاتی تھی۔
“تم کیا چاہتے ہو شہیر؟ اپنی عزت کو اشتہار بناڈالیں؟
پولیس سے مدد لینے کا مطلب جانتے ہو تم؟”
ضیاءالدین صاحب نے جھنجھلاہٹ بھرے لہجے میں جواب دیا تھا۔
“بابا! آپ لوگوں سے مجھے اس سوچ کی توقع نہیں تھی۔ ہمارے پاس یہی ایک آپشن ہے۔ مزید دیر کرنے سے وہ عشال کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔”
شہیر ضیاء ابھی سلگتی حقیقتوں سے نا آشنا تھا۔
“نقصان تو ہم اٹھا چکے، شہیر میاں! اب تو صرف اپنی عزت کو چار کاندھے دینا باقی ہے۔”
اس دوران پہلی بار آغا جان نے لب کشائی کی تھی۔ ان کے لہجے میں آزردگی تھی۔
“پلیز آغا جان! اس نام نہاد عزت کو ایک طرف رکھ کر عشال کا سوچیں۔ اسے ہماری ضرورت ہے۔ وہ خطرے میں ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا آپ لوگ کیا سوچ رہے ہیں؟
آپ سنبھالیے اپنی نام نہاد عزت! لیکن میرے نزدیک مزید انتظار مجرمانہ خاموشی ہے۔”
اس کا تنفس قابو سے باہر ہورہا تھا۔ شہیر نے باہر کی طرف قدم بڑھادیے۔
“شہیر! کیا تم کیچڑ میں پتھر پھینک کر ہمارا دامن سیاہ کرنا چاہتے ہو؟”
آغا جان کی لرزتی آواز نے شہیر کے بڑھتے قدموں کو زنجیر کیا تھا۔
“میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن آپ ہی بتائیں ہمارے پاس اور کون سا آپشن رہ گیا ہے؟”
شہیر نے بے بسی کی انتہا پر آغاجان اور ضیاءالدین صاحب کی طرف دیکھا تھا۔
“ہم زبیر عثمانی سے بات کر رہے ہیں۔”
ضیاءالدین صاحب نے اسے مطلع کیا تھا۔
***************
“عثمانی ولا پر چاندنی کی لکیر سیاہ تاروں سے الگ کررہی تھی۔ مسٹر عثمانی ٹراؤزر اور لمبی آستین کی ٹی شرٹ میں ملبوس اپنے ڈرائنگ روم کے صوفے پر براجمان تھے۔ انگلیوں میں قیمتی سگار دبا تھا اور چہرہ پرسکون تھا۔ اس کے برعکس عائشہ نے ڈھیلی ڈھالی قمیض اور پینٹ نما ٹراؤزر زیب تن کر رکھا تھا۔ شانے اونی شال سے ڈھکے تھے اور چہرے پر اضطراب تھا۔ جبکہ نظریں سامنے بیٹھے زبیر عثمانی پر جمی تھیں۔
“جانتے ہو تم نے کیا کیا ہے؟
ایسا کیسے کر سکتے ہو تم زبیر عثمانی؟
عائشہ عالم طیش میں زبیر صاحب پر الٹ پڑی تھیں۔
” بیٹھ جاؤ عائشہ! تمہاری عادت ہو چکی ہے اوور ری ایکٹ کرنے کی۔ ذرا سی بات کا ایشو بنالیا ہے تم نے۔”
زبیر عثمانی کے اطمینان میں اب بھی تزلزل پیدا نہیں ہوا تھا۔
“اغواکیا ہے تمہارے بیٹے نے اس لڑکی کو۔ سگنل نہیں توڑا! تم جانتے ہو، کیا ہوسکتا ہے اس کے ساتھ؟”
عائشہ نے زبیر کو ہوش دلانے کی کوشش کی تھی۔
“مجھے شامی سے اس حرکت کی توقع تو نہیں تھی۔ لیکن آخر اس نے ثابت کردیا کہ وہ صرف جیتنے کے لیے پیدا ہوا ہے۔ تم پریشان مت ہو، میں سنبھال لوں گا سب کچھ۔ اس کا باپ کس لیے بیٹھا ہے؟”
زبیر عثمانی کا سگار مسلسل دھواں پھینک رہا تھا۔
“سورج کے غروب کا ایک وقت متعین ہے زبیر عثمانی! تمہارا یہ غرور تمہیں منہ کے بل زمین پر پٹخے گا۔ تناور درختوں کو بھی آندھیاں جڑ سے اکھاڑ ڈالتی ہیں۔ اتنا پستی میں مت گرو کہ پاتال بھی شرم سے منہ چھپالے۔”
اس لمحے عائشہ کے لہجے میں زبیر عثمانی کے لیے صرف کراہیت تھی۔
“تمہارے یہ فضول لیکچرز مجھے خوفزدہ نہیں کرسکتے۔ میں وہ آفتاب ہوں جو رات کو شکست دینا جانتا ہے۔ دیکھ لو! تمہیں حاصل کرنا ممکن تھا کیا؟ لیکن میں نے حاصل کیا۔ آج تک وہ منزل میری زندگی میں کبھی نہیں آئی جسے میں نے چاہا اور حاصل نہیں کیا۔
رہی بات شامی کی، تو یہ سب تمہیں سمجھ نہیں آسکتا۔”
زبیر عثمانی کے چہرے پر بے نیازی ہی بے نیازی تھی۔
“میں تمہیں نہیں سمجھوں گی؟ غلط فہمی ہے تمہاری! لیکن آج میں تمہیں ایک چیلنج دے رہی ہوں، تمہاری فنا اس لڑکی کی آہ میں ہے۔ تم اپنے حصے کی غلطی کرچکے زبیر عثمانی!”
