اگلی صبح وہ اپنے گیلے بالوں کو تولیۓ سے رگڑ کر خشک کررہا تھا، جب لالہ رُخ کی تیاری پر ٹھٹک کر رکا۔ وہ آف وائٹ ریشمی قمیص شلوار میں ملبوس تھی۔ قمیص کے گلے پر سبز رنگ کے موتیوں کا باریک کام جگمگا رہا تھا۔ سبز ہی دوپٹہ کندھے پر ڈالے وہ ایک ہاتھ سے کان میں جھمکا پہن رہی تھی۔ اس نے سنگھار آئینے میں نظر آتے اس کے عکس کو بغور دیکھا۔ اب وہ سیاہ بالوں کو ایک جانب کرتی دوسرے کان میں جھمکا ڈال رہی تھی۔
یہ محترمہ کس کے ولیمے پر جارہی ہیں اتنی صبح صبح۔۔!
اس نے نم بالوں کو یونہی ماتھے پر بکھرے رہنے دیا پھر اسکی جانب پلٹا۔
“آپ کہیں جارہی ہیں۔۔؟”
“جی۔۔”
اس نے بالوں کو کمر پر جھٹکتے مختصر سا جواب دیا تھا۔ اسکے جواب پر ارسل کے ابرو اکھٹے ہوۓ۔۔
“کہاں۔۔؟”
“آپ سے مطلب۔۔؟”
اگلا جواب بہت برجسگتی سے آکر اسکے منہ پر لگا تھا۔ اس نے لب بھینچ کر رخ سائیڈ ٹیبل کی جانب پھیرا۔ پھر گھڑی اٹھا کر کلائ پر باندھتا سرسری سا پوچھنے لگا۔
“کس کے ساتھ جارہی ہیں۔۔؟”
“آپکے ساتھ۔۔”
وہ اگلے ہی لمحے کرنٹ کھا کر مڑا تھا۔
“واٹ۔۔۔!!”
اور اب رُخ نے ایک پل کو رک کر اسکی جانب دیکھا تھا۔ مسکارے سے سجی آنکھیں بے نیازی سے جھپکائیں۔
“بھول تو نہیں گۓ کہیں کہ آپ میرے شوہر ہیں۔ اور یہ کہ شادی کے بعد لڑکیاں اپنے میکے بھی جاتی ہیں۔ لیکن آپکو کیوں یاد رہے گا۔۔ پچھلی محبوبہ کی یاد نے عقل و خود سے بیگانہ جو کررکھا ہے آپکو۔۔ اب بھی اگر آپکو یاد نہیں آرہا کہ آپ میرے کیا لگتے ہیں تو کیا میں کوئ قدم اٹھا کر آپکو یاد دلاؤں ارسل جی۔۔۔؟”
وہ بے ساختہ ہی پاس چلی آئ تو ارسل دو قدم پیچھے ہٹا۔ اسکی پشت الماری سے جا ٹکرائ۔ لیکن لالہ رُخ کی بے نیازی میں کوئ فرق نہیں آیا۔
شرمانا نہیں آتا تھا کیا اس لڑکی کو۔۔؟ جب دیکھو مجھے الماری کے ساتھ لگا کر دھمکا رہی ہوتی ہے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتا کہ ہم میں سے آخر شوہر ہے کون۔۔!
اس نے بہت سا تھوک نگل کر ہاتھوں کو حفاظتی طور پر، اپنے دونوں شانوں پر کراس کی صورت رکھا تھا۔ لالہ نے اسکے حفاظتی بندھ کو دیکھا اور پھر ہنس پڑی۔ موتیوں سے جگمگاتے دانت ارسل نے زندگی میں پہلی بار دیکھے تھے۔ اچھی لگتی تھی یار ہنستے ہوۓ۔۔! اس نے خود سے اعتراف کیا اور پھر خود ہی بری طرح سر جھٹکا۔
“ڈر گۓ آپ۔۔! اتنی جلدی۔۔!”
اور اسکا ذو معنی جملہ سن کر اب کہ وہ پورا سرخ ہوا تھا۔ پھر دانت پیس کر اسے دیکھا۔
“یہ کیا طریقہ ہے کسی کے انتہائ ذاتی اسپیس میں داخل ہونے کا۔۔!”
