’’ڈسگسٹنگ!!‘‘ بال پوائنٹ کو زور سے شیشے کی ٹیبل پر پٹخے میم عظمیٰ نے پہلے اس وجود کو گھورا جو گویا پتھر ہوچکا تھا اور ایک افسردہ سی نگاہ ان چار چہروں پر ڈالی جن کے چہرے آنسوؤں سے تر تھے۔
’’ایسا کب تک چلے گا سر حمدانی۔۔۔۔۔۔ مجھے یقین نہیں ہوتا کہ ہماری یونی ایسے کردار کے گرے ہوئے لوگوں کو سپانسر کررہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک نہیں، دو نہیں بلکہ چار چار۔۔۔۔۔۔ چار چار لڑکیوں کو ہراساں کیا ہے آپ کے اس ہونہار، ہوشیار، باادب اور باتہذیب سٹوڈنٹ نے۔۔۔۔۔۔۔ جس کے گن گا گا آپ تھکتے نہیں تھے۔۔۔۔۔۔ تو آج دیکھ لیجیئے اس ککی اصلیت۔۔۔۔۔۔‘‘ میم عظمیٰ یکدم پھٹ پڑی تھی۔
’’میم پلیز تحمل۔۔۔۔۔۔‘‘ سر حمدانی مدھم آواز میں بولے تھے۔
’’تحمل؟ لائیک سیریسلی؟ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ آپ نے اسے ابھی تک یہاں رکھا کیوں ہوا ہے؟ نکال باہر پھینکے اس گندے اور گھٹیا انسان کو۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے اس شخص کو تو پولیس کے حوالے کردینا چاہیے آپ کو۔۔۔۔۔۔۔ اور آپ مجھے تحمل سے کام لینے کو بول رہے ہیں؟‘‘ اپنی چئیر سے ایک جھٹکے سے اٹھتی وہ اونچی آواز میں چلائی تھی۔
سر حمدانی نے پریشانی نے ماتھا مسلا تھا اور ایک نگاہ اس پر ڈالی جس کا پورا وجود جامد ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔ گویا اس کے اعصاب صلب کرلیے گئے ہو۔
ہاتھ میں موجود موبائل پر میسجیز کو پڑھ کر ڈین کے چہرے کا رنگ بھی بدلا تھا۔۔۔
’’میم عظمیٰ پلیز۔۔۔۔۔۔ کول ڈاؤن!!‘‘ اب کی بار ڈین کا مہذب اور سخت لہجہ انہیں ڈین کی جانب متوجہ کرگیا تھا۔
’’مگر سر۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’میم!!‘‘ ڈین کا اٹل لہجہ انہیں خاموش کروا گیا تھا۔
’’حمدانی صاحب آپ کچھ کہنا چاہے گے اپنے سٹوڈنٹ کے ڈیفینس میں؟‘‘ ڈین اب سر حمدانی کی جانب متوجہ ہوئے تھے جو بس اسے تکے جارہے تھے۔
’’مجھے یقین نہیں!‘‘ سر حمدانی کا سر نفی میں ہلا تھا۔
’’سرئیسلی؟‘‘ میم عظمیٰ پھر سے بھڑک اٹھی۔
’’میم عظمیٰ‘‘ ڈین نے اب کی بار درشت لہجے میں انہیں ٹوکا تھا۔
’’مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔۔۔۔ میں، میں بہت اچھے سے جانتا ہوں اسے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نہیں ہے ایسا۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت شفاف کردار ہے اسکا۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکل ایک صاف بہتے جھرنے کی طرح!!‘‘ اس وجود کو دیکھتے وہ اپنے لہجے میں ہلکی نمی لیے بولے تھے۔