اتنا کہہ کر عائشہ وہاں سے جاچکی تھیں۔
صاحب! کوئی آغا سمیع الدین صاحب آئے ہیں۔
ملازم نے اطلاع دی۔
ٹھیک ہے انھیں بھیجو!”
زبیر عثمانی سنبھل کر بیٹھ گئے۔
“جی آغا صاحب کیا خدمت کرسکتا ہوں آپ کی؟”
زبہر عثمانی نے شگفتگی سے دریافت کیا۔ لیکن گفتگو کے لیے آغا جان نے ضیاءالدین صاحب کی طرف دیکھا تھا۔
“ہمیں آپ کے بیٹے سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمیں صرف اپنی بیٹی واپس چاہیے۔ زبیر صاحب!”
ضیاءالدین صاحب براہ راست مدعا پر آئے تھے۔
“آغا صاحب۔۔۔!
دیکھیے آپ کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔ ہمارا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔”
زبیر عثمانی نے ہمدردانہ لہجے میں انھیں جواب دیا تھا۔
“زبیر صاحب!
ضیاءالدین انصاری نے ذرا سا آگے کو جھک کر ان کے چہرے پر نظریں گاڑی تھیں۔
آپ کا لڑکا ایک عرصے سے ہماری بچی کو ہراساں کررہا تھا۔ اس نے کئی بار اس کا راستہ روکا۔ اور اس حرکت کی توقع اس کے علاوہ کسی اور سے نہیں کی جاسکتی۔ یہ بات آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں اور ہم بھی۔”
“آں۔۔آں۔۔!”
زبیر صاحب نے راکھ جھاڑتے ہوئے گردن کو نفی میں جھٹکا۔
“یہاں آپ تھوڑی غلطی کرگئے۔ ہمارا بیٹا اسے صرف پسند کرتا تھا۔ اسی وجہ سے شادی کے لیے پرپوزل بھی بھیجا۔ اور پرپوزل بھیجنا ہراسمنٹ کے زمرے میں نہیں آتا۔ آغا صاحب!
ہماری بس اتنی سی غلطی ہے۔ لیکن آپ چاہیں تو ہم اس مسئلے میں آپ کی پوری مدد کرسکتے ہیں۔”
زبیر عثمانی نے اعتماد سے انھیں جواب دیا تھا۔
“زبیر صاحب! ہم پولیس کے پاس جاسکتے تھے۔ لیکن ہم نے پہلے آپ سے بات کرنا مناسب سمجھا۔ لیکن شاید آپ ہماری بات سمجھنا نہیں چاہتے۔ کوئی بات نہیں۔ اب ہم تھرو پراپر چینل آپ سے بات کریں گے۔”
چلیے آغا جان!”
ضیاءالدین صاحب نے اکھڑ لہجے میں ان کی آفر رد کردی تھی۔اور جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
“آغا صاحب!”
