رموا پور کے لالہ دیبی بخش جب مچھر ہٹہ پہنچے تو دیکھا کہ ان کا ’’موکل‘‘ ملو بھر جی لائی کا تعزیہ بنا رہا تھا۔ ہندو بھرجی کو مسلمانوں کے کرم کرتے دیکھا تو جل کر رہ گئے۔ چنے کی طرح چٹختی آواز میں مقدمے کی پیروی کو بقایا کا تقاضہ کر دیا۔ ملو بے چارہ للو چپو کرنے لگا۔ اور بتلاتے بتلاتے وہ منت بھی بتلا گیا جو اس نے امام حسین سے مانگی تھی اور پائی تھی۔ لالہ لاٹھی کی مٹھیا پر ٹھڈی رکھے کھڑے سنتے رہے اور سنتے سنتے اپنی سوکھی ماری للائن کی ہری گود کے مہکتے سپنوں میں کھو گئے۔ جب جاگے تو چوکے میں تھالی پروسی دھری تھی اور للائن بدن کی اکلوتی دھوتی کے پلو سے مکھیاں اڑا رہی تھیں۔ پہلے وہ جھوٹ موٹ منھ چھوتی رہیں پھر پھیل گئیں اور لالہ کو ملو بھرجی کا حال بتانا پڑا۔ للائن نے چپ سادھ لی۔ وہی چپ جس کے جادو سے چاندی ایسی دلہن مٹی کے مادھو سے نکاح قبول کر لیتی ہے۔
جب سوچتے سوچتے لالہ دیبی بخش کی کھوپڑی تڑخ گئی، آنکھوں سے پانی بہنے لگا اور مچھر ہٹہ میں بجتے ہوئے محرمی باجوں کی دھمک ان کے سنسان آنگن میں منڈلانے لگی تب لالہ دیبی بخش اپنی کھٹیا سے اٹھے۔ چراغ کی ٹھنڈی پیلی روشنی میں جھاویں سے مل مل کر خوب نہائے اور دھوبی کا دھلا ہوا جوڑا پہنا جسے ڈٹ کر مسرکھ اور سیتا پور کی کچہریوں میں وہ ٹکے ٹکے پر مقدمے لڑاتے ہیں۔ دروازے سے نکلتے نکلتے للائن کو جتا گئے کہ میں رات کے گئے لوٹوں گا۔ جیسے جیسے مچھر ہٹہ قریب آتا جاتا اور باجوں کی گھن گرج نزدیک ہوتی جاتی ویسے ویسے ان کے دل کی دھیرج بڑھتی جاتی۔ جو گی اپنے چوک پر رکھی ہوئی ضریح کے آگے اچھل اچھل کر ماتم کر رہے تھے اور مرثیہ پڑھ رہے تھے۔ گلستاں بوستاں چا ٹے ہوئے لالہ دیبی بخش نے آدمیوں کی دیوار میں اپنا راستہ بنایا اور کھڑے پگھلتے رہے۔ نیم سار کے مندر میں درگا میا کی مورتی کی طرح سامنے ضریح مبارک رکھی تھی۔ لالہ نے کانپتے ہاتھوں کو سنبھال کر جوڑا اور آنکھیں بند کر لیں۔ جب وہ وہاں سے ٹلے تو چاندنی سنولانے لگی تھی، سڑکیں ننگی پڑی تھیں روشنیوں کی آنکھیں جھپکنے لگی تھیں۔ باجے سو گئے تھے۔ دوکانوں نے پلکیں موند لی تھیں۔ اور وہ خود دیر تک سو کر اٹھے ہوئے بچے کی طرح ہلکے پھلکے اور چونچال ہو گئے تھے۔
پھر ان کے تعزیہ نے بھی ملو بھرجی کی کہانی دہرا دی۔ گھر کے اکلوتے کمرے کی کنڈی میں پانی بھرنے والی رسی میں پرویا ہوا جھوا جھولنے لگا جس میں ایک گل گوتھنا بچہ آنکھوں میں کاجل بھرے ہاتھ پیروں میں کالے تاگے پہنے اور ڈھیروں گنڈے تعویز لادے ہمک رہا تھا۔ لالہ کو بھائی برادری کے خوف نے بہت دہلایا لیکن وہ مانے نہیں اور اپنے سپوت کا نام لالہ امام بخش رکھ ہی دیا۔ یہ چھوٹے سے لالہ امام بخش پہلے امامی لالہ ہوئے پھر ممو لالہ بنے اور آخر میں ممواں لالہ ہو کر رہ گئے۔
