آپ کو پتا ہے کہ مفلس اور یتیم کی زندگی کتنی بےمول اور بےمعنی ہوتی ہے۔؟؟
نہیں۔!! مجھے تم سے سننا ہے۔۔روحیل زینہ کی آنکھوں میں سوگواریت دیکھ کر دہل گیا۔۔
ابو کے چلے جانے سے سر سے چھت چھننے لگی، رشتہ دار منہ موڑ گئے، ابو کی لاڈلیاں دو وقت کی روٹی کے لیے ترسنے لگیں، امی کا زیور بکا پھر بات وہاں پر نہیں رکی بات تو گھر کے سامان کی گنتی پر رکنے لگی کہ کونسی چیز بیچ کر ایک ہفتے کا راشن گھر لایا جا سکتا ہے۔۔۔ گھر کے کرائے کی عدم ادائیگی پر مالک مکان نے گھر چھوڑنے کا عندیہ تھما دیا۔۔ محفوظ پناہ گاہ چھوٹنے کا خوف ، پھر نئے آشیانے کی تلاش میں سارا سارا دن چلتی میری ماں کے پاؤں میں چھالے پڑ جاتے ، آپا سارا دن سلائی مشین چلا کر نڈھال ہو جاتی بمشکل ایک دو جوڑے تیار کر پاتی ، مگر لوگ بازار سے کم قیمت دے کر ہماری مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے۔۔۔
مڈل پاس چھوٹا بھائی کبھی کسی ہوٹل والے کی منت کرتا تو دیہاڑی لگ جاتی تو کبھی کسی منڈی میں پھلوں سبزیوں کی چھانٹی میں سے گلے سڑے پھل چن لاتا۔۔۔
امی جواں سال آپا کی فکر میں گھلتیں۔۔۔ بات جب سلائی مشین بیچنے پر آئی تو آپا بیچ میں آ گئی۔۔۔ امی کو اپنے جہیز کے تیار شدہ چند جوڑے پیش کر دیئے کہ گلی گلی گھوم کر بیچ آؤ ، شاید سستے داموں بک جائیں اور ہمارے چند دن کا راشن پورا ہو جائے۔۔۔
جہیز کے جوڑے بھی بک گئے مگر گھر کے حالات نہ بدلے۔۔۔
میرا سکول گھسے پٹھے پیوند شدہ کپڑوں میں جانا اور کھانے کے وقفے میں ایک کونے میں بیٹھ کر باقی بچوں کو کھانے کے ڈبے کھولتے دیکھنا روز کا معمول تھا۔ اکثر راتیں تو خالی پیٹ پانی پی کر گزر جاتیں، صبح بھی خالی پتیلیاں منہ چڑاتیں۔۔۔
پتا ہے جب محلے میں کوئی بیمار ہوتا تھا تو ہمیں بھی صدقے کا کھانا مل جایا کرتا تھا۔۔
روحیل زینہ کے انکشافات پر بت بن چکا تھا، الفاظ تو گویا ساتھ چھوڑ گئے۔۔زبان سلب ہو چکی تھی، تسلی کے لیے لفظوں کا ذخیرہ ختم ہو گیا۔۔
زینہ کی آنسوؤں سے جھل تھل نشیلی آنکھیں اس وقت سوگواریت کی حدوں کو چھو رہیں تھیں مگر اپنی بات کو جاری رکھے ہوئے تھی۔۔۔
تمام کٹھن حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے عبادت کی خوراک بڑھا لی۔۔ رات جب بھوک سے نیند نہ آتی تو استغفار کا ورد شروع کر لیتے۔ “استغفر اللہ و اتوب الیہ”۔۔۔ درود ابراہیمی تو جیسے زخموں پر پاہوں کا سا کام کرتا۔۔ درود ابراہیمی کے بار بار پڑھنے سے رب کی رحمت جوش مارتی اور دل میں اطمینان سا اتر آتا۔۔
محلہ بدلا ، گھر بدلا تو گھر کے حالات میں انیس بیس کا فرق پڑا۔۔ خالہ کو ترس آ گیا یا پھر ذیشان بھائی کی کم تعلیم نے ہماری آپا کے نصیب کھول دیئے۔۔۔ دو سال کی انتھک کوششوں اور مشقت کر کے دونوں ماں بیٹی نے جہیز کے نام پر چند چیزیں جمع کر لیں جوکہ بقول خالہ کے ناکافی تھیں ، لوگوں کی بہوئیں تو ٹرک بھر بھر کر سامان لاتی ہیں۔۔۔
چھوٹا بھائی میٹرک کے امتحان کے بعد موٹر مکینک کا منت ترلا کرکے اسکی ورکشاپ پر جانے لگا ۔ آپا کے ساتھ ساتھ میں بھی سلائی کرنے لگی۔۔
مجھے اعلیٰ تعلیم کا بہت شوق تھا مگر مالی حالات اجازت نہ دیتے تھے، میں اپنے کالج کی کینٹین میں خدا ترس ماسی کے پاس چلی گئی اور اسے کچھ کام کرنے کی درخواست کی کہ اگر گھر میں بیٹھ کر مجھے کچھ کام مل سکتا ہے تو میں کرنے کے لیے تیار ہوں تاکہ میں اپنے کالج کے اخراجات اٹھا سکوں۔۔۔
شاید نصیب میں تعلیم ہے تھی تو سبب بن گیا ۔۔
ماسی ادھر کالج کی کینٹین میں ہی میرے سے کٹائی کا کام کروانے لگی جس کے لئے کبھی کبھی مجھے دو سبق (کلاسیں) چھوڑنا پڑتے ۔۔۔
اکثر میں صبح کالج میں پڑھائی شروع ہونے سے قبل پہنچ جاتی اور پیاز آلوؤں کی کٹائی کر لیتی۔۔۔
پتا ہے مجھے روز کے پچاس روپے ملنے لگے یعنی میں پانچ دنوں کے اڑھائی سو کمانے لگی۔۔۔
میرا گھسا پھٹا سفید یونیفارم ،اور پٹھے پرانےجوتے اکثر لڑکیوں کے لیے وجہ مذاق بنے رہتے۔۔۔
