وہ ایک چاندنی رات تھی، جمنا کے کنارے سوکھی سوکھی جھاڑیوں، ٹیڑھی میڑھی چٹانوں پر چاند کی کرنیں ننھے منّے بالکوں کی طرح تھرک رہی تھیں اور جمنا جو اپنی پوری اُٹھان میں زور شور کے ساتھ بہہ رہی تھی، چاندنی کی گود میں جگمگ جگمگ کر رہی تھی ، لیکن ان سب باتوں کا احساس مجھے اس رات نہ ہونے پایا تھا۔ آج میں جب اس رات کو سوتے جاگتے اپنے آس پاس محسوس کر تی ہوں تو ان تمام با توں کا احساس ہوتا ہے۔
وہ رات میری زندگی کے ساتھ لپٹ گئی ہے۔ طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اس رات نے مجھے ایک لمحے کے لیے بھی آزاد نہیں چھوڑا۔ وہ حسین رات میری رگ رگ میں سما چکی ہے۔ سوچتی ہو ں کہ وہ حسین رات آ خر اتنی حسین کیوں تھی؟
لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ رات بہت پیاری تھی۔ چودھویں تاریخ کے ایک جگمگاتے چاند نے بڑے چائو سے اسے بنایا سنوارا تھا۔
اس رات ہمارا ایک چھوٹا سا قافلہ ایک گنجان جنگل کو طے کرکے جمنا کی طرف نکل آیا تھا۔ ہم لو گوں میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ مقام کون سا ہے۔ ہر ایک کی نظر سے خوف وہراس کا اظہار ہو رہا تھا۔ ہمارے قافلے میں بوڑھے لوگوں میں، ایک عورت اور تین مرد باقی رہ گئے تھے۔ دوسرے کم زور، بوڑھے ضعیف ساتھی نہ جانے کہاں کہاں رہ گئے تھے۔ ہم سب اپنی جانیں ہتھیلیوں پر لیے بھاگے چلے جا رہے تھے۔ ہمیں اپنے زخمی پائوں، تھکے ہارے جسموں اور بوجھل سانسوں کے سوا کسی اور بات کا احساس نہیں تھا۔ اپنے گائوں کو چھوڑے چوبیس گھنٹوں سے زیادہ ہوچکے تھے اور ہم مسلسل دوڑے چلے جا رہے تھے۔ نجانے ہمارے جسموں میں کہاں سے طاقت آگئی تھی۔ جہاں جسم ہارنے لگتا وہاں خوف اور دہشت سے کانپتی روح ہمارے جسموں میں نئی توانا ئی دوڑا دیتی۔ جانے کب تک ہم اس طرح دوڑتے چلے جاتے اگر جمنا کی طوفانی لہریں ہمارا راستہ نہ روک دیتیں۔ ہمارے جسم کاٹے ہوئے چھوٹے بڑے پیڑوں کی مانند جمنا کے کنارے گرگئے۔
میں تھک ہار کر ایک چٹان پر بے ہو ش سی لیٹ گئی۔ میرے چاروں طرف بہت سے انسانی جسم اِدھر اُدھر بکھرے پڑے تھے۔
میری بو ڑھی ماں قریب ہی پڑی اپنے پیدا کرنے والے سے دعائیں مانگ رہی تھی۔ میں نے بھی آسمان کی طرف ملتجیانہ نگاہیں ڈالیں اور پھر اپنے ماحول کا جائزہ لینے لگی۔ اکثر ساتھی راستے کی دشواریوں کی نذر ہوچکے تھے۔ اس وقت ہمارے قافلے کی تعداد آدھے سے بھی کم رہ گئی تھی۔ کچھ عورتیں اور تھوڑے سے مرد— زندگی ہر لمحے ہم سے دور ہوتی محسوس ہوتی اور موت کی پرچھائیاں ہمارے نیم جاں جسموں پر رینگ رہی تھیں۔ میں آہستہ آہستہ اپنی ماں کی طرف بڑھنے لگی۔ وہ دم توڑ رہی تھی۔ پہلے تو وہ مجھے پہچان نہ سکی پھر اس کی بے نور آنکھوں میںہلکی ہلکی روشنی پھوٹی اور لب لرز اٹھے، ’’عینی۔‘‘ مجھے سب قرۃالعین کے بجائے ’’عینی‘‘ ہی بلاتے تھے۔ میں نے اپنی ماں کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ میری آنکھیں بے اختیار روئے جارہی تھیں۔ ماں کی نظریں میرے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ مجھ پر اپنی بینائی کی آخری طاقت صرف کر دینا چاہتی تھیں۔پلک جھپکائے بغیروہ ٹکٹکی باندھے مجھے گھورے جارہی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں دو موٹے موٹے آنسو رِس آئے اور صبح کے ستاروں کی مانند دمکنے لگے۔ کچھ دیر بعد ان کا جسم بڑی شدت سے لرز اٹھا۔ شا ید ان کے اندر کوئی اور طوفان ابھر آیا تھا۔ انھوں نے اپنے ہو نٹ سختی سے بھینچ لیے، لیکن وہ آپ ہی آپ کھل گئے اور ان میں ایک خفیف سی کپکپاہٹ پیدا ہوئی جیسے وہ کچھ کہنا چاہ رہی ہوں۔ میں نے اپنا کان ماں کے لرزتے ہونٹوں کے قریب کر دیا۔ ماں پانی مانگ رہی تھیں۔ ابھی میرے پاس پانی موجود تھا۔ ’’آخری چند گھونٹ‘‘ لیکن ایک بوندبھی ماں کے منہ میں پڑنے نہ پائی تھی کہ بتیسی جم گئی اور پانی کی بوندیں باہر نکل آئیں جیسے لبالب پیالہ چھلک اُٹھا ہو۔ میں نے ماں کے سینے پر کان رکھ کر ان کی دل کی دھڑ کنیں سننا چاہیں، موت، زندگی پر فتح پا چکی تھی۔
