(Last Updated On: )
بِن ترے سانس بھی اَکارت ہے
زندگی لمس سے عبارت ہے
فرحتِ حُسن اور شفاف بدن
بِن چھوئے مقبرۂ مرمر ہے
یہ جو سرخی ہے لال ہونٹوں پہ
دعوتِ لمس دے رہی ہے مجھے
یہ بدن کی جو تازگی ہے اِسے
خوشبوؤں سے میں مندمل کر لوں
یہ قیامت کے جو نشیب و فراز
چھو کے پوروں سے
میں صندل کر لوں
عشق جتنا نہ کیوں مقدس ہو
حسرتیں جس قدر ہوں پاکیزہ
کچھ معانی نہیں جو لمس نہیں
لمس تو زندگی کا کارن ہے
لمس جس رنگ میں ہو کامل ہے
لمس جیسا بھی ہو مقدس ہے
لمس تہذیب کا پازیب نہیں
لمس قرطاس کا رہین نہیں
وہ بھلا کیا محبتیں ہوں گی
جو مقید ہوں کورے کاغذ میں
عشق کو حاجتِ رسوم نہیں
عشق تو خود ہے سندِ کامل
لمس گر ہے گناہ تو ہم سب
پھر سبب ہیں اِنہی گناہوں کے
٭٭٭