’’اچھا!! شفاف کردار؟ تو آپ کیا کہنا چاہتے ہے کہ یہ سب میری سٹوڈنٹس کا کیا دھرا ہے؟ انہوں نے خود اپنے کردار پر کیچڑ اچھالا ہے؟ آپ بتائے سر کیا کوئی لڑکی؟ کوئی عورت کیا ایسا کرسکتی ہے؟‘‘ میم عظمیٰ ڈین کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔
ڈین نے ایک نگاہ سر حمدانی اور دوسری اس وجود پر ڈالی تھی اور پھر ان چاروں کو دیکھا جن کے سر جھکے ہوئے تھے اور ایک آخری نگاہ غصے سے بھری میم عظمیٰ پر۔۔۔۔۔۔۔
’’سر حمدانی میں آخری بار آپ سے پوچھ رہا ہوں کیا آپ کے پاس اپنے سٹوڈنٹ کو انوسینٹ ڈکلئیر کرنے کے لیے کوئی ثبوت ہے؟‘‘ ڈین سر حمدانی کی جانب متوجہ ہوئے۔
’’نہیں مگر اس کا کردار۔۔۔۔۔۔‘‘
’’فار گاڈ سیک سر حمدانی۔۔۔۔۔۔۔ کردار، کردار، کردار۔۔۔۔۔۔ اس کردار کی گردان کر دینے سے آپ کا سٹوڈنٹ گلٹی ہونے سے بچ نہیں جائے گا۔۔۔۔۔۔ کیا آپ کے سٹوڈنٹ کے پاس اپنی انوسینس کا کوئی پرووف ہے؟ اگر نہیں تو آئی ایم سوری مگر مجھے ایک سخت قدم اٹھانا ہوگا۔۔۔۔۔ میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرسکتا!! ان بچیوں نے جو ایلیگیشن (الزام) لگایا اس کا پروف ہے ان کے پاس، مگر آپ کے سٹوڈنٹ نے ابھی تک اپنے ڈیفینس میں ایک لفظ تک نہیں بولا۔۔۔۔۔۔۔۔ سوری ٹو سے سر حمدانی مگر اس اٹیٹیوڈ کے بعد میں آپ کے اس انمول رتن کو اپنی یونی میں نہیں رکھ سکتا۔۔۔۔‘‘ ڈین کے سخت الفاظ ان دونوں نفوس کا دل چیر گئے تھے۔
میم عظمیٰ گردن اکڑائے اپنی سٹوڈنٹس کو مسکرا کر دیکھا تھا انہوں نے بھی مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا تھا۔
’’سر حمدانی اب مجھے ایک فیصلہ لینا ہوگا!!‘‘ ڈین ایک ایک لفظ پر زور دیے بولا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفس سے نکلتے ہی اس کے قدم ایک ہارے ہوئے جواری کی مانند تھے۔۔۔۔۔ سن ہوتے دماغ اور جامد وجود کو گھسیٹتا وہ آفس کی حدود سے نکلتا حال میں داخل ہوا تھا۔۔۔
’’چچچ!!‘‘ آواز پر اس نے نگاہیں اٹھائے سامنے دیکھا جہاں چہرے پر فتح مند مسکراہٹ سجائے وہ اسے دیکھ کر ہنسی تھیں۔ اوپر دل جلا دینی والی مسکراہٹ۔۔۔۔۔
اس کی آنکھیں نم ہوئیں تھی۔۔۔ ان پر ایک آخری نگاہ ڈالتا وہ گراؤنڈ میں آیا تھا جہاں پوری یونی اکٹھی تھی۔
’’وہ دیکھو وہ رہا!!‘‘ کوئی زور سے چلایا تھا۔
اس سے پہلے وہ سمجھ سکتا اس کے پورے منہ پر کالا رنگ مل دیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اس کی قمیض پھاڑ دی گئی تھی۔۔۔۔۔۔ اس پر پتھروں سے بارش کی گئی تھی۔۔۔۔۔۔ زمین پر گرا اس کا خونی وجود مدھم سانسیں لے رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اس کے خون آلود وجود کو ہاکی سے پیٹا جارہا تھا۔
ایسے میں ایک چاہا، من پسند احساس محسوس کیے اس نے بامشکل پلکیں وا کی تھی۔۔۔