“اور طریقے ہیں ارسل افگن لیکن پھر وہ آپکی نازک طبیعت کے لیۓ درست نہیں۔۔”
اف۔۔ اور اب تو ارسل کے کانوں سے واضح طور پر دھواں نکلنے لگا تھا۔ اس نے اسے دونوں کندھوں سے تھام کر پیچھے ہٹایا تھا۔ رُخ نے بہت مشکل سے اپنی ہنسی روک رکھی تھی۔
“کیا چاہتی ہیں آپ۔۔؟”
“میں تو بہت کچھ چاہتی ہوں ارسل۔۔ کیا بتادوں۔۔؟”
اس نے آنکھیں پھیلا کر اس بے باک سی لڑکی کو دیکھا تھا کہ جسکی آنکھیں شریر سی شرارت لیۓ جگمگا رہی تھیں۔ اسے لالہ رُخ کو سمجھنے میں تھوڑا نہیں بہت وقت لگنا تھا۔
“آپکو اندازہ بھی ہے کہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔۔؟”
“آپکو کیا لگتا ہے مجھے اندازہ نہیں ہوگا۔۔؟”
“اچھا جو بھی ہے۔۔ کیا کام تھا آپکو مجھ سے۔۔”
“مجھے میری امی کے گھر لے کر جائیں۔ اور وہ بھی انتہائ خوش مزاجی اور خوش اخلاقی کے ساتھ۔ یہ سڑے ہوۓ نارنگی جیسا مخ (چہرہ) نہیں ہونا چاہیۓ آپکا۔ میرے علاقے میں میری بہت عزت ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ آپکی وجہ سے ذرّہ بھر بھی متاثر ہو۔”
اپنا علاقہ تو ایسے کہہ رہی تھی جیسے کسی گینگسٹر علاقے کی باس ہو۔ جیسے بہت سے لوگوں کو تربیت دیتے ہوۓ اسکی پچھلی زندگی گزری ہو۔ گزری بھی ہوسکتی ہے بہر حال۔۔! اس خیال کے آتے ہی ارسل نے جھرجھری لی تھی۔ پھر اسکے کندھے سے ہاتھ ہٹالیۓ۔
“میں کیا ملازم ہوں آپکا۔۔؟”
اسکے پیچھے ہوتے ہی وہ بگڑ کر بولا تھا۔ لالہ رُخ کا بالوں کو سہلاتا ہاتھ لمحے بھر کو ساکت ہوا۔
“اور آپکو لگتا ہے کہ میں اتنا بیکار ملازم رکھونگی۔۔!”
بکرا بکرا ہضم اور بکری پہ دم! لالہ رُخ کی وہ مثال تھی۔ وہ انسان کے الفاظ اسی کے خلاف بہت اچھے سے استعمال کرنا جانتی تھی۔ دوسری جانب ارسل نے اسکی بات سن کر سنجیدہ نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔
“اب یہ بیکار انسان آپکو لے جانے سے انکار کررہا ہے۔۔ سمجھیں آپ۔۔!”
“چہ۔۔”
رُخ نے ایک انداز سے اسکے آگے ہاتھ جھلایا تھا، جیسے کہہ رہی ہو۔۔ “تم تو چپ کرو یار۔۔!”