میری تنہائی اب دور ہو چکی تھی۔ قافلے کے سب لوگ اطراف میں جمع ہوچکے تھے۔ زبانوں میں گویائی بھی آچکی تھی۔ ماں کے ساتھ قافلے کے دوسرے دو بوڑھوں نے بھی زندگی کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ اس وقت ہمارے درمیان تین لاشیں تھیں۔ اور دریاے جمنا کی طوفانی لہریں خوف ناک شور کر رہی تھیں۔ پاس ہی ہمارے قافلے کا آخری بو ڑھا رکن زندگی کی آخری سانسیں لے رہاتھا۔ میرے منگیتر کی بہن افشین اپنے باپ کے سر کو اپنی گودمیں لیے سسکیوں سے رو رہی تھی اور میرا منگیتر حسن پانی لینے گیا ہوا تھا۔ میں افشین کے پاس گئی، میری سمجھ میںنہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں؟ وہ اپنے باپ کو ہوش میں رکھنے کے لیے جھنجھوڑ رہی تھی۔ اس سے پہلے حسن پانی لے کر آتا، موت نے اپنے شکار کو دبوچ لیا تھا۔ افشین مجھ سے لپٹ کر چیخ چیخ کر رونے لگی اور میں بھی اپنی ماں کے غم کا ماتم کر رہی تھی۔
حسن نے آتے ہی جب ہمیں اس طرح روتے دیکھا تو سب سے پہلے اپنے باپ کی نبض دیکھی، کان سینے پر رکھ کر اس کی دھڑکن سننے کی کوشش کی، ہلایا جلایا مگر وہاں تو زندگی کے سب ہی آثار ختم ہوچکے تھے۔ وہ اپنے باپ سے لپٹ گیا اور بہت رویا۔
چاند اس وقت شباب پر تھا— چاند ہم زمین باسیوں سے اور ہمارے دکھ درد سے بے نیاز تھا۔
ابھی چند لمحے بھی نہ گزرے ہوں گے کہ ایک عورت کی دل دوز چیخ بلند ہوئی، اور مردوں کے درمیان سے ایک شخص اس کی طرف بھاگا۔یہ ہمارے گائوں کا ایک اچھا معمار تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہم سب کو ایک نئی مشکل کا علم ہوا۔ وہ عورت حاملہ تھی، یعنی ایک تھکے ماندے جسم کے اندر سے ایک تازہ دم ننھی منی زندگی باہر آنا چاہتی تھی۔ زندگی غروب ہو رہی تھی۔ زندگی طلوع ہورہی تھی۔ اس سے پہلے میں نے کبھی بھی موت اور زندگی کو یوں پہلو بہ پہلو نہ دیکھا تھا۔ ہمیں صرف موت کا احساس تھا، خوف تھا، یقین تھا۔ ہمارے لیے اس وقت موت زیادہ حقیقی اور قریبی تھی۔ زندگی کو ہم بالکل فراموش کرگئے تھے۔ زندگی جو ایک نیم مردہ عو رت کی کوکھ سے طلوع ہو نے جا رہی تھی۔ سب مرد دور کھسک گئے تھے۔ کچھ عورتوں نے اس عورت کو اپنی اوٹ میں لے لیا تھا۔ ا س حسین چاندنی رات میں ایک نیم جاں جسم ایک نئے جسم کو جنم دینے کے لیے بے پناہ اذیت برداشت کررہا تھا۔ ہمارے ذہنوںمیں یہ خیال یقین کی حد تک پہنچ چکا تھا کہ یہ عورت اس تکلیف کو برداشت نہ کر پائے گی۔ تھوڑی دیر بعد ایک انتہائی دل خراش چیخ سنائی دی اور پھر جیسے آوازوں کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ ہمارے دل ڈوب گئے۔ اس کا شوہر کانپ گیا۔ جیسے اس کاسب کچھ لٹ گیا ہو۔ اچانک چٹان کے پیچھے سے ایک عو رت کا چہرہ اُبھرا۔ اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ کانپ رہی تھی۔ ’’لڑکا۔‘‘ اس عورت نے اعلان کیا اور خوشی سے مملو وہ نسوانی چہرہ ایک بار پھر چٹان کی اوٹ میں چھپ گیا۔ دور کھڑے ہوئے حسن کی نگاہیں میری نگاہوں سے ٹکرائیں۔ شرم سے میری نگاہیں جھک گئیں۔
’’لڑکا۔‘‘ عورت کا شوہر خوشی سے چیخا۔ میں نے اور افشین نے تعجب سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور بے تحاشا دوڑ پڑا۔ ایک انسانی جوڑا اس تباہ حالی میں بھی زند گی کی تخلیقِ نو پر خوش ہو رہا تھا۔ اور چند لمحوں کے لیے شاید سبھی اس نئی آنے والی زندگی کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ میں سوچ رہی تھی اگر لڑکی پیدا ہوتی تو کیا تب بھی سب لوگ نئی زندگی کی آ مد پر اس کو اسی طرح خوش آمدید کہتے؟
ہمارے اندیشوں کے برخلاف ماں اور بیٹا دونوں زندہ تھے۔ چاندنی کی جوت سے رچی فضائوں میں بچے کی رونے کی آوازیں بلند ہو چکی تھیں۔
میں نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا، ’’مالک! یہ سب کیا ہے؟‘‘