لالہ نے ممواں لالہ کو پھول پان کی طرح رکھا۔ ان کے پاس زمینداری یا کاشتکاری جو کچھ بھی تھی تیس بیگھے زمین تھی جسے وہ جوتتے بوتے تھے لیکن اس طرح کہ جیتے جی نہ کبھی ہل کی مٹھیا پر ہاتھ رکھا اور نہ بیل بدھیا پالنے کا جھگڑا مول لیا۔ لیکن کھلیان اٹھاتے تھے کہ گھر بھر جاتا تھا۔ کرتے یہ تھے کہ ایسے ایسوں کو مقدمے کی پیروی کے جال میں پھانس لیتے تھے جو بل بھی چلاتے اور پانی بھی لگاتے۔ لالہ کی کھیتی ہری رہتی اور جیب بھری۔ ممواں لالہ بڑھتا گیا اور لالہ کا آنگن پاس پڑوس کے الاہنوں سے بھرتا گیا۔ کسی کو گالی دے دی، کسی کا بیل بدھیا کھول دیا کسی کا کھیت نوچ لیا، کسی کا باغ کھسوٹ لیا۔ لالہ دیبی بخش سب کے ہاتھ پاؤں جوڑتے، بیگار بھگتتے، پیسے کوڑی سے بھرنا بھرتے لیکن لاڈلے کو پھول کی چھڑی بھی نہ چھلاتے۔
جب ممواں چہارم میں تین مرتبہ لڑھک گیا تو لالہ اسے مقدمہ بازی سکھانے لگے۔ تحصیل یا صدر جاتے تو ممواں کو ٹانگ سے باندھ لیتے۔ لیکن ممواں کے لچھن ہی اور تھے۔ دیوانی فوجداری کی الف ب بھی نہ پڑھ پایا تھا کہ لالہ دیبی بخش چلتے بنے۔ ان کا کریا کرم کر کے للائن ایسا تھکیں کہ ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔ اب تو ممواں کے سچ مچ پر نکل آئے۔ ہاتھ پیروں میں نہیں، زبان میں۔ ایسی ایسی اڑاتا کہ سننے والے سناٹے میں رہ جاتے، اپنا جی جلاتے پرائے بغلیں بجاتے۔
وہ کام دھام سے منہ چرائے باپ کا بوند جوڑا جمع جتھا دونوں ہاتھوں سے اڑانے لگا۔ پھر گھر کا الابلا پاس پڑوس میں پہنچ گیا۔ تیس بیگھے زمینداری کے شوق میں کھٹیا بتاشے کی طرح ادھیا پربٹ گئی۔ اب ممواں اپنے بھائی بندوں کو جنھوں نے اس کی زمین جوت لی تھی ’’اسامی‘‘ کہنے لگا۔ گھر کے دھلے کپڑے پہن کر بانس کی چھڑی ہاتھ میں لے کر خالص زمیندارانہ انداز میں کھیتوں کا معائنہ کرنے نکلتا۔ چھیڑ چھیڑ کر الجھتا۔ چھڑی چمکاتا اور گالیاں بکتا۔ زمانے کے سرد و گرم جھیلے ہوئے اور گرجتے برستے زمینداروں کا تیہہ دیکھے ہوئے ٹھنڈے کسان سنی کو ان سنی کرتے رہے اس لیے اور بھی کہ ان کو لالہ دیبی بخش کا چلن یاد تھا۔ ممواں لالہ دھیرے دھیرے پتنگ کی طرح اونچا ہوتا گیا۔ گاؤں کے ٹیڑھے ترچھے جوان ممواں کو سنجیدگی سے منہ نہ لگاتے کیونکہ نہ اس کی بانہوں میں بل تھا نہ باتوں میں رس، نہ کھوپڑی میں مت اور جیب میں جس۔ بڑے بوڑھوں کے پاس وہ خود نہ بھٹکتا اس لیے کہ وہ بات بے بات نصیحتوں کے حقے گڑگڑانے لگتے جن کی کڑواہٹ سے ممواں کا دم الجھنے لگتا۔