“جنکی صلاحیت مفلوج ہو، وہ انکار نہیں کرتے۔ بلکہ خاموشی سے ہر حکم پر سر تسلیمِ خم کرتے ہیں۔ تاکہ کوئ انہیں، انکے بیکار ہونے کے طعنے نہ دے سکے۔۔”
ارسل نے اسے جواب دینے کے لیۓ لب کھولے لیکن پھر بند کرلیۓ۔ اسکا سانس لمحوں میں ضبط کے باعث تیز ہوگیا تھا۔
“آپ۔۔”
“ارسل پلیز۔۔ آپکو لڑنا نہیں آتا ہے۔ اسی لیۓ مہربانی کریں یہ بلاوجہ کوشش بھی مت کیا کریں۔”
اور وہ واقعی اگلے پل خاموش سا ہوگیا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ وہ لالہ رُخ کی طرح کبھی بھی تیز تیز نہیں بول سکتا۔ وہ کوشش بھی کرلیتا تب بھی ناکام ہی رہتا۔ اور پھر جب آگے لالہ رُخ جیسے “پروفیشنل” لوگ ہوں پھر ان کے سامنے تو بالکل بھی نہیں۔۔! اس نے اگلے ہی پل گہرا سانس لے کر، آنکھیں بند کیں۔ پھر سمجھ کر سر ہلایا۔
“ٹھیک ہے۔ لے جاتا ہوں میں۔ آپ نیچے آجائیں۔ میں انتظار کررہا ہوں آپکا۔۔”
اور اسکا نارنگی بہت برباری سے کہہ کر باہر کی جانب بڑھا تو لالہ رُخ نے آنکھیں گھمائیں۔ پھر جھنجھلا کر بالوں کو شانے سے جھٹکا۔ کیوں کرتا تھا وہ ایسے۔۔ ایسے بردباری سے بات مان کر وہ اسے اچھا لگنے لگا تھا۔۔ وہ جانتی تھی کہ اسے زبان دراز لوگ نہیں ہرا سکتے۔۔ اسے صرف وہی ہرا سکتا تھا جو اپنا جواب بہت شریفانہ سے انداز میں چھوڑ کر دو قدم پیچھے ہٹ جاتا۔۔ جو اس سے مقابلہ نہ کرتا۔۔ جو ہار جاتا۔۔ ہاں۔۔ جو ہار جاتا۔۔!
اور وہ جانتی تھی کہ اسکا “نارنگی” ہارتے ہارتے اسے ایک دن جیت جاۓ گا۔۔!
***
گھر والوں سے پیار لے کر پلٹتے پلٹتے اسے بہت وقت لگ گیا تھا۔ ارسل اسکا گاڑی میں انتظار کررہا تھا۔ پھر وہ ساتھ والی نشست کا دروازہ کھول کر اندر آ بیٹھی۔ اس نے خاموشی سے گاڑی آگے بڑھا دی تھی۔ لالہ رُخ جو اصبح الگ ہی جون میں تھی، اس سمے ارسل کو بے حد خاموش لگی۔ اس نے ایک سرسری سی نگاہ اس پر ڈالی تھی۔
“آپکی طبیعت ٹھیک ہے۔۔؟”
اس نے پوچھ ہی لیا۔
“میری طبیعت ٹھیک ہو یا نہیں آپکو کیا فرق پڑتا ہے اس سے ارسل۔۔”
اس نے تیز لہجے میں کہہ کر اب کہ رخ بالکل ہی کھڑکی کی جانب پھیر لیا تھا۔ بے اختیار ہی ارسل کے ہونٹ سیدھی سی لکیر میں خاموش ہوگۓ۔ اسے تو ویسے بھی زیادہ گفتگو کرنے کی عادت نہیں تھی۔ اسی لیۓ لالہ رخ کی خاموشی نے اسے بہر حال سکون سے ڈرائیو کرنے دیا تھا۔ پھر گاڑی اسکے گھر کے آگے روکتے ہوۓ وہ باہر نکل آیا۔ رخ بھی اسکے ساتھ ہی باہر نکلی تھی۔ پھر اپنے عقد کے مطابق وہ دونوں مسکراتے ہوۓ گھر کے اندر بڑھے۔ وہ دونوں جانتے تھے کہ یہ مسکراہٹ گھر والوں کی زندگیوں کو ثابت رکھنے کے لیۓ بے حد ضروری تھی۔ ان کا خاموش معاہدہ دونوں جانب سے اس معاملے میں بے حد مضبوط تھا۔
لالہ رُخ گھر میں کیا داخل ہوئ وہاں تو گویا بہار اتر آئ تھی۔ اسے بھی اکلوتا داماد ہونے کے باعث بہت عزت اور ہاتھ کے چھالے کی صورت رکھا گیا۔ وہ جب اپنی امی کے ساتھ اوپر کی جانب بڑھ گئ تو رامش اور جنید اسے اپنے ساتھ ہی لیۓ لاؤنج میں بیٹھ گۓ تھے۔ افغان صاحب شاید کسی کام سے باہر گۓ تھے جبھی اسے وہ دکھائ نہیں دیۓ۔ جنید اور رامش، لالہ رُخ کے برعکس بہت خوش اخلاق اور معصوم سے تھے۔ اسے وہ دونوں بے حد اچھے لگے تھے۔
