ہمالیہ اور شوالک کی درمیانی وادیاں ’’ڈون‘‘ کہلاتی ہیں (جن میں سے ایک دہرہ دون ہے) سوا سو مربع میل پر پھیلا ہوا کوربٹ نیشنل پارک بھی ضلع نینی تال کی ایک ڈون میں واقع ہے۔ رام گنگا پہاڑوں سے اتر کر کوربٹ نیشنل پارک میں داخل ہوتی ہے۔ اس کے ایک کنارے پر پہاڑی سلسلہ ہے۔ دوسرے پر سال کا گھنا بن۔۔۔
جنگل میں شیر اور چیتے اور ہرن رہتے ہیں، رام گنگا میں گھڑیال، جو ہمارے وقت سے علاحدہ، جیولوجیکل ٹائم اور ڈینو ساروں کے عہد سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔
ہاتھیوں اور دریائی گھوڑوں کی طرح جب کوئی جیپ جنگل کی سڑک پر سے گزرتی ہے، اس کی آہٹ پر شیر اور چیتے، چیتل اورسانبھر اور نیل گائیں چشم زدن میں غائب ہو جاتی ہیں، محض پتّوں کی سرسراہٹ، یا ایک جھلک یا ایک پرچھائیں، جیسے انسانی دماغ کے اندرونی جنگل میں چھپا کوئی خیال۔ اور کبھی رات کے وقت جیپ یا کار کی ہیڈ لائٹس کی زد میں بیٹھا ہنستا ہوا لکڑ بگا یا اود بلاؤ یا سیاہ ریچھ دکھائی دے جاتا ہے، جیسے اچانک کوئی انجانا خوف مجسم ہو جائے۔ ہرنوں، رنگ برنگے پرندوں اور سانپوں سے بھرے گہرے بن پرچھائی ہوئی گھپ اندھیری رات کا راگ۔ بہت دریا اور سوتے گھڑیالوں اور پرندوں اور درندوں اور برفانی سردی اور متحرک کہرے اور تاریکی کی بے آواز سمفنی۔
اس سال ماہ دسمبر میں جنگل کے کنارے ریسٹ ہاؤس کے کمپاؤنڈ میں حسب معمول بھانت بھانت کے لوگ ٹھیرے ہوئے تھے۔ اپنی کارواں کار میں انگلستان سے آیا ہوا ایک ریٹائرڈ فوجی افسر اور اس کی میم، کیمبرج یونی ورسٹی کے طلباء جو ہمالیہ کی نباتات کے مطالعہ کے لیے آئے تھے، چند پورپین نوجوان، یہ سب خیموں میں مقیم تھے۔ کچھ فاصلے پر چھولداریوں میں ٹکے ٹھیکے دار اور مزدور کمپاؤنڈ میں نئی عمارتیں تعمیر کر رہے تھے۔ کوربٹ نیشنل پارک میں سیاحوں کی آمد و رفت بڑھتی جا رہی ہے۔ چیف مہاوت ڈنر کے بعد سارے ہاتھیوں کو لے کر آتا، جو گھٹنے ٹیک کر مغربی سیاحوں کو سلامی دیتے۔ اور میمیں ہاتھیوں کو ایک ایک روٹ کھلاتیں۔ اور پھر سب اپنے اپنے کمروں اور خیموں اور کوراٹروں اور جھونپڑوں اور بلوں اور بانبیوں اور کچھاروں اور آبی غاروں اور گھونسلوں میں جا کر سو رہتے اور صبح کو رام گنگا پر سورج جھانکتا اور جنگل جاگتا اور احاطہ جاگتا اور سب زندہ ہرنوں اور زندہ بکروں اور مردہ بھینسوں (اور کبھی کبھار انسانی لاشوں) اور کچے گوشت اور کیڑے مکوڑوں اور کینچوؤں اور تلے ہوئے انڈوں اور پورج اور کورن فلیک اور ٹوسٹ اور جام، جیلی مار ملیڈ اور چائے، کافی یا پوری، بھاجی یا خاگینہ، پراٹھے یا سوکھی روٹی کا ناشتہ کر کے اپنا اپنا دن شروع کرتے۔
اور تب دبے پاؤں بدّھو احاطے میں داخل ہوتا۔ وہ نئی عمارت کے نیچے جا کھڑا ہوتا اور رام پوری بیرا آواز دیتا۔۔۔
بدھو آ گیا۔ اور سڑک پر ٹہلتی ہوئی معمر مسز فری مینٹل کہتیں۔۔۔
’’ہلو بوڈو۔۔۔ گڈ مارننگ۔۔۔‘‘
اور بریگیڈ فری مینٹل غراتے، ہلو بوڈو۔ اولڈ راسکل‘‘۔ اور امریکن سیاح مسکرا کر کہتے ’’ہائی بوڈو‘‘ اور کوئی امریکن لڑکی پکارتی ’’ازنٹ ہی کیوٹ؟‘‘
بدھو دو مرتبہ کمپاؤنڈ میں آتا ہے۔ صبح کو ناشتہ کرتا ہے۔ واپس چلا جاتا ہے۔ رات کو کھانا کھا کر پھر واپس۔ شام ہوئی۔
اس کہر آلود شام ایک سبز رنگ کی جیپ اسٹیشن ویگن آ کر نئی عمارت کے سامنے رکی۔ دو مرد اور ایک عورت اس میں سے اترے۔ نئے ریسٹ ہاؤس کے ملازموں نے دوڑ دوڑ کر اسباب اتارا، کیوں کہ وہ بہت متمول سیاح معلوم ہوتے تھے۔ امریکن میچنگ کاسنی پھول دار سوٹ کیس، ہولڈال اور بیگ۔ بڑھیا پکنک باسکٹ۔ وہ تینوں استقبالیہ کمرے میں داخل ہوئے جس کے ایک کمرے میں بھدی چمکیلی بار بنا دی گئی تھی۔ لڑکی نے ابرو اٹھا کر ناگواری سے چاروں طرف نظر ڈالی جیسے وہ صرف پانچ ستاروں والے ہوٹلوں کی عادی ہو۔ بار پر بریگیڈیر فری مینٹل تنہا بیٹھا تھا۔ نوواردوں میں سے ایک بار کی طرف آیا۔ جودھپورز میں ملبوس۔ سر پر صافہ۔ ایک کان میں سوراخ، نوکیلی مونچھیں، کہ ایسے کردار روہیل کھنڈ کے افسانوی خطے میں آج بھی نظر آتے ہیں۔ اس نے انگلی اٹھا کر پہاڑی لڑکے سے کہا ’’ایک برانڈی اور سوڈا‘‘۔۔۔