امیروں کی بیٹیاں مجھے حقیر سمجھ کر مجھ سے بات کرنا بھی گوارہ نہ کرتیں ۔۔ آپ پوچھتے ہیں نا کہ میں دبو بزدل کیوں ہوں ۔؟ امیروں مالداروں کے کاری وار سہہ سہہ کر کمر جھکتی چلی گئی، بولنے کی صلاحیتیں مفقود ہو گئیں ۔ اپنی غربت ، بے بسی ان بے نام بادشاہوں کے سامنے دم توڑنے لگیں، طنزیہ فقروں کی بھرمار تو گویا ہمارے تعلیمی اداروں کی شان ہے ۔۔ وقت کا پہیہ چلتا چلا گیا اور میرا حجاب میرے اندرونی لباس کی لاج رکھنے لگا۔۔۔آپ یہ مت سمجھئے گا کہ میں نے کم عمری یعنی میٹرک سے میں نے اپنے سستے لباس کو چھپانے کے لیے حجاب لیا تھا۔۔ حجاب لینا تو اللہ کی طرف سے انعام تھا ، نامحرموں کی گندی نظروں سے بچنے کی محفوظ پناہ گاہ تھا ۔حجاب میں ملبوس گھر سے نکلتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میرے چاروں طرف مضبوط قلعہ ہے جسکی دیواریں میرے رب کی رحمت کے زیر سایہ ہیں۔۔۔
یہ مت سمجھئے گا کہ حجاب کے بارے میں آزمائش نہیں آئی۔۔۔!!! بہت چھیڑا گیا ۔ بہت ہراساں کیا گیا۔۔۔
اکثر تو بدکار عورتوں سے جوڑا جاتا کہ میں اپنی بولی لگوانے جا رہی ہوں تاکہ دلال تک پہنچتے پہنچتے مجھے کوئی اپنا نہ پہچان لے ۔۔۔۔
دل پھینک لڑکے سیٹیاں بجاتے کالج تک پیچھا کرنے سے باز نہ آتے۔۔ مگر مجھے تو پڑھنا تھا ، آگے بڑھنا تھا۔۔۔ان اوباش لڑکوں کو گلی کے آوارہ کتوں سے تشبیہ دے دیتی اور نظر انداز کر کے اپنا دامن بچا لیتی تھی۔۔۔
پھر زید اس قابل ہونے لگا کہ ایک پرانی موٹر سائیکل خرید ڈالی۔۔۔
میرے سےچھوٹا ہونے کے باوجود بھی میرے اوپر اپنی غیرت کے پر پھیلائے رکھتا۔۔
کالج کے پہلے سال سے ہی مطالعہ اسلامیات میں دلچسپی میرے باطن کو نکھرنے کا موقع دینے لگی ، کردار سازی کی تگ و دو میں جت گئی ۔۔۔
سکول اور پھر کالج کے چار سال کوئی سہیلی نہ بن پائی ۔۔۔ میری غربت ،میری مجبوریاں ، میرے ادھورے خواب میری سہیلی تھے۔۔۔
کالج سے واپس آ کر میں ماں کی جھکی کمر کو۔مذید جھکنے سے بچانے کے لیے سلائی کا کام کرتی۔۔۔
زینہ کی باتیں سن کر روحیل کو اپنا آپ بہت چھوٹا لگنے لگا۔۔۔
ادھر اُدھر چھوٹا موٹا کام کر کے فیس نکل آتی۔۔۔
بی اے کے بعد گرمیوں کی چھٹیوں میں جان مار کر سلائی مشین چلائی تو یونیورسٹی میں داخلے کےلئے فیس جمع کر لی۔۔۔ بھلا ہو محلے کے درزی کا جو میری ماں کے توسط ہم سے آدھی قیمت پر کپڑے سلوا لیتا۔۔
یونیورسٹی جا کر سامعہ میری پہلی سہیلی بنی جوکہ مالدار ہونے کے ساتھ ساتھ حیا دار بھی ہے۔۔ جس سے آپ بھی یونیورسٹی میں مل چکے ہیں۔۔۔
زینہ نے آنکھوں سے نکلنے والی برسات کو آستینوں سے رگڑ ڈالا۔۔۔ بس یہی ہیں میرے بزدلانہ کارنامے اور انکے نتائج۔۔۔۔!!!
آپ نے مزید کچھ پوچھنا ہے تو بتائیں۔؟
منیب کی تم سے کیسے ملاقات ہوئی۔۔۔؟؟
زینہ نے آہ بھری۔۔۔
یہ درد بھری داستان کسی اور وقت سناؤں گی اگر آپ اجازت دے دیں تو ۔۔؟؟ زینہ نے سوال طلب نظروں سے روحیل کی لال انگارا آنکھوں میں دیکھا جو اس داستان غم سے پہلے بالکل ٹھیک تھیں۔۔
روحیل نے جواب دیئے بنا کمرے میں پڑی پانی کی بوتل سے پانی انڈیلا اور زینہ کو تھما دیا۔۔۔
یہ پیو ۔!! زینہ غٹا غٹ سارا گلاس دو سانسوں میں چڑھا گئی۔۔۔ کیا میں اور پی سکتی ہوں۔؟؟
ہاں ضرور پیو کیوں کہ تم نے آنکھوں کے ذریعے ہی تو اسے باہر نکالنا ہے ۔! روحیل نے بات کو مزاح کا رنگ دینے کی ناکام کوشش کی جبکہ اسکی اپنی قلبی کیفیت کچھ ٹھیک نہ تھی۔۔
اپنی غلطیوں پر دل و دماغ ملامت کرنے لگا ۔۔۔مگر خود کو زینہ کے سامنے مضبوط ظاہر کرنے میں کوشاں رہا۔۔۔
وہ آپ مجھے کچھ دکھانے کے لیے لائے تھے۔۔
ہاں وہ تمہارے لئے نیا فون لایا تھا مگر کل تم دستیاب ہی نہیں تھی۔ بات “نیا فون” دینے سے “کھلی زپ” پر چلی گئی تو ۔۔۔۔ روحیل نے زینہ کو معنی خیز نظروں سے گھورا۔۔۔
زینہ جھینپ گئی۔ چہرے کا رنگ یکدم لال ہو گیا۔۔۔
وہ میں کل جذبات میں آکر جو منہ میں آیا بولتی چلی گئی اس کے لئے میں آپ سے معافی چاہتی ہوں۔۔۔ زینہ مضطرب انداز میں اپنے ہاتھوں کی انگلیاں مروڑنے لگی۔۔۔
کیا انگلیاں کسی سے مانگ کر لائی ہو جو روزانہ ان پر ظلم ڈھاتی ہو۔؟؟
ننننہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔۔۔
زینہ بات جیسی بھی ہے ابھی تم میری بیوی ہو ، میرے گھر کی ملکہ ہو۔! میں تمہیں یوں مضطرب نہیں دیکھ پاؤں گا۔۔ تم میری ذمہ داری ہو ۔ مجھے تم اپنا دوست بنا لو۔!!