زبیر صاحب بھی ان کے ساتھ ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔
آپ کو یہاں آنے کی تکلیف کرنا پڑی۔ مجھے اس کے لیے افسوس ہے۔ لیکن میرا بیٹا آج شام ہی آسٹریلیا جا چکا ہے۔ مجھے خوشی ہوگی آپ کی مدد کر کے۔ اگر آپ چاہیں۔”
“بہت شکریہ زبیر صاحب! ہمارے سامنے ابھی کئی راستے کھلے ہیں۔ آپ سے جس طرح کی مدد درکار تھی، اس میں آپ قطعی ناکام رہے۔”
اور واپسی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
زبیر عثمانی بھی اخلاقا کھڑے ہوگئے تھے۔ ان کے جانے کے بعد عائشہ نے بھی نخوت سے رخ موڑلیا تھا اور ڈرائنگ روم میں زبیر عثمانی تنہا بیٹھے رہ گئے تھے۔
****************
رات کی تاریکی میں صبح کی نیلاہٹ میں گھل رہی تھی۔ پرندے بیداری کا اعلان کرتے اپنے آشیانوں کو الوداع کہنے لگے۔
شہر سے باہر یہ درختوں سے گھرا فارم ہاؤس تھا۔ جہاں دور تک کھجور اور ناریل کے درختوں کا راج تھا۔ ڈرائیو وے سے رہائشی عمارت تک پختہ سزک تھی۔ مگر پورچ کس طرف تھا، ایک نگاہ میں پتہ نہیں چلتا تھا۔
عشال نے ٹھنڈی آہ بھرتے پیشانی کھڑکی کے بند شیشے سے ٹکائی تھی۔ باہر ہوا کے جھکڑ شیشے سے سر پٹک رہے تھے۔
“یہ راستے تمہارے لیے کھل سکتے ہیں عشال۔ اگر تم میری چھوٹی سی بات مان لو۔”
عشال نے مڑ کر سوالیہ نظروں سے اپنے صیاد کو دیکھا تھا۔ جو کمرے کی دہلیز میں کھڑا اس سے مخاطب تھا۔
“تم بس صارم سے اتنا کہہ دو کہ تم اپنی مرضی سے میرے ساتھ آئی ہو۔”
شامی نے قدرے تؤقف کے بعد کہا تھا۔
“اور اس کے بعد؟”
عشال نے سینے پر بازو لپیٹتے ہوئے اس سے پوچھا تھا۔
“پھر وہ ہمارے درمیان نہیں رہے گا۔”
شامی کے چہرے پر امید جگمگائی تھی۔
“تو تمہارا خیال ہے یہ جو کچھ تم میرے ساتھ کررہے ہو وہ محبت ہے؟”
عشال نے کھڑکی سے پشت ٹیک کر پوچھا تھا۔
“ہاں! اور میری محبت ایسی ہی ہے۔ جو چیز میری ہوتی ہے پھر وہ میری ہوتی ہے یا پھر کسی کی نہیں۔”
شامی نے اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
“تم ضد کو محبت کا نام دے رہے ہو۔۔۔۔ابشام زبیر! محبت کبھی اذیت نہیں دیتی۔ محبت تو روح کی وہ آواز ہے جو دو دلوں کو باہم منسلک کردیتی ہے۔ ایسے کہ ایک دوسرے کی عزت، مان، بھروسہ اور خوشی ہی زندگی کا حاصل بن جاتی ہے۔ تم دیکھو اپنی طرف! تمہاری محبت نے مجھے کیا دیا، رسوائی، اذیت، ذلت؟”
کیا اسے محبت کہتے ہیں؟”
عشال نے ملتجی لہجے میں اس سے سوال کیا تھا۔
“مجھے یہاں تک تم لے کر آئی ہو، بخدا تمہیں تکلیف دینے کا میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ مگر تم بیچ میں صارم کو لے آئیں۔ وہ تمہیں مجھ سے زیادہ نہیں چاہ سکتا عشال۔
شامی کے انداز میں اصرار تھا۔
“لیکن وہ مجھے عزت دے سکتا ہے۔ اس کی محبت نے میرے سر سے عزت کی چادر نہیں چھینی۔ مجھے اعتبار کا تحفظ دیا ہے۔ تم بتاؤ تمہاری محبت نے مجھے کیا دیا ہے؟ میں کس بنیاد پر تمہارے لیے صارم کو چھوڑ دوں؟”
“اگر میں بتادوں تو کیا تم واقعی صارم کو چھوڑ دو گی؟
شامی نے جیسے ڈیل کرنا چاہی۔
“اگر تمہاری دلیل مضبوط ہوئی تو تو ہاں۔”
عشال نے سر اٹھا کر دعوی کیا۔
“تم میرا جنون ہو، عشال! اور میں واحد انسان ہوں جو تمہاری ذات پر اٹھنے والے کسی سوالیہ نشان کو تسلیم نہیں کرتا۔۔۔۔اور نہ دنیا کی!”