اور عنابی چمڑے کے اسٹول پر ٹک گیا۔ چند منٹ بعد اس نے بریگیڈیر پر نظر ڈالی اور اسے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا۔ مگر بریگیڈیر نے اس کا کوئی نوٹس نہ لیا۔ کسی بھی سفید فام مغربی کی موجودگی میں ہندوستانی عموماً بے حد سلیف کونشس ہو کر عجیب لہجے میں انگریزی بولنے لگتے ہیں اور بہت فخر کرتے ہیں کہ گوری چمڑی والے سے ہم کلام ہیں اور ان کے پورے انداز میں ایک عجیب لجاجت اور مسکینی آ جاتی ہے۔ اہل مغرب اس وقت دل میں ان پر ہنستے ہیں۔۔۔
اور یہی ہندوستانی اپنے ہم وطنوں سے عموماً سخت کلامی سے پیش آنے کے عادی ہوتے ہیں۔ دوسرا آدمی دبلا پتلا، پستہ قد اور گنجا تھا اور اس کی کاہل غلامی آنکھیں Sloth-Bear (ریچھ) کی آنکھوں سے مشابہ تھیں جنہیں وہ بڑی سستی سے گھماتا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ بول رہا تھا اور ریسٹ ہاؤس کے منیجر سے مصرفِ گفتگو تھا۔ لڑکی اکتائی ہوئی کھڑی تھی۔ وہ کوئی سنیما اسٹارلٹ معلوم ہوتی تھی یا کوئی کامیاب مہنگی، فیشن موڈل، خوش شکل، کھلتی رنگت، صحت مند، دراز قد، شربتی آنکھیں، اس نے بیش قیمت ہیرے پہن رکھے تھے۔ ناٹا آدمی عمر میں اس سے دگنا نظر آتا تھا۔ چند منٹ بعد وہ دونوں اوپر چلے گئے۔
کن چھدا آدمی بار پر برانڈی پیتا رہا۔ باہر سے شیروں کی دہاڑنے کی آواز آئی۔ ’’افسوس کہ یہ لاجواب ٹائگر کنٹری اب کالا گڑھ ڈیم میں ڈوب جائے گی۔‘‘ کن چھدّے آدمی نے کہا۔
’’مجھے بھی افسوس ہے۔‘‘ بریگیڈیر نے مختصر جواب دیا۔ ’’میں بڑے بڑے رؤسا کو شکار گاہوں پر لے جاتا رہا ہوں۔ وہ زمانے لد گئے۔ آپ؟‘‘
’’آپ کی کوئی خدمت کر سکوں تو حاضر ہوں۔‘‘ کن چھدے آدمی نے کہا۔ ’’نہیں۔ شکریہ‘‘ بریگیڈیر نے رکھائی سے جواب دیا۔ باہر رات کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ پندرہ بیس منٹ گزر گئے۔ کن چھدا آدمی بریگیڈیر کو گھورنے لگا۔ اس کی آنکھ صرف ایک آنکھ، سرخ ہو چکی تھی۔
’’ترائی کا یہ علاقہ بہت رومینٹک علاقہ ہے‘‘۔ اس نے کہا۔
’’اگر آپ …‘‘ یہ ان لوگوں میں سے نہیں ہے جو خواہ مخواہ کسی سفید فام مغربی سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ بریگیڈیر نے سوچا اور اسٹول پر سے اٹھا، چرٹ سلگایا اور اسے ’’گڈ نائیٹ‘‘ کہہ کر سرعت سے باہر نکل گیا۔
کن چھدا آدمی بار کی سطح پر طبلہ بجانے لگا۔ اس نے گلاس ختم کیا اور بارمین سے بولا ’’بل اوپر بھیج دینا۔ ان کے کمرے کا کیا نمبر ہے؟ بل صاحب کو بھیج دینا، جو میم صاحب کے ساتھ آئے ہیں۔ زینہ کدھر ہے؟‘‘
بار میں نے راستہ بتایا۔ اوپر پہنچ کر کن چھدے آدمی نے ایک دروازے پر دستک دی۔ اندر سے آواز آئی۔ ’’آ جاؤ‘‘۔
دروازہ کھلا ہوا تھا۔ وہ اندر گیا۔ لڑکی مسہری پر نیم دراز جم کوربٹ کی ’’کمایوں آدم خور‘‘ کی ورق گردانی کر رہی تھی جو سیاحوں کے لیے ہر کمرے میں موجود تھی۔ ناٹا آدمی دوسرے پلنگ پر لیٹا چھت کو تک رہا تھا۔
’’جاؤ‘‘۔ اس نے تحکمانہ آواز میں کہا جو اس کے نحیف سراپا سے لگا نہ کھاتی تھی۔
’’ٹھیک ہے۔ میں راتوں رات ڈھکالا سے نکل جاؤں گا۔ آپ مجھے نجیب آباد…‘‘
’’جاؤ۔‘‘ ٹھنگنے آدمی نے اس کی بات کاٹی۔ ’’گڈ نائٹ‘‘
کن چھدے آدمی نے لڑکی کو مخاطب کیا ’’اتوار کی صبح کو آؤں گا تیار رہنا۔‘‘
’’جاؤ‘‘۔ ناٹے آدمی نے دہرایا کن چھدے آدمی نے جھک کر سلام کیا اور باہر چلا گیا۔
ناٹے آدمی نے اٹھ کر ایک سوٹ کیس کھولا۔ اس میں سے چمڑے کی پیٹی نکالی اور ایک چابک۔ اس نے دونوں چیزیں لڑکی کی طرف پھینکیں اور دروازہ اندر سے بند کر لیا۔
صبح سویرے مسز فری مینٹل کارواں کار کے سامنے کپڑے دھو کر الگنی پر ٹانگ رہی تھیں۔ ان کے شوہر نزدیک کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھنے میں مشغول تھے۔ دفعتہً وہ بولیں۔ ’’پور گرل۔ پور تھنگ۔‘‘ بریگیڈیر خاموش رہے۔ ’’انڈین چائیلڈ برائیڈ۔۔۔ بے چاری! کیا ہم اس کے لیے کچھ کر نہیں سکتے ہنری؟‘‘