جس دن قرب و جوار میں کہیں کوئی واردات ہو جاتی اس دن ممواں کا نصیب کھل جاتا۔ جھٹ اجلے کپڑے ٹیڑھی ٹوپی اور تیل پلایا نری کا جوتا پہن کر ایک ہاتھ میں بیڑی دوسری میں چھڑی داب کر پہنچ لیتا۔ ہر جملے میں سرکار، حضور، غریب پرور، آپ کا اقبال سلامت آپ کا دشمن رو سیاہ وغیرہ کے پیوند لگاتا رہتا۔ اگر کوئی نام پوچھتا تو اکڑ کر کہتا لالہ امام بخش۔ تھانے کے منشی، تحصیل کے گرو اور نہر کے پترول اس کی باتوں پر رپٹ جاتے۔ جہاں بھاری بھاری کاشتکار دم سادھے کھڑے رہتے وہاں ممواں پلنگ پر چڑھتا اور دم پر دم بیڑی دھونکے جاتا۔ مسلمان اہلکار اس کا نام ہی سن کر ریجھ جاتے۔ رہے ہندو تو وہ بھی چکنے چپڑے ہاتھ پاؤں اجلا پہناوا اور توم تڑاق دیکھ کر کچھ نہ کچھ ملائم ہو ہی جاتے۔ پھر رموا پور گاؤں بھی اپنے علاقے میں نرالا تھا۔ زمین بھی معمولی تھی اور کاشتکاروں کے پاس تھی بھی تھوڑی تھوڑی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی کو روٹی دال کے چکر سے نکلنے کی فرصت بھی نہ تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ممواں کو میدان صاف ملا۔
پھر ایک ڈگی بجی اور زمینداریاں پرانی چٹائیوں کی طرح لپیٹ کر کونے میں کھڑی کر دی گئیں۔ ممواں لالہ کی تیس بیگھے زمین بھی جس پر بھائی بندوں کی روٹی کا سہارا تھا جھگڑے میں پڑ گئی۔ دلارے اہیر کے مرتے ہی رموا پور کی پردھانتا بھی خالی ہو گئی۔ گاؤں والوں نے ممواں سے معاملے کی بات کی اور صاف صاف کہہ دیا کہ اگر وہ زمین سے ہاتھ دھو لے تو پردھان کی پگڑی سرپر باندھ دیں گے نہیں تو زمین کو گیا جانو اور پردھانی مرتے مرتے نصیب نہیں ہونے کی۔ کام کا چور اور بات کا راجہ ممواں پہلے تو بہت اچھلا کودا پھر گردن ڈال دی۔ پردھانی نے اس کی زبان پر ایسی باڑھ رکھ دی کہ کاٹے نہ کٹتی تھی۔ گاؤں میں جو کچھ بھی ہو لیکن باہر تو وہ رموا پور کا پردھان ہی تھا۔ اچھے اچھے مان دان کرنے لگے اور وہ ہر گھڑی دو بوتل کے نشے میں رہنے لگا۔ تحصیل تھانہ اس کے ہاتھوں میں آیا۔ دیکھ کر اکڑتے براتے جوان اور ٹھنڈے مضبوط بوڑھے ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔
ساون کا مہینہ اور چیت کی گروی فصل کا نشہ تھا۔ حافظے کے کچے کسان ہنیوت کے وہ دن بھول چکے تھے جب دو وقت کھانے کے بجائے ایک وقت کی روٹی مٹھی بھر چنے میں تبدیل ہو کر رہ گئی تھی۔ کوٹھیوں میں غلہ اور جیبوں میں پیسہ بھرا تھا۔ زمیندار کی بے گار تھی نہ اہلکار کی تو تکار۔ چھکے ہوئے جانور رسیاں تڑاتے تھے۔ چڑچڑے آدمی برہے گاتے اور ٹھٹھول کرتے تھے۔ کٹکھنی عورتیں لڑنے والی باتوں پر ٹھٹھے لگاتی تھیں۔ ہری پتاور کے جھولے اور گھنگھنیوں کے تحفے گھر گھر پڑے تھے، لال لال چنریوں کے لہریے اور پاجی گیتوں کے کالے سارے گاؤں میں لہراتے پھرتے تھے۔ آسمان پر کالے بادل دودھاری بھینسوں کے ریوڑ کی طرح چر رہے تھے۔ یہاں سے وہاں تک دھان کے کھیتوں کا فرش بچھا تھا جن میں نکائی کرتے پتھریلے جسموں اور موہنی صورتوں کے گلدستے لگے تھے۔
ممواں اپنے ڈھنڈھار گھر کے سونے بروٹھے کے تخت پر ننانوے کے پھیر میں کھویا ہوا تھا۔ رموا پور کا بازار نیلام ہوا تھا۔ ٹھیکیدار چہارم کی رقم گنا گنایا تھا جس سے جیب چھنچھنا رہی تھی۔ وہ بھی گاؤں والوں کی طرح اپنے دلدر گھورے پر ڈال آیا تھا اور سکھ کی چادر اوڑھے بیٹھا تھا۔ ابھی کل ہی جاج پور کا ناؤ سندیسہ لایا تھا کہ جاج پور کے لالہ ہرنرائن اسے اپنی بٹیا دینے پر رضامند ہو گئے ہیں۔ ادھر تھوڑے دنوں سے اپنے ہاتھ کی سینکی روٹی کروانے لگی تھی۔ دن تو جیسے تیسے کٹ جاتا لیکن بوندیوں کی تال پر ناچتی راتیں پہاڑ ہو جاتیں۔ گھڑیال کی طرح ننگی چارپائی منھ پھاڑے پڑی رہتی اور وہ خیالوں کے سدا بہار باغوں کے کنجوں میں بیٹھا گھٹنوں پر سر رکھے الم غلم سوچا کرتا، پھر پاس پڑوس کے سنسناتے جھولوں سے برستے ہولناک گیت اسے جھنجھوڑ ڈالتے اور وہ چاہنے لگتا کہ کسی ایسی کو بارہ کہاروں کی پالکی پر بٹھا کر لے آتا جس کے مہندی سے لال ہاتھوں میں لاکھ کی لال چوڑیا گنگناتیں اور چوڑے کی مست خوشبو میں بسے ہوئے بدن پر سرخ چنری سرسراتی اور وہ خود کیسری جامے پر صافہ باندھے گھوڑے پر سوار کہاروں کی باق کے تال سم پر قدم قدم چلا آتا۔ یہاں تک آتے آتے اس کے کلیجے پر گھونسہ لگتا اور وہ خیال بانٹنے لگتا۔
اس حوالدار کے لیے ۱۰۹کی شہادت ڈھونڈنے لگتا کہ اسی گھڑی کسی کے بیربہوٹی ایسے پیروں کے کھنکتے جھنکتے بچھوے ڈنک مار کر چلے جاتے۔ اس کا منھ اکرانے لگتا۔ دل پھٹنے لگتا اور خالی مکان کاٹنے لگتا۔ اچانک ایک آواز نے اسے ٹھوکا مار کر کھڑا کر دیا۔ چھٹکؤ چوکیدار خالی کوٹ پہنے پیٹی کندھے پر ڈالے لال صافہ لپیٹتا لاٹھی کڑھلاتا ننگے پاؤں دھم دھم بھاگتا چلا جا رہا تھا۔ اس کا راستہ کاٹ کر جگنو پاسی نکلا اور ہانک لگائی، ’’گردھاری مہاراج مار ڈالے گئے۔‘‘
ممواں کو جیسے برات کھانے کا نیوتہ مل گیا۔ اس نے جھٹ اشنان کر کے بالوں میں تیل چپر کر جوڑا پہنا۔ ٹوپی چپکائی اور بیڑی سلگاتا باہر نکلا۔ دوارے دوچار آدمی جمع ہو گئے تھے ایک آدمی بانچنے لگا، ’’گردھاری مہاراج قرضہ بانٹنے گئے تھے کہ ابھی ابھی خون لتھڑا ہوا ٹٹوا آیا اور گہار مچ گئی۔‘‘