لیکن صارم تو اب تمہارا اعتبار بھی نہیں کرے گا۔”
عشال نے شامی کی آنکھوں میں جھانکا۔ ان آنکھوں میں اسے یقین نظر آرہا تھا۔ ایسا یقین جو عشال کا اعتماد متزلزل کررہا تھا۔
“صارم کو مجھ پر یقین کرنا ہوگا۔”
عشال نے جیسے خود کو باور کرایا تھا۔
“ادھر دیکھو!”
شامی نے اس کا رخ کھڑکی سے چھن کر آتی روشنی کی معمولی لکیر کی طرف کیا تھا۔
“ایک نیا دن بیدار ہوچکا ہے۔ ایک پوری رات گذر چکی ہے تمہیں میرے ساتھ! اب صارم تو کیا تمہارے گھر والے بھی تم پر فاتحہ پڑھ چکے ہوں گے۔”
عشال کے وجود میں شامی کے برف لفظ زہر بن کر سرائیت کر گئے۔
*****************
“آپ لوگ کب تک اس خبر کو دنیا سےشیدہ رکھ سکیں گے ؟ضیاءالدین صاحب اور آغاجان کو ناکام ونامراد لوٹتے دیکھ کر شہیر نےکہا
“تم یہاں ہمارا مذاق اڑانے بیٹھے ہو؟”
ضیاءالدین صاحب نے شہیر کو گھرکا تھا۔
“آپ کب تک حقائق سے منہ چھپاسکتے ہیں؟ شام ہوتے ہی ہمیں پھر سے انھی سوالوں کا سامنا ہوگا۔ آج عشال کی بارات آنی ہے۔ ہمارے پاس فیصلہ کرنے کے لیے بہت کم وقت ہے۔ بابا سمجھیں میری بات!”
شہیر نے انھیں سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
“یہ سب ہم بھی جانتے ہیں لیکن پولیس کے پاس جانے سے بات باہر نکل جائے گی۔ اور یہ ہمیں کسی طور گوارا نہیں۔”
آغا جان جیسے کشمکش میں تھے۔
“اب صرف ایک ہی راستہ ہے۔”
ضیاءالدین صاحب نے قدرےتامل سے کہا۔
سب کی سوالیہ نظریں ان کی طرف اٹھیں۔
“مرتضی! وہ یہ معاملہ اچھی طرح سنبھال سکتا ہے۔ آغا جان! اگر آپ اجازت دیں؟”
ضیاءالدین صاحب نے قدرے متامل انداز میں اپنی بات کہی تھی۔
“ہمارے سارے راستے بند ہوچکے ہیں ضیاءالدین! کچھ بھی کرو شام سے پہلے عشال کو یہاں ہونا چاہیئے۔”
آغاجان نے گویا ہتھیار ڈالے تھے۔
شہیرنے سکھ کا سانس خارج کیا تھا۔
******************
درختوں پر چڑیوں کا ڈال ڈال کا کھیل جاری تھا۔ وہ منہ کھولے چوں چوں کرتیں ایک شاخ سے دوسری شاخ پر پھدک رہی تھیں۔ نورین بہت دیر سے انہماک سے ان کا یہ کھیل دیکھ رہی تھی۔ لیکن اس کا ذہن مسلسل سوچنے کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہورہا تھا۔ اسی وجہ سے اب اس کے سر میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگی تھیں۔ نورین نے ایک بار پھر دکھتے سر کو انگلی کی پوروں سے دبایا تھا۔
“کافی!”
