ہم نفس! قلعۂ لاہور تجھے میرا سلام
آج برسوں کی جدائی سے دل افگار ہیں ہم
میں ہوں کہ تاج محل، تو ہو کہ شاہی مسجد
ایک ہی شوکتِ تعمیر کا اظہار ہیں ہم
ہر رگِ سنگ میں اِک موجۂ خوں کے با وصف
اِک عجب صورتِ حالات سے دوچار ہیں ہم
٭
خطۂ پاک میں تو، قبضۂ اغیار میں مَیں
میں نے ہر دور کا قدموں میں رسن پہنا ہے
ایک ہی روح نے صد کربِ جدائی کے سبب
مختلف نوع کا پیراہنِ تن پہنا ہے
تو نے واں اپنی ثقافت کو جِلا بخشی
میں نے یاں اپنے تمدن کا کفن پہنا ہے
٭
ذوقِ تعمیر کا پہنا کے یہ ملبوس سریر
کن خرابوں میں شہنشاہ مجھے چھوڑ گئے
توسنِ وقت کی ٹاپوں کی صدا ڈوب گئی
قافلے جیسے سرِ راہ مجھے چھوڑ گئے
٭
نوحہ خواں عظمتِ شاہان و سلاطین کے ہیں جو
کون اب اُن سحر و شام کے آنسو پونچھے
کون جھانکے دلِ صد چاک میں میرے آ کر
کون اب میرے در و بام کے آنسو پونچھے
٭
کھانستی صدیاں اگلتی ہیں جو سینے کا لہو
حلق میں سانس زمانے کے اٹک جاتا ہے
شانِ رفتہ جو مہ و سال کو یاد آتی ہے
چشمِ دوراں سے کوئی اشک ڈھلک جاتا ہے
٭
آرٹ گیلری کے مقابر میرے اُجڑے ایوان
دفن ان میں کہیں ایمن، کہیں درباری ہے
آج پلتا ہے جو کلچر مرے شہ زینے پر
بھوک ہے، جہل ہے، افلاس ہے، بیماری ہے
مادرِ ہند کی نُچڑی ہوئی بزدل نسلیں
اب بھی اُن پر میری ہیبت کا فسوں طاری ہے
٭
راج نیتاؤں کی اندر سبھا، اندر منڈلی
میری دیواروں کے سائے سے بھی تھراتی ہے
آج بھی بھارتی سینا کی یہ تعدادِ کثیر
میرے پہلو سے جو گزرے تو، لرز جاتی ہے
٭
تو سنا تجھ سے تو اجداد کا قائم ہے جلال
اب بھی تابندہ ہے اُس عہد کا اک نقشِ جمیل
خاکِ لاہور کی عظمت کے امین ہیں اب تک
تیرے دیوان، تیرے شیش محل، تیری فصیل
تیری عظمت کی حقیقت کی نہ تکذیب ہوئی
تو کہ ہر چند ہوا سازشِ دوراں کا قتیل
٭
چشمِ دوراں میں ہیں ۶۵کے خد و خال تیرے
فتحِ ملّت سے دمکتی تھی تیری لوحِ جبیں
گردِ پسپائیٔ افواج جو اُڑتی تھی یہاں
پپڑیاں سی لبِ جمنا پہ جمی رہتی تھیں
٭
وقت تاریخ کے لہجے میں کبھی بولے گا
سچ کسی طرح دبانے سے نہیں مرسکتا
تیرہ لمحوں کی رِدا ہو کے رہے گی صد چاک
کوئی سورج کو نظر بند نہیں کر سکتا
٭
تیری جانب سے ہوا آئے تو کھِل اُٹھتا ہوں میں
ہم نفس! تیرے درخشندہ در و بام کی خیر
اس سے پائندہ ہے آفاق میں شانِ اسلام
خطۂ پاک کے رنگیں سحر و شام کی خیر
٭٭٭