ہانیہ پلیز میری بات سنو پلیز میں آپسے محبت کرتا ہوں پلیز میں آپسے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ شرجیل روز کی طرح آج پھر گلاب کے پھول ہاتھ میں لئے اس کی نظر کرم کا منتظر تھا اور ہانیہ کے لئے یہ لمحے زیست کا حاصل تھے۔
چاہے جانے کا احساس کائنات کے ہر احساس سے زیادہ سرورآور ہے اور اسی لئے ہانیہ ہاں یا نا کچھ بھی کہ کر اس احساس سے دستبرداری کا حوصلہ خود میں نہیں رکھتی تھی۔ سو وہ خاموشی سے آگے بڑھی تھی
۔
کوئی جواب تو دو آخر ہاں یا نا کچھ بھی لیکن ہانی کے پاس کوئی جواب نہ تھا تب شرجیل نے غصے سے اسے کندھے سے پکڑ کر اپنی طرف جھٹکا دیا تھا اور اس اثنا میں بہت کچھ نہیں ہوا تھا بس جس پن سے نقاب فکس کیا گیا تھا وہ پن نکل گئی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موبائل کی بجتی بیکل نے اسے ماضی سے حال میں کھینچا تھا
ت۔۔۔تم ابراہیم تم نے تو دیکھا ہے مجھے۔ کیسے کہ سکتے ہو تم یہ سب
میں چاہے جانے کے قابل نہیں میں بہت بدصورت ہوں اور ہانیہ پھوٹ پھوٹ کہ رو دی تھی
کیسے بھول سکتی تھی ہانیہ وہ دن وہ لمحہ ۔
شرجیل کی آنکھیں جن میں ہر لمحہ ہانیہ کے لئے محبت کے والہانہ جزبے جھلکتے تھے اسی شرجیل کی آنکھوں میں پہلے حیرانی پھر حقارت اور پھر بیگانگی کا عکس۔۔
محض ایک سیکنڈ یا شائد اس سے بھی کم اور ہانیہ کو لگا تھا وہ مر گئی ہے۔ عرصے سے مانگی جانے والی موت کی دعا قبول ہو چکی ہے۔ نہ وہ سانس لے رہی تھی نہ کچھ محسوس کر رہی تھی نہ کچھ سمجھ رہی تھی بس ایک عکس تھا جو لمحہ با لمحہ اسکی نظروں سے دور جا رہا تھا اور وہ چلا گیا تھا کبھی واپس نہ آنے کے لئے۔
ہانیہ زندہ تھی پر زندگی اس میں بار بار مرتی تھی۔ موت کی دعا خود میں ایک بددعا بن گئی تھی اور آج۔۔۔
ہانیہ مجھ سے مل لو پلیز ایک بار بس پلیز میں تمہیں میری نظر سے دکھاؤں گا تم کتنی خوبصورت ہو پلیز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہینہ گزرتے ہی عمر خیام اس کے ٹیبل پہ سیلری رکھ دیتا تھا جو ہانیہ کی توقع سے کہیں زیادہ تھی ۔ لیکن اس بار وہ سیلری ہانیہ کو بہت کم لگی۔ اپنے لئے بہترین لباس اور جیولری وغیرہ خریدنا جسے پہن کر وہ ابراہیم سے ملنے جا سکے اور ابراہیم کے لئے بیش قیمت تحفہ خریدنا جو کچھ تو اس عظیم انسان کے لائق ہو اور پھر ممتاز بیگم کو انکے منع کرنے کے باوجود کچھ سیلری دینا (جو وہ ہانیہ کے لئے ہی سنبھال رکھتی تھیں) یہ سب اس سیلری سے پورا ہونا بہت مشکل تھا سو اس نے عمر سے اگلے ماہ کی تنخواہ بھی ایڈوانس لے لی تھی اور اب پورے دل سے وہ محبوب کے دیدار کے لئے تیار ہو کر آفس سے بہت دور گاڑی کے انتظار میں کھڑی تھی جس میں ابراہیم اسے پک کرنے آنے والا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بی بی ہانیہ۔۔؟ ہانیہ کے قریب بلیک کرولا رکی تھی اور نکلنے والے باوردی ڈرائیور نے انتہائی مہذب انداز میں اسکی شناخت چاہی تھی
ہ ہ ہاں آپ کون؟ ایسی شان و شوکت دیکھ کر ہانیہ ہکلا گئی تھی۔
میں سر ابراہیم کا ڈرائیور ہوں انہوں نے مجھے آپکو پک کرنے بھیجا ہے پلیز چلیں سر آپکا انتظار کر رہے ہیں۔
