فاطمہ یونیورسٹی سے آ کر بور ہو رہی تھی موسم بھی کافی پیارا ہو گیا تھا ایسے میں اس کا دل کیا تھا کہ وہ خود کچن میں جا کر کچھ بنائے سو اسطرح وہ بڑے اشتیاق سے کچن میں گئی تھی اور پکوڑے بنانے لگ گئی ، فاطمہ جب بھی کچن میں جاتی کچن کی حالت ابتر ہو جاتی تھی ، اب بھی وہ زور و شور سے پکوڑے بنانے میں مصروف تھی دوپٹہ گلے میں ڈالا ہوا تھا اور برتن اردگرد بکھرے ہوئے تھے جب احسن بھی بھوک سے تنگ آ کر کچن میں آیا تھا اسے پکوڑے بناتے دیکھ کر اسے دلی سکون ملا تھا کہ چلو کچھ تو کھانے کو ملے گا
احسن بنا کچھ بولے کرسی گھسیٹ کر وہیں بیٹھ گیا ، وہ مسلسل اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا تھا فاطمہ نے کچھ خاص توجہ نہیں دی تھی ، فاطمہ نے اپنے بالوں کی کچھ لٹوں کو پیچھے کرنا چاہا تھا جس سے اس کے ہاتھوں پر لگا بیسن بالوں میں بھی لگ گیا تھا ، پکوڑے بن گئے تھے پلیٹ میں ڈال کے پلٹی تو احسن کو اپنی طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے پایا ، فاطمہ کو نہیں پتہ تھا کہ وہ کیوں ہنس رہا ہے جبکہ اسے یہی تھا کہ وہ اس پر پکوڑوں پر طنزیہ ہنس رہا ہے ، سو چپ چاپ وہ بھی چئیر گھسیٹ کر وہیں بیٹھ گئی اور پکوڑوں سے لطف اندوز ہونے لگی ،احسن جو اسی انتظار میں تھا کہ وہ اسے بھی آفر کرے گی ایسی کوئی بات نہیں تھی ، وہ چپ چاپ خود ہی کھاتی رہی تھی احسن کو طیش تو بڑا آیا تھا لیکن چپ رہا ،جب آخری پکوڑا بھی کھا چکی تو وہ خود ہی پکوڑا بن کر وہاں سے کھسک گیا تھا ، (پکوڑا وہ بھی سڑا ہوا)فاطمہ نے اپنی طرف سے اس سے ہنسنے کا بڑا اچھا بدلہ لیا تھا
فاطمہ کھا پی کر جب کمرے میں گئی تو شیشے میں اپنی حالت دیکھ کر اسے اچھو لگ گئے تو یہ حقیقت تھی جس کی وجہ سے وہ ہنس رہا تھا اور اس نے غلط سمجھ کر احسن کو پکوڑوں کے لیے لفٹ بھی نہ کروائی ، اپنے آپکو کوستی وہ فریش ہونے کے لیے چلی گئی ، آج درحقیقت اسے احسن پر ترس آ رہا تھا کہ بیچارا کتنی آس سے پکوڑوں کے لیے آیا تھا
آج ناشتے کے وقت ٹیبل پر سبھی موجود تھے لیکن ماحول زرا خاموش تھی اور اس کی وجہ واضح تھی اس جامد خاموشی کو فاطمہ نے توڑنے کی کوشش کی تھی
“ماموں میرے کچھ لیسن رہتے ہیں جو مجھ سے مس ہو گئے تھے سر عبداللہ سے میں نے بات کی تھی وہ کہہ رہے تھے شام کو وہ مجھے ایکسٹرا ٹائم دے سکتے ہیں میں نے ابھی ان کو جواب نہیں دیا ، آپ بتائیں کیا میں ان کو کہہ دوں کہ وہ مجھے پڑھانے آ جایا کریں ” فاطمہ نے احمد صاحب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا جو اسی کی طرف متوجہ تھے
“اگر عبداللہ کو کوئی مسئلہ نہیں تو آپ پڑھ لو ان سے میری طرف سے تو اجازت ہے ” احمد صاحب نے فاطمہ کے سر پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو اس نے دل ہی دل میں اس قدر پیار کرنے والے ماموں کی لبمی زندگی کی دعا مانگی جو عیک باپ سے ہرگز کم نہیں تھے
