“اتنے دن سے کہاں غائب تھیں تم لڑکی۔”سمبل اس وقت اپنی دوست کے ہمرا کلاس میں بیٹھی لیکچر لینے کے ساتھ ساتھ باتوں میں بھی مصروف تھی۔
“بتایا تو تھا۔شادی تھی میری۔”سمبل نے آہستہ سی آواز میں سرگوشی کی۔
“وہ تو جانتی ہوں۔بٹ چھ ماہ بعد پڑھائی کا خیال کیسے اگیا۔اب تم پپپرز کی کیسے تیاری کرو گی۔اب تو کچھ ہی دن میں فائنلز ہونے والے ہیں۔“دانین نے آنکھیں چلا کر پریشانی سے استفسار کیا۔جب کے دونوں کے آنکھیں وائٹ بورڈ پر ہی مرکوز تھیں جہاں سر اردو گرامر سمجھانے میں مصروف تھے۔۔
”ہوجاۓ گی یار!“سمبل نے ذرا بےزاری سے سر جھٹکا۔
“اچھا ہوجاۓ گی تو ٹھیک ہے۔مجھے کیا مسلہ ہوسکتا ہے۔تمہاری مرضی۔”دانین نے بے نیازی سے کندھے جھٹکے۔
ابھی اس کی ڈگری کا ایک سال رہتا تھا۔اور اب وہ کسی قیمت پر اپنے وقت کا ضیاع نہیں چاہتی تھی۔اب ان دونوں کی بھرپور توجہ سر پر تھی۔جو پہلے انہیں وارن کر چکے تھے۔۔
______________________
شایان اور ماہین اس وقت پارک میں چہل قدمی کرنے کہ ساتھ ساتھ هلكی پھلکی گفتگو بھی کرتے جا رہے تھے۔
”شایان میرے لئے اس بار میرے کزن کا رشتہ آیا ہے۔اور میں بابا کو منع بھی نہیں کر سکتی۔”آج دو ماہ ہونے کو آۓ تھے پر شایان تھا کہ کوئی فیصلہ لینے کو تیار ہی نا تھا۔
“ارے یار!!کچھ زیادہ ہی رشتے نہیں ارہے تمہارے۔“شایان نے گردن کو خم دے کر حیرانی سے دریافت کیا۔
”ظاہر سی بات ہے۔یہ ہمارا آخری سال تھا۔چند روز بعد ہماری یونیورسٹی بھی ختم ہوجاے گی تو کچھ تو سوچیں گئے نا۔میرے ماں باپ بھی۔”ماہین نے ناگوار لہجے میں کہا۔
“تو اب میں کیا کر سکتا ہوں بتاؤ تم۔”شایان اب خود عاجز آچکا تھا۔۔
“وہی جو تم پچھلے دو ماہ سے نہیں کر پارہے۔طلاق دو اپنی اس بیوی کو، تاکہ میں ماں بابا کو منا بھی سکوں۔ورنہ تم خود بتاؤ۔میرے ماما بابا ایک ایسے لڑکے کے انتظار میں کیوں بیٹھائیں مجھے جو پہلے سے شادی شدہ ہے۔“ماہین نے بیچ راستے میں ٹھر کر درشت لہجے میں کہا۔تو وہ سر جھٹک کر رہ گیا۔
“یار تم نہیں جانتی سمبل کو چھوڑنا اتنا آسان نہیں۔میں سوچ رہا تھا۔وہ اپنی تعلیم مکمل کر لے۔اپنے پیرو ں پر کھڑی ہوجاۓ۔پھر ہی میں کوئی فیصلہ لوں۔”شایان نے پریشانی سے اپنی کان کی لو مسلی۔
”واہ واہ شایان صاحب کی دریا دلی کے کیا ہی کہنے۔اور اتنے عرصے تک میں بیٹھ کر تمہارا انتظار کروں۔اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ کل کو تم مجھے دھوکہ نہیں دو گئے۔”ماہین تو اس کی دور اندیشی پر بھڑک اٹھی تھی۔
“یار تمھیں مجھ پر بھروسہ نہیں ہے کیا۔“شایان نے برو اٹھا کر سرد لہجے میں پوچھا۔
”پہلے تھا مگر اب نہیں ہے۔“خشک لہجے میں کہا۔۔
