سماریہ گھاٹ سے مسافر کشتی شام گئے آ رہی تھی۔ میں اس جانب کھڑا تھا جہاں سے مسافر اترتے ہیں اور مسافروں کو اترتے دیکھتا رہا جو نیچے اتر کر براڈ گیج لائن کی طرف بڑھ جاتے جو ان کی خاطر میں نے چند منٹ تاخیر سے روانہ کرنے کا کہا تھا۔ سب سے آخر میں اترنے والے مسافر کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں اور یہ دبلا پتلا بندہ پیوند لگے کپڑے پہنے ہوئے تھا جو کبھی سفید رہے ہوں گے۔ اس نے رنگدار رومال کی پوٹلی اٹھائی ہوئی تھی۔ گینگ وے کی ریلنگ کو پکڑ کر اس نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا۔ مگر نیچے اترنے کی بجائے وہ دریا کے کنارے بمشکل پہنچا۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ بہت بیمار ہے۔ دریا پر اکڑوں بیٹھ کر اس نے منہ دھو کر اپنی پوٹلی کھول کر ایک چادر نکالی اور کنارے پر پھیلا کر اس پر لیٹ گیا۔ گنگا کا پانی اس کےپیروں سے ٹکرا رہا تھا۔ صاف لگ رہا تھا کہ اسے ٹرین سے کوئی دلچسپی نہیں اور جب روانگی کی گھنٹی بجی اور ٹرین نے سیٹی ماری تو اس نے توجہ نہیں دی۔ وہ پیٹھ کے بل لیٹا تھا اور جب میں نے اسے بتایا کہ اس کی ٹرین چھوٹ گئی ہے تو اس نے اپنی آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور بولا، “کیسی ٹرین صاحب، میں مرنے والا ہوں۔”
آموں کا موسم تھا اور یہ سال کا گرم ترین موسم ہوتا ہے اور ہیضہ اپنے عروج پر۔ جب یہ بندہ میرے قریب سے گزر کر نیچے اترنے لگا تو مجھے شکل تھا کہ اسے ہیضہ ہے اور اب میرے خدشات درست ثابت ہوئے۔ میرے سوالات پر اس نے بتایا کہ وہ اکیلا سفر کر رہا ہے اور موکمہ گھاٹ میں اس کے کوئی دوست احباب نہیں۔ میں نے اسے سہارا دیا اور اسے دو سو گز دور اپنے گھر کی طرف لایا اور اپنے پنکھا جھلنے والے قلی کے خالی کوارٹر میں لٹا دیا۔ یہ کوارٹر دیگر سے الگ تھلگ تھا۔ میں دس سال سے موکمہ گھاٹ پر کام کر رہا تھا اور کافی تعداد میں عملہ کام کرتا تھا۔ کچھ لوگ میرے مہیا کردہ گھروں میں رہتے تو باقی آس پاس کے دیہاتوں میں۔ میں نے اپنے عملے اور دیہاتوں میں ہیضے کے اتنے مریض دیکھے تھے کہ میری دعا تھی کہ اگر مجھے ہیضہ ہوا تو کوئی ہمدرد میرے سر میں گولی پیوست کر کے مجھے اس کی تکلیف سے نجات دلا دے یا افیون کی زیادہ مقدار سے میری مشکل آسان کر دیتا۔ کئی لوگ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ہر سال ہزاروں لوگ جو ہیضے سے مرتے ہیں، ان میں نصف سے زیادہ افراد بیماری کی بجائے اس کی دہشت سے مرتے ہیں۔ ہم جو ہندوستان میں رہتے ہیں، قسمت کو مانتے ہیں کہ کوئی بھی انسان اپنے مقررہ وقت سے پہلے نہیں مر سکتا، مگر وبائی امراض سے ہمارا خوف فطری ہے۔ ہیضے سے پورے ملک کے لوگ ڈرتے ہیں اور جب اس کی وبا آتی ہے تو بہت سارے لوگ بیماری کی بجائے اس کے ڈر سے مر جاتے ہیں۔
