اکیسویں صدی کا سورج اگا تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ سارے منظر بدل چکے ہیں۔ گلوبلائزیشن اور لبریلائزیشن کی جادوئی چھڑی سے سارا ملک بازار اور افراد خریدار میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ جو قوتِ خرید نہیں رکھتے تھے وہ خود کوہی فروخت کرنے پہ مجبور تھے۔ ملک پر سرمایہ دار ترقی یافتہ ممالک کی جدید ترین اسلحوں سے لیس ملٹی نیشنل کمپنیوں نے یلغار کر دی تھی جن سے بری طرح شکست کھا کر زنگ خوردہ اور آرام طلب نیشنل کمپنیاں دھڑا دھڑ بند ہو رہی تھیں یا پھر فاتح کمپنیوں میں ان کی شرطوں پر ضم ہو رہی تھیں۔ بڑی کمپنی ہو یا چھوٹا تاجر، افسرہویامزدور، اپنی بقا اور اضافہ شدہ مصنوعی ضرورتوں کی تکمیل کی خاطر کچھ نہ کچھ سائیڈ بزنس کرنے لگے تھے۔ گاڑیاں بنانے والی مشہور کمپنی ٹاٹا، سائیڈ میں نمک بنانے پر اتر آئی تھی تو منّا پان والا سائیڈ میں کولڈ ڈرنکس کی بوتلیں اور بھانگ کی گولیاں رکھنے لگا تھا۔ ادیب ادب کے علاوہ سرکاری ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں لگ گئے تھے تو صحافی صحافت کے ساتھ بلیک میلنگ کو سائیڈ بزنس کے طور پر اپنا بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر نقلی دواؤں کا بغلی دھندہ کرنے لگے تھے اور اساتذہ کورس کی کتابوں کی دکانیں کھول بیٹھے تھے۔
پشتینی کام روایتی انداز سے کرنے والے جدید تقاضوں سے نبرد آزما مات پر مات کھا رہے تھے۔ سبسڈی کم ہو جانے کے باعث کسان اپنی فصل کی لاگت تک وصول نہیں کر پا رہے تھے اور قرض خواہوں سے تنگ آ کر خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہے تھے۔ مزدور دوست کا وزیر اعظم نیا پے کمیشن لاگوکر کے قومی خزانے کو بے ایمان سرکاری افسروں کی کبھی نہ بھرنے والی جیب میں انڈیل چکا تھا اور مزدور اپنی پھٹی جیب لیے حسرت آمیز حیرت میں مبتلا تھے۔ دیش بھگت جماعت کا وزیر اعظم ملک کی منافع بخش کمپنیوں کو اونے پونے دام پر فروخت کرنے پر تلا تھا اور دلالی کے طور پر لیڈروں کی چاندی کٹ رہی تھی۔ پورا ملک ایک منڈی بن چکا تھا جس میں دلالوں کی بن آئی تھی۔
ٹی۔ وی پروگراموں کے ذریعہ لوگوں کو ایک مصنوعی دنیا اور تہذیب سے متعارف کرایا جا رہا تھا اور اس میں دکھائے جانے والے اشتہاروں میں چیزوں کی اصلیت کہیں گم کر دی گئی تھی۔ اشتہاری دباؤ کے تحت مٹی سونے کے نرخ پر فروخت کی جا رہی تھی اور ‘‘اس کی ساڑی میری ساڑی سے سفید کیوں‘‘ کے سوال کو حل کرنے کی کوشش میں ہر چہرہ سیاہ پڑتا جا رہا تھا۔ پردۂ سیمیں کا باغی نوجوان ادھیڑ عمری میں چھوٹے پردے پر ‘‘کون بنے گا کروڑ پتی‘‘ کے ذریعہ نئی نسل کو جوئے کی ترغیب دینے لگا تھا اور کرکٹ کے ہیرو سٹے بازوں سے ملک کے وقار کا سودا کرنے لگے تھے۔