وہ وہی تھی اس کے سامنے کھڑی تھی۔۔۔۔۔ اس کا پورا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ ہوا تھا۔۔۔۔۔
اسے یوں روتے دیکھ کر اس تمام عرصے میں پہلی بار اس کے لبوں سے سسکی نکلی تھی۔
’’مم۔۔۔۔۔ماورا!!‘‘ کپکپاتے لہجے میں اس کا نام ادا کیے اس نے اپنا ہاتھ بامشکل اس کی جانب بڑھایا تھا۔
آنکھوں میں نفرت، حقارت لیے وہ سر کو نفی میں ہلائے الٹے قدموں وہاں سے بھاگی تھی۔
’’مم۔۔۔۔ماورا!!‘‘ نقاہت زدہ لہجے میں پکارا گیا وہ نام۔۔۔۔۔۔ اس کا ہاتھ وہی ڈھہہ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں سے آنسسوؤں مسلسل بہہ رہے تھے۔۔۔۔۔ خون اور گرد میں لپٹا وہ وجود اب ناکارہ ہوچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’معتسیم!!۔۔۔۔۔۔۔۔ معتسیم!!۔۔۔۔۔۔ معتسیم!!‘‘ ہوا میں اڑتے آنچل کو سنبھالے وہ کوئل سی آواز اسے اپنے آس پاس گونجتی محسوس ہوئی تھی۔
اس گھنے جنگل میں وہ نجانے کب سے اس آواز کی تلاش میں بھٹک رہا تھا۔
’’ماورا!!‘‘ وہ پاگلوں کی طرح بالوں میں ہاتھ پھیرتا ادھر ادھر بھاگ رہا تھا۔
’’معتسیم۔۔۔۔‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی۔
’’ماورا!!‘‘ اس گھنے جنگل میں اس کی چاروں اور سے آتی آواز اسے پاگل کردینے کو تھی۔
’’معتسیم۔۔۔۔!!‘‘ وہ دردناک آواز میں چیخی تھی۔
’’ماورا!!‘‘ اس کی چیخ سن کر وہ دھاڑا تھا۔
’’معتسیم!‘‘ اس سسکی اسے اپنے پیچھے سے سنائی دی تھی۔
’’ماورا!‘‘ وہ تڑپ کر پلٹا تھا۔
’’ماورا!‘‘ اس نے آنکھیں پھیلائیں اس کے چوٹ زدہ وجود کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔ اس کا نوچا گیا جسم، اس کا خون آلود چہرہ اور اس کی ویران آنکھیں۔
’’معتسیم۔۔۔‘‘ وہ ایک بار پھر سسکی۔
’’ماورا۔۔۔۔۔۔‘‘ ڈگمگاتے قدموں سمیت وہ اس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔ فاصلے تھے کے سمیٹنے کی جگہ بڑھتے جارہے تھے۔
’’ایم سوری معتسیم!!‘‘ وہ روئی تھی اور قدم پیچھے کو اٹھائے تھی۔
’’نو ماورا۔۔۔۔۔۔ ماورا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ تڑپا تھا، اس کی جانب بڑھا تھا۔ اس کے پیچھے گہری کھائی تھی جس کو دیکھ اس کے ہوش اڑے تھے۔
لبوں پر مسکراہٹ، آنکھوں میں آنسو اور تکالیف کا انبار لیے اس نے آخری قدم پیچھے کو لیے تھا۔
’’ماورا!!!‘‘ وہ چلا کر نیند سے بیدار ہوا تھا۔
پورا چہرہ پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔ لمبے لمبے سانس لیے اس نے خود کو کمپوز کیا تھا۔
’’ماورا!!‘‘ اب کی بار اس نام کی پکار میں صرف اور صرف کرواہٹ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مم۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔ میں کہاں جاؤں گی؟‘‘ رونے کی وجہ سے اس کی تھوڑی ہل رہی تھی۔