گردھاری مہاراج وہی تھے جنہوں نے پچھلے سال تالاب کی نیلامی میں ٹانگ اڑائی تھی اور ممواں کی بھانجی ماری تھی۔ اس پر تکرار بھی ہو گئی تھی۔ لاٹھیاں بھی نکل آئی تھیں لیکن بڑے بوڑھوں نے بیچ میں پڑ کر ممواں کی آبرو بچائی تھی۔ وہ ان سب کو لے کر گرام پنچایت کی پکی عمارت کی طرف چلا۔
رموا پور اور جاج پور کے بیچ یہ پہلا قتل تھا جو بیس برس میں ہوا تھا۔ اس کی ہیبت نے ممواں کو سن کر دیا تھا۔ گردھاری کی لاش کی بھیانک خیالی صورت اس کی آنکھوں میں گھوم رہی تھی اور وہ سوچ رہا تھا کہ گردھاری کو کون قتل کر سکتا ہے۔ چار چار گاؤں کے ہیکڑ آدمیوں کی صورتیں اس کے سامنے سے گزر گئیں لیکن کسی پر دل نہ جما۔ اس کو یقین تھا کہ پولس والے سراغ رسی میں اس کا مشورہ مانگیں گے۔ وہ چاہتا تھا کہ مشتبہ آدمیوں کی فہرست اپنے ذہن میں رکھ لے لیکن ایک نام بھی نہ ملا۔ اس نے سوچا کہ اگر بہت دباؤ ڈالا گیا تو وہ ان لوگوں کو لکھوا دے گا جن سے اس کی ان بن رہتی ہے۔ لیکن اب ممواں کو ضمیر نے جھنجھوڑ ڈالا۔ قتل کے جرم میں کسی بے گناہ کے پھنسنے کا مطلب جانتے ہو؟ ممواں لالہ! پھانسی یا عمر قید۔ ممواں کانپ اٹھا۔ پنچات گھر میں بھیڑ لگی تھی۔ سب ایک ساتھ بول رہے تھے اور صرف اپنی آواز سن رہے تھے۔ ممواں لالہ کو دیکھ کر ذرا شور کم ہوا، بیڑیاں سلگانے کے بعد کسی شوخ لڑکے نے پوری آواز میں للکارا۔
’’سال بھر نائیں بتیا اور ممواں لالہ نے اپنا چکتاوا کر لیا۔‘‘
کسی نے ٹھٹھہ لگایا، بہتوں نے سنگت کی اور ممواں لالہ کا منہ دیکھا جو بند تھا آنکھیں کہیں اور تھیں۔ ایک دوسرے آدمی نے بات آگے بڑھائی۔
’’کاغذ کی ناؤ ہمیشہ تھوڑی چلت ہے بھائی۔‘‘
’’کھبو گاڑی ناؤ پر اور کھبو ناؤ گاڑی پر۔۔۔ وخت وخت کی بات ہے۔‘‘
ممواں ٹس سے مس نہ ہوا۔
’’اوں ہوں سو سنار کی ایک لہار کی۔‘‘
’’کا سر جو کاکا تم کو بتائیے دیں۔ انڈیا بھر کی پولس لے آویں۔ مل لاس ناہیں ملت۔‘‘
’’اور کا لالہ امام بخش کچی گولی نہیں کھیلتے ہیں۔‘‘
’’ممواں لالہ خفا نہ ہوئیں تو ہم بتائے دیں۔‘‘
اب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ ممواں لالہ نے بیڑی پھینک کر آنکھیں چمکائیں اور جیسے پوری سبھا جگمگا اٹھی۔
’’بتاؤ۔‘‘
’’گردھاری مہاراج کٹیا کے جنگل میں کٹے پڑے ہیں۔‘‘
ایک دبلے پتلے لڑکے نے اس جملے کی بندوق داغ تو دی لیکن خود بھی اس دھماکے سے سمٹ کر رہ گیا۔ تھوڑی دیر کے لیے سب سنسنا کر رہ گئے۔ ممواں چپکے سے ہنس دیا جیسے گرو کسی چیلے کی ایسی ویسی بات پر مسکرا دے۔
’’اور کریب (قریب) آئے جائی؟‘‘ وہی لڑکا ڈھٹائی سے بولا