کیبل ٹی۔ وی اور موبائل کے ذریعہ گھر گھر میں بلو فلمیں دیکھی جا رہی تھیں اور کمپیوٹر کے مانیٹرس پر ننگی لڑکیاں دلبستگی کے سامان فراہم کر رہی تھیں۔ اسکولوں میں سیکس ایجوکیش کے بارے میں سرکار ابھی تک فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی اور اسکولوں کے کم سن طلباء و طالبات سیکس کا پریکٹکل کورس کرنے لگے تھے۔ نا جائز بچے اب کوڑے دان میں نہیں پھینکے جا رہے تھے بلکہ جائز طریقے سے انہیں حمل میں ہی ختم کروایا جا رہا تھا۔ تعلیم بالغاں کے تحت تمام بوڑھی بوڑھے اپنا نام لکھنا پڑھنا سیکھ گئے تھے اور ان کی انگریزی تعلیم یافتہ اولادیں ان کا نام تک بھول چکی تھیں۔ گاؤں کے گاؤں خالی ہو رہے تھے اور شہر کے فٹ پاتھوں پر بھیڑ بڑھتی جا رہی تھی۔ اغوا مقبول ترین دھندا بن چکا تھا اور قتل سپاری لے کر کیے جانے لگے تھے۔ دولت اور تعلیم تیزی سے برآمد ہو رہی تھیں اور بھوک اور فحاشی اس سے دوگنی تیزی سے درآمد کی جا رہی تھیں۔
لیکن شہرسے ملحق گرانڈ ٹرنک روڈ کے کنارے واقع رنڈی پاڑا لکشمی پور کی شریفن بائی ان سارے بدلے ہوئے منظر سے بالکل بے خبر تھی۔ بھرے بھرے جسم اور کھردری زبان والی شریفن بائی اپنے ڈیرے کے باہری کمرے میں بیٹھی چھالیہ کتر رہی تھی۔ دن کے گیارہ بجے تھے۔ اندر کے کمروں سے اٹھنے والی آوازوں سے عیاں تھا کہ سبھی بیدار ہو گئی تھیں۔ یوں بھی صرف دو ہی گاہک رات بھر رکے تھے۔ باقی چھوکریاں گاہکوں کا انتظار کرتے کرتے ہی تھک کر سو گئی تھیں۔ شریفن بائی اپنے دھندے پر بہت دنوں سے چھائی ہوئی مندی سے بے حد متفکر تھی۔ لیکن اس وقت وہ اپنے دھندے کے بارے میں نہیں بلکہ سلمیٰ کے متعلق سوچ رہی تھی۔ سلمیٰ کل ہی ممبئی سے آئی تھی اور آج اس نے یہاں آنے کا سندیسہ بھیجا تھا۔ شریفن بائی تو خاندانی رنڈی تھی جبکہ سلمیٰ اپنے شرابی باپ سے تنگ آ کر ایک نٹھلے مردوئے کا ہاتھ تھامے ہوئے اس پاڑے میں پہنچی تھی۔ وہ مردوا تو اپنی جیب گرم کر کے چمپت ہو گیا اور سلمیٰ اس ڈیرے کی ملکیت ہو کر رہ گئی۔ شروع شروع میں تو وہ پیشہ کرنے میں بے حد گھبرائی لیکن پھر اس نے ایسے کل پرزے نکالے کہ شریفن بائی خاندانی اور تجربہ کار رنڈی ہونے کے باوجوداس کی قائل ہوتی گئی۔ وہ تھوڑی پڑھی لکھی بھی تھی اس لیے گفتگو میں سلیقہ اور انداز میں رکھ رکھاؤ تھا۔ حالانکہ اس وقت شریفن بھی گدرائے جسم والی نوجوان چھوکری تھی لیکن اس کی طرح مردوں کو موہ لینے والی صلاحیت اس میں نہ تھی۔ یہی وجہ تھی وہ دل ہی دل میں اس سے پرخاش رکھنے لگی تھی اور چاہتی تھی کہ وہ کسی طرح یہاں سے دفع ہو۔ لیکن سلمیٰ تو خود ہی اونچی اڑان کے لیے پر تول رہی تھی۔ اس کا ایک مستقل گاہک تھا۔ مقصود بھائی۔ وہ تھا تو اسی شہر کا لیکن کچھ دنوں سے ممبئی شہر میں جا کر جانے کیا کرنے لگا تھا۔ اس نے پتہ نہیں کون سی پٹی پڑھائی کہ وہ اس کے ساتھ ممبئی بھاگ نکلی۔