سرمئی آنکھوں میں خوف لیے اس نے اپنے سامنے کھڑی عورت سے سوال کیا تھا۔
’’بےبی کہی بھی چلی جائے مگر یہاں سے بھاگ جائے، ورنہ یہ لوگ آپ کو نہیں چھوڑے گے!!‘‘ وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے دباتے بولی تھی۔
’’مم۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔‘‘ آنسو آنکھوں سے پھسل کر گالوں پر بہہ گئے تھے۔
’’زویا بےبی پلیز۔۔۔۔ بھاگ جائے یہاں سے۔۔۔‘‘
’’سس۔۔۔۔۔سر!!‘‘ اس کے لہجے میں خوف ہی خوف شامل تھا۔
’’میں سنبھال لوں گی کسی نا کسی طرح۔۔۔۔۔۔ آپ جائے!!‘‘ مارتھا اس کے معصوم چہرے کو فکرمندی سے تکتے بولی۔
’’مم۔۔میں کیسے؟‘‘ خوف زدہ آنکھیں، کپکپاتے سرخ یاقوتی لب۔۔۔۔۔۔ چھوٹی سی ناک۔۔۔۔۔۔ وہ بلاشبہ خوبصورتی کا ایک مکمل پیکر تھی۔
مارتھا نے افسوس سے اس حسین بلا کو دیکھا تھا۔۔۔۔ اگر آج وہ اسے نا بچاتی تو مشکل تھا کہ وہ اسے بعد میں بچاسکے۔۔۔۔۔
’’اچھا میری بات سنے۔۔۔۔۔۔ غور سے۔۔۔۔۔ آئیے یہاں!‘‘ اس بیڈ پر بٹھائے مارتھا اس کے پاس بیٹھ گئی تھی اور ہلکی آواز میں اس کچھ سمجھا رہی تھی۔۔۔۔۔ جس پر کبھی وہ سر نفی میں ہلاتی تو کبھی چہرے پر خوف چھلک آتا۔۔
’’آپ سمجھ رہی ہے نا بےبی؟‘‘ مارتھا نے اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں بھرا تھا۔
مارتھا کے پوچھنے پر اس نے سر آہستہ سے اثبات میں ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باتھ لیے وہ فریش سا کمرے میں آیا تھا۔۔۔۔۔ ایک نظر وال کلاک پر ڈالے، بالوں میں برش پھیرے خود پر سپرے کیے وہ کمرے سے نکلا تھا۔
ڈائنگ ٹیبل پر پہنچتے ہی اس کے قدم رکے تھے۔۔۔۔
’’سنان شاہ؟‘‘ اس کے لبوں نے سرگوشی کی۔۔۔۔۔ وہ یہاں کیا کررہا تھا،۔۔۔۔۔۔۔ اسے تو آج سیڈنی جانا تھا۔
’’گڈ مارننگ!‘‘ سر جھٹکتا وہ خود کو کمپوز کیے اسے وش کرتا کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔
’’مارننگ!‘‘ سخت و سپاٹ لہجہ اس کے کانوں سے ٹکڑایا تھا۔
’’آج پھر سے اس سے ملاقات ہوئی کیا؟‘‘ سنان شاہ کا استہزایہ انداز میں پوچھا گیا سوال۔۔۔۔۔۔ معتسیم کا جوس کی جانب بڑھتا ہاتھ راہ میں ہی رک گیا تھا۔
’’ایسا کچھ نہیں!‘‘ اس نے نظریں چرائی تھی اس سے بھی اور خود سے بھی۔
’’ہوں!! آنکھیں اندر چھپے تمام راز عیاں کردیتی ہیں معتسیم آفندی۔۔۔۔۔ اچھا ہی ہو اگر تم ان پر پہرے بٹھالو!‘‘ اتنی دیر میں پہلی بار معتسیم نے نگاہیں اٹھائے اسے دیکھا تھا جس کی آنکھیں بھی چہرے کی طرح سپاٹ تھی۔
’’وہ بہت تکلیف میں تھی۔۔۔۔‘‘ سرد آہ بھرے وہ بولا
’’تو؟‘‘ سنان شاہ نے ابرو اچکائے سوال کیا۔
’’اس نے تمہیں بھی تکلیف دی ہے معتسیم آفندی مت بھولو اس بات کو۔۔۔۔ اور جو تکلیف کا باعث بنے ان کی تکلیف کو محسوس کرنا سراسر بےوقوفی ہے۔۔۔ یا ابھی بھی اس کی محبت کا نشہ نہیں اترا؟‘‘ سنان شاہ نے جوس کا گلاس لبوں کو لگایا تھا۔