“اچھا آپکو کس قسم کا میوزک پسند ہے۔۔؟”
بات سے بات یونہی نکلی تو جنید نے پرجوش ہو کر پوچھا۔ وہ ہلکا سا مسکرایا۔
“مجھے کلاسک اور ذرا دھیما سا میوزک پسند ہے۔ ویسے میں نہیں سنتا اتنا زیادہ لیکن جب بھی اتفاق ہوا ہے سننے کا تب زیادہ تر غزلیں وغیرہ یا پھر جگجیت سنگھ کو ہی سننا پسند کیا ہے۔۔”
اسکی بات پر جنید اور رامش نے بے اختیار ہی نگاہوں کا تبادلہ کیا تھا۔ اس نے دونوں کی جانب باری باری دیکھا۔
“کیا ہوا۔۔؟ کیا اچھا نہیں ہے میرا میوزک ٹیسٹ۔۔؟”
اسکے پوچھنے پر جنید نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا تھا۔ پھر بولا۔
“ہم بس تھوڑا حیران ہیں کیونکہ آپی کا میوزک ٹیسٹ بہت وائلڈ قسم کا ہے۔ انہیEminem پسند ہے، Suga اور RM۔۔”
“یہ سب لوگ کون ہیں۔۔؟”
اسے یقین تھا کہ اس نے ان ناموں کو اپنی زندگی میں کبھی پہلے نہیں سنا۔
“یہ سب لوگ اپنی زبان کے تیزی سے rap کرنے کے لیۓ مشہور ہیں۔ ایمینم کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ وہ سانس لیے بغیر اتنی تیزی کے ساتھ گاتا ہے کہ سننے والے اسکا گانا روک کر اسے سانس لینے کے لیے کہتے ہیں۔ شُوگا بھی اپنے اسی انداز کے باعث مشہور سمجھا جاتا ہے۔ اسکے گانوں کے lyrics بہت غصیلے اور بھڑکتے ہوۓ ہوتے ہیں جبکہ دوسری جانب آر ایم یعنی rap monster مشہور ہی اپنے نام سے ہوا ہے۔ وہ واقعی کسی حیوان کی طرح rap کرتا ہے۔ آپی کے یہ سب لوگ پسندیدہ ہیں۔ وہ ان کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں سنتیں۔۔”
اور وہ حیرت سے کبھی جنید کو دیکھتا اور کبھی رامش کو۔ کچھ شک نہیں تھا کہ اس لڑکی کو ایسے لوگ اور اس طرح کے وائلڈ گانے پسند تھے۔ اسکی خود کی طبیعت کیا کسی جنگلی سے کم تھی۔۔؟ اس نے گہرا سانس لیا۔۔
“یہ تمہاری آپی کو کچھ عجیب مخلوقات نہیں پسند۔۔؟”
اسکی بات سن کر جنید اور رامش بے ساختہ ہنس دیۓ تھے۔
“ہم سارے گھر والوں بلکہ پورے خاندان کا ہی یہی خیال ہے کہ انہیں انتہائ عجیب و غریب چیزیں پسند آتی ہیں۔ آپکو پتہ پے آپی کو کبھی لو اسٹوریز نے اٹریکٹ نہیں کیا۔ وہ سنجیدہ قسم کے کرائم تھرلر، ایکشن اور ہارر فلمیں دیکھنا پسند کرتی ہیں۔ انہیں کاکروچ، چھپکلی یہاں تک کہ کسی بھی کیڑے مکوڑے سے ڈر نہیں لگتا۔ ہم جب سے بڑے ہوۓ ہیں ہم نے کبھی آپی کو سب کے سامنے روتے ہوۓ نہیں دیکھا۔ وہ کہتی ہیں انہیں زہر لگتے ہیں رونے دھونے والے لوگ۔”
انکی باتیں سن کر اسے کچھ زیادہ حیرت نہیں ہوئ تھی۔ ہاں بس زرا اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ بچپن سے لے کر اب تک کس طرح رہی ہے۔ اسکی پسند و ناپسند۔۔ اسے اب کچھ کچھ اندازہ ہورہا تھا۔ اور ساتھ ساتھ اسے یہ بھی احساس ہورہا تھا کہ وہ اس سے بہت مختلف ہے۔۔ بالکل الٹ۔۔
“بہت بہادر ہیں تمہاری آپی تو پھر۔۔”
اس نے مسکرا کر کہا تو رامش نے دانتوں کی نمائش کی۔ جنید اسکی جانب رازداری سے جھکا تھا البتہ۔