تقریباً سال بھر بعد وہ آئی اور اس کے رنگ ڈھنگ ہی بدلے ہوئے تھے۔ اس کے انگ انگ سے امارت اور رعونت ٹپک رہی تھی۔ وہ شریفن سے بھی ملنے آئی لیکن اس نے منھ نہیں لگایا تو خفا ہو کر چلی گئی۔ اس کے بعد وہ ہر چوتھے پانچویں مہینے یہاں آتی۔ پاڑے میں موجود چھوکریوں میں سے چار پانچ کو منتخب کرتی، ان کی بائیوں کو اچھی خاصی رقم پکڑاتی اور اس چھوکریوں کو لے کر ممبئی روانہ ہو جاتی۔ شریفن نے اس سے کبھی پوچھا تو نہیں لیکن وہ جانتی تھی کہ وہ مقصود بھائی کے ساتھ مل کر ان چھوکریوں کو دبئی کے ہوٹلوں میں سپلائی کرتی ہے۔ برسوں سے یہ سلسلہ چل رہا تھا اور آج بھی جاری تھا۔
دروازے پر کار رکنے کی آواز سنائی دی تو شریفن بائی نے چونک کر باہر دیکھا۔ ماروتی کار تھی جس کا عقبی دروازہ کھول کر سلمیٰ کسی سیٹھانی کی طرح نیچے اتر رہی تھی۔ وہ نہایت قیمتی بنارسی ساڑی میں ملبوس تھی اور اس کے تمام جسم پر سونے کے بھاری زیورات سجے تھے۔ وہ تمکنت سے چلتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی تو نہ چاہتے ہوئے بھی شریفن نے چوکی سے اتر کر اس کا استقبال کیا۔ سلمیٰ اپنی ساڑی کو سمیٹتی ہوئی چوکی پر ہی بیٹھ گئی۔
’’کیسی ہو شریفن؟‘‘
اس کے لہجے میں خلوص و محبت کی ایسی گرمی تھی کہ شریفن یک لخت پگھل گئی۔
’’بس گذر ہو رہی ہے۔ تم اپنی سناؤ۔ تمہارے کیا حال ہیں؟‘‘
شریفن کے لہجے کی یاسیت سلمیٰ سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔
’’میں تو بے حد مزے میں ہوں۔ تمہیں تو معلوم ہی ہو گا کہ میں نے مقصود سے شادی کر لی ہے۔ دو بچے ہیں۔ دونوں کو شملہ کے انگریزی اسکول میں داخل کروا دیا ہے۔ وہیں ہوسٹل میں رہتے ہیں۔ لیکن تم کچھ دکھی سی لگ رہی ہو۔ کیا بات ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔ وہی دھندے کا رونا۔۔۔‘‘
شریفن ایک بار پھر پاندان کے پاس بیٹھ کر سروتے سے چھالیاں کترنے لگی تھی۔
’’تم تو اس ڈیرے پر رہ چکی ہو۔ گاہکوں کی کیسی ریل پیل رہتی تھی۔ ہر ایک کو ایک رات میں چھ سات کو نمٹانا پڑتا تھا۔ آج میرے پاس دس چھوکریاں ہیں۔ سبھی حسین اور جوان۔ لیکن گاہکوں کا ایسا ٹوٹا پڑا ہے کہ جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔‘‘
’’کیوں؟ کیا پولیس کچھ زیادہ ہی پریشان کر رہی ہے؟‘‘
سلمیٰ نے ہمدردی بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’نہیں ری۔۔۔ وہ بے چارے تو خود رو رہے ہیں۔ گاہک پیچھے بیس روپئے بندھے ہیں۔ اب گاہک آئیں تب نا ان کی بھی کمائی ہو۔‘‘
شریفن نے پان لگا کر گلوری اسے پیش کی تو سلمیٰ نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں۔ میں تو پان پراگ گٹکا کھاتی ہوں۔‘‘
اس نے اپنے پرس سے پان پراگ کا ڈبہ نکالا اور کچھ مقدار اپنی ہتھیلی پر رکھ کر پھانک گئی۔
’’ممبئی جیسے بڑے اور تیز رفتار شہر میں پان لگانے اور کھانے کا اہتمام کون کرے۔ فاسٹ زندگی میں ہر شے فاسٹ ہوتی جا رہی ہے۔ فاسٹ فوڈ، فاسٹ جرنی، فاسٹ تھنکنگ۔۔۔ ہاں تو پھر گاہک نہ آنے کی کیا وجہ ہے؟‘‘