اب اچھے بچوں کی طرح مصافحہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھاؤ۔!!
زینہ نے سوگوار نظروں سے دیکھتے ہوئے روحیل کی طرف اپنا دایاں ہاتھ بڑھا دیا۔۔۔
روحیل نے ہاتھ تھام کر اپنی آنکھوں سے لگا لیا۔۔۔ یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔؟ زینہ خجل ہوئی۔۔
میں ان ہاتھوں کی عزت افزائی کر رہا ہوں جو نجانے کتنی راتیں اللہ کی بارگاہ میں اٹھتے رہے ہیں۔ بولتے ساتھ روحیل نے زینہ کے دونوں ہاتھ اپنے لبوں سے لگا لیے۔۔۔
زینہ کی آنکھیں نہ چاہتے ہوئے بھی چھلکنے لگیں۔۔
زبان گنگ ہو گئی۔۔۔
میں اس قابل نہیں ہوں، جتنا آپ مجھے معتبر بنا رہے ہیں۔! زینہ ہچکیوں میں رونے لگی۔۔۔
پاگل لڑکی رونے دھونے کی ماہرہ ۔
روحیل نے ہاتھ چھوڑ کر زینہ کو اپنے مضبوط حصار میں لے لیا۔۔۔
آج جتنا رونا ہے رو لو مگر میرے بچوں کے سامنے نہ رونا پلیز ۔۔!!!
روحیل کی زبان پھسلی۔۔۔
زینہ مچل کر پیچھے ہٹی ۔!!
آپ نے ابھی ٹھیک بات نہیں کی ہے۔!
کیوں جی ؟؟ کیا میری بات کو ملیریا ہوا ہے ۔؟؟؟
آپ بات کو دوسرا رنگ دے رہے ہیں۔! زینہ نے منہ بسورا۔
ہائے ابھی جو رنگ چڑھا ہے وہ تو دسترس میں آ جائے باقی رنگوں کو مارو گولی۔۔۔!
میں نیچے امی اور ویر کے پاس جا رہی ہوں ۔! آپ فوراً رنگ بدل لیتے ہیں۔۔
زینہ نے بستر کے پاس پڑی چپل پاؤں میں اڑسنے کی کوشش کی جسے روحیل نے چند ثانیوں میں ناکام بنا دیا۔۔۔
تم ابھی کہیں بھی نہیں جا رہی ہو۔
ادھر الماری سے میری پسند کے کپڑے نکالو ۔!! میں کچھ دیر بعد تمہیں پالر لے کر جا رہا ہوں۔۔۔!! پھپھو پہلی مرتبہ تمہیں دیکھیں گی تو میں چاہتا ہوں تم بہت پیاری لگو۔۔۔!!
مجھے تو ہر حال ، ہر حلیے میں پیاری لگتی ہو مگر پھپھو بھتیجے کی محبت میں کچھ بھی بول جائیں ، میں یہ نہیں سہہ پاؤں گا۔۔!!
اب کھڑی میرے اوپر محبت کے پھول برساؤ گی یا الماری کو تمہارے پاس بلا لوں۔۔ ؟؟؟
زینہ روئی روئی سوگوار شکل کے ساتھ مسکرا دی۔۔۔
آپ کے خیال میں کونسا رنگ پہنوں۔؟؟ زینہ الماری کے دونوں پٹ کھولے روحیل سے پوچھنے لگی۔۔۔
پہلے تو اپنے یہ بال کھولو ، روحیل نے عقب سے آ کر زینہ کے ریشمی بال پونی کی قید سے آزاد کر دیئے۔۔۔
یہ اپنے بالوں کی کھاد کا نام تو بتاؤ۔۔؟؟
زینہ کی کھنکتی آواز کمرے میں جلترنگ بجانے لگی۔۔بالوں کو نامحرم سے چھپانے کے فضائل ہیں۔۔ زینہ دوبارہ کھلکھلائی۔۔۔
یقین مانو میں تمہاری اس ہنسی کے لیے ترس گیا تھا۔۔ ابھی جی چاہ رہا ہے شکرانے کے دو نفل ادا کروں کہ زینہ صاحبہ نے اپنے شوہر نامدار کو ہنسی کا تحفہ بخشا ہے۔۔۔
آپ بھی نا۔!!!
کیا ۔۔؟؟؟
میں کیا بھی نا ۔؟؟؟
آپ بہت شرارتی ہیں۔!!! بولتے ساتھ زینہ خجلت مٹانے کے لیے ہینگروں میں لٹکے کپڑے دکھانے لگ گئی۔۔۔
بتائیں کونسا سوٹ پہنوں۔؟؟؟
آج تم روحیل برانڈ کا سوٹ پہنو گی۔!!
یہ دیکھو جو میں نے ڈیزائنر کے سر پر کھڑے ہو کر بنوایا ہے ۔۔۔
کیا مطلب ؟؟؟
مطلب یہ کہ خود ڈیزائن کروایا ہے۔۔۔
تو آپ کے پاس میرے کپڑے کا ماپ کیسے پہنچا۔۔؟؟
یاد ہے نا جب ہسپتال میں بیہوش ہوئی تھی تو اس وقت میری باہوں میں ہی تھی۔۔!!!
پر میں تو حجاب میں تھی۔؟
جی مگر وزن میرے کاندھوں بازوؤں پر ہی تھا۔۔!!
مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ چالیس پینتالیس کلو سے وزن ایک رتی اوپر نہیں ہے۔۔!!
کیوں۔؟؟؟ آپ میرے سے پہلے اور کتنی لڑکیوں کو اٹھانے کا تجربہ کر چکے ہیں۔؟؟؟
آج تو بڑی شیرنی بنی ہوئی ہو ۔ماشاءاللہ۔۔ روحیل نے بائیں آنکھ دباتے ہوئے بولا۔۔ آج تو روحیل ارشاد سے ٹیڑھے سوالات پوچھے جا رہے ہیں اور کٹہرے میں کھڑا کرنے کے خطرناک ارادے ہیں۔۔۔
یہ باتیں میں اس وقت کے لئے چھوڑ دیتا ہوں جب تک تم رخصت ہو کر میرے کمرے تک نہیں آ جاتی ہو۔۔!