نورین چونک کر مڑی۔ شہیر کافی کا مگ تھامے اس کے سامنے کھڑا تھا۔
“تم ٹھیک ہو؟”
شہیر نے اس کا چونکنا محسوس کیا تھا۔
“ہاں! نہیں، میرا مطلب تھا اس سچویشن میں کون پرسکون ہوسکتا ہے۔ سب ہی ٹینشن برداشت کررہے ہیں۔
نورین خود نہیں جانتی تھی وہ کیا کہنا چاہ رہی ہے اور کیا کہہ رہی ہے؟
“نہیں تم مجھے کچھ زیادہ اسٹریس میں لگ رہی ہو، تمہاری رنگت بھی زرد ہورہی ہے۔ نورین! اگر کوئی بات تمہیں پریشان کررہی ہے تو مجھ سے شیئر کرسکتی ہو۔”
شہیر نے نرمی سے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ نورین کچھ اور گڑبڑائی تھی۔ خود پر بمشکل قابو پاتے ہوئے بولی۔
“تم کیا کہنا چاہ رہے ہو؟ میں صرف عشال کے لیے پریشان ہوں۔”
نورین قدرے تلخ ہوئی تھی۔
شہیر نے حیران نظروں سے اس کا ردعمل دیکھا۔
“آف کورس تم پریشان ہو! میں کچھ مختلف نہیں کہنا چاہ رہا۔ مگر مجھے تمہاری طبیعت خراب لگ رہی ہے۔ میں یہ میڈیسن لایا تھا تمہارے لیے یہ اسٹریس کو کم کرتی ہے۔”
شہیر کا لہجہنارمل تھا۔ لیکن نورین نارمل نہیں تھی۔
“خدا کے لیے شہیر! کسی وقت تو اپنی میڈیکل کی پٹاری بند رکھا کرو! نہیں ہے مجھے کسی میڈیسن کی ضرورت۔”
اتنا کہہ کر نورین لاؤنج چلی گئی تھی۔ کمرے میں آتے ہی اس نے دروازہ مقفل کرلیا تھا۔
وہ اس وقت ساری دنیا سے چھپ جانا چاہتی تھی۔ نہ جانے کیوں اسے شہیر سے خوف آرہا تھا۔ جیسے وہ نورین کے چہرے پر ساری کہانی پڑھ چکا ہو۔
“آئی ایم سوری عشال! پلیز پلیز واپس آجاؤ؟ تمہیں کچھ نہیں ہونا چاہیے عشال! پلیز!”
وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپا کر رو پڑی تھی۔
****************
عشال کی نجانے کب آنکھیں بند ہوگئی تھیں؟ دھوپ کی کرنوں نے اس سرد کمرے کی فضا کو نرمی سے گدگدایا تو روشنی نے اس کی آنکھیں چندھیا دیں۔خود کو نرم بستر پر پاکر عشال کو خود سے کراہیت محسوس ہوئی۔ شامی نے جس وقت روشن صبح سے اس کی ملاقات کروائی تھی۔ وہ اس تلخی کو سہہ نہیں پائی۔ وہ شدت غم سے شامی کی طرف مڑی تھی۔عشال اس کے دعوے کی نفی کرنا چاہتی تھی لیکن اس سے پہلے ہی حواس اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ اس نے کئی گھنٹون سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ نقاہت نے اب بھی اسے بے حال کر رکھا تھا۔ اس وقت پیٹ کی آگ نےاسے نیا ادراک دیا۔ اسے ہر حالمیں یہاں سے نکلنا تھا۔ اور اس کے لیے توانائی کی ضرورت تھی۔
عشال کی نظر رات کے باسی سینڈوچز پر ٹھہری۔ اس نے کمبل ہٹا کر اٹھنے کی کوشش کی لیکن سر بری طرح چکرایا۔ وہ دوبارہ گرنے کو تھی کہ کاؤچ کا بازو تھام کر بیٹھ گئی۔
“گڈ مارننگ!”
شامی تازہ ناشتے کی ٹرے ہاتھ میں تھامے اندر داخل ہوا۔اس کے لہجے میں بشاشت تھی۔
مکھن آملیٹ اور گرم گرم چائے۔کی خوشبو عشال کے نتھنوں تک پہنچی اور وہ کراہ کر رہ گئی۔
آہ! یہ بھوک۔
عشال نے اس سے بحث نہیں کی۔ بس چپ چاپ کاؤچ پر بیٹھ گئی اور توس کو بغیر چائے کے ہی دانتوں سے کترنا شروع کردیا۔ اس دوران شامی نے دلچسپی سے اسے دیکھا۔ اور بولا۔
“ویسے تو باہر دن کافی نکل چکا ہے لیکن میرے لیے صبح تمہارے ساتھ ہی شروع ہوئی ہے۔ گڈ چیج!”