’’کیا ہے ڈورسِ؟‘‘ بریگیڈیر نے ذرا جھنجھلا کر پوچھا۔ ’’وہ لڑکی بے چاری جو کل رات یہاں آئی ہے۔۔۔ وہ صبح شال اوڑھے اس طرف چہل قدمی کر رہی تھی۔ ساڑی کے نیچے اس کی پیٹھ پر چابک کے نشان نظر آ رہے تھے۔ اس کا شوہر اسے مارتا ہے۔ کیا ہم۔۔۔‘‘
’’ڈورس، دوسروں کے معاملات میں ناک مت ڈبوؤ۔‘‘
’’لیکن ہنری۔۔۔ ۔‘‘
صبح کو گیارہ بجے کے قریب لڑکی اپنے کمرے میں آئینے کے سامنے تیار ہو رہی تھی۔ اس نے باقاعدہ سفری سوٹ پہن رکھا تھا۔ بونا شوقین آدمی تھا۔ وہ بالوں کی کھچڑی جھالر میں سوئسن پین ٹین لگاتے ہوئے لہک لہک کر گاتا جاتا تھا ’’دل جنگل ہی میں بہلتا ہے۔ یہاں حسن پہ عشق مچلتا ہے۔۔۔ ۔‘‘
لڑکی غور سے اس کا گانا سن رہی تھی۔ ’’یہ گانا جب تم پیدا نہیں ہوئی ہو گی تب کا ہے۔‘‘ اس نے کیمرہ اور دوربین اٹھاتے ہوئے کہا۔ دونوں باہر آئے۔ دروازے میں تالا لگایا۔ نیچے اترے اور ہاتھی کے چبوترے کی طرف بڑھے۔ سیڑھیاں چڑھ کر پلیٹ فارم کے اوپر پہنچے اور ہتھنی پر سوار ہوتے ہوئے جو کار کی طرح پلیٹ فارم سے لگی کھڑی تھی۔
ہودے میں بیٹھ کر لڑکی کھلکھلا کر ہنسی۔ وہ بچوں کی طرح خوش تھی۔ دھوپ میں اس کے ہیرے چمک رہے تھے۔ گندا بوسیدہ خاکی کوٹ پہنے منحنی مہاوت نے انکس سنبھال کر ہتھنی کو آہستہ سے پچکارا۔ ’’چل بیٹا رام کلی۔۔۔ بسم اللہ!‘‘ رام کلی پھاٹک کی طرف چل پڑی۔ کمپاؤنڈ سے باہر نکل کر وہ رام گنگا کے ایک اتھلے حصے پر سے گزرتے۔ جنگل کی طرف بڑھے۔ لڑکی بے حد مسرت سے دوربین کے ذریعہ چاروں طرف دیکھتی جا رہی تھی۔ وہ بار بار ناٹے آدمی سے کہتی ’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ دیکھو مور۔۔۔ ارے! بارہ سنگھا۔۔۔ وہ دیکھو گھڑیال۔۔۔ مائی گاڈ۔۔۔
کتنا بڑا مگرمچھ۔۔۔ وہ دیکھو۔ وہ کیا ہے مہاوت میاں؟‘‘
’’سانبھر میم صاحب۔ بولیے مت۔ آواز سنتے ہی سب غائب ہو جاتے ہیں۔۔۔‘‘
رام کلی جنگل میں پہنچی، جہاں بئے کے ان گنت گھونسلے پیڑوں میں قندیلوں کی طرح آویزاں تھے۔ دور سے انہیں دو ہاتھی اور نظر آئے، جن پر کیمبرج سے آئے ہوئے انگریز طلباء سوار تھے۔ جنگل کے ایک حصے کا چکر لگا کر سدھی ہوئی رام کلی واپس مڑی۔ ریسٹ ہاؤس پہنچ کر لڑکی نے فیل بان کو بیس روپے بخشش دئیے۔ کمپاؤنڈ کے عملے میں لڑکی کی امارت اور دریا دلی کا شہرہ ہو چکا تھا۔ ایک بیرے نے اسے خوش کرنے کے لیے آگے بڑھ کر کہا۔ ’’وہ دیکھئے میم صاحب، بدھو آ گیا۔۔۔‘‘
’’بدھو۔۔۔؟ اسے جانے نہ دینا۔ میں اسے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاؤں گی۔‘‘ لڑکی نے کہا اور ڈائیننگ ہال کی طرف چلی گئی۔
ڈائیننگ ہال ڈیپرسنگ تھا۔ لڑکی، جو جنگل میں بہت خوش نظر آ رہی تھی، اب بڑی بے کیفی کے ساتھ کھانا کھانے میں مصروف ہوئی۔ اس وقت صرف ایک اور کنبہ وہاں موجود تھا۔ لڑکی نے اکتا کر ان پر نظر ڈالی۔ بیوی کے سر میں تیل۔ کسا ہوا جوڑا۔ بھدی چھینٹ کی نائیلون ساڑی سونے کی چوڑیاں، مانگ میں سیندور، ماتھے پر پلاسٹک کی نیلی بندی۔ بچے بازار کے سلے ہوئے ’’بابا سوٹ‘‘ پہنے، شوہر کے ہاتھ میں ’’دھرم یگ‘‘ کا تازہ پرچہ۔ وہ سب بھی ایک دوسرے سے بے راز بیٹھے تھے۔ بیرے نے کھانا سرو کیا۔ وہ رام پور کا تھا اور شکل سے احمد جان تھرکوا کا بھائی معلوم ہوتا تھا۔ زندگی بڑی بے رنگ، مضمحل، خجالت انگریز اور بے ہودہ شے تھی۔
کھانے کے بعد وہ پلیٹ لے کر بدھو کو کھلانے کے لیے باہر آئی۔ وہ پھر ٹہلتی ہوئی دریا کی طرف چلی گئی۔ راستے میں اسے وہ پلاسٹک کی بندی والی بیوی ملیں۔ انہوں نے اسے ناقدانہ نظروں سے دیکھا۔ وہ مسکرائی۔ وہ بھی مجبوراً مسکرائیں۔ لڑکی ان سے باتیں کرنے لگی۔ انہوں نے پوچھا۔ ’’کون ذات ہو؟‘‘
’’برہمن۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ’’کیا نام ہے؟‘‘
’’بن دیوی۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’وہ تمہارے ہزبینڈ ہیں؟‘‘
’’اور آپ کو کیا لگتے ہیں؟‘‘ لڑکی نے ہنس کر پوچھا۔ وہ تیوری پر بل ڈال کر آگے بڑھ گئیں۔