’’آئے جاؤ‘‘ممواں اسی طرح سر نیچا کیے بولا۔
’’آئیے جائی؟‘‘ اس نے چھان پٹھک کرتی آواز میں پوچھا
’’اب آئے بھی چکو۔‘‘
اور اس نے لال بجھکڑ کے لہجے میں تڑ سے کہا، ’’تو پھر سن رکھو ممواں لالہ گردھاری مہاراج دھندھاری کے پل کے نیچے لیٹے ہیں۔ ‘‘ ممواں نے گردن جھکا لی۔ نئی بیڑی سلگا کر دھواں سینے پر چھوڑا۔ گردن ہلائی کچھ کہنا چاہا کہ جاج پور کے آدمی آ گئے بات آئی گئی ہو گئی۔
سورج بیٹھتے بیٹھتے جاج پور میں پولس آ گئی۔ ممواں لالہ پہلے ہی سے پہنچا ہوا تھا۔ تھانیدار کی گھوڑی دیکھتے ہی پلنگ ڈلوانے اور قالین بچھوانے لگا۔ حقے پانی کی فکر کر کے کھانے دانے کا بندوبست کرنے لگا۔ جاج پور کا پردھان نچنت بیٹھا رہا۔ بوڑھے گدھ کے مانند سیاہ رات جاج پور پر اتر آئی تھی۔ سارا گاؤں پھٹی آنکھوں، لٹکے ہوئے لمبے چہروں اور بھنچے ہوئے ہونٹوں کا چلتا پھرتا قبرستان ہو کر رہ گیا تھا۔ کوئی گھر ایسا نہ تھا جس کا ایک آدھ آدمی پولس کی پوچھ گچھ کے چکر میں نہ آ گیا ہو۔ بس ایک لالہ ہرنرائن تھے جو اپنا دروازہ بند کیے بیٹھے تھے اس لیے کہ ہونے والا داماد ممواں لالہ پولس دھر پٹک میں سپاہیوں سے زیادہ جوش دکھلا رہا تھا۔ رات کے بارہ بجے کے قریب تھانیدار نے پونم کہار کو کھانا پروسنے کا حکم دیا۔ وردی پہنے پہنے جب وہ کھانے پر بیٹھا تو ایک اور کھانا منگوالیا اور ممواں لالہ کاکندھا پکڑ کر اپنے سامنے بیٹھا لیا۔ ممواں نے اپنا یہ مرتبہ دیکھا تو تھوڑی دیر کے لیے کھوپڑی بھک سے اڑ گئی۔
دور گیس کی مٹیالی روشنی میں لرزتے سائے اپنے پیاروں کی خیر خبر لینے آئے تھے۔ ممواں نے ان جاندار پرچھائیوں کو اپنی بڑائی بتانے کے لیے پوری آواز میں باتیں شروع کر دیں۔ کھانا کھا کر تھانیدار نے ممواں کو اپنی ڈبیا سے سگریٹ نکال کر پکڑا دی۔ ممواں مٹھی میں دبا کر لمبے لمبے دم لینے لگا تھا۔ بڑی دیر تک وہ تھانیدار کی شکر گزاری میں بیٹھا رہا۔ جب جماہیاں آنے لگیں تو تھانیدار کی گردن اٹھنے کا انتظار کیا جو رجسٹر کھولے لکھتا جا رہا تھا۔ آخرکار ممواں پلنگ سے اٹھ پڑا۔ نگاہ ملتے ہی اس نے سینے پر ہاتھ جوڑ لیے۔ شین قاف سے درست اردو میں بولا، ’’غریب پرور اب حکم دیجیے۔ صبح سورج نکلتے حاضر ہو جاؤں گا۔‘‘
تھانیدار نے رجسٹر بند کیا۔ سگریٹ جوتے سے مسلی دونوں ہاتھ کرسی پر پھیلا کر زہریلے لہجے میں بولا، ’’دھندھاری پل کے نیچے سے گردھاری کی لاش نکال لی گئی اس کو بھی دیکھتے جاؤ امام بخش!‘‘
’’کا غریب پرور!‘‘
وہ کچھ اور کہتا کہ پیچھے کھڑے حوالدار نے اس کے چکنے چپڑے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...