“ایک اور بات بتاؤں آپی کی۔۔ آپ پلیز انہیں مت بتائیے گا نہیں تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑینگی۔۔ ”
اسکی آنکھیں دلچسپی سے چمکی تھیں۔
“تم بتاؤ۔۔ میں نہیں بتاؤنگا اسے۔۔ ”
“آپی نے دو تین دفعہ اسکول میں بہت سے لڑکوں کو مارا پیٹا بھی ہے۔۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ وہ ہمیشہ بابا کے بچانے پر ماں سے بچ جایا کرتی تھیں۔ تب سے ان کا نام محلے والوں نے “جھانسی کی رانی” رکھ دیا ہے۔ ہمارے بھی مزے ہوگۓ ساتھ ساتھ۔۔ اب اگر کوئ بھی تنگ کرے تو ہم بتادیتے ہیں کہ ہم “کس” کے بھائ ہیں۔ سب ڈر کر خود ہی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔۔”
ارسل کی انتہائ نازک طبیعت پر یہ بات بہت گراں گزری تھی۔ ایسی لڑاکا تیارہ کو شادی تو ہرگز نہیں کرنی چاہیۓ تھی۔
“یہ تمہاری آپی نے تحریکِ طالبان کیوں نہیں جوائن کرلی۔؟”
اسکے پوچھنے پر وہ دونوں ایک بار پھر سے ہنس دیۓ تھے۔ اسی اثناء میں زینوں سے فاطمہ اترتی ہوئ نظر آئیں۔ انکے ساتھ لالہ رُخ بھی تھی۔
“بیٹے ارسل آپکو کوئ اعتراض تو نہیں اگر میں رُخ کو چند دن اپنے پاس رکھ لوں۔۔”
وہ انکی اس قدر عزت و محبت پر مسکراۓ بنا نہ رہ سکا۔ پتہ نہیں اتنے نرم خو لوگوں کی بیٹی اتنی خونخوار کیسے تھی۔۔؟
“جی جی آنٹی۔۔ رُخ جتنے دن چاہتی ہے رہ سکتی ہے۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔۔ مجھے آج آفس بھی جانا ہے اور دو ایک کام بھی نبٹانے ہیں۔۔ ”
لیکن اس سے پہلے کہ وہ باہر کی جانب بڑھتا رُخ بول اٹھی۔
“ماں میں آنٹی کو بتا کر نہیں آئ ہوں۔ اب اس طرح یہاں رک جاؤنگی تو اچھا نہیں لگے گا۔ اگلی دفعہ آؤنگی تو پھر بتا کر آؤنگی کہ رکنے جارہی ہوں۔ آپ مجھے لینے آجائیے گا شام تک ارسل۔۔ ”
اسکی سعادت مندی اور اس قدر سنجیدگی پر جہاں ارسل حیران ہوا تھا وہیں فاطمہ نے آنکھیں پھیلا کر اپنی بیٹی کو دیکھا تھا۔ پھر وہ دھیرے سے مسکرادیں۔ انکے بے چین دل کو اگلے ہی پل چین آیا تھا۔ پھر ارسل بھی نہ ٹھہرا اور ان سے اجازت لیتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔ اسکے جاتے ہی رُخ رامش اور جنید کی جانب بڑھ آئ تھی۔
***
شام میں وہ اسے لینے آیا تو افغان لاؤنج ہی میں براجمان، اسکا انتظار کررہے تھے۔ اسے اندر آتا دیکھ کر پرجوش سے آگے بڑھے اور اسے ساتھ لگالیا۔ پھر اس سے گھر والوں کا حال احوال دریافت کرتے ہوۓ وہیں لاؤنج میں بیٹھ گۓ۔ وہ بہت تحمل اور دھیمے انداز میں انہیں جواب دے رہا تھا۔ ساتھ ساتھ اسکا دل بھی انکی خوش اخلاقی پر ، کسی اندیکھی سی زنجیر میں جکڑتا جارہا تھا۔ کیا اتنے اچھے لوگوں کی بیٹی کو حقوق سے محروم رکھ کر ، انہیں اذیت میں مبتلا کرنا درست تھا۔۔ ؟ کیا وہ یہ سب ٹھیک کررہا تھا۔۔؟ کیا اسے یہ سب کرنا چاہیۓ تھا۔۔؟ اگر یہ سب ٹھیک تھا تو اسے کیوں ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔۔؟
بوجھل دل کے ساتھ مسکراتے ہوۓ وہ اب ہلکان ہورہا تھا۔ اس جیسے شفاف اور حساس طبیعت رکھنے والے کے لیۓ یہ باتیں بہت بڑی تھیں!