وہ کمپاؤنڈ سے نکل کر اس جگہ پہنچی جہاں ایک نئی عمارت تعمیر کرنے والوں کے خیمے لگے ہوئے تھے۔ اس وقت وہ جنگل کے کنارے با جماعت نماز ظہر ادا کرنے میں مشغول تھے۔ انگیٹھیوں پر مرغن کھانے پک رہے تھے۔ ایک آدمی نے سلام پھیر کر نظر ڈالی اور دریافت کیا۔ ’’جی میم صاحب، فرمائیے۔‘‘
’’کچھ نہیں۔ ایسے ہی چلی آئی تھی۔ کیا پک رہا ہے؟‘‘
’’بسم اللہ کیجئے۔ ارے دلاور، ذرا میم صاحب کے لیے زردہ تو نکال لانا۔‘‘ اس نے کرسی پیش کی۔
’’ہم لوگ بجنور کے رہنے والے ہیں۔ سال بھر سے اس جنگل میں پڑے ہیں۔ کام ختم ہو تو واپس جائیں۔‘‘
’’نیاز کی قاب میں سے مت دینا۔‘‘ ایک نورانی صورت والے سفید ریش نے آہستہ سے لڑکے سے کہا۔ لڑکی نے سن لیا۔
دلاور پھول دار تام چینی کی پلیٹ میں زردہ نکال کر لایا۔ لڑکی نے مسکرا کر پوچھا۔ ’’کس کی نیاز تھی؟‘‘
’’بڑے پیر کی۔‘‘ لڑکے نے ذرا جھینپ کر جواب دیا۔ لڑکی نے زردہ چکھا اور ایک بیس روپے کا نوٹ دلاور کو بھی تھما دیا۔
’’آداب عرض میم صاحبہ۔‘‘ ٹھیکے دار نے شائستگی سے کہا۔
’’وعلیکم السلام۔‘‘ اس نے جواب دیا اور کمپاؤنڈ کی طرف واپس چلی گئی۔
بجنوریوں نے تعجب سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
تیسری صبح گیارہ بجے۔۔۔ بریگیڈیر دھوپ میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ ناٹا آدمی تیز تیز چلتا اس کے پاس آیا اور بولا۔ ’’میں ایک ضروری کام سے شہر جا رہا ہوں۔ رات کو آؤں گا یا کل صبح۔ آپ اور مسز فری مینٹل ذرا میری بیوی کا خیال رکھئے گا۔‘‘ اور اپنی جیپ اسٹیشن ویگن میں بیٹھ کر پھاٹک سے باہر چلا گیا۔
مسز فری مینٹل نے کہا۔ ’’بدتمیز آدمی ایسی پھول سی لڑکی کو مارتا ہے۔ مجھے یقین ہے اس بے چاری کے غریب ماں باپ نے روپے کی خاطر اس کے ہاتھ بیچ دیا ہو گا۔ مشرق میں یہ عام طور پر ہوتا ہے۔‘‘
بدھو آ کر کرسی کے برابر کھڑا ہو گیا۔ مسز فری مینٹل نے پیار سے اس کی تھوتھنی پر ہاتھ پھیرا۔ وہ ایک جنگلی سؤر تھا جو جنگل سے نمودار ہوتا تھا اور اپنی خاطریں کرا کے جنگل میں واپس چلا جاتا تھا۔ احاطے والوں نے اس کا نام بدھو رکھ چھوڑا تھا۔ لڑکی ریسٹ ہاؤس سے نکل کر آئی۔
’’گڈ مارننگ‘‘ کہہ کر ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ ’’بوڈو جنگل کا بہتریں پبلک ریلشنز آفیسر ہے۔ وہاں کا نمائندہ جو انسانوں کے جنگل سے رابطہ رکھتا ہے!‘‘ بریگیڈیر نے کہا۔
’’وہ جنگل اندر سے نہ جانے کیسا ہو گا۔‘‘ لڑکی بولی۔ ’’تم اسے اندر سے دیکھ تو چکی ہو۔‘‘
’’بالکل، بے حد اندر سے نہیں دیکھا۔‘‘
’’اس کے اندر بسنے والوں کے لیے وہ ایسا ہی ہو گا جیسے ہمارے لیے ہماری دنیا۔ جب ہم اور جاپانی برما کے جنگلوں میں لڑ رہے تھے تو دونوں درندے لگتے تھے۔‘‘ پچھلے ایک دن میں اس ملنسار لڑکی سے دونوں میاں بیوی کی دوستی ہو گئی تھی۔
مسز فری مینٹل کارواں کار کی طرف چلی گئیں۔
’’کیا میں لنچ تک آپ کے ساتھ بیٹھ سکتی ہوں؟‘‘
لڑکی نے بریگیڈیر سے پوچھا۔
’’یقیناً، تمہارا شوہر بھی ہم سے کہہ گیا ہے کہ۔۔۔‘‘
وہ ہنس پڑی۔ ’’وہ میرا شوہر نہیں ہے۔ میں اس سے کلکتہ ریس کورس پر ملی تھی۔ وہ ایک مال دار چوکی ہے۔ بیوی بچوں والا اور پرورٹ۔ میں چھ مہینے سے اس کے ساتھ ہوں۔ مگر اب بور ہو چکی ہوں اور اسے چھوڑنا چاہتی ہوں۔ مگر وہ مجھے چھوڑنے کو تیار نہیں۔ میں اس سے اتنا مال بٹور چکی ہوں جتنا سال بھر میں بھی نہیں کما سکتی تھی۔ یہ ہیرے دیکھئے۔۔۔ بلیو بیلجیم۔‘‘
’’آئی سی۔‘‘ بریگیڈیر کے منہ سے نکلا۔ وہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکا تھا۔
’’مگر میری بیوی کے سامنے یہ سب نہ کہنا۔ وہ ایک قدامت پرست انگریز خاتون ہے۔ پھر وہ تم سے بات نہ کریں گی۔‘‘
’’ویری ویل بریگیڈیر۔‘‘
’’مگر تم ایک شریف خاندانی لڑکی معلوم ہوتی ہو۔ تم۔۔۔۔‘‘
’’کیا آپ بھی وہی بات دہرانے والے ہیں کہ تم جیسی شریف لڑکی یہ کیا کر رہی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے جناب کہ There is big Money in it- اور اب ہماری بزنس انٹرنیشنل بنتی جا رہی ہے۔ میری چند سہیلیاں مڈل ایسٹ اور مغرب کے چکر لگاتی ہیں۔ میرے والدین اور بھائی کو میرے متعلق معلوم ہے۔ وہ دلی میں ہیں۔‘‘
