(Last Updated On: )
ہوا پیڑوں میں باتیں کر رہی ہے
جھینگروں کے شور میں ہریالیوں کی نغمگی ہے
لفظ معنی کا اشارا ہے
وہاں دیوار کے پیچھے سمندر سو رہا ہے
آسماں ڈوبا ہوا ہے جس کی نیندوں میں
صدف کو لوریاں دیتی ہوئی لہریں
کونل سے گیت کی خوشبوئیں اڑتی ہیں
یہ ملنے کی گھڑی ہے، تم ذرا آنکھیں اٹھاؤ نا!
بھری ہیں بادلوں کی جھولیاں
چاندی کے خوشوں سے
فضاؤں میں نمی کی روشنی سی ٹمٹماتی ہے
کسی قربت کی خواہش روح کے اندر
تڑپتی، کلبلاتی ہے
یہ لمحہ وصل کا ہے
جسم پر محرومیوں نے کینچلی ماری ہوئی ہے
پیاس کے ٹھہرے اندھیرے میں
ذرا اپنا ہتھیلی پر دیا رکھ کر جلاؤ نا!
کسی بے انت خواہش کے بہاؤ میں
دہکتی دوزخوں کو ایک لمحے کی خوشی سے
سرد کر ڈالو
جو ایسا ہو سکے تو کر دکھاؤ نا!
٭٭٭