’’ایسی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔ مجھے اس سے کوئی محبت وحبت نہیں۔۔۔۔۔ مگر معلوم نہیں کیوں اس کا خیال میرا پیچھا نہیں چھوڑتا۔۔۔۔۔ وہ ایک کالے سائے کی مانند میرے وجود سے جڑچکی ہے۔۔۔۔۔ جو بس میرے لیے باعث تکلیف ہے۔‘‘
’’تو اس خیال کو جھٹک کیوں نہیں دیتے؟ نکال پھینکو اس کالے سائے کو اپنی زندگی سے!‘‘ سنان شاہ کا اشارہ باخوبی سمجھتے ہوئے اس نے لب بھینچے تھے۔
’’تمہیں تو سڈنی جانا تھا نا؟ گئے نہیں؟‘‘ اس کے بات بدلنے پر سنان شاہ مسکرایا تھا۔
’’دو گھنٹے بعد کی فلائیٹ ہے۔‘‘ سنان شاہ کے جواب پر معتسیم نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
’’سر!! مسٹر کریم آئے ہے آپ سے ملنے!‘‘ اتنے میں میڈ نے آکر اسے اطلاع دی تھی۔
’’ہمم!! ٹھیک بھیجو اسے!‘‘ سنان شاہ نے محض سر ہلایا تھا جبکہ معتسیم اپنے ناشتے میں مگن ہوگیا تھا۔
’’سر!‘‘ تھوڑی ہی دیر بعد کریم اسکا رائٹ ہینڈ ہاتھ میں ایک فائل لیے وہاں پہنچا تھا اور وہ فائل سنان شاہ کے آگے رکھی تھی۔۔۔۔ سنان شاہ نے ایک نظر اس فائل کو دیکھ اور پھر کریم کو جس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
’’گڈ!!‘‘ اس شاباشی دیتے سنان شاہ نے جانے کا اشارہ کیا تھا اور فائل معتسیم کے آگے کھسکائی تھی۔
’’یہ کیا؟‘‘ معتسیم نے چونک کر سوال کیا تھا۔
’’اللہ نے تمہیں ہاتھ اور آنکھیں دونوں دی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ جو صحیح سلامت بھی ہے توخود دیکھ لو!‘‘ سنان شاہ کی بات پر اسے زبردست گھوری سے نوازے معتسیم نے وہ فائل کھولی تھی۔
’’یہ۔۔۔۔‘‘ اس کی آنکھیں پھیلی تھیں۔
’’تمہارا لندن کا ویزہ، پاسپورٹ اور ٹکٹ ہے۔۔۔۔ تم آج ہی لندن جارہے ہو۔۔۔۔۔ شام چار بجے کی فلائیٹ سے۔۔‘‘ سنان شاہ نے مصروف انداز میں موبائل چلاتے اسے جواب دیا تھا۔
’’مگر میں کیوں؟ وائے۔زی ہے نا وہاں؟‘‘ معتسیم نے حیرت سے سوال کیا تھا۔
’’وائے۔زی کی ہی عقل ٹھکانے لگانے جانا ہے تمہیں۔۔۔۔۔ وہ اپنے مقصد سے ہٹ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ آج کل کسی بار ڈانسر کے پیچھے پڑا ہوا ہے وہ۔۔۔۔ نجانے اس کے ٹیسٹ کو کیا ہوگیا ہے!‘‘ سنان شاہ نے نخوت سے سر جھٹکا تھا۔
’’وقتی کشش بھی تو ہوسکتی ہے؟‘‘ معتسیم نے ایک وجہ پیش کی۔
’’سنان شاہ اتنا بےوقوف نہیں ہے کہ وقتی کشش اور پاگل پن کے مابین فرق نہ کرسکے۔۔۔۔۔۔ تم وہاں جاؤ گے اس کے پاس۔۔۔۔۔۔ اور جب تک عقل ٹھکانے نہ آجائے اسکی وہی رہنا تم۔۔۔۔۔۔ سمجھے؟‘‘ معتسیم نے گہری سانس اندر کھینچے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلب میں بار کاؤنٹر پر بیٹھے وہ بظاہر آس پاس کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتا ڈانس فلور پر نظریں جمائے بیٹھا تھا۔