’’وہ خوف ناک آدمی جو تمہارے ساتھ آیا تھا وہ کون ہے؟‘‘ بریگیڈیر نے دریافت کیا۔
’’میرا پبلک ریلیشنز آفیسر۔‘‘
بریگیڈیر نے نرمی سے کہا۔ ’’مائی ڈیر، کیا تم کو ڈر نہیں لگتا؟ کبھی تم کسی ایسے شخص کے ہاتھ لگ جاؤ جو نیم مجنوں ہو یا سادیت پسند۔۔۔ یا۔۔۔ کیوں کہ پاگل پن اور صحیح الدماغی میں بال برابر کا فرق ہے۔‘‘
’’یہ آدمی بھی Sadist ہے۔ مگر میں اسے ہینڈل کرنا جانتی ہوں۔ اور بہر حال یہ Occupational Hazards تو ہیں ہی۔ میری ایک سہیلی جو اسکول میں میرے ساتھ پڑھتی تھی نرس بن کر ویسٹ جرمنی گئی۔ نرسنگ چھوڑ کر وہ ہیمبرگ کے ایروس پیلس میں شامل ہو گئی۔ بس چند روز میں لکھ پتی۔ شان دار گھر۔ سوئمنگ پول۔ بڑھیا کار۔ موقع ملا تو میں بھی باہر جا کر یہی کام کروں گی۔‘‘
’’کیا کام مائی ڈیر؟‘‘ مسز فری مینٹل نے اپنی کارواں کار سے واپس آتے ہوئے دریافت کیا۔
’’سوشل ورک، خدمت خلق، مسز فری مینٹل۔‘‘ لڑکی نے متانت سے جواب دیا۔
’’بچ۔‘‘ بریگیڈیر نے زیر لب کہا۔ کچھ دیر بعد وہ لنچ کے لیے چلی گئی۔ تیسرے پہر کو برآمدے میں نکلی۔ ایک زخمی پرندہ، جو پر پھٹپھٹاتا برآمدے میں منڈلا رہا تھا، ایک در سے ٹکرا کر نیچے گرا۔ لڑکی نے اسے اٹھایا اور بڑے رنج اور درد مندی سے اسے پچکارتی رہی۔ پھر اسے کچھ خیال آیا۔ پرند کو ساڑی کے آنچل میں چھپا کر کیمبرج والوں کے خیموں کی طرف روانہ ہو گئی۔
ایک چھولداری کے سامنے وہ پانچوں بیٹھے تھے۔ تین لڑکے، دو لڑکیاں، صحت مند، لمبے تڑنگے، سنہری بالوں، سنہری داڑھیوں والے نوجوان یورپ کے شمالی جنگلوں کے دیوتا، سورج کی اولاد، اور لڑکیاں۔۔۔ گوری چٹی، سنہری، تر و تازہ، بن دیویاں، کیا شان دار لوگ ہیں یہ یورپین۔ ایک ہم ہیں سڑے بسے، کالے کلوٹے، سوکھے چمرخ، ناٹے، بد شکل، لاغر، ٹڈے، جھینگر۔۔۔ اس نے سوچا اور اشتیاق سے ان کو تکتی رہی۔ پھر ذرا جھجک کر آگے بڑھی۔ وہ پانچوں تبادلہ خیالات میں منہمک تھے۔ ان کے علوم کی کتابیں قریب رکھی تھیں۔
’’گڈ مارننگ۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’اکسکیوز می۔‘‘
’’ہلو، گڈ مارننگ۔‘‘ ایک سورج کا بیٹا اٹھ کر اس کی طرف آیا۔ اس نے زخمی چڑیا پیش کی۔
’’مجھے خیال آیا، آپ لوگ جنگل کے مطالع کے لیے آئے ہیں۔ آپ کو دلچسپی ہو گی۔‘‘
’’اوہ ہاؤ ویری نائس آف یو۔۔۔ تھینکس۔‘‘
لڑکے نے پرندہ بڑی احتیاط سے ہاتھ میں لیا اور اپنے ساتھیوں کی طرف لپکا۔ وہ لوگ فوراً پرندے کی مرہم پٹی میں منہمک ہو گئے۔ چند منٹ تک وہ اس امید میں کھڑی رہی کہ وہ اس سے بات کریں گے پھر مایوس ہو کر واپس لوٹ گئی۔
شام کے وقت وہ برآمدے میں اکتائی ہوئی کھڑی تھی جب وہی انگریز لڑکا بار کی سمت جاتا نظر آیا۔ وہ فوراً اندر گئی اور بار روم کے صوفے پر ٹک گئی۔
لڑکا بیئر کی بوتلیں خرید کر دروازے کی طرف بڑھا۔ لڑکی نے ہاتھ اٹھا کر ’’ہلو‘‘ کہا۔۔۔
وہ سر خم کر کے مسکرایا اور اس کے نزدیک آیا۔ ’’گڈ اویننگ میم۔۔۔ مسز۔۔۔‘‘
’’مسز ایل۔۔۔۔‘‘
’’ہاؤ آر یو مسز ایل؟‘‘
’’میرا اپنا نام رم ہے۔‘‘
’’آپ مذاق تو نہیں کر رہی ہیں؟ رم اور ایل!‘‘
’’بالکل نہیں۔ میں اپنے شوہر کو ALE پکارتی ہوں۔ وہ اسی نام سے مشہور ہو گیا ہے۔ میرا اپنا نام در اصل رمبھا ہے جو ہماری ہندو مائیتھولوجی میں ایک آسمانی رقاصہ تھی۔‘‘
’’کس قدر دلچسپ۔۔۔‘‘
لڑکے نے کہا۔ ’’میرا نام محض برنارڈ کریگ ہے۔۔۔‘‘
’’بیٹھو کافی پیو۔۔۔ بیرا!‘‘ لڑکی نے آواز دی۔
وہ یک لخت بہت خوش اور پر امید نظر آ رہی تھی۔
’’تمہارا پرند اب کیسا ہے۔‘‘
’’مرہم پٹی کے بعد وہ اچھا ہو گیا ہے، اپنے جنگل واپس چلا گیا۔‘‘ انگریز نوجوان نے جواب دیا اور بیٹھ کر رسمی گفتگو کرنے لگا۔
’’میں سوچتی ہوں، ہم بھی اپنے جنگل واپس جائیں، یعنی مہذب دنیا۔ یہاں وقت گزارنا بہت مشکل ہے۔ وقت یہاں ساکن ہے۔ لیکن کیپٹن کا ارادہ ہے کہ چند روز اور قیام کر کے مہاشیر پکڑیں، پہاڑوں کے نیچے جہاں سے رام گنگا نکلتی ہے۔‘‘