یہ بندہ ہیضے کا شکار تھا اور اس کے بچنے کی امید اس کی ہمت اور میرے ٹوٹکوں پر منحصر تھی۔ کئی میل تک طبی امداد کا واحد امکان ایک ظالم ڈاکٹر تھا جو بیکار اور فضول انسان تھا۔ اگر میرے پاس تربیت کے لیے ایک نوجوان کلرک نہ بھیجا جاتا جس نے اس ڈاکٹر سے نجات کا بہتر طریقہ پیش کیا، میں کسی دن اس کے گلے کو بخوشی کاٹ دیتا۔ سارا عملہ اس سے نفرت کرتا تھا۔ اس کلرک نے ڈاکٹر اور اس کی بیوی کا اعتماد حاصل کر لیا جنہوں نے بخوشی بتایا کہ موکمہ گھاٹ آنے سے قبل وہ مصر میں تھے اور بہت عیش کرتے تھے۔ دونوں میاں بیوی اخلاقی اعتبار سے دیوالیہ تھے۔ اس پر کلرک نے سوچنا شروع کر دیا اور چند روز بعد رات کو جب آخری سٹمیر سماریہ گھاٹ کے لیے روانہ ہونے والا تھا کہ ڈاکٹر کو ایک خط ملا جسے پڑھتے ہی ڈاکٹرنے اپنی بیوی کو کہا کہ وہ ایک مریض کو دیکھنے جا رہا ہے اور ساری رات غائب رہے گا۔ پھر خوب بن ٹھنک کر ڈاکٹر باہر نکلا تو کلرک منتظر تھا جو اسے انتہائی رازداری سے ایک خالی کمرے میں لے گیا جہاں چند رات قبل میرا ایک ملازم کوئلے کی گیس سے ہلاک ہوا تھا۔
ڈاکٹر کچھ دیر اس کمرے میں منتظر رہا۔ اس کمرے میں ایک مضبوط دروازہ تھا اور ایک چھوٹی سی سلاخوں والی کھڑکی۔ پھر دروازہ کھول کر ایک برقعہ پوش ہیولہ اندر داخل ہوا اور باہر سے دروازے کو بند کر کے قفل لگا دیا گیا۔
اس رات میں گوداموں کی جانب سے کافی دیر کو واپس لوٹ رہا تھا کہ اس نئے کلرک اور اس کے ساتھی کے درمیان ہونے والی گفتگو سنائی دی۔ اگلی صبح کام پر جاتے ہوئے میں نے اس کمرے کے باہر ایک ہجوم دیکھا۔ پوچھا تو پتہ چلا کہ اندر کوئی موجود ہے مگر باہر سے تالا لگا ہوا ہے۔ میں نے اسے ہتھوڑا لانے کو بھیجا تاکہ تالا توڑا جائے۔ یہ حکم دے کر میں نے دوڑ لگا دی کہ مجھے علم تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ اس روز میری ڈائری پر تین مندرجات ہیں:
۱۔ ڈاکٹر اور اس کی بیوی کسی ذاتی کام سے بعجلت روانہ ہو گئے۔
۲۔ شیو دیو نامی عارضی کلرک کو بیس روپے ماہانہ پر مستقل ملازمت دی گئی۔
۳ ۔ تالے، کنڈی اور دیگر متعلقہ سامان پر انجن چڑھ گیا تھا جو بدل دیا گیا۔
ذلیل ڈاکٹر اور اس کی بیوی پھر کبھی موکمہ گھاٹ پر نہیں دکھائی دیے۔ یہ شخص اس معزز پیشے کے لیے ذلت کا سبب تھا۔