’’تمہیں تو معلوم ہے کہ ہمارے زیادہ تر گاہک ٹرک ڈرائیور تھے۔ سرکار نے بائی پاس سڑک بنا کر ادھر سے بڑی گاڑیوں کے گزرنے پر پابندی لگا دی۔ پھر بھی وہ آتے ضرور۔۔۔ لیکن سنتی ہوں کہ بائی پاس کے کنارے تھوڑی تھوڑی دوری پر گاؤں دیہات کی لڑکیاں اور عورتیں جھنڈ بنا کر کھڑی رہتی ہیں۔ سالے ڈرائیور انہیں ٹرک پر ہی اٹھا لیتے ہیں اور بدن بھنبھوڑ کر سو پچاس تھما کر راستے میں اتار دیتے ہیں۔ اب کم پیسوں میں راہ چلتے عورتیں مل جاتی ہیں تو وہ ادھر کا رخ کیوں کریں؟‘‘
’’گاؤں دیہات کی حالت بے حد خراب ہوتی جا رہی ہے۔ اخباروں میں پڑھتی ہوں کہ فصل اچھی ہونے کے باوجود کسان قرض کے جال میں پھنسے بھوکوں مر رہے ہیں۔ بھوک آج ان کی عورتوں کو سڑک پر لے آئی ہے کل وہ خود سڑک پر اتر آئیں گے۔۔۔۔۔ لیکن کیا اب تمہارے پاس شہر کے لوگ نہیں آتے؟ وہ لوگ تو اچھا خاصا پیسہ لٹا جاتے تھے۔‘‘
’’ان کے نہ آنے کی وجہ میری بھی سمجھ سے باہر ہے۔ سامنے سڑک پر جتنی قیمتی کاریں اور موٹر سائٰیٰکلیں دوڑتی ہیں، شہر میں جتنے دو منزلہ، سہ منزلہ مکان بننے لگے ہیں، ان سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ خوب دولت کما رہے ہیں۔ لیکن پتہ نہیں یکایک سارے مرد شریف کیسے ہو گئے کہ ادھر جھانکتے ہی نہیں۔‘‘
’’مرد اور شریف! ۔۔۔‘‘ سلمیٰ حقارت سے ہنسی۔‘‘ان کی شرافت دیکھنی ہے تو کبھی میرے ساتھ ممبئی چلو۔‘‘
’’اچھا چھوڑو ان باتوں کو۔۔ تم بتاؤ۔ اتنے دنوں بعد میرے یہاں کیسے آنا ہوا؟‘‘
شریفن نے پوچھا تو سلمیٰ قدرے توقف کے بعد بولی۔
’’تم تو جانتی ہی ہو گی میرے اور مقصود کے کاروبار کو۔ ہم لوگوں نے ممبئی میں ‘‘ورکرس سپلائی ایجنسی‘‘ کھول رکھی ہے۔ ہمارے بہت سارے ایجنٹ ہیں جو مختلف جگہوں سے غرض مند لڑکیوں کو لاتے ہیں۔ ہم لوگ ان کے پاسپورٹ اور ویزے بنوا کر انہیں دبئی کے ہوٹلوں میں عارضی مدت کے لیے سپلائی کر دیتے ہیں۔ ہوٹلوں میں انہیں بظاہر تو خادماؤں کی حیثیت سے رکھا جاتا ہے لیکن ان کا اصل کام گاہکوں کو جنسی تسکین پہچانا ہوتا ہے۔ تمہارے پاس ڈھیر ساری چھوکریاں ہیں۔ دو چار مجھے سونپ دو۔ ہر چھوکری کے پندرہ بیس ہزار دے دوں گی۔ دو تین مہینے میں ساٹھ ستر ہزار کما کر تمہارے پاس لوٹ آئیں گی۔‘‘
’’نا بابا نا!‘‘ شریفن کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
’’وہاں کے مرد عورتوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں رکمنی آئی ہے۔ تم ہی لے گئی تھیں۔ وہاں ہفتے بھر تک کسی نرسنگ ہوم میں بھرتی رہی تھی۔ سنا ہے کہ دو تین ٹانکے بھی لگے۔‘‘
سلمیٰ قدرے تلخی سے ہنسی۔
’’وہاں کے مرد ہوں یا یہاں کے۔ خریدی ہوئی عورتوں کے ساتھ سبھی جانوروں کی طرح ہی پیش آتے ہیں۔ ہاں! یہاں کے مردوں کے مقابلے میں وہ لوگ کچھ زیادہ ہی سیکسی اور مضبوط ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر رنڈیاں تو ایسے مردوں کو پسند کرتی ہیں۔ تم اپنی جوانی بھول گئیں۔ چار چار کو پار لگانے کے بعد بھی بھوکی بلی بنی رہتی تھیں۔‘‘