ڈرائیور نے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولا تھا پر ہانیہ بیک کا دروازہ کھول کر پیچھے بیٹھ گئی تھی جس پر ڈرائیور نے اچھنبے سے اسے دیکھا تھا اور گاڑی چلا دی تھی۔ گھر والوں کو دھوکا دینے کا guilt بھی ائیر کنڈیشنڈ لگزری گاڑی میں دم توڑ چکا تھا۔
گاڑی اتنی تیز رفتاری سے نہیں چل رہی تھی جتنی تیزی سے ہانیہ اپنے خوابوں کا سفر طے کر رہی تھی
شادی، ہنی مون بچے اور اب ہانی ابراہیم کے ساتھ بڑھاپے کی دہلیز پہ کھڑی تھی۔ ڈرائیور نے گاڑی کا دروازہ کھولا تھا اور وہ تعبیروں کے جزیرے پہ اتر آئی تھی۔
حیا سے بوجھل آنکھیں زمین پہ گاڑے وہ ایک ملازم کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی جو اسے ابراہیم کے پاس لے جانے آیا تھا۔ جانے کہاں ابراہیم اسے ٹکرا جائے اور شائڈ ابھی بھی وہ کہیں سے اسے دیکھ رہا ہو اس خیال کے آتے ہی اس نے ہاتھ سے اپنے چہرے کا پردہ کرنے کی لاشعوری کوشش کی۔
ملازم ایک کمرے کے دروازے کے سامنے رکا تھا اور پھر دروازہ کھول کر ہانیہ کو اندر جانے کا اشارہ کیا۔ اب تک سب ٹھیک تھا پر کمرے میں جا کر ابراہیم سے تنہائی میں ملنا اسے بہت عجیب لگا۔محبوب سے ملنے کے جوش میں اسے خیال ہی نہیں آیا کہ وہ تو پبلک پلیس پہ ملنے کا ارادہ بنا کر آئی تھی اور یہ گھر تھا لیکن اب واپسی نہیں تھی محبوب سے ملنا ہی تھا اور محبوب پہ اعتبار بھی تو بہت تھا۔ وہ کمرے میں قدم رکھ چکی تھی۔ اطراف کا جائزہ لیتے اسکی نظر لیفٹ سائڈ پہ دیوار پہ آویزہ بڑی سی تصویر پہ پڑی۔ یہ یہ تو۔۔لفظ اسکے ذہن میں گڈمڈ ہوئے تھے وہ تیزی سے واپسی کے لئے پلٹی تھی پر کمرے کا دروازہ لاک کیا جا چکا تھا۔
سر سر پلیز مجھے جانے دیں پلیز اللہ کا واسطہ ہے پلیز
ہانیہ نے سامنے کھڑے شخص کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے۔
جانے دوں۔؟ واہ بی بی اس دن جب میرے منہ پر تھوکا تھا تو کیا سمجھی تھیں بس بات ختم۔۔؟ تم نے مجھے سب کے سامنے بدصورت کہا تھا بڑی بہادر بنی تھی اس دن۔ آج تمہیں اس بہادری کا مزہ چکھاتا ہوں۔ ابراہیم کسی وحشی درندے کی طرح اس کی طرف بڑھا تھا لیکن وہ ابراہیم کے پائوں پکڑ چکی تھی
میں غلط تھی سر مجھے معاف کر دیں مجھ پہ تھوک دیں مجھے مار دیں پر پلیز یہ سزا مت دیں۔ہانیہ ابراہیم کے پیروں میں گری گڑگڑا کر عزت کا تحفظ مانگ رہی تھی۔ پر ابراہیم پہ بدلے کی آگ سوار تھی۔ اس نے ہانیہ سے اسکی واحد خوبصورت قیمتی چیز عزت بھی چھین لی تھی۔ درودیوار ہانیہ کی چیخوں سے ہل گئے تھے پر وہاں موجود انسان سب کے سب مشینوں کی طرح اپنے اپنے کاموں میں جتے تھے جیسے انہوں نے نہ کچھ سنا نہ سمجھا ہو
دفع ہو جاو اب یہاں سے میری ہانیہ۔۔ہاہاہا ابراہیم کا جاندار قہقہہ ہانیہ کی سماعت سے ٹکرایا تھا۔ وہ زخمی شیرنی کی طرح ابراہیم پہ جھپٹی تھی پر ابراہیم اسے زمین پہ دھکا دے کر سگریٹ سلگا چکا تھا۔ وہ اس وحشی کا بال بھی بیکا نہیں کر پائی تھی۔
میں چاہتا تو تمہیں کڈنیپ بھی کروا سکتا تھا پر تمہیں تمہاری اوقات دکھانا ضروری تھا تم نے مجھے سب کے سامنے زلیل کیا تھا اس کا مزہ اب تم پوری عمر سہو گی ابراہیم سے پنگا لیا تھا ہاہ تھو اور ہاں میرا نام منہ سے نکالا کسی کے سامنے تو جو کچھ یہاں ہوا اسکی ویڈیو ہے میرے پاس۔ اسے اپلوڈ کردوں گا جو تماشا میں نے دیکھا تمہارا وہ ساری دنیا دیکھے گی۔