اور کافی کا مگ تھام کر چسکیاں لینی شروع کردیں۔ عشال نے ایک خاموش نگاہ شامی پر ڈالی۔
“ایسے مت دیکھو، میں نے تمہارے ساتھ کچھ برا نہیں کیا۔”
عشال نے ہاتھ جھاڑے اور طنز بھری مسکراہٹ کے ساتھ شامی کو دیکھا۔
“تم اسے اچھا کہہ سکتے ہو؟ جو کچھ میرے ساتھ کرچکے ہو؟”
“مجبوری تھی ڈارلنگ! تم میری محبت سمجھنے کو تیار ہی نہیں تھیں۔”
شامی نے مگ منہ سے دوبارہ لگا لیا اور کافی کی گرمائش سے ہاتھ سینکنے لگا۔
“یہ کیسی محبت ہے، جو انسان ہونے کے ناطے مجھے پسند نا پسند کا بھی اختیار دینے کو تیار نہیں؟”
“سمپل سی بات ہے ڈئیر! میں تمہارے ساتھ کسی اور کا وجود برداشت نہیں کرسکتا۔ اور تم مجھے اپنانے کو تیار نہیں، تو پھر آخری آپشن میرے پاس یہی تھا جو میں نے یوز کرلیا۔ اب ایسا ہے کہ تمہاری زندگی میں آخری آپشن میں ہی ہوں۔ اور اس بات کو تمہارا ذہن بھی قبول کرچکا ہے۔ صرف تم اپنی ضد چھوڑنے کو تیار نہیں ہو۔بٹ! یہ میرے لیے اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ جب تک تم مکمل میری نہیں ہوجاتیں تم یہاں آرام سے رہ سکتی ہو۔ now ball is in your cort۔
اتنا کہہ کر وہ مسکرا دیا۔
عشال خون کا گھونٹ لے کر رہ گئی۔
“تمہیں تمہارے ہی ہتھیاروں سے مات نہ دی تو میں آغا سمیع اکدین کا خون نہیں!”
عشال نے دل ہی دل میں خود سی عہد کیا۔ شامی ٹرے ہاتھ میں لیے واپس پلٹ چکا تھا۔
باہر سائے تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ تیز سیلی ہوا کچھ بوجھل سی ہو چلی تھی۔ شاید آج کسی وقت بارش متوقع تھی۔
*****************
سنہری کلاہ کے ساتھ سیاہ دہلوی شیروانی پہنتے ہوئے بھی صارم کشمکش کا شکار تھا۔ رات سے اب تک کا وقت اس نے مسلسل انتشار اور سوچوں کے زیر اثر گذارا تھا۔ وہ اب بھی تیاری کے لیے آمادہ نہیں تھا۔ وہ آغا جان سے ملنا چاہتا تھا۔ لیکن ان سے مل کر کیا کہنا تھا؟ اس سوال کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔
“صارم!”
آغا صاحب تم سے بات کرنا چاہتے ہیں مجھے تو ان کی کوئی بات سمجھ نہیں آرہی۔”
شافعہ اس کا سیل فون ہاتھ میں لیے چلی آئی تھیں۔ اور وہ جو بے دلی سے بارات کے لیے تیاری کررہا تھا۔ چونک کر مڑا تھا۔
“جی!”
دوسری طرف ضیاءالدین صاحب تھے۔
“بیٹا! ایک ایمرجنسی ہوگئی ہے، اغا جان کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی ہے۔ آپ لوگ کچھ مہلت کی درخواست تھی۔
“انکل! یہ باتیں فون پر نہیں کی جاتیں، مل کر بات کرتے ہیں، میں آرہا ہوں۔”
ضیاءالدین صاحب سیل فون کو اور شافعہ صارم کا چہرہ دیکھ کر رہ گیئں۔
“کیا ہواضیاء؟”
سطوت آراء نے فکرمندی سے پوچھا۔
“وہ آرہا ہے آغا جان!”
