(Last Updated On: )
لغزشِ پا ترے کہنے پہ نہ چلنے سے ہوئی
ساری تکلیف مجھے راہ بدلنے سے ہوئی
رات رو رو کہ کٹی شمع کی اللہ اللہ
غم زدہ کیسی یہ پروانوں کے جلنے سے ہوئی
نزع دم دیکھنے آئے مجھے طوعاً کرھاً
ایک راحت تو طبیعت نہ سنبھلنے سے ہوئی
مجھ کو تکلیف نہ پہنچی اسی باعث شاید
ان کو راحت مرے جذبات کچلنے سے ہوئی
کلکِ قدرت نے جو لکھا ہے وہ حرفِ آخر
منکشف بات یہ قسمت نہ بدلنے سے ہوئی
دل بھی اب سرد پڑا ختم ہوا جوشِ لہو
کیسی حالت یہ سب ارماں کے نکلنے سے ہوئی
شبِ فرقت کے اندھیروں میں یہ ہم نے دیکھا
روشنی کوئی نہ تاروں کے نکلنے سے ہوئی
چٹکیوں میں تھی نظرؔ اپنی بساطِ دنیا
مات افسوس کہ اک چال بدلنے سے ہوئی
٭٭٭