ویسے پوچھنا تھا اگر لڑکیاں اٹھائی بھی ہوں تو کیا تمہیں جلن ہو گی ۔؟؟؟
اگر سچی مچی اٹھائی ہیں تو پھر مجھے بہت افسوس ہو گا کیونکہ یہ گناہ کا کام ہے۔! زینہ نے افسردہ شکل بنائی۔۔۔
روحیل نے بات بدلی۔اپنا چہرہ درست کرو اور جاکر شاور لو۔
عصر کے بعد کا وقت لیا ہے۔
کس سے ؟؟؟
بھئی پالر والی سے ۔!
اوہ اچھا میں بھول گئی تھی۔!
مگر میں صبح امی والے غسل خانے میں نہا چکی ہوں۔ ابھی دوبارہ کس لیے نہاؤں.؟؟؟
جو بولا ہے اس پر عمل کرو۔۔۔
ادھر غسل خانے میں تمہارے شیمو کنڈیشنر رکھے پڑے ہیں ۔۔۔
چلیں ٹھیک ہے۔مگر پلیز مجھے اجازت دیں میں ایک نظر امی کو دیکھ آؤں۔۔!! شاید ایک گھنٹہ بیت چکا ہے ، باتوں میں پتا ہی نہیں چلا۔۔۔
اس بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔!
اس میں کیا سوچنا ؟؟ زینہ گھبرا گئی۔۔
اس کے لیے ایک شرط ہے۔۔!
وہ کیا۔؟؟
زینہ کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔۔۔
اپنا حلیہ دیکھو ذرا ۔!!!
ایسے لگ رہا ہے جیسے کسی نے پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا ہے۔! روحیل کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔
نہیں نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔ زینہ نے مغموم لب و لہجے میں صفائی دینے کی بھرپور کوشش کی۔۔۔
تمہیں یا تو جھوٹ بولنا نہیں آتا یا بولنے کی عادت نہیں ہے۔!
یہی بات ہے نا ۔؟؟
جی مجھے دونوں کام کرنے نہیں آتے ہیں۔۔۔
ساری عمر امی کے ساتھ گزاری ہے تو جھوٹ کیسے بول سکتی تھی۔۔زینہ نے دوپٹے کے پہلو سے پیشانی رگڑی۔۔۔
اور اگر تم امی سے چوری چوری مجھ سے دوستی کر لیتی تو پھر کیا ہوتا۔؟؟؟
“دوستی کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا ، آپ چاہے جتنا مرضی ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے مگر میں امی سے نہیں اللہ سے ڈرنے والی تھی اور رہوں گی ان شاءاللہ۔۔۔ جب دل میں نفس کے جہاد کا مصمم تہیہ کر لیا تو پھر دائیں بائیں ،آگے پیچھے کی تمام رعنائیاں بے معنی لگنے لگتی ہیں۔۔ میری زندگی میں آپکے حادثاتی طور پر آ جانے سے ایک اور دعا کا اضافہ ہو گیا تھا ۔۔!
وہ کونسی دعا تھی ۔؟؟ روحیل نے بیقراری سے پوچھا۔۔
اللہم(يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ))
“اے اللہ اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔”(سنن الترمذی کتاب الدعوات:3522صحیح)
اور اکثر ایک اور دوسری مسنون دعا کا سہارا بھی لیتی رہتی تھی۔۔آپ کا یونیورسٹی آنا اور مجھے یوں بےباکی سے مخاطب کرنا میرے لئے بہت کٹھن مرحلہ تھا۔ مجھے دین کا بنیادی فہم نہ ہوتا تو شاید میں بھی شیطان کے بہکاوے میں آکر بہک جاتی۔۔۔
شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (شداد بن اوس! جب تم لوگوں کو دیکھو کہ وہ سونا چاندی جمع کر رہے ہیں تو تم ان کلمات کو ذخیرہ کرنا:
(” اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ فِي الْأَمْرِ، وَالْعَزِيمَةَ عَلَى الرُّشْدِ، وَأَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ “)
یا اللہ! میں تجھ سے دین پر ثابت قدمی اور بھلائی پر پختگی کا سوال کرتا ہوں، اور تجھ سے تیری رحمت اور تیری مغفرت کا موجب اور یقینی سبب بننے والے اعمال کا سوال کرتا ہوں”۔
(اس حدیث کو البانی نے سلسلہ احادیث صحیحہ : 3228 میں صحیح کہا ہے۔ طبرانی معجم الکبیر:7135)
ویسے بھی مجھے میری حیثیت کا اندازہ تھا۔۔۔ ٹاٹ میں رہنے والوں کو محلوں کے خواب زیب نہیں دیتے۔۔۔میں خواب بھی اپنی استطاعت کے مطابق دیکھتی تھی۔۔۔
بس تقدیر میں آپ لکھے تھے سو آج آپ میرے سامنے کھڑے ہیں وگرنہ آپکی سرگرمیوں سے تنگ آکر میں نے سامعہ سے عبد السمیع بھائی کی توسط سے کسی دین دار ریڑی والے کا رشتہ ملنے کی درخواست بھی کی تھی۔۔
اچھا ۔!!!
روحیل کی رگیں تن گئیں۔۔تو تم مجھ سے دور بھاگنے کے لیے ریڑھی والے کے خواب سجائے بیٹھی تھی۔؟؟ ہیں۔؟؟؟
جججججججی۔! زینہ روحیل کے تیور دیکھ کر دوبارہ سے ہکلائی۔
زینہ تم صرف میری تھی اور میری رہو گی۔! یہ بات اپنے دماغ میں بٹھا لو۔!!