آغا جان کا چہرہ پریشانی کا غماز تھا۔
“میںاب بھی یہی کہوں گا، آپ لوگ سچ چھپا کر غلطی کررہے ہیں۔”
شہیر آگے آیا تھا۔
***********************
“کیا سوچ رہی ہو؟ اگر تو یہاں سے نکلنے کا پلان کررہی ہو تو، سوری ڈیئر یہ بہت مشکل ہے۔ کیونکہ یہاں میں اکیلا نہیں ہوں۔ میرے باپ کے پالے ہوئے بھوکے کتے باہر آوارہ گردی کررہے ہیں۔ وہ میرے علاوہ کسی کی بو بھی برداشت نہیں کرتے۔ ویسے تو نیچے لاؤنج کا دروازہ لاک ہے لیکن جیسے ہی تم یہاں سے نکلنے کی غلطی کرو گی مجھ سے پہلے وہ تمہاری بوٹیاں نوچ ڈالیں گے۔ اور یہ اذیت ناک موت تمہارا انتخاب ہرگز نہیں ہوگی، ایم آئی رائٹ؟”
شامی نے کمرے کا ہیٹر آن کرتے ہوئے عشال سے کہا تھا۔ جو پشت پر ساکت کھڑی تھی۔ پہلے کی نسبت وہ پرسکون بھی دکھائی دے رہی تھی۔
“تم نے یہ کیوں سوچا میں تمہیں چھوڑ دوں گی؟”
شامی چونک کر مڑا تھا۔
“کیا کہا تم نے؟”
شامی کو لگا اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے یا پھر عشال کی بات سمجھنے میں۔
“تم ٹھیک کہتے ہو شامی! میرے پاس اب کوئی آپشن نہیں۔”
شامی کی آنکھوں میں ایک لمحے کو حیرت لہرائی پھر بے یقینی بھر گئی۔
“واقعی۔۔۔۔؟ تم یہ دل سے کہہ رہی ہو؟”
“نہیں! حقائق کو نظر میں رکھ کر کہہ رہی ہوں۔۔۔ دل سے کہتی تو وہ دھوکہ ہوتا۔ دل ہمیشہ خود فریبی میں مبتلا رکھتا ہے۔ اور میں خود کو مزید فریب نہیں دے سکتی۔ میرے پاس تمہارے سوا کوئی راستہ نہیں رہ گیا!”
عشال کے چہرے پر شکست خوردگی چھائی تھی۔
“تم ایک بار مجھ پر بھروسہ کرکے دیکھو! میں پوری دنیا کو تمہارے قدموں میں جھکا دوں گا۔”
شامی نے جوش سے مغلوب لہجے میں اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھر لیا تھا۔
“ایسے نہیں شامی!”
عشال نے خود کو اس کی گرفت سے چھڑاتے ہوئے کہا تھا۔
“تم بھول رہے ہو، جب تک صارم بیچ میں ہے۔ میں تم پر حرام ہوں۔ اور اگر تم چاہتے ہو میں ہمیشہ کے لیے تم پر حرام نہ ہوجاؤں؟ تو سب کچھ پراپر طریقے سے ہونا چاہیے۔”
عشال نے قدرے جھجک کر کہا تھا۔ شامی اس کی پشت پر تھا۔
“مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا۔ تم ہاں کہہ دو میرے لیے یہی کافی ہے۔”
شامی ایک بار پھر اس کے نزدیک ہوا تھا۔
“لیکن میرے لیے نہیں ہے۔”
عشال نے رخ پھیر کر کہا تھا۔
پھر کیا چاہتی ہو تم؟”
شامی نے الجھ کر پوچھا۔
“طلاق!”
اور شامی جیسے نیند سے چونکا تھا۔
****************
“رشتوں کے درمیان اعتماد بھروسہ اور مان تعلق کو مضبوط کرتا ہے۔ لیکن اس سب کی بنیاد سچ ہے۔ اور آپ نے وہی مجھ سے چھپایا۔ میری آنکھ بارہ سو فٹ کی بلندی سے خطرہ بھانپ سکتی ہے۔ کیا میں اس لڑکی کو نہیں پہچان سکتا جس سے میرا نکاح ہوا ہے؟
کاش آپ نے ایک بار مجھ پر بھروسہ کر لیا ہوتا تو موقع پر ہم صورتحال سنبھال لیتے۔ لیکن اب۔۔۔۔! اٹھارہ گھنٹے گذر چکے ہیں۔ آپ جانتے ہیں اس کا مطلب۔۔؟”
ضیاءالدین صاحب کو لگا ان کی گردن میں بھاری رسی کا پھندا آن پڑا ہے۔ جس کے وزن سے ان کی گردن اور شانے اٹھنے سے انکاری ہیں۔
صارم سنہری دھاری دار سیاہ شیروانی پہنے لاؤنج کے صوفے ہر بیٹھا ضیاءالدین صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سوال کررہا تھا۔
“تم اپنی جگہ درست ہو صارم میاں! لیکن جس امتحان سے ہم گذرتے رہے ہیں تم اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔۔”
ضیاءالدین صاحب نے ڈھلکی گردن اور جھکے شانوں کے ساتھ کہا تھا۔
“تو مجھے بھی اس امتحان کا حصہ بنا لیتے۔ میں کب آپ سے الگ تھا؟ مگر آپ نے جھوٹ پر بھروسہ کیا۔
صارم کا لہجہ سفاکی کی حد تک کھردرا تھا۔
“پھر اب کیا سوچ رہے ہیں آپ؟ ہم آپ کے آخری فیصلے کے منتطر ہیں!”