ایک نظر ہاتھ میں موجود گھڑی پر ڈالے اس نے دوبارہ ڈانس فلور کی جانب دیکھا تھا جہاں کئی پول ڈانسرز اس وقت دل پھینک منچلوں کو لبھانے میں مصروف تھی۔
صرف پانچ منٹ باقی تھے۔۔۔۔۔۔۔ پانچ منٹ بعد لیلیٰ کو اس فلور پر جلوہ افروز ہونا تھا۔۔۔۔ وائن کی چسکی بھرے اس نے لب مسکرائے تھے۔۔۔
نشے سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوئی تھی وہ ہرنی جیسی آنکھوں والی دوشیزہ۔۔۔۔۔ جس نے پہلی ہی بار میں وائے۔زی کے دل پر ایک زبردست قسم کا وار کیا تھا۔
وہ اسی کے خیالوں میں گم تھا جب اچانک منچلوں کی زوروشور سے ہوٹنگ شروع ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر نکل کر اس نے سامنے ڈانس فلور کو دیکھا تھا جہاں وہ پراعتمادی لیے پول کے ساتھ کھڑی بس تھوڑی ہی دیر میں اپنے جلوے دکھانے والی تھی۔
سلیولیس گھٹنوں تک آتی ڈریس پہنے جس کا گلا آگے اور پیچھے دونوں جانب سے گہرا تھا۔۔۔۔۔۔ وائے۔زی نے سر تا پیر اپنی ایکسرے کرتی نگاہوں سے اس کا جائزہ لیے ہونٹوں کو گول شیپ دیے اسے داد دی تھی۔۔۔۔۔ سرخ لپ اسٹک سے سجے ہونٹ اور سموکی آئیز۔۔۔۔۔۔ آج تو وہ واقعی قتل کردینے کا ارادہ رکھتی تھی۔
تھوڑی ہی دیر میں میوزیک شروع ہوا تھا اور ساتھ ہی اس نے اپنے ڈانس سٹیپس لیے۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہر ایک اسٹیپ اتنی مہارت سے کررہی تھی کہ اس پر سے ایک پل کو بھی نظر ہٹانا وائے۔زی کے لیے ناممکن ہوگیا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں اپنے ڈانس کو ختم کرتی وہ منچلوں کو آنکھ مارتی اپنے ڈریسنگ روم کی جانب بڑھی تھی۔۔۔۔۔۔ وائن کا گلاس کاؤنٹر پر رکھے وائے۔زی بھی اسکے پیچھے گیا تھا۔۔۔۔۔ ڈریسنگ روم میں داخل ہوتے ہی وائے۔زی نے فورا دروازے کو لاک کیے اس دیکھا تھا جو شیشے کے سامنے کھڑی میک اپ صاف کرنے لگی تھی۔
کسی مرد کو یوں روم میں دیکھ کر لیلیٰ چونک کر مڑی تھی۔
’’ہو آر یو؟(کون ہو تم؟)‘‘ لیلیٰ نے سخت لہجے میں سوال کیا تھا۔
لیلیٰ اوہ لیلیٰ
ایسی میں لیلیٰ
ہر کوئی چاہے مجھ کو ملنا اکیلا
لبوں پر کمینی سی مسکراہٹ لیے وہ گنگناتا اس کے سر پر جاپہنچا تھا۔
’’آئی آسکڈ ہوں آر یوں؟(میں نے پوچھا کون ہو تم؟)‘‘ اتنا تو وہ سمجھ چکی تھی کہ وہ کوئی انڈین یا پاکستانی تھا۔
’’واٹ آر یو ڈوئینگ ہیئر اینڈ ہوں دا ہیل الاؤ یو ٹو کم ہیئر؟(تم یہاں کیا کررہے ہو اور اس خبیث نے تمہیں یہاں آنے دیا؟)‘‘
’’ارے میری جان اتنا غصہ؟ نو نو اس خوبصورت چہرے پر اتنا غصہ سجتا نہیں۔۔۔‘‘ اس کے بالکل قریب کھڑے ہوئے اس کے گالوں پر انگلیاں پھیرتے وہ بولا تھا۔