”مگر کیوں۔”اس نے حیرانی سے پوچھا۔
“ابھی تم نے اپنے گھر والوں کے کہنے پر اس لڑکی سے شادی کر لی۔کل کو تم کہ دو کہ ماہین میری ام نہیں مان رہیں میں سمبل کو نہیں چھوڑ سکتا۔پھر میرا کیا ہوگا۔کبھی سوچا ہے۔”ماہین آج ہر حال اپنا مقصد کو منوانا چاہتی تھی۔
”یار ایسا کچھ نہیں ہوگا۔تم یقین رکھو۔اور بس اس رشتے کو ٹال دو۔مجھے پتہ ہے۔تمہارے لئے کسی رشتے کو ریجیکٹ کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔”شایان نے اسے کندھوں سے تھام کر مسکرا کر کہا۔تو اسکی پیشانی پر موجود بلوں میں اضافہ ہوگیا۔۔
“کیا مطلب کیا ہے تمہاری اس بات کا؟“ماہین کے غصّہ کا گراف یکدم ہی بڑھا تھا۔
“”کوئی مطلب نہیں۔بس تم اس رشتے سے منع کردو۔”شایان نے اطمینان بھرے لہجے میں کہا۔
“میری ایک بات کان کھول کر سن لو شایان خانزادہ میں اس رشتے کے لئے جب تک منع نہیں کرونگی۔جب تک تم اس جاہل گوار کو طلاق نا دے دو۔”ماہین نے ٹراخ کر کہا۔۔
“ماہین یار سمجھے کی کوشش کرو۔میری خالہ اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔کہاں جائے گی وہ”۔شایان نے اسے قائل کرنا چاہا۔
“میری بلا سے بھاڑ میں جائے۔تم فیصلہ کر لو میں یا وہ جاہل انپڑ لڑکی۔تمھیں ہم دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔شایان خانزادہ۔۔”انگشت شہادت اٹھا کر درشت لہجے میں بولتی وہ خاصی خونخار ہوگئی تھی۔
“ماہین تم بلاوجہ کی ضد کر رہی ہو۔”شایان نے اس کی ضد پر جھڑکا۔
“اچھا!!میں ضد کر رہی ہوں۔تو اب تم دیکھو گئے میری ضد۔تم اس دو ٹکے کی لڑکی کی وجہ سے مجھے نظر انداز کر رہے ہو نا۔اب تم دیکھو میں کیا کرتی ہوں۔اس کے ساتھ۔جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔“ماہین غصّہ سے اپے سے باہر ہوتی جنونی لہجے میں بولی۔
”بکواس بند کرو ماہین اس میں سمبل کی کوئی غلطی نہیں۔اس سے شادی کا میرا ذاتی فیصلہ تھا۔وہ بھی اس رشتہ پر اسی طرح مجبور تھی جیسے کہ میں۔اب میں اپنی مری ہوئی خالہ کی روح کو تمہاری وجہ سے مزید ازیت نہیں دے سکتا۔مت بھولوں اگر آج میری خالہ اور سمبل کی ماں اس دنیا میں موجود نہیں ہیں تو صرف اور صرف تمہاری وجہ سے سمجھیں۔“غصّہ میں شایان اس کہ منہ پر دهاڑا تھا۔۔
ماہین اس کہ اس قدر تلخ لہجے اور سمبل کی سائیڈ لینے پر یکدم خاموش ہوگئی تھی۔پانی سر سے اونچا ہو چکا تھا۔اس سے پہلے کے وہ سمبل کو ہمیشہ کے لئے اپنا لے۔کچھ تو کرنا پڑے گا۔اس پر ایک خاموش نظر ڈالتی۔فلحال خاموشی سے وہاں سے نکل آئی تھی۔۔