شہیر نے آگے بڑھ کر سینے پر ہاتھ لپیٹتے صارم سے اسی کے لہجے میں کہا تھا۔
“شہیر!”
ضیاءالدین صاحب نے دبے لفظوں میں اسے تنبیہہ کی تھی۔ اور وہ خاموش بھی ہوگیا تھا۔ لیکن ضبط سے اس کا چہرہ سرخ پڑرہا تھا۔
“میں عشال کا انتظار کروں گا۔ یہیں!”
صارم نے شہیر کی طرف دیکھتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا تھا۔
آغا جان مجرموں کی طرح خاموش بیٹھے تھے۔
“مرتضی سے بات ہوئی ہے میری، اس کے اعتماد کے کچھ لوگ ہیں پولیس میں وہ معاملہ سنبھال لیں گے۔”
ضیاء الدین صاحب نے جیسے صارم کو تسلی دی تھی۔ لیکن وہ بے تاثر چہرہ لیے بیٹھا رہا۔
اسی لمحے صارم کے موبائل پر وقار کا نمبر جگمگایا تھا۔
***************
عشال کھڑکی میں کھڑی تھی۔ باہر کی طرف لوہے کی پختہ گرل تھی۔ جس وجہ سے کھڑکی سے صرف گہرا آسمان ہی دکھائی دیتا تھا۔ عجیب سے اندھیرے نے آسمان کا چہرہ ڈھانپ رکھا تھا۔ گہرے بادل صبح سے گرج گرج کر اپنی ہیبت ناکی کا اظہار کررہے تھے۔
“کافی!”
شامی اس کی پشت پر آکھڑا ہوا تھا۔ اور گرم گرم کافی کا مگ عشال کی طرف بڑھایا تھا۔ جسے عشال نے اعتراض کیے بغیر تھام لیا تھا۔
“تم نے آخری بار سوچ لیا ہے؟”
شامی نے دھواں اٹھتے مگ کو لبوں سے چھوا تھا۔
“میری سوچنے سمجھنے کی سب راہیں تم مسدود کر چکے ہو۔ اب صرف فیصلہ باقی رہ گیا ہے۔ اور وہ میں نے تمہیں بتا دیا ہے۔”
عشال نے بے تاثر لہجے میں کہا تھا۔ اس نظریں باہر ساکت درختوں پر تھیں جو ایک پراسراریت کے زیر اثر جامد محسوس ہوتے تھے۔
“ٹھیک۔۔ میں صارم کو ویڈیو کال کررہا ہوں۔ تم اپنا فیصلہ اسے بھی بتادو۔”
شامی نے بھی چمکتی بجلی کو دیکھتے ہوئے جواب دیا تھا۔
“نہیں! میں صارم سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا چاہتی ہوں۔ اور تم مجھے اس کے پاس لے کر جاؤ گے۔”
عشال نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
“سوری ڈئیر! تمہاری یہ فرمائش میں پوری نہیں کرسکتا۔ اس چار دیواری سے تو تم میری منکوحہ بنے بغیر آسمان نہیں دیکھ سکتیں۔ یہ میرا فیصلہ ہے۔”
ار سیاہ کافی حلق سے اتاری تھی۔
عشال نے مڑ کر شامی کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرہ اٹل نظر آرہا تھا۔ عشال نے کافی کا مگ واپس اسے تھماتے ہوئے کہا۔
“اتنے خوفزدہ ہو مجھ سے؟”
“یہی سمجھ لو!”
شامی نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ اور نظریں باہر ہی جمائے رکھیں۔
“ٹھیک ہے پھر ملاؤ کال! میں صارم سے بات کرلیتی ہوں۔ لیکن اس سے پہلے مجھے کھانے کے لیے کچھ چاہیے۔ صبح کے بعد میں نے کچھ نہیں کھایا۔”
شامی مسکرا دیا۔
“نو پرابلم۔۔ کیا کھاؤ گی؟”
شامی کے لہجے میں حلاوت تھی۔
کچھ بھی ہلکا پھلکا۔ جو معدے پر بھاری نہ ہو۔”
عشال نے ایسے جواب دیا گویا وہ یہاں پکنک پر ہی تو تھی۔
“جسٹ فائیو منٹس!”
کہہ کر وہ نکل گیا تھا۔
شامی کے جاتے ہی عشال نے گہرا سانس خارج کیا اور پھر گہری نظروں سے اطراف کا جائزہ لیا تھا۔
*******************************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...