اس بندے کی دیکھ بھال کے لیے زیادہ وقت نکالنا ممکن نہیں تھا کہ میرے پاس تین مریض اور بھی تھے اور کسی دوسرے سے مدد مانگنا ممکن نہیں تھا کہ میرے ملازمین کی ذاتیں مختلف تھیں اور ویسے بھی کسی دوسرے کو بیماری کیوں پھیلے۔تاہم اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ میں نے اس بندے پر واضح کیا کہ میں اسے مرنے کے لیے یہاں نہیں لایا کہ اسے پھر جلانا بھی مجھے ہی پڑے۔ یہاں وہ صحت یاب ہونے آیا تھا سو اس کا تعاون اہم تھا۔ پہلی رات تو مجھے خوف ہوا کہ وہ بندہ مر جائے گا۔ مگر دوسری صبح اس کی حالت بہتر ہونے لگی اور باقی کام محض اس کی صحت کی بحالی کا رہ گیا تھا۔ ہیضہ کسی دوسری بیماری کی نسبت زیادہ تیزی سے انسان کے جسم سے توانائی چوس لیتا ہے۔ ابھی ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ وہ مجھے اپنی پوری کہانی سنانے کے قابل ہو گیا۔
وہ لالہ تھا،یعنی تاجر اور کچھ عرصہ قبل تک غلے کا بہت کامیاب تاجر تھا۔ پھر اس نے غلطی سے ایک ایسے بندے کو ساجھی دار بنا دیا جسے اس کام کی الف بے بھی نہیں آتی تھی۔ چند سال تک کاروبار چلتا رہا مگر ایک دن جب وہ طویل سفر سے واپس آیا تو دیکھا کہ اس کی دکان خالی تھی اور اس کا ساتھی غائب تھا۔ اس کی پس انداز شدہ رقم فوری ضرورتوں کے لیے ناکافی تھی اور ادھار نہ مل سکنے پر اسے ملازمت کرنی پڑی۔ اس نے اپنے ساتھی تاجر کے ہاں سات روپے مہینہ پر ملازمت کر لی۔ اس تاجر کے ساتھ وہ دس سال سے تجارت کر رہا تھا۔ یہ رقم اس کے اور اس کے بیٹے کے گزارے کے لیے کافی تھی کہ اس کی بیوی اس دھوکے کے بعد مر چکی تھی۔وہ اپنے آجر کے کام سے مظفرپور سے گیا جا رہا تھا کہ ٹرین پر بیمار ہو گیا۔ سٹیمر پر پہنچتے پہنچتے اس کی حالت خراب ہو گئی تھی، سو وہ مقدس دریا کے کنارے مرنے کے لیے لیٹ گیا۔
لالاجی کومیں ہمیشہ اسی نام سے یاد رکھتا ہوں، میرے پاس ایک مہینہ رہا اور پھر اس نے گیا جانے کے لیے اجازت مانگی۔ اب لالا جی کی صحت اتنی بہتر ہو گئی تھی کہ وہ میرے ساتھ شیڈز تک چہل قدمی کر لیتا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ اگر اس کی واپسی پر اس کی جگہ دوسرا ملازم رکھ لیا گیا ہو تو کیا ہوگا۔ اس نے کہا کہ کوئی بات نہیں، وہ کوئی اور ملازمت تلاش کر لے گا۔ میں نے پوچھا، “تم کسی سے مدد کیوں نہیں مانگتے، کہ پھر سے تجارت شروع کر سکو؟”
اس نے جواب دیا، “تجارت پھر سے شروع کرنے اور اپنے بیٹے کو پڑھانے کی خواہش دن رات ساتھ لگی ہوئی ہے مگر صاحب، پوری دنیا میں میرا کوئی نہیں اور سات روپے ماہوار تنخواہ والے ملازم کو کون ادھار دے گا؟مجھے کاروباور شروع کرنے کے لیے کم از کم پانچ سو روپے درکار ہوں گے۔”
