لندن کے مضافات میں واقع مڈویسٹ ایک نیم غیر آباد مسکین انگریزوں کا محلہ تھا۔ اس میں مختلف سڑکوں کے اطراف ایک دوسرے سے متصل مکانات کے طویل سلسلے تھے جسے ’رو ہاوس‘ کہا جاتا تھا۔ ویسے فارسی زبان میں تو یہ مناسب حال نام تھا مگر اردو میں اس کے ساتھ رونا دھونا وابستہ ہو گیا تھا۔ مکان کے اندر آ کر وجئے نے دیکھا کہ اس میں ایک کمرہ اور ایک باورچی خانہ ہے جس کے ساتھ ایک حمام لگا ہوا ہے۔ اسے دیکھ کر وجئے کے منھ سے نکلا اتنا چھوٹا؟
کنگنا بولی جب میں یہاں اپنے والد صاحب کے ساتھ آئی تھی تو میں نے بھی یہی سوال کیا تھا۔
اچھا تو ان کا جواب کیا تھا؟
انہوں نے بتایا کہ یہ نصف مکان ہے۔ پہلے پہل یہ دوگنا ہوا کرتا تھا لیکن اس وقت گھروں کی قیمت کم تھی اس لئے بک جایا کرتا تھا۔ بعد میں جب لندن کی آبادی میں اضافہ ہو گیا۔ ریل گاڑیوں اور بسوں میں بھیڑ بھاڑ ہونے لگی سڑکوں پر ٹرافک بڑھ گیا تو خوشحال لوگ یہاں کوچ کرنے لگے۔ اس دوران گھر مہنگے بھی ہو گئے تھے اس لئے متوسط طبقہ کے جو لوگ یہاں آنا چاہتے ان کیلئے مشکل تھی۔ اس مسئلہ کا حل مکان کو دو حصوں میں تقسیم کر کے نکالا گیا تا کہ اسے گاہکوں کی قوت خرید کے مطابق کر دیا جائے۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس میں ہم دونوں کے علاوہ کوئی اور تو رہ نہیں سکتا۔
کنگنا مسکرا کر بولی ہمارے علاوہ کسی کو یہاں رہنا بھی کب ہے؟
وجئے نے پوچھا کیا مطلب؟
میں تمہارا مطلب سمجھتی ہوں۔ تم بہت دور کی سوچتے ہو۔ جب ہمارے درمیان کوئی تیسرا آئے گا اور وہ ہوش سنبھالے گا تب تک کھنہ صاحب ملازمت سے سبکدوش ہو چکے ہوں گے اور ان کی جگہ تم جنرل منیجر بن چکے ہو گے اور تم تو جانتے ہی ہو کہ جنرل منیجر کمپنی کے مکان میں رہتا ہے جیسے کہ تمہارے کھنہ صاحب رہتے ہیں۔
وجئے کو کنگنا کی خود اعتمادی نے خوش کر دیا وہ حیرت سے بولا لیکن میری جان اگر ہم لوگ کھنہ صاحب کے مکان میں پہنچ جائیں گے تو وہ کہاں جائیں گے؟
وجئے کا یہ سوال نہایت نامعقول تھا ا سے کم از کم کھنہ صاحب کی بیٹی سے یہ نہیں پوچھنا چاہئے تھا لیکن اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اسے حیرت ہوئی کہ کنگنا پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا وہ اٹھلا کر بولی او ہو وجئے تم واقعی بہت سوچتے ہو۔ وہ اس مکان میں منتقل ہو جائیں گے۔ جب وہ جنرل منیجر نہیں تھے تو اس مکان میں رہتے تھے اور جب وہ جنرل منیجر نہیں ہوں گے تو پھر اسی مکان میں رہیں گے اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟
وجئے نے سوچا یہ کنگنا کمال سنگدل عورت ہے۔ اس پر تو کوئی زہر سے بجھا تیر بھی اثر انداز نہیں ہوتا۔ خیر وہ جیسی بھی تھی وجئے کو اچھی لگتی تھی۔ اس نے پوچھا لیکن میرے والدین یہاں کیسے رہیں گے؟
تمہارے والدین؟ ان کا کیا مسئلہ ہے؟ کیا انہیں اپنا مکان خالی کرنا ہے؟