***
واپسی کا سارا راستہ بے حد خاموش تھا۔ نہ اس نے کسی بات کا آغاز کیا اور نہ ہی رُخ نے اس سے کوئ بات کرنے کی کوشش کی۔ پھر وہ اسی خاموشی کے ساتھ گھر میں داخل ہوۓ۔ ماں، بابا اور دادی سے پیار لینے کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلے آۓ تھے۔ آج کمرہ بے حد خاموش تھا۔ نہ دروازے مارے جانے کی آوازیں تھیں اور نہ ہی بستر پر جھگڑا ہورہا تھا۔ ارسل ایک جانب صوفے پر سو رہا تھا اور رُخ کروٹ لیۓ دوسری جانب بیڈ پر دراز تھی۔
اگلی صبح، اسکی آنکھ بہت سویرے کھلی تو دیکھا وہ اپنا لیپ ٹاپ سامنے رکھے کام کررہا تھا۔ شاید اسکی پریزنٹیزشن تھی آج آفس میں۔ رات ہی اس نے شیر افگن کو اسے تاکید کرتے ہوۓ دیکھا تھا۔ انکی کمپنی کے لیۓ یہ پراجیکٹ بہت اہم تھا۔ انہیں کسی بھی حالت میں یہ پراجیکٹ چاہیۓ تھا۔ اگلی دفعہ جب اسکی آنکھ کھلی تو دیکھا وہ بہت خاموشی سے سنگھار آئینے کے سامنے کھڑا ٹائ باندھ رہا تھا۔ ہمیشہ کی پرسکون، دھیما اور خاموش۔۔
وہ جب آفس جا چکا تو وہ بھی اٹھ کر نہائ اور پھر فریش ہوتی کمرے سے باہر نکل آئ۔ اس کا موڈ رات کے برعکس بہت بہتر تھا۔ ابھی وہ محض کچن میں داخل ہو کر سمیرا کو سلام ہی کرپائ تھی کہ گھر کا فون بج اٹھا۔ وہ انہیں مسکرا کر دیکھتی واپس پلٹی اور لاؤنج میں بجتا فون اٹھالیا۔ آگے سے ارسل کی بے حد پریشان آواز سنائ دی تھی۔
“ہیلؤ۔۔”
“ہیلؤ۔۔ لالہ رُخ میرے صوفے پر میری فائل رہ گئ ہے۔ وہ بے حد اہم ڈاکومینٹس ہیں رُخ۔ کیا تم انہیں رامو کاکا۔۔ نہیں۔۔ نہیں رامو کاکا تو بہت آہستہ ڈرائیو کرتے ہیں۔۔ او خدا۔۔”
رامو کاکا اپنے ضعیفی کے دور میں تھے۔ وہ تو انکے ایماندار مزاج اور اعلیٰ کردار کے باعث اب تک شیر افگن انہیں کام پر رکھے ہوۓ تھے۔
“ہوا کیا ہے ارسل۔۔؟”
“رُخ مجھے وہ فائل دس منٹ میں چاہیۓ۔۔”
اس نے عجلت میں کہا تھا۔ پریشانی اسکی آواز سے ہی واضح تھی۔
“مل جائیگی آپکو۔۔”