پیچھے شایان بالوں میں ہاتھ پھیرتا خود کو پر سکون کرتا اس کی پشت دیکھنے لگا۔جو دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سے نکل گئی تھی۔اسکی سمجھ سے باہر تھا کہ اب ایسا کیا کرے۔جس میں سمبل اور ماہین دونوں کی رضامندی شامل ہو۔کوئی ایک بھی دوسری کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ایک طرف مجبوری اور عزت تو دوسری جانب محبت جنہوں نے شایان کا دماغ گھما کر رکھ دیا تھا۔
__________________
کلک کی آواز کہ ساتھ دروازہ کھول کر کوئی گھر میں داخل ہوا تھا۔سمبل نے ذرا چونک کر کچن سے باہر آکر نظر گھمائی ۔سامنے ہی شایان دروازہ لاک کرتا گھر میں داخل ہو رہا تھا۔سمبل نے گھڑی پر نظر ڈورائی جہاں ابھی دن کے تین بج رہے تھے۔ سمبل نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔
”شایان آج آپ جلدی آ گئے ۔“اس کہ سوال کرنے پر شایان کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔
”کیوں اب میں اپنے اپنے گھر بھی نہیں آسکتا کیا۔“شایان نے غصّیلے لہجے میں کہا۔
”اپنے کام سے کام رکھو سمجھی!!“اسے سخت نظروں سے گھورتا ،بیداردی سے اپنی جیکٹ ایک جانب پھینکتا،کمرہ نشین ہوگیا۔دروازہ کی ٹھا کی آواز پر وہ لرز کر رہ گئی تھی۔۔
انہیں کیا ہوا؟؟سمبل نے اچھمبے سے سوچا۔
”ضرور اس لال بالوں والی چڑیل نے کچھ کہا ہوگا۔”سمبل سر جھٹکتی ماہین کے نئے ہیئر کلر پر جملہ کستی اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔۔
___________________
شایان اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر بیڈ پر چت لیٹا ہوا تھا۔جب اس کی نظروں کے سامنے اپنی مایوں سے ایک دن پہلے کا منظر گھوم گیا۔
اس روز خاجستہ شایان اور ماہین کے بیچ ہوتی بات کے بابت مکمل طور پر آگاہ ہوچکی تھی یہ سنتے ہی ان میں صدمہ سا لگا تھا۔ وہ تو پہلے ہی کینسر جیسے جان لیوا مرض میں مبتلا تھیں۔ ایسے میں اپنے بھانجے کہ منہ سے ادا ہونے والے لفظوں انہیں کافی ازيت سے دوچار کیا تھا۔لمحہ کا کھیل تھا وہ اپنے پورے وجود سے زمین بوس ہوئی تھیں۔ شایان نے چونک کر رخ موڑ کر دیکھا ۔تو سامنے ہی وہ دنیا و مافیہ سے بیگانا بیہوش پڑی ہوئی تھیں۔۔موبائل اف کر کہ فوری ان کی جانب لپكا تھا۔“خالہ ،خالہ “اس کی چیخ و پکار پر سب حویلی سے باہر ڈور کر آۓ تھے۔اپنی ماں کی حالت دیکھ سمبل حواس باختہ سی ان کی جانب ڈوری تھی۔ وہ جو کل کے نکاح کی تیاری میں مایوں کی دلہن بننے والی تھی۔اس وقت روتی ہوئی پریشانی سے اپنے حلیہ سے بھی لاپرواہ تھی۔شایان نے ذرا کی ذرا نظر اٹھا کر اس کی اور دیکھا تھا پھر جلدی سے اس کہ لئے بھی گاڑی کادروازہ وا کیا تھا۔ شایان آغا جان کے ہمرا انہیں گاڑی میں ڈالتا شہر جانے کے لئے روانہ ہوا تھا۔سمبل کو روتا چیختا دیکھ وہ مسلسل ڈرائیو کر رہا تھا۔