جی نہیں ایسی بات نہیں۔
پھر کیا بات ہے؟
بات یہ ہے کہ میں ان کے ساتھ رہتا ہوں نا؟
ہاں وہ تو مجھے پتہ ہے۔ تمہارے کم ہو جانے سے ان کا گھر اور کشادہ ہو جائے گا۔
میں ان کی اولاد ہوں کنگنا! یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو؟
دیکھو وجئے رشتے دار ہو یا کرایہ دار جب وہ آتا ہے تو تنگی بڑھ جاتی ہے اور جب جاتا ہے تو کشادگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ابھی ابھی تو تم نے کہا تھا کہ جب ہمارے بچے بڑے ہو جائیں گے تو یہ مکان تنگ ہو جائے گا۔
وجئے سوچنے لگا کہ اس نے یہ بات کب کہی تھی؟ کنگنا نے کہے بغیر ہی سب سمجھ لیا اور اب وہ اس کو وجئے سے منسوب کرنے لگی تھی۔ وجئے بولا اولاد کے آنے سے اگر والدین تنگ ہوتے ہیں تو وہ ان کے خواب کیوں سجاتے ہیں؟
میں نے والدین کے تنگ ہونے کی بات نہیں کہی وجئے بلکہ گھرکی وسعت کا ذکر کیا اور کوئی مانے یا نہ مانے یہ ایک حقیقت ہے۔
اگر یہ بات درست بھی ہے تو میں انہیں تنہا چھوڑ کر یہاں کیسے آ سکتا ہوں؟
ویسے ہی جیسے میں اپنے والدین کو تنہا چھوڑ کر یہاں آ جاؤں گی۔
لیکن میں جب ان کے ساتھ رہتا ہوں تو مختلف کاموں ان کا ہاتھ بٹاتا ہوں۔
ہاں ہاں تو اس میں کیا پریشانی ہے تم یہاں رہو گے تو میرا ہاتھ بٹاؤ گے۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن میرے یہاں آ جانے سے انہیں دقت بھی تو ہو سکتی ہے؟
کیوں نہیں، لیکن یہ تو ان کا مقدر ہے۔ تم یقین کرو تم سے کہیں زیادہ میں گھر پر رہتی ہوں اور اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتی ہوں۔ اس کے باوجود میری ماں کا اصرار ہے کہ ہم لوگ یہاں آ کر رہیں۔ اب تمہیں اندر کی بات بتاتی ہوں۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ تمہارے کھنہ صاحب کی سرکاری کوٹھی خاصی کشادہ ہے۔ اس میں تین خوابگاہیں، ایک دیوان خانہ اور باورچی خانے کے علاوہ دو حمام ہیں۔ ملازمین کیلئے بھی دو کمرے بھی ہیں اور میرے والد چاہتے تھے کہ شادی کے بعد تم اسی گھر میں آن بسو اس لئے کہ میرا نہ کوئی بھائی ہے نہ بہن۔
اچھا! وجئے نے حیرت سے کہا
جی ہاں لیکن میری ماں بھان متی نے اس تجویز کو مسترد کر دیا اور یہ حقیقت ہے کہ گھر کے اندر وزیر اعظم سے زیادہ وزیر داخلہ کی چلتی ہے۔
وجئے بولا جی ہاں میڈم جانتا ہوں لیکن اب یہ بتا دو کہ تمہاری ممی نے کہا کیا؟
انہوں نے وہی کہا جو ہو رہا ہے۔ اس گھر کو آباد کرنے کا فرمان جاری کر دیا۔
اور کھنہ صاحب نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔
جی نہیں وہ بھی تمہاری طرح کندۂ نا تراش ہیں اس لئے انہوں نے وہی سوال کیا جو تم نے کچھ دیر پہلے کیا تھا کہ جب وہ سبکدوش ہو جائیں گے تو کہاں جائیں گے؟
وجئے بولا سمجھ گیا اور اس کے جواب میں جو کچھ تم نے کہا تھا وہ تمہارا نہیں بلکہ آنٹی جی کا جواب تھا۔ وہی تو میں سوچ رہا تھا کہ تم اس قدر ذہین کیونکر ہو گئیں؟