’’ہم لوگ بھی وہ جگہیں دیکھنے آئے تھے جہاں سے دریا نکلتے ہیں۔‘‘ سورج دیوتا نے کہا۔ سنہرے بالوں کا ہالہ۔ سنہری ڈاڑھی۔ بار روم کی نیم تاریکی میں سورج کی طرح روشن۔ وہ اسے دیکھتی رہی۔ وہ کہہ رہا تھا۔ ’’مجھے ہندوستان اتنا اچھا لگا کہ دل چاہتا ہے کہ کسی ہندوستانی لڑکی سے شادی بھی کروں۔ انگلستان میں میرے انگریز دوست جنہوں نے ہندوستانی لڑکیوں سے شادیاں کی ہیں بہت خوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں آپ لوگ نہایت وفا شعار اور خدمت گزار بیویاں ثابت ہوتی ہیں۔ ہماری لڑکیوں سے بالکل مختلف۔‘‘
لڑکی کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ وہ بے حد مضطرب نظر آئی۔ بیرا قہوے کی ٹرے لے کر آ گیا۔ وہ کافی بنانے میں مصروف ہو گئی۔ پھر اس نے پوچھا۔ ’’تم نے یہاں شیر دیکھا؟‘‘
’’نہیں۔ پرسوں یہاں گارا باندھا گیا تھا۔ ہم لوگ بہت دیر تک مچان پر بیٹھے رہے، مگر شیر نہیں آیا۔ اب پرسوں نرسوں ہم لوگ دہلی چلے جائیں گے۔ پھر واپس انگلینڈ۔‘‘
لڑکی نے آہستہ آہستہ اداس آواز میں کہنا شروع کیا۔۔۔
’’میرے والد ہزہائی نس آف کرن پور اپنے زمانے کے نامور شکاری تھے۔ ان کے ساتھ میں بہت سی شکار گاہوں پر گئی ہوں۔ میرا بھائی بھی ماہر شکاری ہے۔‘‘
انگریز نوجوان بڑے اشتیاق سے اس کی بات سن رہا تھا۔ وہ کہتی رہی
’’جب رجواڑے ٹوٹے ہیں میں بہت چھوٹی تھی۔ ہمارا طرز زندگی بدل گیا۔ بڑی ہو کر مجھے ایر ہوسٹس بننا پڑا۔‘‘ اس نے ہاتھ اٹھا کر انگوٹھی دکھائی۔۔۔
’’یہ بلیو بلیجم۔۔۔ ہمارے آبائی خزانے کی آخری یادگار ہے۔‘‘
’’فینسی نیٹنگ! چنانچہ تم فلائنگ پرنسس تھیں!‘‘
’’پرواز کے دوران طیارے کے کیپٹن سے دوستی ہو گئی۔ ہم نے شادی کر لی۔ وہ شراب بہت پینے لگا تھا، اس لیے اسے گراؤنڈ کر دیا گیا۔ اب میں اپنے ناقابل برداشت شرابی شوہر سے طلاق لینے والی ہوں۔۔۔ کاش۔۔۔‘‘
انگریز نوجوان خاموش رہا۔ ’’یہ جگہ فطرت کا ایک حصہ ہے۔ یہاں پہنچ کر انسان سچ بولنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے میں تم کو یہ سب بتا رہی ہوں۔‘‘
’’میری عزت افزائی ہے مسز ایل۔۔۔‘‘
برنارڈ کریگ نے نرمی سے کہا۔
ایک آدمی بھاری سیاہ اوورکوٹ پہنے کمرے میں داخل ہوا۔ برنارڈ نے اس پر نظر ڈالی اور بولا۔ ’’مسز ایل، آپ نے کبھی غور کیا۔ بعض انسانوں کی صورتیں اور حلیے جانوروں سے ملتے جلتے ہیں؟ کیا یہ آدمی ہمالیہ کا سیاہ ریچھ نہیں ہے؟ اور کل ہم نے ایک پستہ قد شخص دیکھا وہ بالکل Sloth Bear معلوم ہوتا تھا۔‘‘
’’اور میں کس حیوان سے مشابہ ہوں؟‘‘ لڑکی نے مسکرا کر دریافت کیا۔
برطانوی نوجوان نے اسے دھیان سے دیکھا اور بولا ’’چیتل۔۔۔ یا جنگلی بلی۔۔۔‘‘
’’شکریہ! کیوں کہ میری آنکھیں شربتی ہیں؟ ہاں انسانوں اور جانوروں کی آنکھیں ایک سی ہوتی ہیں۔ بجّو کی منحوس آنکھ مچھلی کی سرد آنکھ۔ بیل کی احمقانہ آنکھ۔۔۔‘‘
’’وہ دیکھئے، ایک پہاڑی بکرا اسٹول پر جا بیٹھا۔۔۔‘‘
لڑکے نے ہنس کر کہا۔ وہ بھی ہنس پڑی۔
’’کچھ مینڈک معلوم ہوتے ہیں، کچھ ہاتھی، کچھ گینڈے اور ٹڈے اور بیل اور سارس۔ بعض عورتیں چھپکلی معلوم ہوتی ہیں، یا بے وقوف چڑیاں۔‘‘
’’یہ سارا ایک خاندان ہے۔‘‘ برنارڈ نے جواب دیا۔ ’’میرا ایک ہندو دوست کہتا ہے کہ سب جان دار ایک کنبہ ہیں اور سب آواگون کے قانون کے مطابق اسی ہزار جونیں بدلتے رہتے ہیں۔‘‘
’’اچھا؟‘‘ لڑکی نے تعجب سے پوچھا۔ ’’آپ ہندو نہیں ہیں؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ میں۔۔۔ میں عیسائی ہوں۔ میری ممی ہرہائی نس آف کرن پور عیسائی تھیں۔‘‘
’’اوہ!‘‘ برنارڈ نے نظر بھر کر اسے دیکھا۔ کافی ختم کر کے وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
’’کافی کا شکریہ۔ شب بخیر پرنسس۔ کل ملاقات ہو گی۔‘‘ وہ ذرا تیزی سے باہر جا کر کہرے میں غائب ہو گیا۔
چوتھی صبح برطانوی طلباء ایک درخت کے نیچے مصروف مطالعہ تھے۔ لڑکی ٹہلتی ہوئی ان کے قریب سے گزری۔ انہوں نے اسے نہیں دیکھا۔ (میں کسی ہندوستانی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ میں ہندوستانی لڑکی سے۔۔۔۔) وہ تیز تیز چلتی ہوئی۔ بجنوریوں کی خیمہ گاہ تک پہنچی۔