“آغا اماں کو کیا ہوگیا ہے۔”سمبل نے روتے کپکپاتے لہجے میں بے یقینی سے استفسار کیا۔ انہوں نے ایک نظر اس کی دلہن بنے روپ پر ڈال کر نظریں چرائیں۔وہ سب بہت پہلے ہی ان کے مرض سے واقف تھے۔جبکہ سمبل کو اس سب سے لا علم رکھا گیا تھا۔وہ مسلسل ان کا سر اپنی گود میں رکھے انہیں اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی ۔کچھ ہی دیر کی طویل مسافت کے بعد انھیں ضلع کے ایک قریبی چھوٹے سے ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا تھا۔انہیں فوری ایمرجنسی میں لے جایا گیا تھا چند گھنٹوں کے طویل انتظار کے بعد بعد ڈاکٹر نے باہر آکر ان کے ہوش میں انے کی نوید سنائی ۔ساتھ ہی آغا کے ہمرا وہ اپنے کیبن کی جانب بڑھے۔
“ آپ لوگو میں سے شایان کون ہے۔ “ نرس نے ان تمام کے لوگو پر نظر ڈال استفسار کیا تو شایان جلدی سے آگے بڑھتا۔ان کہ وارڈ کی جانب بڑھا۔ سامنے بیڈ پر ہی خاجستہ مشینوں میں جکڑیں بیڈ پر لیٹی ہوئی تھیں۔
”خالہ جان جو کچھ آپ نے سنا ایسا کچھ نہیں ہے۔آپ مجھے بلکل غلط مت سمجھئے گا۔بس آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں اور ہمارے ساتھ گھر چلیں۔“شایان نے انکی حالت قدر بہتر دیکھ فوری صفائی پیش کی تھی جو اپنا آکسیجن ماسک سائیڈ پر کر رہی تھی۔
ا”گر تم میری بیٹی سے شادی نہیں کرنا چاہتے تو اسے ابھی چھوڑ دو اس کی شادی کے بعد اسے طلاق دے کر اس کی زندگی خراب مت کرنا بیٹا مجھے تمہاری اور سمبل دونوں کی خوشياں عزیز ہیں۔“کپکپاتے ہونٹوں سے بڑی مشکل سے چند لفظ ادا کئے تھے۔
”نہیں خالہ جان آپ غلط سمجھ رہی۔سمبل سے شادی میں اپنی پوری رضا مندی سے کر رہا ہوں۔“ ان کی کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
”شایان بیٹا میری سمبل بہت نادان ہے اور معصوم بھی۔اس نے بچپن سے اپنے نام کہ ساتھ تمہارے نام کے ساتھ سنا ہے۔میں جانتی ہوں ایسے میں وہ ٹوٹ کر بکھر جائے گی۔مگر میں یہ بھی جانتی ہوں کہ وقت بہت بڑا مرہم ہوتا ہے۔وقت رهتے سمبھل بھی جائے گی۔تم اور سمبل میرے لئے برابر ہو۔اگر تم اس شادی میں دلچسپی نہیں رکھتے بچا تو تمہاری خالہ تم پر ہر گز کوئی دباؤ نہیں ڈالے گی۔“وہ کیسے یہ لفظ ادا کر پائی تھیں صرف وہی جانتی تھیں۔اپنی بیٹی کی محبّت کو کتنی آسانی سے چھپا گئی تھیں۔جبکہ وہ مسلسل نفی میں سر ہلآتا انہیں قائل کرنا چاہ رہا تھا۔
” تمہاری سانس دیتی خالہ کی تم سے صرف ایک ہی التجا ہے۔بس اس کا خیال رکھنا۔زندگی میں چاہے نا رکھنا کیوں کہ کچے زخم جلدی بھر جاتے ہیں جبکہ تمہاری بے وفائی کا زخم اس کے لئے ناسور بن جائے گا۔بہتر یہی ہے کہ تم ابھی علیحدگی اختیار کر لو ۔“