“تھینک یو ماموں ”
“ارے بیٹا تھینک یو کی کیا ضرورت ہے بس آپ خوش رہو اور دل لگا کر پڑھو الله آپ کو کامیاب کرے ” احمد صاحب کے ڈھیروں دعائیں دینے پر پاس بیٹھے احسن سے شاید ہضم نہیں ہوا تھا اس نے زور زور سے کھانسنا شروع کر دیا
“پانی پیو احسن ، دھیان کہاں ہے تمہارا ” احمد صاحب نے ڈانٹا تو وہ نخوت سے منہ پھیرتے ہوئے بڑبڑایا تھا
(ہنہہ بھانجی صاحبہ کے لاڈلے ابا، اپنا سپوت تو کبھی نظر نہ آیا انہیں )
“کچھ کہا لاڈلے ” احمد صاحب نے بائیں آنکھ کے ابرو کو زرا اوپر اٹھاتے ہوئے رعب جمایا
“جی نہیں بابا جانی ” احسن نے جلدی جلدی بات ختم کرنا چاہی لیکن اس کی تیکھی نظریں مسلسل فاطمہ کے چہرے کا طواف کرتی رہیں تھی جنہیں فاطمہ نے محسوس تو کر لیا تھا لیکن ظاہر نہیں ہونے دیا تھا
************** **************
اگلے ہی دن فاطمہ نے عبداللہ سے ریکوئسٹ کی تھی کہ وہ اسے پڑھا دیا کریں جسے عبداللہ نے منٹوں میں ایکسیپٹ کیا تھا ،فاطمہ نے شام کا ٹائم دیا تھا یونیورسٹی سے آ کر فاطمہ سو گئی تھی تب ہی اٹھی تھی جب عبداللہ آ گیا تھا رقیہ بیگم نے اسے بتایا تو وہ اپنے آ پ کو کوستی ہوئی فریش ہونے چلی گئی دس منٹ لگے ہوں گے جب وہ عبداللہ کے سامنے موجود تھی
“سوری سر مجھے دیر ہو گئی آج ، آئندہ احتیاط کروں گی ، ایکچوئلی میں سو چکی تھی ” فاطمہ نے معذرت کرتے ہوئے بک کھولی تھی عبداللہ کے ہونٹوں پر ایی دلکش مسکراہٹ عود آئی تھی اگر وہ نہ بھی بتاتی تو بھی وہ جان گیا تھا کہ وہ سوئی ہوئی تھی کیونکہ اس کی آنکھوں سے صاف ظاہر تھا لان کے نفیس جوڑے میں وہ بہت ڈیسنٹ لگ رہی تھی جبکہ بال کھلے ہوئے تھے اور باریک دوپٹے کا اس نے ہالہ بنایا ہوا تھا
عبدللہ تب تک چائے پی کر فارغ ہو گیا تھا سو اس نے بنا کوئی اور بات کیے اسے پڑھانا شروع کیا تھا ، پڑھانے کے دوران بہت سے ایسے سوال تھے جو پڑھائی کے ریلیٹڈ ہوتے اور بہت سے ادھر ارھر کے سوالات بھی فاطمہ ضرور پوچھتی ، اور عبداللہ بلا تردد اسکے ہر سوال کا جواب دے رہا تھا
احسن جب آفس سے گھر آیا تو عبداللہ کو دیکھ کر اس نے نا سمجھی سے فاطمہ کی طرف دیکھا اور پھر خیال آنے پر وہ سمجھ گیا تھا کہ عبداللہ فاطمہ کو پڑھانے آیا ہے
دونوں بہت اچھی طرح بغل گیر ہوئے تھے فاطمہ نے چونکہ پڑھ لیا تھا لہذا چائے کا دور پھر شروع ہوا تو عبداللہ کو بھی پینا پڑی تھی
“کتنے چمچ چینی کے لیں گے سر ”
ہاف بہتر رہے گا ” عبداللہ کے بتانے پر اس نے حیرانگی سے انہیں دیکھا اور مکس کرنے لگی اس دوران فاطمہ کو پتہ نہیں چلا تھا اور دوپٹہ سر سے پھسل گیا ، خوبصورت لمبھے بال آبشاروں کا نظارہ دے رہے تھے عبداللہ کی نا چاہتے ہوئے بھی نظر اٹھ گئی تھی بے اختیاری کی اس نظر پر اسے کوئی اختیار نہیں رہا تھا احسن جو پاس ہی بیٹھا تھا ، اس کی نظر پہلے عبداللہ پر پڑی اور پھر فاطمہ پر جو اپنے ہی دھیان میں تھی احسن نا چاہتے ہوئے بھی مضطرب ہوا تھا ، اس نے گلا کھنکارا تو عبداللہ نے اپنی نظریں پھیر لیں تھیں اپنے اس فعل پر وہ بھی شرمندہ ہو گیا ،