نورانی صورت والے بڑے میاں مصلے پر بیٹھے تھے۔ ’’السلام علیکم۔‘‘ اس نے قریب جا کر کہا۔
’’وعلیکم السلام۔‘‘ بڑے میاں نے ذرا مشتبہ نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ آہستہ سے ملتجیانہ آواز میں بولی۔ ’’حضور میرے لیے دعا کیجئے۔۔۔ میرے لیے دعائے خیر کیجئے۔ نیاز مانئے۔ میری زندگی سنور جائے، بڑے پیر کی منت مانئے۔ کچھ کیجئے۔ جلدی۔ جلدی۔۔۔ یہ لیجئے۔‘‘ اس نے پرس سے دو سو کے نوٹ نکال کر ان کے سامنے رکھے اور الٹے پاؤں واپس ہو گئی۔
بڑے میاں بھونچکے ہو کر اسے دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ شام ٹھنگنا آدمی واپس آ چکا تھا اور برآمدے میں کھڑا جیپ اسٹیشن ویگن میں مچھلی کے شکار کا سامان رکھوا رہا تھا۔ اس نے ایک بیرے کو حکم دیا۔
’’میم صاحب کو بولو، جلدی کریں۔‘‘
بیرے نے اوپر جا کر دروازے پر دستک دی۔ لڑکی نے اودے رنگ کا ٹراؤزر سوٹ پہن رکھا تھا اور آئینے کے سامنے کھڑی میک اپ کر رہی تھی۔ دروازہ کھول کر اس نے کہا۔ ’’صاحب کو بولو ابھی آتے ہیں۔‘‘ پھر وہ پچھلے زینے سے اتر کر کیمبرج والوں کے کیمپ کی طرف بھاگی۔
برنارڈ برگد تلے پتھر پر بیٹھا پائپ پی رہا تھا۔ ’’گڈ ایوننگ مسز ایل!‘‘ اس نے چونک کر کہا۔ ’’رم۔۔۔!‘‘ لڑکی نے مسکرا کر جواب دیا۔ وہ خاموش رہا۔
وہ ایک شادی شدہ عورت سے دوستی بڑھا کر کسی مصیبت میں نہیں پھنسنا چاہتا تھا۔
’’میں مسز ایل نہیں ہوں۔‘‘ لڑکی نے انتہائی مضطرب ہو کر کہا۔ ’’مجھے اپنا دلی کا پتہ دیتے جاؤ۔ میں اس گورکھ دھندے سے نکلنا چاہتی ہوں۔ میں برطانیہ آنا چاہتی ہوں۔ کیا تم میری مدد کرو گے؟‘‘
’’بڑے تعجب کی بات ہے جو ہندوستانی مجھ سے ملتا ہے یہی درخواست کرتا ہے کہ وہ برطانیہ آنا چاہتا ہے۔‘‘ برنارڈ نے ترشی سے جواب دیا۔
’’میں تم کو پوری بات بتاؤں گی۔ پوری بات۔ مجھے اپنا دلی کا پتہ دے دو۔‘‘ ابھی ہم لوگوں نے طے نہیں کیا ہے کہ وہاں کہاں ٹھہریں گے۔‘‘
جیپ قریب آ کر رکی۔ ناٹے آدمی نے دروازہ کھولا اور سرد آواز میں کہا ’’چلو۔۔۔‘‘
اس نے گھبرا کر برنارڈ پر نظر ڈالی اور جیپ میں بیٹھ گئی۔ پھاٹک میں پہنچ کر جیپ ریت میں دھنس گئی۔
بریگیڈیر فری مینٹل ٹہلتے ہوئے آ رہے تھے۔ انہوں نے چند آدمیوں کو بلایا۔ سب نے مل کر گاڑی کو دھکا دیا۔ وہ پھاٹک سے نکل گئی۔ لڑکی نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ بریگیڈیر نے رو مال سے چندیا اور چہرہ صاف کر کے ’خدا حافظ‘ کہنے کے لیے ہاتھ ہلایا۔ دور کیمبرج والوں کی خیمہ گاہ میں روشنیاں جل رہی تھیں۔ جنگل کے راستے میں گھپ اندھیرا تھا۔
وہ ڈر کر ناٹے آدمی سے سٹ گئی۔ ’’بڑی خوف ناک جگہ ہے۔ واپس چلو۔۔۔‘‘
’’کل تمہارا وہ میر شکار بھائی آ رہا ہے۔ کیا اسے اسی لیے بلایا ہے؟ دیکھتا ہوں کیسے جاتی ہو۔‘‘ اس نے دل میں کہا۔
’’اس کے ساتھ بھی نہیں جاؤں گی۔ عین اس وقت مولوی صاحب وظیفہ پڑھ رہے ہوں گے۔ مسز برنارڈ کریگ۔۔۔
میں بہت وفا شعار خدمت گزار ہندوستانی بیوی ثابت ہوں گی۔ ورنہ جرمنی کا ایروس پلیس بڑی گدھیا ہے ‘۔۔۔
کن چھدے آدمی کی آواز۔ وہ بندوق سنبھالے مچان پر بیٹھا تھا۔ نیچے وہ چارے کی طرح بندھی ہوئی تھی۔ پھر بجنوری مولوی کا نورانی چہرہ۔ اس چہرے کا تصور کر کے اچانک وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا اور بشاش اور محفوظ محسوس کرنے لگی۔ اس نے کہا ’’وہ گیت تو سناؤ۔ دل جنگل ہی میں۔۔۔‘‘
گویا کسی نے ریکارڈ پر سوئی رکھ دی۔۔۔ آدمی نے فوراً الاپنا شروع کیا۔ ’’دل جنگل ہی میں بہلتا ہے۔
یہاں پریم کا ساغر چلتا ہے۔
پردیسی پریت کہاں کہاں جانیں۔
ہم ایسا گیت کہاں جانیں۔
کھل جائے جس سے دل کی کلی
یہاں دل کی کلی تو کبھی نہ۔۔۔‘‘
آدمی نے گاڑی ساحل پر روک دی۔ وہ کود کر ریت پر اتری۔ فشنگ کا سامان اتارنے میں آدمی کی مدد کی۔
رام گنگا پگھلی چاندی کے مانند چمک رہی تھی۔ آدمی نے ہپ فلاسک نکال کر شراب کا ایک گھونٹ بھرا۔ ’’یہاں تو اور بھی زیادہ سردی ہے۔‘‘ لڑکی نے لرز کر کہا۔