خاجستہ کے الفاظ نے شایان کو بھونچکا کر دیا تھا۔پیچھے اندر داخل ہوتے آغا جان اس ساری صورتحال کو سمجھنے میں نا کام سے تھے۔
دوسری جانب خاجستہ گہرے گہرے سانس بھریتیں صرف شایان کو دیکھ رہی تھیں۔جو خاموشی سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ان کی بگڑتی حالت کے پیش نظر آغا ڈور کر ڈاکٹر کو بلانے بھاگے تھے۔
وہ اس آخری وقت میں بھی ابھی صرف اپنی بیٹی کی خوشیاں چاہتی تھی وہ چاہتی تو اس وقت اسے مجبور کر کہ کوئی بھی وعدہ لے کر اسے ہمیشہ کے لئے سمبل کا کر سکتی تھی مگر انہوں نے ایسا نہ کیا ان کے لئے وہ دونوں ہی برابر تھے۔ دونوں کی خوشیاں عزیز تھیں۔ کسی ایک کس کے ساتھ نا انصافی انہیں گوارا نہیں تھی۔ خاجستہ کی حالت بگڑتی دیکھ اندر اتے ڈاکٹرز نے انہیں باہر نکال دیا تھا۔ شایان تھکے ہوئے قدموں سے نڈھال سر جھکا کے باہر آیا تو سمبل جلدی سے اس کی اور لپکی تھی۔جانے کیوں آغا نے اسے اندر جانے سے منع کر دیا تھا۔
شایان نے ذرا سی نظر اٹھا کر اس کے روتے سوجے ہوۓ چہرے کو دیکھا ۔جس نے اس کہ مقابل اتے ہی سوالوں کی بوچھاڑ کر دی تھی۔اس کہ تھکن زدہ چہرے کو دیکھ سوالوں کی بوچھاڑ کر دی تھی ۔آنسووں سے لبریز سوجھی موٹی آنکھیں جن میں اپنی ماں کا درد بول رہا تھا۔وہ خاموشی سے اسے کاندھوں سے تھامتا ایک طرف کو ہو گیا جو مسلسل اس سے سوال کررہے تھی۔پھر کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر نے باہر آ کر کر وہ خبر ان کے کانوں میں سور کی طرح پھوکی تھی جس کے باعث وہ اپنے پورے وجود سے بوس ہوئی تھی۔ کب خاجستہ کہ ہمراہ وہ لوگ واپس حویلی آے تھے۔کب خاجستہ کی آخری رسومات ادا کیں سمبل کو کچھ خبر نہ تھی وہ تو ساکت نظروں سے اپنی ماں کا چہرہ دیکھ رہی تھی جس کا دیدار بھی اس دنیا میں دوبارہ ممکن نہیں تھا اس کے بعد سے سمبل اور شایان کا سامنا نہیں ہوا تھا تھا شادی کو کچھ عرصے کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا۔ خاجستہ کی موت کی وجہ سب بلڈ کینسر ہی سمجھے تھے۔نروس بریک ڈاؤن پر کسی نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی جبکہ سمبل کی تو جیسے دنیا ہی اجڑ گئی تھی۔۔
______________________
“شایان جو ہوا بہت غلط ہوا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔مگر اب میں سمبل کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہونے دوں گا وہ مجھے میری بہنوں کی طرح عزیز ہے.“ آغا جان کے مقابل صوفے پر سر جھکا کر بیٹھا شایان اس تمام حادثے پر پشیمان تھا اس کی زبانی ساری حقیقت سے آشنا ہو کر وہ ایک دم غصے سے پاگل ہوگئے تھے ۔جنہیں شایان نے بہت مشکلوں سے ٹھنڈا کیا تھا.