“فاطمہ ذرا میرےکمرے سے میری فائل لیکر آنا ، ” اس نے بلاوجہ ہی فاطمہ کو وہاں سے بھیجا تھا کوئی اور وقت ہوتا تو وہ کبھی بھی احسن کا کہنا نہ مانتی لیکن سر پاس لہذا عزت بھی رکھنا تھی سو چپ چاپ وہاں سے چل گئی ، جبکہ کمرے میں ایسی کوئی فائل نہیں تھی اس نے ادھر ادھر تانکا جھانکی کی تو سہی لیکن فائل نہ ملنی تھی اور نہ ہی ملی
احسن نے زیادہ دیر ہونے کا بہانہ کرتے ہوئے وہاں سے اٹھنے کی سعی کی تھی، کمرے میں آیا تو کافی حد تک غصے میں تھا
“جب باریک دوپٹہ سر پر ٹکتا ہی نہیں تو لیا بھی نہ کرو ” احسن کا انداز جارحانہ تھا اس نے فاطمہ کو بازو سے سختی سے پکڑا ہوا تھا
“چھوڑیں پلیز ” فاطمہ کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے
“دوپٹہ لو صحیح طرح میرے سامنے ، سنائی نہیں دیا تمہیں ”
“کیوں آپ میرے کیا لگتے ہیں ؟لے لوں گی میں خود ہی ” فاطمہ کو بھی طیش آیا تھا
“فائل کی اب مجھے ضرورت نہیں ہے جو کہنا تھا کہہ چکا ” جبکہ فاطمہ کو غصہ یہ تھا کہ کونسا اس کی غلطی ہے جو وہ اس پر بھڑک رہا تھا ، منہ پھلائے اور دوپٹہ درست کرتی وہ بھی اب اس کے کمرے سے نکل گئی تھی
************* *************
احمد صاحب کسی کتاب کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھے جب آنسہ بیگم نے ان کے ہاتھ سے بک پکڑ کر سائیڈ پر رکھی
“ہر وقت اپنے ہی کاموں میں مصروف رہتے ہیں کبھی میری بھی سن لیا کریں ” آنسہ بیگم۔نے روٹھے ہوئے لہجے میں کہا تو شرارتی انداز میں گویا ہوئے
“بھئی شادی کے بعد آپ کی ہی تو سنتے آ رہے ہیں ”
“ہاں ہاں پتہ ہے مجھے ، میں تو آپ سے احسن کے متعلق بات کرنے آئی تھی ” احسن کے نام پر احمد صاحب کی ساری توجہ ان ی جانب مرکوز ہو گئی تھی
“کہیے آنسہ ،خیریت ہے نا ” احمد صاحب کو ناجانے کس بات کا خدشہ تھا آنسہ بیگم تو ہچکچاہٹ کا شکار تھیں
“احسن نے مجھ سے کہا ہے کہ وہ فاطمہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا ” بات تو انہوں نے کر دی تھی لیکن یہ بات سن کر احمد صاحب کافی سنجیدہ دکھائی دینے لگے
“احسن کو کیسے پتہ چلا کہ ہم ان کے بارے میں یہ سوچ رہے ہیں ” احمد صاحب کے چہرے پر سوچ کی ایک واضح لہر دوڑی تھی
“یہ تو میں نہیں جانتی لیکن گمان ہے کہ اس نے رقیہ اور آپ کی باتیں سن لی ہوں ”
“جو بھی ہوا ہے بہت برا ہے آنسہ میرے لیے بھی اور احسن کے لیے بھی ، اسے اور چاہئیے بھی کیا؟ ہیرا مل رہا ہے لیکن نجانے اس کو کیا سوجھی ہے”‘احمد صاحب نے پریشانی میں اپنی پیشانی مسلی تو آنسہ نے انہیں تسلی دی
“آپ فکر نہ کریں فاطمہ کے لیے شاید الله نے بہت اچھا ساتھی نصیب میں لکھا ہو اور اسے اپنے ہی رشتے داروں سے چھٹکارا مل جائے جو انہیں داغ دار کرنے کی کوشش میں ہیں ”