اب آگے بولو اور میں تفصیل کے ساتھ سننا چاہتا ہوں۔۔۔
زینہ نے لمبی سانس کھینچی اور گویا ہوئی ۔۔ظاہر سی بات ہے کہ جیسے آپ ملے اور پھر جن رستوں سے آپ میری طرف بڑھ رہے تھے وہ کسی بھی شریف لڑکی کے لیے سازگار نہ تھے۔۔ غریب کے پاس صرف ایک عزت ہی تو ہوتی ہے ، وہ بھی چلی جائے تو پھر غریب غربت سے نہیں بےغیرتی اور بےعزتی سے غارت ہو جاتا ہے۔۔۔زینہ کا دھیما لہجہ روحیل کے دل میں گھر کر رہا تھا ۔۔
اگر آپ زید کے ذریعے رشتہ نہ لاتے اور مسلسل نمبر بدل بدل کر مجھے رابطہ کرتے رہتے ، پھر بھی میں کبھی بھی آپ کی باتوں میں نہ آتی کیونکہ میرے دل میں خوف صرف اس وحدہُ لا شریک کا تھا جو مجھے شیطان کے رستے پر چلنے سے محفوظ رکھے ہوئے تھا۔۔
ایک انسان ہونے کی حیثیت سے میں بھی شاید کسی ایک کمزور لمحے کی گرفت میں آکر پھسل سکتی تھی ، بہک سکتی تھی مگر اللہ کی مدد سے میں محفوظ رہی الحمدللہ ثم الحمدللہ۔۔
اللہ کی مقرر کردہ حدوں کو توڑنا میرا شیوہ کبھی بھی نہیں رہا۔۔۔ زینہ کا مغموم لہجہ اور نمکین پانیوں سے لبریز آنکھیں روحیل کے دل پر تیر برسانے لگیں۔۔۔
زینہ تمہیں پتا ہے جب تم ہنستی ہو تو ایسے لگتا ہے کہ میرے دل میں اطمینان اتر آیا ہے اور جب تم روتی ہوتو میں تمہاری آنکھوں میں ایک آنسو برداشت نہیں کر پاتا ہوں۔۔۔روحیل نے آگے بڑھ کر زینہ کی آنکھوں سے لڑھکنے والے موتی چن لیے۔۔
اب میں جاؤں۔؟؟ زینہ کا ملتجی لہجہ اور روحیل کا بھنویں اچکانا۔۔
بھول گئی ہو ۔؟
کککککیا ۔؟؟
یہی کہ تمہیں میری ایک شرط ماننا پڑے گی۔۔
جی بولیں۔ زینہ کی ہمت جواب دینے لگی۔۔
ہاتھ دو ۔!
زینہ نے گھبراتے ہوئے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔۔۔
روحیل مضبوطی سے زینہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے گویا ہوا۔۔
تم نے ہر روز رات کو میرے ساتھ فون پر لازماً ایک گھنٹہ بات کرنی ہے۔
وہ کیسے۔؟؟ میرا مطلب ہے امی پاس ہوں گی اور انکے سامنے آپ سے لمبی چوڑی بات کرتے ہوئے مجھے شرم آئے گی۔۔
زینہ تم کیا مریخ سے آئی ہو جو تمہیں دنیا کا نہیں پتا ہے ۔۔۔؟؟ اللہ کی بندی میں پیغام رسانی کی بات کر رہا ہوں۔۔ تمہیں پیغام ٹائپ کرنا تو آتا ہے نا .؟؟؟ جی وہ تو آتا ہے مگر شاید سرعت سے آپ کو جواب نہ دے سکوں گی۔۔۔!
پر ہمیں فون پر پیغام رسانی کی کیا ضرورت ہے جبکہ ہم دن میں ایک دوسرے کے سامنے ہی ہونگے۔۔ ؟؟ ایک گھر میں رہتے ہیں۔؟؟
زینہ کی دلیلوں پر روحیل کا جی چاہ رہا تھا اپنا سر پیٹ لے۔۔۔
زینہ تم واقعی اتنی سادہ لوح ہو یا میرے صبر کا۔امتحان لینے پر تلی ہو ۔ ؟؟
میں تو ایسی ہی ہوں جیسی آپکو نظر آ رہی ہوں اور ویسے بھی آپ رات کو اپنی کمپنی کا کام کریں گے یا میرے ساتھ پیغام رسانی میں مشغول رہیں گے۔۔۔؟ !!
زینہ نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے روحیل کو ایک اور مثال دے کر سمجھانا چاہا۔۔۔
زینہ تمہارا ایک ہی حل ہے کہ میں تمہیں ماسی کے کمرے سے اٹھا کر یہاں لے آؤں ۔۔۔! تمہارے اس دماغ میں یہ باتیں کیوں نہیں بیٹھتی کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ آرام سے بات کروں۔ جو جی میں آئے پوچھوں بولوں۔۔۔!!
ہاں تو آپ دن میں پوچھ لیا کریں نا ۔!!
ٹھیک ہے ماسی کے سامنے میرا جو جی چاہے گا پوچھوں گا پھر نہ رونا مجھے امی سے یا پھر ویرے سے شرم آتی ہے۔۔۔روحیل نے زچ ہو کر بولا۔۔۔
اچھا چلیں میں پوری کوشش کروں گی آپ سے پیغامات کے ذریعے ایک گھنٹہ بات کر لوں مگر مسلسل ٹائپنگ سے شاید میری انگلیاں تھ ۔۔۔۔ روحیل کے تیور دیکھ کر لفظ “تھک” زینہ کے منہ میں ہی رہ گیا۔۔۔
بولو اب کیوں چپ ہو گئی ہو ۔!!
بولو میری انگلیاں تھک جائیں گی۔!
ننننہیں تھکیں گی میں جلدی سیکھ جاؤں گی ان شاءاللہ۔۔۔ زینہ نے فوراً بات کو سمیٹنے کی کوشش کی۔۔ میں نے پہلے کبھی مسلسل ایک گھنٹہ پیغام رسانی کی جو نہیں ہے ۔ زینہ نے ڈرتے ڈرتے جلدی میں بول دیا جبکہ روحیل گردن جھٹک کر رہ گیا۔۔۔
اب جاؤں۔؟؟؟ زینہ کی بچوں والی ضد پر روحیل کا مسکرانا زینہ کے لیے عذاب بنا ہوا تھا۔۔۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر روحیل چاہتا کیا ہے ۔۔؟؟
میں جاؤں۔؟؟
ہاں جاؤ۔! مگر پانچ منٹ میں واپس لوٹ کر یہاں آنا ہے۔۔۔!