اس نے شریفن کے سراپے کو رشک آمیز نظروں سے تکا اور پھر شریر سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
’’اور اب بھی کون سی بوڑھی ہو گئی ہو؟ تمہارا بدن تو اب بھی تان پورے کی طرح کسا ہوا ہے۔ کیا اب گاہکوں کو نہیں نمٹاتی ہو؟‘‘
سلمیٰ کی باتوں سے شریفن کے چہرے پر سرخی کی ہلکی سی پرت چڑھ گئی۔ آنکھیں قدرے نشیلی اور سانسیں بھاری ہو گئیں۔ شرمیلی ہنسی بکھیرتی ہوئی وہ کچھ کھسیانی سی بولی۔
’’یہاں تو جوان چھوکریوں کو ہی مرد پورے نہیں پڑتے۔ ہاں کبھی کبھی کوئی پرانا یار چلا آتا ہے اور ضد پکڑ لیتا ہے تو بات رکھنی پڑتی ہے۔ تم خود کبھی دبئی گئی ہو؟‘‘
’’کئی بار۔‘‘ سلمیٰ نے بے شرمی سے آنکھیں مٹکائیں۔ ‘‘وہاں کے مردوں کے بارے میں ذاتی تجربہ ہی بتا رہی ہوں۔ تو پھر کیا خیال ہے؟ لڑکیوں کو میرے ساتھ بھیجو گی؟‘‘
’’من نہیں مانتا۔‘‘ شریفن کے لہجے میں تھوڑی سی کشمکش تھی۔
’’پردیس کا معاملہ ہے۔ کچھ اونچ نیچ ہو گئی تو جی کچوٹتا رہے گا۔‘‘
’’تم خواہ مخواہ فکر مند ہوتی ہو‘‘ سلمیٰ نے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’تین چار مہینوں کی تو بات ہے۔ وہاں اچھی رقم ملے گی اور کام کا بھار بھی کچھ زیادہ نہیں۔ ہفتے میں صرف جمعے کے روز زیادہ مصروفیت رہتی ہے۔ وہاں جمعے کو عام چھٹی ہوتی ہے اس لیے دور دور سے لوگ عیاشی کرنے چلے آتے ہیں۔ ہوٹلوں کے سارے کمرے بک ہو جاتے ہیں اور ہر کمرہ عیش گاہ بن جاتا ہے۔ ان کے پاس دولت کی کمی تو ہے نہیں۔ چھوکریوں کی سمجھداری پر منحصر ہے کہ انہیں خوش کر کے کتنی اوپری آمدنی کر لیتی ہیں۔ یوں تو گاؤں گرام کی سیدھی سادی لڑکیاں بہت مل جاتی ہیں لیکن پیشہ ور رنڈیوں کی بات ہی کچھ اور ہے۔‘‘
شریفن بائی پر خیال انداز میں خاموشی سے چھالیہ کترتی رہی۔ اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی اور کسی جواب کا انتظار کیے بغیر چار نوجوان اندر داخل ہو گئے۔ شریفن نے چونک کر انہیں دیکھا تو آگے آنے والا نوجوان کسی قدر بدتمیزی سے بولا۔
’’ارے بائی جی! تم تو یہیں چھپی بیٹھی ہو۔ ہم تو سمجھے تھے کہ تمہاری دکان ہی بند ہو گئی۔‘‘
شریفن بائی نے اپنے چہرے پر ابھر آنے والے ناگواری کے تاثرات کو پیشہ ورانہ مسکراہٹ تلے چھپایا اور لگاوٹ بھرے انداز میں بولی۔
’’بہت دنوں کے بعد دکھائی دیئے۔ کہاں گم ہو گئے تھے؟‘‘
’’ہم تو اسی شہر میں ہیں۔‘‘ وہ نوجوان آگے بڑھ کر صوفے پر پھیلتا ہوا بولا۔ ’’در اصل ہم شریف گھروں کے لڑکے ہیں اس لیے اس بدنام علاقے میں آنے سے پرہیز کرنے لگے ہیں۔‘‘
’’تو کیا تم لوگ ہنومان جی کے بھگت ہو گئے ہو؟‘‘
شریفن بائی ذرا تلخی سے بولی۔