“میں نے تو چاہا تھا ایسا ہو جائے لیکن شاید الله کو منظور نہیں ہے ، مجھے اب فاطمہ کے لیے کوئی اور دیکھنا پڑے گا ، اگر الله میری مدد کریں تو فاطی کا مجھ پر کوئی بوجھ نہیں اس کے باپ کے ساتھ میں کھڑا رہوں گا ” احمد صاحب نے پختہ لہجے میں کہا تھا حالانکہ انہیں بہت دکھ تھا جو احسن نے انکار کیا تھا چپ اس لیے کر گئے تھے کہ وہ احسن کے ساتھ زبردستی کر کے فاطمہ کی ساری زندگی بھی تو برباد نہیں کر سکتے تھے نا ۔
*************** ************** آج چھٹی تھی فاطمہ کی بوریت کی انتہا ہو چکی تو اس نے لان میں جانے کا فیصلہ کیا ، کبیر بابا پودوں کو پانی دے رہے تھے فاطمہ نے ان کے ہاتھ سے پانی والا پائپ پکڑ کر انہیں آرام سے کرسی پر بٹھایا اور خود پودوں کو پانی دینے لگ گئی ، اس کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ خود ہی نہانے لگ جاتی ، رقیہ بیگم نے اسے پاگلوں کی طرح پودوں کو پانی دیتے ہوئے دیکھا تو وہاں چلی آئیں
“کیا بچوں والے حرکتیں کر رہی ہو فاطی ”
” او ماما آپ ۔۔۔اچھا کیا آ گئیں آئیں زرا مل کے پودوں کو پانی دیتے ہیں ” فاطمہ نے اچھلتے ہوئے کہا تو وہ اور بگڑ گئیں
” تمہاری مہربانی ہے میں پودوں کو پانی دینے سے رہی بلکہ تم خود اس پائپ کو چھوڑو اور اندر آجاؤ تمہارے بابا نے تم سے بات کرنی ہے ضروری ”
“ماما مجھے پتہ ہے اندر لیجانے کا ایک عمدہ بہانہ بنایا ہے آپ نے سو چل کریں ” فاطمہ کا موڈ آج بدلا ہوا تھا وہ ہیڈ فون کانوں میں لگائے اندھا دھند پودوں کو پانی دیے جارہی تھی
رقیہ بیگم نے جب محسوس کیا کہ اب وہ ان کی ماننے والی نہیں تو وہ چپ کر کے خود ہی اندر آ گئیں ، جبکہ فاطمہ نے وہیں آلتی پالتی ماری اور زمین پر جہاں مٹی گری ہوئی تھی وہاں ٹیڑھی میڑھی لائینیں کھینچنے لگی ،
احسن جو کسی کام سے گیا ہوا تھا واپس آیا تو اس کی نظریں سیدھی اس پر پڑیں ، بچوں کی طرح نیچے بیٹھی پتہ نہیں زمین پر کونسے نقش و نگار بنا رہی تھی
وہ بلکل اس کے پیچھے آ کر کھڑا ہو گیا تھا فاطمہ کو اس نے دو تین دفعہ آواز دی تھی لیکن گانوں کی آواز کم ہوتی تو اسے سنائی دیتا ،ہاتھ میں پائپ تھا
احسن نے اسے بازو سے پکڑ کر سیدھا کیا لیکن نہیں جانتا تھا کہ ایسا ہو گا ، فاطمہ کے ہاتھ میں موجود جو پائپ تھااس کا رخ احسن کی طرف ہو گیا ، اسے تو یہ تھاکہ پائپ بند ہے احسن نے بلیو کلر کا تھری پیس پہن رکھا تھا یقیناً وہ کسی گیٹ ٹو گیدر پر گیا تھا پائپ پر فاطمہ کا انگھوٹا ہونے کی وجہ سے پانی فوارے کی شکل میں نکل کر احسن کے سارے کپڑے گیلے کر گیا جہاں وہ شاکڈ تھا وہاں فاطمہ کی شکل بھی دیکھنے والی تھی جبکہ
ہینڈز فری ابھی بھی اس کے کانوں میں تھے نکالنے کی زحمت ہی نہیں ہو پا رہی تھی ،گیلی موٹی موٹی بالوں کی لٹیں چہرے پر چپکی ہوئی تھیں احسن کی نظریں اس کے چہرے پر ہی مرکوز تھیں آیا تو اسے ڈانٹنے تھا لیکن لمحات کے قید خانے میں پھنس کر الجھ گیا ، ان فسوں خیز لمحات کی زد میں جھکڑ کر وہ ساکت سا اسے ہی دیکھے جا رہا تھا