جی بہتر۔! زینہ نے سکھ کا سانس لیا اور چپل اڑس کر کمرے سے فوراً رفو چکر ہونے لگی مگر روحیل کی پکار پر دوبارہ جان مٹھی میں آ گئی۔۔۔
میں تمہارے ساتھ ہی جاؤں گا اور پھر تمہیں ٹھیک پانچ منٹ بعد واپس لاؤں گا تاکہ نماز کی ادائیگی کے بعد ہم مقررہ وقت پر گھر سے نکل سکیں۔۔
روحیل مضبوطی سے زینہ کا ہاتھ تھامے کمرے سے نکل آیا۔
روحیل صاحب آپکی بیگم تیار ہیں اگر آپ انکو دیکھ کر مزید رد و بدل کروانا چاہتے ہیں تو ہمیں بتا دیں ورنہ آپکی بیگم حجاب و نقاب پہننے پر مصر ہیں۔۔ بیوٹیشن نے انتظار گاہ میں بیٹھے روحیل کو آگاہ کیا۔۔۔
جی ٹھیک ہے وہ پہننا چاہتی ہے تو پہننے دیں ،مجھے بالکل بھی اعتراض نہیں ہے۔! یہ سب سن کر روحیل کا دل خوشی سے پھولا نہ سمایا۔۔
سر ہمیں بھی کوئی اعتراض نہیں ہے مگر سارا ہیئر سٹائل خراب ہو جائے گا۔۔ انکے بال بہت ملائم اور ریشمی ہیں ،ہم نے بہت محنت سے انہیں ہیئر سپرے اور جیل سے قابو کیا ہے ۔۔۔ اور سر آپ نے ہزاروں روپے خرچ کر کے بال اور میک اپ کروایا ہے لیکن سر پر حجاب اوڑھنے سے بالوں کا سٹائل خراب ہو جائے گا۔۔ بیوٹیشن اپنے پالر کی ساکھ بچانے کےلئے سر دھڑ کی کوشش کر رہی تھی۔۔
روحیل کی مسکراہٹ ہنوز برقرار تھی۔۔۔
کوئی بات نہیں آپ مجھے میری بیوی سے ملوا دیں پلیز۔۔۔ایک کونے والے مخصوص کمرے میں زینہ تنہا بیٹھی اپنے جلوے بکھیر رہی تھی۔۔۔
سر پلیز آپ اندر تشریف لے جائیں۔! بیوٹیشن روحیل کو دروازے پر چھوڑ کر خود ملحقہ کمرے میں غائب ہو گئی۔۔۔
روحیل نے کمرے میں پہنچ کر عقب سے گلا کھنکارا ۔۔
زینہ چونک کر فوراً کھڑی ہو گئی۔۔۔
ماشاءاللہ۔!!!! یہ میری زینہ ہے یا آسمان سے اتری حور ہے ۔؟؟ روحیل کے والہانہ استقبال پر زینہ جھینپ گئی۔۔
ارے بیوی صاحبہ مکھڑا اوپر اٹھاؤ۔!!
آج تو پھپھو نے دل ہار بیٹھنا ہے اور پھپھو کے بھتیجے کے حال دل کا پوچھو ہی نا۔۔!!
اور اگر میں انہیں پسند نہ آئی تو.؟؟ یا جب وہ مجھے میک اپ کے بغیر دیکھیں گی تو پھر کیا ہوگا۔؟؟ زینہ فکرمندی سے فوراً پوچھ بیٹھی۔۔ زینہ روحیل کے خوف سے بمشکل آنسوؤں پر بند باندھے ہوئے کھڑی تھی۔۔
تم اس بات کی فکر نہ کرو بس ذرا مجھے گھوم کر دکھاؤ۔!!
جی ۔؟؟
ہاں بھئی میں ذرا دیکھوں کہ گلے پر جو کام ہوا ہے وہ کیسا سج رہا ہے۔! روحیل کسی ماہر ڈیزائنر کی طرح معائنہ کر رہا تھا۔۔
زینہ کے سیاہ لمبے لباس کے گلے میں جڑے جھلملاتے رنگ برنگی موتی ستاروں کے ساتھ چھوٹے ٹسل (لٹکن)، چست لمبی آستیوں پر سفید ریشمی دھاگے سے نفیس کڑھائی کے ساتھ موتیوں کی چھوٹی چھوٹی لٹکنیں اس سیاہ “کچے ریشم” کے نفیس لباس کی اٹھان بڑھا رہے تھے ، گھیرے پر موتیوں کا ہم رنگ عنابی فیتہ اور جالی دار جھالر اس فراک کو چار چاند لگانے لگی۔۔
دبلی پتلی سی زینہ پر ماہرانہ ہاتھوں سے پارٹی میک اپ بہت جچ رہا تھا۔ آنکھوں میں گہری سیاہ کاجل کی دھار، گھنی پلکوں پر مسکارے کی بھرمار آنکھوں کے سموکی میک اپ میں زینہ کی آنکھیں روحیل کے دل پر تیر برسانے لگیں۔۔
ریشمی سیاہ لمبے ملائم بال لمبے (کرل) بلوں کی شکل اختیار کر کے شانوں پر پھیلے ہوئے تھے۔۔
روحیل کے طویل معائنہ کے بعد زینہ نے سکھ کا سانس لیا۔۔
زینہ تمہیں پتا ہے تم کتنی خوبصورت لگ رہی ہو۔؟؟
یہ تو آپ کو پتا ہو گا ۔! زینہ نے شرما کر چہرہ جھکا لیا۔۔
تم میری بےحد پیاری بیوی ہو اور بہت بہت بہت بہت بہت خوب صورت لگ رہی ہو ماشاءاللہ ۔روحیل کی جذبے لٹاتی آنکھیں زینہ کی دھڑکنیں اتھل پتھل کرنے لگیں۔۔۔ اب بس بھی کر دیں مجھے شرم آ رہی ہے۔ خجل ہوتی زینہ نے چہرہ جھکا لیا۔۔۔
روحیل فوراً خود پر قابو پاتے ہوئے گویا ہوا اب جلدی سے حجاب لے لو ، عاصم کئی مرتبہ پوچھ چکا ہے۔، ہمیں پھپھو کے گھر پہنچنے سے قبل پہنچنا ہے۔ !!