اب نکلو یہاں سے اس سے پہلے کے میرا کوئی نوکر بھی تم پہ منہ مارنے آجائے۔ ہاہاہا میری چھوڑی میرے نوکروں کے حصے ہی آتی ہے پر تمہارے لئے اتنا ہی کافی ہے نکلو یہاں سے۔ ابراہیم شان کے ساتھ زمین کا خدا بنے اپنے بیڈ پہ لیٹا تھا اور ہانیہ خود کو جوڑتی وہاں سے نکلی تھی۔
ننگے پاوں سڑک پر بےسمت چلتے وہ بس ایک ہی بات سوچ رہی تھی ”زندگی کتنی ابھی باقی ہے” وہ اور نہیں جی سکتی بس اور پھر سامنے سے آتی کار کے سامنے اس نے خود کو موت کے سپرد کرنے کی کوشش کی تھی پر
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ ICU میں تھی اور عمر خیام جلے پیر کی بلی کی طرح باہر چکر کاٹ رہا تھا۔ ہانیہ کو دور سے دیکھ کر وہ پہچانا نہیں تھا پر پھر بھی ایک لڑکی کو سڑک پہ اکیلے دیکھ کے انسانیت کے ناطے ہی وہ گاڑی کی سپیڈ کم کر چکا تھا اور پھر ہانیہ کو دیکھ کر بریک لگائی تھی۔ پر اپنے خساروں کی جمع تفریق میں گم ہانیہ یہ سب نوٹ نہیں کر پائی تھی بس آتی گاڑی کے سامنے آئی تھی پر عمر خیام کو سامنے دیکھ کر حواس کھو بیٹھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ کے ساتھ کیا ہوا یہ معمہ ڈاکٹر عشرت نے عمر خیام کو بتا کر پولیس بلانے کا کہا تھا پر عمر نے نیلے نوٹ میز پہ رکھ کر انکا منہ بند کروا دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کے 6 بج چکے تھے اور روز ساڑھے پانچ بجے تک گھر آجانے والی ہانیہ کا گلی میں دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا۔ ممتاز بیگم کئی بار ہانیہ کا موبائل ٹرائے کر چکی تھیں پر وہ سوئچ آف تھا اب وہ ہانی کے باس کا نمبر ڈائل کر رہی تھیں۔
ہیلو اسلام و علیکم
وعلیکم اسلام جی کون
وہ آپ ہانیہ کے باس ہیں ۔؟
جی اور آپ؟
میں ہانیہ کی والدہ ہوں وہ ابھی تک گھر نہیں پہنچی اور اسکا موبائل بھی آف ہے پلیز میری اس سے بات کروا دیں۔
ممتاز بیگم کی بات نے عمر کو الجھن میں ڈال دیا تھا۔ ہانیہ گھر سے آفس کے لئے نکلی اور اسے کہا وہ آج آفس نہیں آئے گی مطلب۔۔کچھ کچھ معملا عمر کی سمجھ میں آنے لگا تھا اور کچھ اور الجھ گیا تھا پر ابھی کے لئے صرف ہانیہ کا پردہ مقصود تھا حتی کہ اس کی ماں سے بھی۔
جی وہ اصل میں ہانیہ جب آفس سے نکلی تو ایک گاڑی سے اسکا چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ ابھی میں اسی کے ساتھ ہاسپٹل میں ہوں۔ کچھ ہی دیر میں اسے ڈسچارج کر دیا جائے گا تو میں اسے گھر چھوڑ دوں گا۔
ہاسپٹل ۔۔کس ہاسپٹل میں ہے ہانی پلیز آپ نام بتاؤ میں ابھی پہنچ رہی ہوں
ہانیہ کی والدہ رو رہی تھیں عمر کو اس بات کا اندازہ انکی آواز سے ہوگیا تھا۔
شائد ہانیہ انکو اتنی ہی عزیز تھی جتنی عمر کو اسکی گڑیا۔
آنٹی آپ پریشان نہ ہوں بس چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوا تھا ہانیہ ڈسچارج ہونے والی ہے میں اسے سیدھا آپکے پاس لائوں گا بس آپ تھوڑا ٹھہر جائیں۔ وہ ہرگز ممتاز بیگم کو ہاسپٹل کا ایڈرس نہیں دے سکتا تھا جو اسکے آفس اور ہانیہ کے گھر سے بلکل مخالف سمت میں بہت دور تھا
اور ممتاز بیگم خود کو کوس رہی تھیں صبح سے انکا دل کسی انہونی کے خوف سے پریشان تھا لیکن انہوں نے اسے وہم سمجھتے اگنور کردیا کاش وہ ہانی کو آج آفس نہ جانے دیتی۔ اب وہ ہاتھ ملتی بےبسی سے اپنی لخت جگر کی واپسی کی منتظر تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