یہ لمحات شاید اور طویل ہو جاتے اگر فاطمہ نہ بولتی
“ایم سوری ، وہ ۔۔۔ مجھے نہیں پتہ چلا آپ کے کپڑے خراب ہو گئے ”
“تمہیں پتہ نہیں چلا لیکن اور بھی بہت کچھ ہو چکا ہے ” احسن نے زو معنی لہجے میں کہا لیکن فاطمہ کے پلے کچھ بھی نہیں پڑا تھا
“اب جاؤ بھی ” احسن کے ایک دفعہ پھر کہنے پر اس نے پائپ چھوڑ دیا تھا ،اندر جانے ہی لگی تھی جب احسن نے اس کو کلائی سے پکڑ کر روک لیا
“بیوقوف کیوں ہو ؟” اتنی سنجیدگی سے پوچھا گیا سوال فاطمہ کو تیوری چڑھانے پر مجبور کر گیا
“کیا مطلب ہے آپ کا ” فاطمہ نے گھورتے ہوئے کہا تو احسن نے انگلی سے زمین کی طرف اشارہ کیا ،
“گلاب کا پودا ہے ” فاطمہ نے تو حد ہی کر دی تھی یعنی کہ بیوقوفی کی بھی انتہا ہوتی ہے
“نہیں تمہارا سر بھی ہے ” احسن نے طنز کیا تو تب ہی اس نے اپنا دماغ بھی چلایا
“اوو اچھا ، اب سمجھ آگئی ، میرا جوتا تو یہی رہ جاتا اگر آپ نہ بتاتے تو ، شکریہ بتانے کے لیے ”
“جی نہیں جوتے کے ساتھ ساتھ آپ کا خیر سے دماغ بھی یہی رہ جانے والا تھا ” احسن چوٹ پر چوٹ کر رہا تھا “اب گھور کیوں رہی ہو میڈم جاؤ بھی ”
“جارہی ہوں ” فاطمہ نے زور سے پاؤں زمین پر مارا تھا لیکن عذاب آنا تھا سو آگیا ، بہت زیادہ پانی گرنے کی وجہ سے مٹی چکنی ہو گئی تھی۔جب اس نے پاؤں مارا تو جوتا زمین میں ہی رہ گیا تھابزبردستی پاؤں کھینچنے پر جوتے کی سٹرپ نکل گئی تھی احسن نے اپنی مسکراہٹ چھپائی تھی بلکہ مسکراہٹ کی بجائے اگر ہنسی کا فوارہ کہا جاتا تو غلط نہیں تھا فاطمہ نے احسن کو گھورا تھا اور جوتا ہاتھ میں پکڑتی گندے پیروں سے وہ اندر گئی تھی ، جبکہ احسن کے لیے یہ بہت مزے والی سچویشن تھی
********** ************
فاطمہ کے جتنے بھی لیسن تھے وہ مکمل ہو چکے تھے آج عبداللہ کا لاسٹ ڈے تھا ، چونکہ لیسن کمپلیٹ ہو چکے تھے اس لیے فاطمہ خوش تھی کہ اس پر بہت زیادہ برڈن نہیں رہا اب ، اسی خوشی میں رقیہ بیگم نے عبداللہ کے لیے ایک شاندار ڈنر کا احتمام کیا تھا
چار گھنٹوں سے لگاتار احسن نوٹ کر رہا تھا کہ فاطمہ کچھ زیادہ ہی ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی اس سے رہا نہ گیا تو ان دونوں میں آ کر بیٹھ گیا
“کیا بات ہے بھئی آج کچھ زیادہ ہی نہیں خوش آپ لوگ ”
عبداللہ نے صوفحے پر اپنے ساتھ جگہ بناتے ہوئے اسے بیٹھنے کی آفر کی تھی
“ہاں کچھ خاص نہیں بس یونیورسٹی اسٹاف کی بات ہو رہی تھی اور آج لیسن کمپلیٹ ہو گئے ہیں شاید اس لیے فاطمہ خوش ہیں ” عبداللہ نے بڑی گہری نظروں سے فاطمہ کو دیکھا تھا جبکہ احسن نے انہیں نظروں کا تعاقب کیا تھا اور اپنی جگہ پر ہی تلملا کر رہ گیا تھا اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ فاطمہ مزید اب وہاں بیٹھے اس لیے اس نے فاطمہ کو وہاں سے یہ کہہ کر بھیج دیا کہ پتہ کرے کہ ڈنر ریڈی ہوا یا نہیں