” مگر آغا بھائی میں نے آپ لوگوں کو پہلے بھی کہا تھا کہ میں سمبل سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن آپ لوگ میری بات ماننے کو تیار ہی نہیں تھے۔ تو اس میں میری کیا غلطی ہے مجھے کیا معلوم تھا کہ خالہ جانی اس بات کا اس قدر صدمہ لی گئی اور اس دنیا سے ہی چلی جائے گی.” شایان نے نادم ہوکر کہا
“ یہ سب کرنے سے پہلے کچھ تو شرم کی ہوتی کچھ تو حیا کی ہوتی بد بخت !! یہ یاد کر لیتے کہ وہ تمہارے بچپن کی منگ ہے بچپن سے منسوب ہے وہ تمہارے نام کے ساتھ.“ اغانے کرخت لہجے میں اسے جھاڑ پلائی تھی.
” جب میں نے تم سے پوچھا تھا کہ کوئی ایسی ویسی بات تو نہیں ہے۔شادی سے انکار کی جب تم نے کتنی صفائی اور دھٹآئی سے میری نفی کی تھی۔ کہ نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔اور اب تم یہ سب کہہ رہے ہو۔دل تو چاہ رہا ہے۔میں تمہیں جان سے مار ڈالوں۔“ آغا ایک غصے میں سے آپے سے باہر ہوئے تھے
” شایان محض خاموشی سے سر جھکاۓ دل ہی دل میں ماہین سے خفا ہو رہا تھا۔ یہ سب اسی کی وجہ سے ہوا تھا۔اگر وہ ایسا نا کرتی تو وہ شادی کے بعد کوئی بھی بہانہ کر کہ خاموشی سے علیحدگی اختیار کر لیتا۔مگر اب تو سارا مسلہ ہی الٹ چکا تھا۔شادی تو اس کی ہر حال ہونی تھی۔اور اب وہ سمبل کو تکلیف دے کر اپنی خالہ کی روح کو بھی تکلیف نہیں پہچانا چاہتا تھا۔
“اب کیا کرنا ہے بد بخت۔۔مگر ایک بات تو جان لو شادی تو تمہاری سمبل سے ہوگی۔کیا تم نہیں جانتے تمہار انکار اس کی ذات کو ایک سولیہ نشان بنا کر چھوڑ جائے گا۔“شایان عجیب کشمکش میں گھرا کھڑا تھا۔ایک طرف سمبل کا آنسو پر لبریز چہرہ نگاہوں میں گھوم جاتا تو دوسری جانب ماہین کا جسے وہ بے پناہ محبت کرتا تھا..
”آغا میں سمبل کو ویسے بھی نہیں چھوڑ رہا۔ خالہ میری وجہ سے دنیا سے چلی گئیں اگر میں اب مزید سمبل کے ساتھ کوئی زیادتی کروں گا تو انکی روح کو مزید تکلیف ہوگی۔“شایان نے بہت مشکلوں سے یہ لفظ زیادہ کیے تھے..
”اور وہ لڑکی جس سے تم نے شادی کے وعدے کر رکھے ہیں۔ “آغا نے ماتھے پر بل ڈال کر استفسار کیا.
”آغا کیا میں ماہین سے دوسری شادی نہیں کر سکتا۔” شایان نے کچھ توقف کے بعد سوچ کر سوال کیا..
بالکل کر سکتے ہو۔ مگر اس سے پہلے تمہیں
سمبل سے اجازت لینی پڑے گی اگر چہ اسے کوئی اعتراض نہیں تو ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔“ آغاز ایک نظر اس کے پریشان چہرے پر گھما کر کر عام سے لہجے میں کہا..