’’دسمبر کی رات میں دریا کے کنارے کیا گرمی ہو گی؟‘‘ آدمی نے جواب دیا۔ ’’دوڑ لگاؤ۔ سردی بھاگ جائے گی۔‘‘ وہ ریت پر دوڑنے لگی۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے دلکی چلتا رہا۔ پھر ہانپنے لگا۔ اچانک لڑکی نے ٹھٹھک کر کہا۔ ’’کس قدر خوب صورت جگہ ہے۔‘‘
اس نے کافی کا فلاسک کندھے سے اتارا اور ریت پر بیٹھ گئی۔ سامنے دریا کے دوسرے کنارے پر شوالک کی ایک پہاڑی سنگی دیوار کی طرح ایستادہ تھی۔ دیوار پر ایک آبی غار کا عکس لرزاں تھا اور وہ جگہ جل پریوں کا محل معلوم ہو رہی تھی۔ آدمی بھد سے اس کے نزدیک بیٹھ گیا۔ اس نے ہپ فلاسک منہ کو لگایا اور ترنگ میں آ کر غرانے لگا۔۔۔
’’لب جو ہو، فرشِ آب ہو، شب ماہ ہو، بادہ ناب ہو،
میرے پاس بیٹھا ہو وہ صنم، لیے اپنے ہاتھ میں جام جم۔۔۔ جام جم۔ جام جم۔۔۔ اے لوف اف بریڈ، اے جگ اف وائن۔۔۔ لو پیو‘‘
’’نہیں، میں کافی پیوں گی۔۔۔‘‘
پھر اس نے دل میں کہا۔ میرے لیے مولوی صاحب اس وقت وظیفہ کر رہے ہوں گے۔ میں شراب کیسے پی سکتی ہوں؟‘‘ آدمی برّاتا رہا۔۔۔
’’میرے پاس بیٹھا ہے وہ پاجی صنم، حرامی، بدمعاش صنم۔‘‘
وہ سارا فلاسک غٹ غٹ پی گیا۔ اب وہ ایسا چوہا معلوم ہو رہا تھا جسے سیسہ پلا دیا گیا ہو۔ وہ آنکھیں بند کر کے سر جھکا کے بیٹھ گیا۔ لڑکی بڑ بڑائی۔۔۔
’’اتنے جاڑے میں بھلا کوئی مچھلی پکڑتا ہے۔ رات کے وقت؟ واپس چلو، ورنہ میں نمونیہ سے مر جاؤں گی۔‘‘ وہ انٹا غفیل رہا۔
’’میں جا کر گاڑی میں بیٹھتی ہوں۔‘‘ وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
’’بن مانس!‘‘ اس نے سر نہ اٹھایا۔
’’بجو!‘‘ وہ اسی طرح بیٹھا رہا۔
’’جھینگر! ٹینی ماسٹر!‘‘ وہ چپکا رہا۔
’’بڈھا ٹڈا!‘‘ معاً وہ اٹھ کھڑا ہوا اور لڑکی کو ایک لات رسید کی۔ وہ پھسل کر پانی میں جا گری۔
’’بچاؤ!‘‘ وہ چلائی۔۔۔
پانی کے ریلے نے اسے آگے دھکیل دیا۔ مقابل کے آبی غار کے اوپر پانی کے عکس میں تلاطم پیدا ہوا۔ ایک گھڑیال اپنی ماقبل تاریخ، ارضیاتی وقت کی نیند سے چونک کر کاہلی کے ساتھ چٹان پر سے سرکا اور پانی اتر کر ڈوبتی ہوئی لڑکی کی سمت بڑھا۔ ہاتھ پاؤں مارتی لڑکی پانی سے ابھری۔ اسے نظر آیا۔ سرد چاندنی میں چمکتا پانی اس کے چاروں طرف تھا اور ایک سیاہ گھڑیال منہ کھولے اس کی طرف آ رہا تھا۔ گھڑیال نے لڑکی کی ٹانگیں اپنے جبڑوں میں دبوچ لیں۔ لڑکی نے ایک فلک شگاف چیخ بلند کی۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ گھڑیال کے منہ کے اندر پہنچتے ہی وہ دہشت سے مر چکی تھی۔ گھڑیال اسے منہ میں لیے لیے آبی کھوہ کی جانب بڑھا۔ پہاڑی کی سنگی دیوار کے نیچے چٹان پر پہنچ کر ذرا سستایا۔ اس وقت وہ لاکھوں برس قبل کے وقت میں موجود تھا۔ اور ہمالیہ کے یہ دریا اسی طرح برف سے نکل رہے تھے اور یہ پہاڑ اور جنگل اور چٹانیں اسی طرح موجود تھیں۔
ھڑیال نے لڑکی کو چبا چبا کر نگلنا شروع کیا۔ دریا کی سطح پر خون کے چند بھنور سے ابھرے، بالوں کے گچھے گوشت اور کپڑوں کے ٹکڑے پانی پر تیرنے لگے۔ گھڑیال بڑی طمانیت سے اپنا ڈنر کھا رہا تھا۔
ناٹے آدمی نے ساحل پر سے دیکھا۔ اس کے جسم کے رونگٹے سر کے بال کھڑے ہو گئے۔ اس کی کاہل ریچھ جیسی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ ہڑبڑا کر جیپ کی طرف دوڑا۔ جو دور ساحل کے کنارے ایک قدیم درخت کے نزدیک کھڑی تھی۔
اس گھنے درخت کے تنے میں جسے دیمک چاٹ گئی تھی سانپ کے بل تھے۔ آدمی کی آہٹ پر پتے سرسرائے ایک اژدہا بل سے نکلا۔ ایک ہرنی جاگ اٹھی۔ کپکپاتے ہوئے آدمی نے مڑ کر دیکھا۔ رام گنگا شانت تھی اور پگھلی چاندنی کی طرح بہہ رہی تھی۔ آدمی نے انجن اسٹارٹ کیا۔ اس کی گڑگڑاہٹ سناٹے میں بہت ہیبت ناک معلوم ہوئی۔ اندھا دھند جیپ دوڑاتا وہ جنگل کی سڑک پر واپس آیا۔ ہیڈ لائٹس کے سامنے اچانک ایک لکڑ بگا آ گیا اور زور سے ہنسا۔
رات گزری، چاند ڈوبا، سورج رام گنگا پر طلوع ہوا۔ جنگل جاگا۔ بریک فاسٹ کے وقت بدھو جنگل سے نکل کر کمپاؤنڈ میں آیا، ریسٹ ہاؤس کے برآمدے کے نیچے پہنچا اور لڑکی کے اتنظار میں سر جھکا کر کھڑا ہو گیا، جو روز اسے ناشتہ کراتی تھی۔
٭٭٭