اور اس نے کھٹاک سے فون رکھ کر اوپر کمرے کی جانب دوڑ لگائ تھی۔ ساتھ ہی کھلے بالوں کو جوڑے میں باندھا۔ پھر دوپٹہ ایک جانب گرہ لگا کر پیروں میں سینڈل اڑسے اور تیزی سے نیچے کی جانب بھاگی۔ احتیاطً اس نے کچن کو بھی ایک نظر دیکھ لیا تھا۔ یقیناً گھر والے نئ نویلی دلہن کو اس طرح ہوا کے گھوڑے پر سوار دیکھ کر کچھ زیادہ خوش نہیں ہونے والے تھے۔
رامو کاکا گاڑی کو کپڑے سے صاف کررہے تھے۔ اس نے ان کی جانب دوڑ لگائ۔۔
“رامو کاکا۔۔ چابی دیں مجھے۔۔”
“لیکن بی بی۔۔”
“آپ مجھے چابی دیں اور جلدی سے پچھلی سیٹ پر بیٹھیں۔۔”
اس نے اگلی نشست کا دروازہ کھولا اور اندر بیٹھنے ہی لگی تھی کہ رامو کاکا کا پریشان سا چہرہ دیکھا۔ انکا جھریوں سے سجا چہرہ اسے بہت بوڑھا اور کمزور سا لگ رہا تھا۔ کچھ سوچ کر وہ اندر بھاگی اور پھر جب وہ باہر آئ تو اسکے ہاتھ میں ایک عدد ہیلمٹ تھا۔
“یہ جلدی سے پہن لیں۔۔”
جب انہوں نے ہاتھ آگے نہیں بڑھایا تو اس نے ہیلمٹ انکے سر پر ڈال دیا۔ انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ لڑکی انہیں گاڑی میں یہ ہیلمٹ کیوں پہنا رہی تھی۔۔؟ بلکہ یہ لڑکی آخر اس قدر عجلت میں جا کہاں رہی تھی۔۔؟
“رامو کاکا جلدی۔۔!!!”
وہ چلائ تو رامو کاکا ڈر کر جلدی سے اندر بیٹھنے ہی لگے تھے کہ بری طرح گاڑی کے اوپری حصے سے ٹکرا گۓ۔ لیکن پھر جلدی سے سنبھل کر اندر بھی بیٹھ گۓ۔ اس نے گاڑی زن سے آگے بڑھائ تھی۔ رامو کاکا نے گھبرا کر ہینڈل تھاما۔ وہ گاڑیوں کے درمیان سے گاڑی بہت تیزی کے ساتھ نکالتی، سارے قوانین پر اس سمے لعنت بھیج چکی تھی۔
“بیٹی۔۔ بیٹی ہم کہاں جارہے ہیں۔۔؟”
“ارسل کے آفس۔۔”
اس نے ایکلسلریٹر پر پاؤں کا دباؤ بڑھایا تو رامو کاکا ایک جانب کو لڑھکے۔ یہ لڑکی یقیناً موت کے کنویں میں گاڑی چلاتی رہی تھی۔۔! انہوں نے بے اختیار کلمہ پڑھا تھا۔ ساتھ ساتھ انکا ہیلمیٹ پہنا سر ادھر ادھر ٹکرا رہا تھا۔ انہیں اب اندازہ ہوا تھا کہ رُخ نے انہیں ہیلمٹ کیوں دیا تھا۔۔!
اسی وقت ایک بندہ رُخ کی گاڑی کو کٹ مار کر نکلا تو اس نے دانت پیسے۔۔!
“اسکی تو۔۔!!”