”کچھ ہی دیر میں آغا کے حکم کے مطابق سمبل اس کمرے میں موجود تھی جہاں شایان پہلے سے موجود تھا..
“تو بولو بچہ تمہارا کیا فیصلہ ہے جو تمہارا فیصلہ ہوتا ہے۔ وہی آخری ہوگا۔کیا تمھیں اس بات سے کوئی اعتراض نہیں شایان تم سے شادی کے بعد دوسری شادی کر لے ۔اغانے سمبل کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھ کر پوچھا..
سمبل تو شایان کے مطالبے ،اور اس انکشاف پر پہلے ہی حیرت سے گنگ بے یقینی سے خاموش بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے تو سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہورہا ہے ۔اور آغا کے سوال کرنے پر جیسے اس کے دل میں خنجر گھونپ دیا تھا۔اسے یکدم ہی اپنی ماں یاد آئی تھیں۔ ایک نظر اٹھا کر شایان کو دیکھا جو اسی کو دیکھ رہا تھا تھا اور پھر آغا کو کو جن کی نظروں میں شفقت تھی جیسے جو فیصلہ کرے گی آخری ہوگا.مگر اس کہ فیصلہ کا اختیار تھا ہی کب۔۔
”آغا اگر میں کہوں کہ مجھے اس شادی سے اعتراض ہوگا تو کیا یہ مجھ سے شادی نہیں کریں گے؟“ سمبل نے ایک نظر شایان کو دیکھ سوال کیا
تمہاری شادی تو مجھ سے ہی ہوگی یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا لو۔” سمبل کے سوال کرنے پر شایان نے گھور کر کہا۔
“آغا خاندان کے تمام ہی لوگ اس بات سے واقف ہیں۔کہ میں بچپن سے شایان خانزادہ کی منگ ہوں۔ اور جب کہ اب تو بارات سر پر کھڑی ہے۔ ایسے میں اگر میں انکار کر بھی دو تو بعد میں مجھ سے کون شادی کرے گا؟مجھے فیصلہ کا اختیار دے کر بھی آپ لوگو نے مجھے فیصلہ لینے کے قابل نہیں چھوڑا۔میرا یہی فیصلہ ہے کہ میں شایان سے شادی کروگی لیکن میری موجودگی میں شایان ہر گز دوسری شادی نہیں کر سکتے۔” سمبل نے دل پر پتھر رکھ کر ابھی اسی کا ساتھ چنا تھا۔مگر ساتھ اپنی خوشیوں کی ضمانت بھی لی تھی۔آغا نے اس کہ سر پر ہاتھ رکھا تھا۔کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔جبکہ شایان ساکت نظروں سے اس کی پشت کو گھور رہا تھا..