’’نہیں۔ ہم تو اب بھی حسن کے ہی پجاری ہیں لیکن پوجا کے لیے یہاں آنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ شہر میں ہی بندوبست ہو جاتا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
شریفن بائی اس کی باتوں سے چکرائی تو نوجوان نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’اسکول کالجوں میں پڑھنے والی لڑکیاں۔۔۔۔ اور آفسوں میں کام کرنے والیاں۔۔۔ ان میں سے بہت سوں نے چوری چھپے تمہارے پیشے کو اپنا لیا ہے۔ کسی کو بھی فون گھماؤ۔۔۔ وہ طے شدہ وقت اور مقام پر حاضر۔۔۔‘‘
’’تو پھر آج ادھر کیوں چلے آئے؟‘‘
شریفن بائی کے لہجے سے ظاہر تھا کہ وہ اندر ہی اندر مشتعل ہو رہی ہے۔
’’ارے بائی جی! آج سنڈے ہے نا۔ سبھی سالیاں اپنے گھروں میں قید ہیں۔ کچھ دوست آ گئے تو تفریح کرنے یہیں چلے آئے۔ لڑکیاں موجود ہیں نا؟‘‘
’’ہاں! وہ کہاں جائیں گی؟ تم لوگ ٹھہرو۔ میں بلاتی ہوں۔‘‘
اس نے ذرا زور سے آواز دی۔
’’ریتا۔۔ اری او ریتا۔۔۔۔‘‘
دوسرے ہی لمحے ایک جوان اور خوبصورت لڑکی دروازے پر نمودار ہوئی۔ شریفن اسے مخاطب کرتی ہوئی بولی۔
’’انہیں بھیتر لے جاؤ۔‘‘
نوجوان نے کھڑے ہو کر پتلون کی جیب سے روپئے نکالے اور شریفن بائی کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔ روپئے گنتے ہوئے شریفن کی بھنویں سکڑ گئیں۔
’’صرف چار سو۔۔۔ چاروں کے آٹھ سو لگیں گے۔‘‘
’’ارے بائی جی۔ تمہارے بھاؤ کب سے بڑھ گئے؟ سو روپئے میں تو اس پاڑے میں اچھی سے اچھی لڑکیاں مل جائیں گی۔‘‘
’’ اور تمہاری وہ اسکول کالج والیاں۔۔۔‘‘ شریفن کا پارہ چڑھا۔
’’ان پر اتنے ہی روپئے خرچ ہوتے ہیں؟ اس سے زیادہ رقم تو ناشتے پانی میں ہی اڑ جاتے ہوں گے۔ دو چار سو روم کا کرایہ لگتا ہو گا اور وہ خود چار پانچ سو سے کم کیا لیتی ہو گی؟‘‘
’’ارے وہ شریف اور عزت دار گھرانوں کی لڑکیاں ہیں۔ ان کا اور تمہارا کیا مقابلہ؟‘‘
’’کیوں؟ کیا ان کے بدن سونے کے ہوتے ہیں یا ان میں ہیرے جڑے ہوتے ہیں؟ ان کے بدن بھی ویسے ہی گوشت پوست کے ہوتے ہیں جیسے ہماری لڑکیوں کے۔‘‘
شریفن جیسے لڑنے پر اتر آئی۔ نوجوان بھی اکھڑ مزاج ہی تھا۔ وہ بھی برافروختہ ہو کر بولا۔
’’اب تم جیسی رنڈیوں سے کون بحث کرے؟ تمہارے پاس آنے والا رنڈی باز ہی کہلائے گا جبکہ ان کے ساتھ وقت گذارنے والوں پر کوئی انگلی تک نہیں اٹھاتا۔ تم تیار نہ ہوتی ہو تو نہ سہی۔ یہاں اور بھی بہت ساری ہیں۔‘‘
نوجوان نے شریفن کے ہاتھ سے روپئے جھپٹے اور باہر نکلا چلا گیا۔ اس کے پیچھے دوسرے نوجوان بھی نکل گئے۔
سلمیٰ تمام واقعے کی خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ ان کے جانے کے بعد اس نے شریفن کے چہرے کو تکا جو ذلت کے شدید احساس سے تمتمانے لگا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کے چہرے کی سرخی زائل ہوتی گئی اور اس کی جگہ پر اداسی کی گہری پرت چڑھ گئی۔
’’دیکھا ان لونڈوں کو۔۔۔‘‘