گیا کے لیے ٹرین آٹھ بجے رات کو روانہ ہوئی اور میں اس سے ذرا قبل گھر آیا اور لالا جی نئے کپڑے پہنے اور پہلے سے بڑی پوٹلی اٹھائے برآمدے میں منتظر ملا۔ جب میں نے اس کے ہاتھ پر ٹرین کا ٹکٹ اور پانچ سو روپے کے نوٹ رکھے تو بدھو کی طرح اس کی زبان بھی گنگ ہو کر رہ گئی۔ بار بار وہ ان نوٹوں کو اور پھر مجھے دیکھتا۔ جب ٹرین کی روانگی سے پانچ منٹ قبل والی گھنٹی بجی تو اس نے اپنا سر میرے پیروں پر رکھا اور بولا، “ایک سال کے اندر اندر آپ کا غلام آپ کی رقم لوٹا دے گا۔”
اس طرح لالاجی روانہ ہوا اور اپنے ساتھ میری بچت کا بڑا حصہ بھی لے گیا۔ مجھے اس کی واپسی پر کوئی شبہ نہیں تھا کہ ہندوستان کے غریب کبھی مہربانی کو نہیں بھولتے، مگر لالا جی نے جورقم لوٹانے کا وعدہ کیا تھا، وہ مجھے اس کے بس سےباہر کی بات لگا۔ تاہم یہ میری غلط فہمی تھی۔ ایک روز شام کو گھر واپس لوٹا تو بے داغ کپڑوں میں ملبوس ایک آدمی برآمدے میں منتظر ملا۔ چونکہ روشنی اس کے عقب سے آ رہی تھی، سو اس کی آواز سنی تو پھر کر پہچانا۔ یہ وہی لالاجی تھا جو اپنی مقرر کردہ مدت سے چند روز قبل آ پہنچا تھا۔ رات کو وہ میری کرسی کے پاس زمین پر بیٹھ کر مجھے اپنے کاروبار کے بارے بتانے لگا کہ کیسے اسے کامیابی ہوئی ہے۔ اس نے چند بوری غلہ سے کام شروع کیا تھا اور ہر بوری پر چار آنہ منافع رکھتا تھا۔ آہستہ آہستہ اس نے ترقی کی اور تیس ٹن تک کے سودے کرنے لگا۔ اسے فی ٹن تین روپے کا منافع ہوتا تھا۔ اس کا بیٹا اچھے سکول میں تھا اور اب اس نے پٹنہ کے ایک امیر تاجر کی بیٹی سے بیاہ بھی کر لیا تھا۔ یہ سب کامیابیاں اس نے بارہ ماہ سے بھی کم مدت میں حاصل کر لی تھیں۔ جب اس کی ٹرین کا وقت قریب آیا تو اس نے میرے زانو پر سو سو کے پانچ کڑکڑاتے نوٹ رکھ دیے۔ پھر اس نے اپنی جیب سے تھیلا نکالا اور میرے سامنے رکھ کر بولا، “پچیس فیصد کے حساب سے سود یہ رہا۔” جب میں نے اسے بتایا کہ ہمارے ہاں دوستوں سے سود لینے کا کوئی رواج نہیں تو مجھے شک ہے کہ اس کی خوشی آدھی رہ گئی ہوگی۔ روانگی سے قبل اس نے بتایا کہ ایک ماہ جو اس نے یہاں گزارا تھا، اس نے میرے ملازمین سے گپ شپ بھی کی تھی اور اسے علم ہوا کہ “ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب نوبت ایک چپاتی اور تھوڑی سی دال تک پہنچ گئی تھی۔ بھگوان نہ کرے، ایسا کوئی وقت آیا تو میں اسے یاد کروں اور وہ اپنا سارا سرمایہ میرے قدموں پرنچھاور کر دے گا۔”
گیارہ سال بعد میں موکمہ گھاٹ سے نکلا اور اس دوران ہر سال لالاجی کے اپنے باغ سے بہترین آموں کا بڑا ٹوکرا وہ میرے لیے بھجواتا تھا کہ میں نے اس کو دوبارہ پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دی تھی اور وہ دوبارہ اس مقام پر جا پہنچا جہاں اس کے ساجھی نے دھوکے سے اس سے سب کچھ لے لیا تھا۔
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...