کنگنا بولی کیوں؟ اگر تم میرے والد کی طرح کند ذہن ہو سکتے ہو تو میں اپنے ممی کی مانند ذہین کیوں نہیں ہو سکتی؟
وجئے نے سوچا کنگنا واقعی ذہین ہے اگر وہ اس وقت اپنے والد کے بجائے تمہارے والد کی طرح کند ذہن کہہ دیتی تو بڑی لڑائی ہو جاتی حالانکہ بات ایک ہی ہے۔ وجئے بولا کنگنا تمہاری اس بات پر مجھے ایک کہانی یاد آ گئی۔
بہت خوب مجھے بھی تو پتہ چلے کہ آج کل ہمارے صاحب کن قصے کہانیوں میں کھوئے رہتے ہیں۔
کہانی کیا لطیفہ سمجھو۔
سناو تو سہی اس کے بعد میں فیصلہ کر لوں گی کہ وہ لطیفہ بھی تھا یا نہیں۔
اچھا کیا تمہاری ممی نے اس کی بھی کوئی کسوٹی تھما دی ہے؟
ضرورت کیا ہے؟ اگرہنسی آ جائے تو مزاحیہ ورنہ فکاہیہ۔ خیر تم اپنی سناؤ۔
لیکن اس سے پہلے یہ بتاؤ کہ تم جانتی ہو لکشمی کی سواری کیا ہے؟
لکشمی؟ میری سہیلی لکشمی؟ تم اسے کیسے جانتے ہو؟ اور تمہیں یہ کیسے پتہ چل گیا کہ اس نے ابھی ابھی نئی نویلی پورش گاڑی خریدی ہے؟
سوالات کی بوچھار سن کر وجئے ڈر گیا۔ وہ بولا لگتا ہے تم پر آنٹی جی کا نہیں بلکہ کھنہ صاحب کا سایہ پڑا ہے ورنہ یہ سوالات نہیں کرتیں۔
تم بات کو اِدھر اُدھر نہ گھماؤ۔ اب جبکہ پکڑے جا چکے ہو تو سیدھے سیدھے بتاؤ کہ لکشمی کو کیسے جانتے ہو؟ اور نہ جانے کس کس کو جانتے ہو؟
میں تمہارے سوا کسی کو نہیں جانتا میری ماں۔ اب بس بھی کرو۰۰۰۰۰۰۰۰
یہ ماں کون ہے؟ کیا میں تمہیں اپنی ماں لگتی ہوں؟ کیا تم پاگل ہو گئے ہو؟
وجئے ہنس کر بولا ہوا تو نہیں ہوں لیکن جلد ہی میں باؤلہ ہو جاؤں گا۔
وہ تو ہو گا لیکن اس سے پہلے مجھے بتانا ہو گا کہ لکشمی کو کیسے ۰۰۰۰۰۰۰
بھئی میں تمہاری کسی سہیلی کے بارے میں نہیں بلکہ لکشمی دیوی کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ اندر بھگوان کی وزیر خزانہ لکشمی دیوی۔ جس کی سارے سناتن دھرمی دیوالی کے موقع پر پوجا کرتے ہیں۔
او ہو سمجھ گئی۔ اس لکشمی دیوی کو سواری کی کیا ضرورت؟ اس کو تو لوگ سرآنکھوں پر بٹھا کر اپنے گھر لے جانے کیلئے بے چین رہتے ہیں۔
جی ہاں یہ بات درست ہے لیکن وہ لوگوں کی خواہش پر نہیں بلکہ اپنی مرضی سے اپنی سواری پر جہاں چاہتی جاتی ہے اور جب چاہتی ہے نکل جاتی ہے۔
سمجھ گئی تب تو اس کو اپنی سواری کی ضرورت ہے اس لئے کہ اس کو اپنے گھر لانے کیلئے تو ہر کوئی سواری فراہم کرے گا لیکن جب وہ واپس جانے لگے گی تو سب کی نانی مر جائے گی۔
وہ تو جو ہو گا سوہو گا لیکن اب یہ مان لو کہ تمہیں لکشمی کی سواری کا علم نہیں ہے؟
جی ہاں بابا میں ہار گئی چونکہ میری ممی نے مجھے نہیں بتایا اس لئے مجھے نہیں معلوم بس۔ اب تم ہی بتا دو کہ ۰۰۰۰۰۰
ارے بھائی اس کی سواری الوّ ہے الوّ۔
جی ہاں سمجھ گئی اور مجھے یہ بھی پتہ چل گیا کہ لکشمی دیوی اپنی منزل کا تعین خود نہیں کرتیں بلکہ اپنی سواری پر چھوڑ دیتی ہیں۔