جی بہتر۔! زینہ سرعت سے اپنا شرعی لباس اوڑھنے لگی۔۔
جبکہ روحیل اسکے ہر روپ سے متاثر تھا۔۔ بیوٹیشن کو لمبے نوٹوں کی گڈی پکڑا کر دونوں گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔۔۔
ابھی گاڑی کے قریب ہی پہنچے ہوں گے تو کسی نے بےباکی سے روحیل کو عقب سے جکڑ لیا۔۔۔
روحیل بےوفا انسان اتنے طویل عرصے سے کہاں پر غائب ہو ۔؟؟ تمہارے ہر نمبر پر کال ملائی ہے مگر تم نے مجھے بلاک کیوں کر رکھا ہے۔؟؟ لپٹنے والی ہستی تو اگلے پچھلے حساب برابر کرنے پر تلی ہوئی تھی۔۔۔
چست جینز اور چھوٹی تنگ قمیض میں ملبوس لڑکی بیتابی سے روحیل کے ساتھ چپکی چلی جا رہی تھی۔۔۔ زینہ کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہونے لگا ۔۔ جس کا ڈر تھا یہ شخص وہی نکلا ہے ۔۔۔ گلا مکمل طور پر خشک ہو گیا۔۔
گوفی کیا کر رہی ہو ۔؟؟ چھوڑو مجھے پلیز۔!! روحیل نے ڈپٹ کر ساتھ میں لپٹی واہیات لڑکی کو ہٹانا چاہا ۔۔
ارے واہ۔!! تم تو آنکھیں پھیرنے لگے ، یاد نہیں جب کلب میں بیٹھ کر وعدے اور وہ جو قسمیں مجھے دیں تھیں وہ کہاں گئیں۔؟؟؟ وہ ہماری حسین شامیں سب بھول گئے ہو کیا۔؟؟ بےباک لڑکی بار بار روحیل سے چپکنے کے بہانے ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔
جیسے ہی نظر حجاب میں چھپی پاکیزہ ہستی پر پڑی تو روحیل کو حیرت سے دیکھا۔۔
یہ کون ہے ؟؟ اور اسکا تمہارے ساتھ کیا میچ ہے ۔۔؟؟ تم کب سے مولوی بن گئے ہو۔۔ ؟؟ کلب کا بہترین فلور ڈانسر اور اس برقعہ پوش لڑکی کے ہمراہ ۔؟؟۔ آفرین ہے روحیل ارشاد ۔!!!
روحیل کے جواب سے قبل ہی گوفی نے طعنوں کے نشتر چلانے شروع کر دیئے۔۔
گوفی۔!! گوفی ۔!! گوفی۔!!! اپنی زبان کو لگام دو ۔!! بیوی ہے یہ میری۔!
اور آئندہ میرے راستے میں آنے کی کوشش نہ کرنا۔! روحیل نے دانت پیس کر غضب ناک لہجے میں بولا۔۔
ہونہہ میرے راستے میں نہ آنا ۔ وہ وقت بھول گئے ہو جب تمہاری راتیں میرے ہاں کٹتی تھیں۔۔ تمہیں میرے حسن کے علاوہ کوئی اور حسین دکھتا نہ تھا۔۔۔ میری زلفوں کا جادو تمہارے سر چڑھ کر بولتا تھا۔۔ کیا وہ سب جھوٹ تھا ؟ دھوکہ تھا۔۔؟؟
ہاں وہ سب جھوٹ تھا اور دھوکہ تھا۔؟
ناچاہتے ہوئے بھی روحیل کی آواز اونچی ہونے لگی۔۔
آس پاس سے گزرتے چند لوگوں نے کھڑا ہونا شروع کر دیا۔۔۔
زینہ تم گاڑی میں بیٹھو۔ روحیل نے نرم لہجے میں زینہ کو حکم صادر کیا اور سامنے والی نشست کا دروازہ وا کر دیا ۔۔ اے لڑکی رکو۔!!
یہ شخص جس کے ساتھ تم شادی رچا چکی ہو نجانے کتنی لڑکیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا چکا ہے۔ اب یہ تم پر ہے کہ استعمال شدہ شخص کے ساتھ رہنا چاہتی ہو یا پھر جیسی خود ہو ویسا ہی تمہارا معیار ہے ۔۔۔
تھر تھر کانپتی زینہ بنا جواب دیئے گاڑی کی سیٹ پر نڈھال ہو کر گر پڑی۔۔
دل میں پیدا ہونے والے تمام خوبصورت جذبات دم توڑنے لگے۔۔۔
نشیلی آنکھیں بنا روک ٹوک نقاب کو تر کرنے لگیں۔۔۔ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے منہ کے بل زور سے دھکا دے کر گرایا ہے۔۔
آج شادی سے قبل والے خدشات کی تصدیق ہو گئی۔۔۔
نشست پر براجمان زینہ اپنے نصیب کے لکھے پر اشکبار تھی ، چند لمحوں کی خوشی گوفی کے مغلظات نے ہوا کر دی۔۔
بےکل دل عداوت کے نرغے میں پھڑپھڑانے لگا، جی چاہا روحیل سے کوسوں دور بھاگ جائے۔
لڑکیوں کو چھیڑنا تو جرم تھا ہی مگر جنسی تعلقات استوار کر لینا ، سوچ سوچ کر زینہ کو اپنا آپ کمتر اور روحیل سے کراہت محسوس ہونے لگی۔۔
گاڑی کے بند دروازے سے روحیل اور گوفی کے درمیان مکالمہ آرائی اپنے عروج پر تھی مگر زینہ کا مان تو ٹوٹ گیا ۔۔۔ چند لمحوں کی خوشی خاک آلود ہو گئی۔۔۔
دہائی دیتا دل شدید کرب و الم کی کیفیات میں ڈوبنے لگا۔۔
جی چاہا گاڑی کا دروازہ کھول کر بھاگ جائے ، روحیل سے اتنی دور چلی جائے کہ اس شخص کی آواز بھی کانوں میں سنائی نہ دے۔۔۔
دل و دماغ میں جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔۔۔
دل اپنی ناقدری پر شکوہ کناں اور دماغ حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری۔۔
زینہ شاید اب وقت آ چکا ہے کہ آنکھوں دیکھی مکھی نگل لے یا پھر خود غلاظت کا ڈھیر بن جا۔
زخمی دل دائیں ہاتھ پر کھڑے روحیل کو دیکھنے لگا۔۔ کاش یہ شخص اپنے ظاہر کی طرح باطن سے بھی اتنا ہی خوبصورت ہوتا ۔۔۔
میرے اللہ مجھے صبر دے ،میرے معاملات کو آسان بنا آمین ثم آمین۔۔۔
زینہ کے منہ سے سسکی نکلی۔۔۔
ناتواں جسم حالات کے نرغے میں آ چکا تھا۔۔ شر کے تھپیڑے زینہ کی پارسائی پر کاری وار کرنے لگے۔۔
شکست خوردہ دل ذکر الہٰی کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔
مصیبت اور پریشانی کے وقت کی دعائیں
اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھنے کی تلقین کی :
“ﷲُ رَبِّیْ لَا أُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا”