کھانا بہت ہی مزے کا بنا تھا اس دوران احمد صاحب تنقیدی نظروں سے عبداللہ پر غور بھی کرتے تھے اور گپ شپ بھی لگاتے رہے
احسن کو نہ جانے کیوں اتنا پرسنل ہونا اچھا نہیں لگ رہا تھا
ڈنر بہت اچھے موڈ میں ہواتھا ، عبداللہ سب کا شکریہ ادا کر کے چلا گیا تھا لیکن احسن کو کسی گہری سوچ میں ڈال گی
************** **********
آپ لوگ عبداللہ سے کچھ زیادہ ہی سوال جواب کر رہے تھے ” احسن سے رہا نہ گیا تو اس نے پوچھ ہی لیا
احمد صاحب نے کن اکھیوں سے احسن کی طرف دیکھا اور گلا صاف کرتے ہوئے بولے
“کیوں میاں آپ کو کوئی مسئلہ ہے ” اس قدر صاف جواب پر احسن نے تحیر سے پہلے احمد صاحب کی طرف دیکھا اور پھر آنسہ بیگم کی طرف ،جیسے کہہ رہا ہو اماں دیکھ لیں بابا کس طرح بات کر رہے ہیں
“بابا اچھا نہیں لگا مجھے ،اس لیے کہہ دیا ”
“بات ہاتھ آئی تھی ایک اس لیے میں نے سوچا بچے سے زرا ٹیسٹ لیتا ہوں ” احمد صاحب نے اور تجسس ڈالا تھا
“کیا مطلب ہےبابا ،مجھے کھل کر بتائیں نا ،کس لیے ٹیسٹ لے رہے تھے اور کیوں ؟” احسن نے اور کریدا تو وہ طنزیہ ہنسے تھا
“اپنی فاطمہ کا رشتہ آیا ہے ، عبداللہ کے گھر والوں نے مجھ سے عبداللہ کے لیے فاطمہ کے رشتے کی بات کی ہے ” ان کی بات پر احسن کو کرنٹ سا لگا تھا
“یہ کیسے ہوسکتا ہے ، میں نےکہا تھا نا کہ یونیورسٹی ہی ٹھیک ہے گھر نہ بلائیں عبداللہ کو “احسن کی بات پر احمد صاحب کے ماتھے پر سلوٹیں پڑ گئیں تھیں
“اگر تم سمجھ رہے ہو کہ فاطمہ کا کوئی قصور ہے تو اپنے زہن کو صاف کرو اور ہاں مجھے تو اس میں کچھ برا نہیں لگا تم کیوں اتنا طیش میں آ گئے ہو ؟” احمد صاحب نے ڈانٹا تو وہ چپ کر گیا
“جواب دو اب کوئی نقص ہے تو بتاؤ ”
“پتہ نہیں ” احسن نے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے وہاں سے ہٹ جانا ہی مناسب سمجھا تھا اور اپنے کمرے کا زور سے دروازہ بند کیا کہ احمد صاحب نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے دی تھیں جبکہ ان کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی
کیونکہ وہ احسن کے مزاج سے واقف تھے
************ ******
“ہیلو ثانیہ کہاں پر ہو ؟” احسن نے اپنی فرینڈ ثانیہ سے ہیلپ لینے کاسوچا تھا اس لیے اسےکال کر دی
“میں تو گھر ہی ہوں تم بتاؤ ،خیریت ہے ؟لگتا ہے پھر کوئی مشورہ لینا ہے ”
“افف یار ایک تو آجکل ہر کوئی مجھے طنز ہی کرتا ہے تم تو نہ کرو ” احسن چڑ گیا تو وہ بھی سیدھی ہوئی
“اچھا بتاؤ کہاں ملنا ہے ”
“اسی ریسٹورنٹ میں آجانا چار بجے ہی میرے پاس ٹائم ہوتا ہے ”
“اوکے میں پہنچ جاؤں گی ” احسن نے اللہ حافظ کہتے ہوئے کال بند کر دی تھی جبکہ فاطمہ نے کھڑکی کے رستے ان دونوں کی ساری باتیں سن لی تھیں ، دونوں ہی اپنی اپنی طرف سے پتہ نہیں کیا کیا پلین بنا رہے تھے جبکہ دونوں خود انجان تھے کہ احمد صاحب بھی ایک ایک پلین تیار کر چکے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...