اور اگر جو وہ جلدی میں ارسل کی فائل دینے اسکے آفس نہیں جارہی ہوتی تو وہ اس آدمی کو بتاتی۔ اگر اس نے اسے رسی پر سکھا کر ٹانگ نہ دیا ہوتا تو اسکا نام بھی لالہ رُخ نہ ہوتا۔۔
“بیٹی آہستہ۔۔ ہمیں آفس پہنچاتے پہنچاتے کہیں تم اوپر نہ پہنچادینا۔۔”
انہیں تو اپنے ہی غم لگے ہوۓ تھے۔ اس نے ایک بار پھر گاڑیوں کے درمیان سے گاڑی نکالی تو ٹریفک پولیس والا چیخا۔ اس نے پیچھے دیکھے بغیر سرخ بتی کراس کی اور پھر اسی تیزی کے ساتھ زن سے گاڑی بھگاتی آگے لے گئ۔ ایک موڑ کے بعد اس نے شیشوں سے ڈھکی اونچی سی بلڈنگ کے آگے گاڑی روکی اور پھر اندر کی جانب بھاگی۔ ساتھ ساتھ وہ بالوں کا جُوڑا بھی کھول چکی تھی۔ بہت سے ورکرز اس خوبصورت سی لڑکی کو دیکھ کر رکنے لگے تھے۔ اس نے لفٹ کی جانب قدم بڑھاۓ اور پھر ابھی وہ بٹن دبا کر لفٹ کا دروازہ بے صبری سے بند ہوتا دیکھ ہی رہی تھی کہ کوئ ہاتھ دروازے کے درمیان آگیا۔ اگلے ہی لمحے دروازے میں ارسل نمودار ہوا تھا۔ سفید چہرہ اور ماتھے پر پسینے کی بوندیں لیۓ وہ اسے صبح والے ارسل سے خاصہ مختلف لگا۔
فائل ہاتھ میں لیتے ہی ارسل نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ پھر اسکی جانب دیکھا جو خود بھی گہرے گہرے سانس لے رہی تھی۔
“کچھ شک نہیں کہ تم مارشل آرٹسٹ رہی ہو۔۔”
اس نے اسے اسکی اس قدر پھرتی پر سراہا تھا۔ رُخ نے آنکھیں گھمائیں۔
“میں مارشل آرٹسٹ تھی نہیں ارسل۔ میں مارشل آرٹسٹ ہوں۔۔”
“رامو کاکا کے ساتھ آئ ہو۔۔؟”
“انہیں پچھلی سیٹ پر ہیلمٹ پہنا کر بٹھایا تھا۔ تاکہ بعد میں گھر والوں کو بتاسکوں کے میں انکے ساتھ ہی آفس گئ تھی۔۔”
“اور پھر یہ تو رامو کاکا ہی جانتے ہونگے کہ کون کس کے ساتھ آفس گیا تھا۔”
اس نے سمجھ کر سر ہلایا تھا۔ پھر اسے دیکھا۔
“تھینکس۔۔”
ابھی وہ اسے مزید کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ لفٹ کا دروازہ کھلا اور ارسل اپنی جگہ ہی ساکت ہوگیا۔ رُخ نے اسکی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا تھا۔ وہاں ایک خوبصورت سی نازک لڑکی، بیگ کندھے پر ڈالے کھڑی تھی۔ وہ بھی ارسل اور لالہ رُخ کو دیکھ کر اپنی جگہ ہی جم سی گئ تھی۔ پھر وہ بے ساختہ پیچھے ہٹی اور وہاں سے بھاگتی چلی گئ۔ ارسل تڑپ کر باہر نکلا تھا۔
“آمنہ۔۔ آمنہ۔۔”
وہ اسکے پیچھے بھاگا تو رُخ کے قدم لفٹ کی زمین کے ساتھ ہی پیوست ہوگۓ۔۔ آنکھیں ادراک کے لمحات کو پار کرتیں، جیسے ہی کچھ مطلب اخذ کرپائیں۔۔ وہ ساکت رہ گئ۔۔ اسکا شوہر۔۔ اسے چھوڑ کر۔۔ کسی اور لڑکی کے پیچھے۔۔
لیکن پھر اس سے آگے اس سے سوچا نہیں گیا۔ آنکھوں میں جما ہوتے پانی کو اس نے اپنے اندر ہی خشک کرلیا۔ اپنی ذات کی بے قدری پر دل کروٹیں لینے لگا تھا۔ اس نے گہرے گہرے سانس لیۓ اور پھر بہت کچھ اپنے حلق کے اندر اتارتی وہ لفٹ سے نکل آئ۔ اب کہ سرد راہداری میں چلتے اسکا دل بھی سرد ہورہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا گویا موسمی ٹھنڈک اسکے وجود کو ان پچھلے لمحات میں اندر تک جما گئ ہو۔ اس نے زندگی میں پہلی بار تذلیل سہی تھی۔۔ اور اس ایک دفعہ کے سہہ لینے نے، اسے بہت تکلیف پہنچائ تھی۔۔ اور یہ تکلیف شاید اسی لیۓ سوا تھی کیونکہ وہ جانتی تھی۔۔ کہ وہ ارسل کو چاہنے لگی ہے۔۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اسکی محبت کے اندیکھے سے حصار میں گھرنے لگی ہے۔۔ وہ جانتی تھی۔۔ اسے پتہ تھا۔۔
“کہ ارسل۔۔ اسے۔۔ اچھا لگنے۔۔ لگا تھا۔۔!”
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...