“تو پھر طے ہوا تمہارا نکاح اسی ماہ کا ہوگا ۔مگر اب رخصتی کچھ ماہ بعد بعد ہوگی۔اس بچی نے ابھی اپنی ماں کو کھویا ہے۔ہم ابھی اس پر کسی قسم کی کوئی ذمہ داری نہیں ڈالنا چاہتے۔”۔وہ یہ بات اس کمرے کی درو دیوار سے باہر نہیں جانے دینا چاہتے تھے اسی لیے انہوں خان بیگم تک کو بتانے کی زحمت نہیں کی تھی۔ جبکہ شایان دل ہی دل میں سمبل کا دماغ ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔جو کتنی آسانی سے اس کے ہاتھ باندھ گئی تھی۔ وہ ذرا سی لڑکی اپنے ایک فیصلے سے اسے زیر کر گئی تھی ۔ اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دبوسی لڑکی اس کے آگے منہ کھولے گی۔
اور پھر وہی ہوا چند ماہ بعددونوں کی رخصتی ہوگئی لیکن اب ماہین کا بار بار ایک ہی تقاضا اور سمبل کو طلاق دینا اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ماہین کو چھوڑنے کے لئے اس کا دل کسی طور رضا مند نہیں تھا۔اس نے سوچا تھا۔ کہ کچھ عرصے بعد وہ سمبل کو سمجھاۓ گا۔اس کی تعلیم مکمل کروا کر اگر سمبل نہ چاہا تو اس کی رضامندی سے سے اس سے علیحدگی اختیار کر لیے گا۔ مگر ابھی تو صرف چار ماہ ہی ہوئے تھے اور سمبل کی پڑھائی بھی نہ مکمل تھی۔ ایسے میں کوئی بھی فیصلہ اس کی زندگی پر بری طرح اثر انداز ہوسکتا تھا۔ایک طرف ماہین تھی جس سے وہ پچھلے تین سالوں سے محبت میں گرفتار تھا۔اور اس کہ روز سوال کرنے پر ہمیشہ ٹال جاتا تھا۔تو دوسری طرف سمبل جو بچپن سے اس کے نام کے ساتھ منسوب تھی.۔
______________
سمبل نے آہستہ سے کمرے میں قدم رکھاتو نظر سیدھی سامنے گئی جہاں شایان بیڈ پر چت لیٹا ہوا تھا۔ دھیرے دھیرے چھوٹے چھوٹے چھوٹے سے قدم اٹھاتی نزدیک آئیں تو وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھے شاید سو رہا تھا۔سمبل کو اچانک ہی شرارت سوجھی تھی۔ ہاتھ اس کی آنکھوں کے سامنے لے جا کر ہلکا سا ہوا میں ہلاآیا اس پر اس نے کوئی رسپانس نہیں دیا تھا۔ اس کا مطلب وہ سو رہا تھا ابھی وہ قدم اٹھا کر پیچھے موڑنے ہی لگی تھی کہ شایان نے یکدم اٹھ کر اس کی کلائی پکڑ لی تھی جو وہاں سے فرار ہونے کے چکر میں تھی۔بھوکلا کر رہ گئی۔
”کیا ہوا اسے چوری چھپے کیا کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔“ سمبل یکدم حواس باختہ سی رہ گئی تھی
”وہ میں کچھ نہیں میں تو آپ کو اٹھانے آئی تھی۔۔۔۔ میں نے میز پر کھانا لگا دیا ہے جلدی سے آ کر کھالیں میں انتظار کر رہی ہوں۔ “سمبل گھبرا کر جلدی جلدی بولتی اس کی نرم گرفت سے جلدی سے اپنا ہاتھ چھڑا آتی اٹک اٹک کر بولتی دوڑ کر کمرے سے باہر نکل گئی تھی۔ شایان نے میں بالوں میں ہاتھ پھیر کر سر جھٹکا کا اور فریش ہونے کی غرض سے واش روم کی جانب بڑھا۔کچھ ہی دیر میں کف فولڈ کرتا روم سے باہر آیا جہاں سمبل میز پر کھانا لگاۓ شاید اسی کا انتظار کر رہی تھی۔۔
شایان نے ایک نظر اٹھا کر اس کہ دھلے ہوئےصاف شفاف چہرے کو دیکھا۔اور پھر سر جھٹک کر اپنی کرسی سنبھال کر بیٹھ گیا آج دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔اور اس وقت زورو کی بھوک لگی تھی۔اس وقت پیٹ میں چوہے کال بازی لگا رہے تھے ۔سمبل بھی پلیٹ میں کھانا نکال کر کھانے میں مصروف ہوگئی تھی جب کہ شایان کھانا کھاتے ہوئے مسلسل اسکی جانب گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کا دل کسی طور بھی اسے چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھا۔ مگر ماہین کی ضد نے اسے ایک فیصلہ لینے پر ضرور مجبور کر دیا تھا تھا۔ جس پر وہ جلد ہی عمل پیرا ہونے والا تھا….
_____________________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...