اچھا تمہیں یہ معرفت کیسے حاصل ہو گئی؟
کھول آنکھ زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰
میں نہیں سمجھا؟
میرے پپا کو جب بھی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی ہے ممی علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھ دیتی ہیں۔
اور اگر شعر بھی سمجھ میں نہ آئے تو؟
تو وہ کہتی ہیں ’الوّ کا پٹھا‘
اچھا تو کیا تمہارے پپا اس سے ناراض نہیں ہوتے؟
وہ کیوں ناراض ہوں؟ میری ممی نے ان کو تو الوّ نہیں کہا۔
اچھا پھر کسے کہا؟
ان کے والدین کو۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کے پٹھا کے معنی اولاد کے ہوتے ہیں۔
تب تو یہ اور بھی بڑی گالی ہے۔
جی ہاں لیکن تمہاری طرح میرے والد بھی پٹھا کا مطلب نہیں جانتے۔ ان کا لگتا ہے اگر بھان متی انہیں الوّ کہتی ہے تو اس میں کیا غلط ہے۔
کیا مطلب ان کو الوّ کہلوانا پسند ہے؟
ویسے تو نہیں لیکن اگر بیوی اس لقب سے نوازے تو ہاں۔
میں اس فرق کو نہیں سمجھا؟
یہ فرق میری بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا اس لئے ایک دن اکیلے میں ان سے میں یہ سوال کر ہی دیا تھا کہ ممی آپ کو الوّ کا پٹھا کہتی ہیں تو آپ کیوں کھلکھلا کر ہنس پڑتے ہیں؟
اچھا تو کھنہ صاحب نے کیا جواب دیا؟
وہ بولے کہ تمہاری ممی کی بات درست ہے اگر میں الوّ نہیں بلکہ سمجھدار ہوتا تو بھان متی کے ساتھ شادی کرنے کی غلطی کیسے کرتا؟ خیر تم اپنا لطیفہ نما کہانی سناؤ۔
ہاں تو ہوا یوں کہ ایک دن لکشمی کی سواری الوّ نے شکایت کی آپ کے بھکت آپ کی پوجا تو کرتے ہیں لیکن کوئی میری پوجا یاچنا نہیں ہوتی۔
یہ معقول اعتراض ہے اس لیے کہ اگر سوار نہ لے جائے تو سواری کیسے جائے؟
لکشمی بولی اگر ایسا ہے تو اندر بھگوان سے کہہ کر میں دیپاولی سے ۱۱ دن قبل کروا چوتھ کا تہوار شروع کروا دیتی ہوں۔ الوؤں کی پوجا شروع ہو جائے گی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن۰۰۰۰۰۰۰۰
کنگنا چہک کر بولی دیکھا تم نے لکشمی دیوی نے بھی وہی کہا جو میری ممی کہتی ہیں اور میرے پاپا جسے درست مانتے ہیں۔
اب میری سمجھ میں کھول آنکھ زمیں دیکھ کا مطلب آ گیا۔ لکشمی دیوی کی سواری اپنے جیسے لوگوں کا رخ کرتی ہے اور لکشمی انہیں کے گھر میں قیام فرماتی ہے۔
کنگنا بولی جی ہاں وہ دن دور نہیں جب اس گھر کے اندر میں کروا چوتھ پر آپ کی پوجا کر کے لکشمی دیوی کی سواری کو بتلا دوں گی کہ تمہارا ایک بھکت یہاں بھی رہتا ہے۔ اب ہمیں یہاں سے چلنا چاہئے ورنہ ہمارے گھر کی لکشمی اور اس کی سواری میرا مطلب ہے میرے ممی پاپا ہمارے متعلق نہ جانے کن بد گمانیوں کا شکار ہو جائیں گے؟
جی ہاں چلو چلتے ہیں۔
یہ کہہ کر دونوں اپنے خوابوں کے محل سے باہر نکل آئے۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...