وہ سلمیٰ سے مخاطب ہوئی تو اس کی آواز میں رقت آمیز یاسیت تھی۔
’’ایک لڑکی پر ہزار ڈیڑھ ہزار لٹا دیں گے اور یہاں کے لیے دو سو روپئے بھی نہیں نکلتے۔ آخر دونوں میں کیا فرق ہے۔؟
سلمیٰ نے شریفن کے مضمحل اور اداس چہرے کا غور سے جائزہ لیا اور پھر ہمدردی بھرے لہجے میں گویا ہوئی۔
’’تم بے حد بھولی اور ناسمجھ ہو شریفن۔ تم اپنے خاندانی ڈیرے پر پرانے زمانے کی روایتی رنڈی بنی بیٹھی ہو اور اسی پرانے ڈھنگ سے دھندہ کرنے پر بضد ہو۔ تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ زمانہ کتنا بدل گیا ہے۔ اس بدلے ہوئے تصنع پسند اور فیشن زدہ زمانے میں چیزیں اپنی اصلی شکل اور نام کے ساتھ آسانی سے اور اچھی قیمت پر نہیں بکتیں۔ انہیں بیچنے کے لیے ان کی ظاہری شکل اور نام میں پر کشش تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔ کیا کوئی تاجر مونگ پھلی کی کھلی مفت میں بھی لوگوں کو کھانے پر آمادہ کر سکتا ہے؟ نہیں نا۔ لیکن جب اسی کھلی کی شکل میں ذرا سی تبدیلی کر دی گئی اور دیدہ زیب پیکنگ کر کے اس کا نام ’’ہارلکس‘‘ رکھ دیا گیا تو لوگ صحت بخش غذا کے طور پر اسے چار سو روپئے تک میں خرید رہے ہیں۔ آگ پر بھنا ہوا بھٹا کھانا گنوار پن ہے لیکن دو سو روپئے ’’پاپ کارن‘‘ کھانا اپر کلاس فیشن میں شامل ہے۔ دس روپئے کیلو آلو کوئی پوچھتا نہیں لیکن وہی آلو ’’انکل چپس‘‘ کے نام سے چار سو روپئے کیلو بک رہا ہے۔ چار آنے میں نیم کا داتن کرنا غیر مہذب ہونے کی پہچان ہے لیکن اسی نیم سے بنا قیمتی ٹوتھ پیسٹ اونچے گھرانوں میں فخریہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ دس آنے کا سوڈا پانی ‘‘کوک اور پیپسی‘‘ کے نام سے دس دس روپئے میں لوگ دھڑا دھڑ خرید رہے ہیں۔
آج کے اشتہار گزیدہ اور خیرہ چشم لوگوں کے لیے چیزوں کی خوبصورت پیکنگ کے ساتھ تبدیل شدہ شکل اور نام کی بڑی اہمیت ہے۔ ہر پیشے میں دور کی مانگ کے مطابق جدت کاری بے حد ضروری ہے۔ روایتی انداز میں پرانے طور طریقوں سے کام کرنے والے تمہاری طرح ہی اپنے دھندے میں ناکام ہو جائیں گے۔‘‘
شریفن سر جھکائے اس کی باتیں سنتی رہی۔ کچھ دیر ٹھہر کر سلمیٰ اپنی آواز میں شیرینی گھولتی ہوئی بولی۔
’’میری مانو تو اپنی تمام لڑکیوں کو میرے حوالے کر دو۔ آٹھ دس لاکھ تو تمہیں مل ہی جائیں گے۔‘‘
’’کیا تم میرا مذاق اڑا رہی ہو؟‘‘
شریفن تنتنا کر کھڑی ہو گئی۔
’’آٹھ دس لاکھ کتنے دن چلیں گے؟ اس کے بعد کیا بھوکی مروں گی؟‘‘
’’بھوکی کیوں مرو گی؟‘‘
سلمیٰ کا لہجہ اسی طرح شانت اور نرم تھا۔
’’میں نے کہا نا کہ آج چیزیں اپنی اصلی شکل اور نام کے ساتھ آسانی سے اور اچھی قیمت پر نہیں بکتیں۔ تم پڑھی لکھی نہیں ہو تو کیا ہوا؟ تجربہ کار تو ہو۔ کچھ نہیں تو ان روپیوں سے کسی اچھے کھاتے پیتے علاقے میں ‘‘لیڈیز بیوٹی پارلر‘‘ ہی کھول لینا۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...