’’سٹے ان یور لمٹس!! ڈونٹ کراس دیم( اپنی حد میں رہو!! ان سے باہر نکلنے کی کوشش مت کرو)‘‘ اس کا ہاتھ غصے سے جھٹک کر اس نے وائے۔زی کو خود سے پرے دھکیلا تھا۔
’’حد؟ حد ابھی پار ہی کہاں کی ہے میں نے۔۔۔۔۔ جانتی ہو حد پار کرنا کسے کہتے ہے؟‘‘ سوال کرتے ہی اس نے لیلیٰ کو اپنی جانب کھینچے اپنی باہوں میں قید کرلیا تھا۔
اس کی مہک کو اپنے اندر اتارتا وہ اپنا منہ اس کے بالوں میں چھپا گیا تھا۔
’’یو باسٹرڈ۔۔۔۔۔۔ لیو می!‘‘ وہ اسے گالی دیتی غصے سے چلاتی اس کی گرفت میں مچلنے لگی تھی۔
’’ششش!! اتنے خوبصورت ہونٹوں پر ایسے الفاظ نہیں جچتے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہونٹ تو۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اس کے لبوں پر انگلی رکھے وہ دلکشی سے مسکرایا تھا۔
اس کی بات کا مطلب سمجھتے لیلیٰ کی آنکھیں پل بھر میں پھیلی تھی۔۔۔۔۔۔ اس کی گرفت سے آزاد ہونے کو وہ مزید مچلی تھی۔۔۔۔۔۔ آخر کار اس پر ترس کھاتے ایک بار پھر اس کی مہک کو اپنے اندر اتارے وائے۔زی نے اسے آزاد کردیا تھا۔
لمبے لمبے سانس لیے لیلیٰ نے غصے سے اسے گھورا تھا جو اب چئیر پر بیٹھا مزے سے ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ رکھے اس کے چہرے پر چھائی غم وغصے کی سرخی دیکھ لطف اندوز ہوا تھا۔
’’ویل لیٹس کم ٹو دی پوائنٹ۔۔۔۔۔ آئی وانٹ آ پرائیویٹ ڈانس فرام یو( چلو کام کی بات کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میرے لیے پرائیویٹ ڈانس کرو)‘‘اس کی بات پر لیلیٰ کی آنکھیں مزید پھیلی تھیں۔
’’آئی ڈونٹ(میں ایسا کچھ نہیں کرتی)‘‘ اس نے سختی سے نفی کی تھی۔
’’سون مائی ڈئیر سون یو ول ڈو دس فار می ( بہت جلد میری جان، بہت جلد تم میرے لیے یہ کرو گی)‘‘ اپنی جگہ سے اٹھتا وہ ایک بار پھر اس کے قریب آیا تھا۔۔۔۔۔۔ لیلیٰ نے چند قدم پیچھے کو لیے تھے۔
’’یور امیجینیشن( سوچ ہے تمہاری)‘‘ وہ تمسخرانہ ہنسی تھی۔
اس کی بات کا کوئی جواب دیے بنا اس نے مسکرا کر اپنے لبوں پر اپنی انگلیوں کو رکھے ان کو لیلیٰ کے گالوں سے مس کیا تھا۔
’’بہت جلد لیلیٰ بہت جلد۔۔۔۔۔‘‘ اس کے کان میں کی گئی سرگوشی، لیلیٰ کو سانس لینا مشکل ترین عمل لگا تھا۔
’’اور بائے دا وے جہاں تک بات رہی کہ میں کون ہوں۔۔۔۔۔۔۔ تو لوگ پیار سے مجھے لیلیٰ کا مجنوں بلاتے ہیں‘‘ دروازے کی جانب جاتا وہ پھر سے مڑا تھا اور ایک آنکھ دبائے وہ وہاں سے نکل گیا تھا۔
لیلیٰ اور لیلیٰ
ایسی میں لیلیٰ
ہر کوئی چایے مجھ سے ملنا اکیلا
ایک بار پھر گنگناتا وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا جبکہ لیلیٰ ابھی تک سکتے کی کیفیت میں وہی کھڑی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...