’’اللہ ہی میرا رب ہے ، میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا۔‘‘
[ابو داؤد: 1525، وصححہ الالبانی فی صحیح سنن ابی داؤد ج 1 ص 284 ]
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے :
“لَا إلٰہَ إلَّا اﷲُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ،لَا إلٰہَ إلَّا اﷲُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ،لَا إلٰہَ إلَّا اﷲُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ َورَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ
[بخاری : الدعوات ،باب الدعاء عند الکرب ، الفتح ج 11، ص 123 ، مسلم : 2730]
’’اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں ، وہ عظمت والا ا وربرد بار ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں، وہ عرشِ عظیم کا رب ہے ، اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں، وہ آسمانوں کا رب اور زمین کا رب اور عرشِ عظیم کا رب ہے۔‘‘
علی رضی اللہ تعالی عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھنے کی تلقین کی :
لَا إلٰہَ إلَّا اﷲُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ ، سُبْحَانَ اﷲِ وَتَبَارَکَ اﷲُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ، وَالْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰالَمِیْنَ”
’’اللہ کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں ، وہ برد بار اور کریم ہے ، اللہ پاک ہے ، اور با برکت ہے وہ اللہ جو کہ عرشِ عظیم کا رب ہے ، اور تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جو کہ تمام جہانوں کا رب ہے۔‘‘
[ مسنداحمدج 1 ص 91 وصححہ الشیخ احمد شاکر ج 2 ص 87 ]
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پریشان حال کو یہ دعا پڑھنی چاہیے :
اَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ فَلََا تَکِلْنِیْ إلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ ، وَأَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہُ
[ ابو داؤد : 5090 ، وحسنہ الالبانی فی صحیح الکلم الطیب : 121]
’’اے اللہ ! میں تیری رحمت کا امید وار ہوں، لہذا تو مجھے پل بھر کیلئے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر اور میرا ہر ہر کام میرے لئے ٹھیک کردے۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے :
“یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ أَسْتَغِیْثُ [ترمذی : 3526]
’’اے زندہ ! اے قیوم ! میں تیری رحمت کے ساتھ مدد کا طلبگار ہوں۔‘‘
دعائے یونس علیہ السلام:
﴿لَا إلٰہَ إلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ﴾
’’تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں ، تو پاک ہے ، بے شک میں ظلم کرنے والوں میں سے تھا۔‘‘
زینہ سیلاب زدہ آنکھیں لیے باطنی محاذ پر تن تنہا لڑ رہی تھی کہ روحیل ڈرائیونگ نشست پر آن بیٹھا۔۔
شکستگی اسکے چہرے پر عیاں تھی، چہرے کی اڑی رنگت اسکے دل کا حال سنا رہی تھی۔۔
چند لمحوں کے لئے سر سٹیرنگ ویل پر ٹکا دیا۔پھر کچھ ہمت جمع کرکے ساتھ بیٹھی پارسا ہستی کو پکارنے لگا۔۔۔
زینہ۔!!! میری طرف دیکھو پلیز۔ ملتجی دھیما لہجہ ۔۔۔ سوگوار آنکھیں۔ دس منٹ قبل ہشاش بشاش دکھنے والا جوان اب ایک تھکن زدہ مسافر کا روپ دھار چکا تھا۔۔یکدم آنکھوں کی چمک غائب ہو گئی، شدت کرب نے آنکھیں لال انگارا بنا دیں، زینہ کا ساتھ پانے کی خوشی چند لمحوں میں ہوا ہو گئی۔۔۔
زینہ۔!!! ایک مرتبہ میری طرف دیکھ لو پلیز ورنہ میں گاڑی نہیں چلا پاؤں گا ۔۔۔
زینہ روٹھنا تمہارا حق ہے ، میں یہ حق تمہیں خود دے رہا ہوں مگر صرف ایک مرتبہ میری طرف دیکھ تو لو، مجھے یہ احساس ہو جائے کہ میری بیوی نے میری سیاہ کاریوں کی پردہ پوشی کی ہے۔۔۔
زینہ گوفی نے جو بھی بولا ہے، میں وہ سب ترک کر چکا ہوں ، سچی توبہ کر چکا ہوں۔۔!!
زینہ ہنوز ساکت بیٹھی سیلابی ریلوں کے ساتھ نبردآزما ہو رہی تھی۔۔
زینہ سو قتل کرنے والے کو وہ غفور الرحیم معاف کر سکتا ہے تو میں بھی تو اسی خالق کی مخلوق ہوں، وہ مجھے بھی معاف کر دے گا ان شاءاللہ۔۔
روحیل کا دھیما اور مجبور لہجہ زینہ کی سماعتوں کو گھائل کرنے لگا۔۔۔
زینہ تم نے سنا نہیں تھا وہ کہہ رہی تھی کہ میں نے اسے تمام نمبروں سے بلاک کر دیا ہے۔۔۔؟
روحیل کا ٹوٹا لہجہ زینہ کے ساتھ کا شدید طالب تھا مگر شاید زینہ کے زخمی دل اور چھلنی روح کا مداوا فی الوقت ممکن نہ تھا۔۔
زینہ جب تک تم میری طرف نہیں دیکھو گی میں گاڑی نہیں چلاؤں گا۔۔! ناچاہتے ہوئے بھی روحیل ایک اور مجبور سی دھمکی دے گیا۔۔
دیکھو ابھی بھی عاصم کی کال آ رہی ہے۔
زینہ پلیز میری طرف دیکھو ۔!
زینہ کی دبی سسکی روحیل کی جان مٹھی میں کر گئی۔۔ سسکتے ہوئے زینہ نے ڈرائیونگ نشست پر براجمان روحیل کو شکست خوردہ نظروں سے دیکھا۔۔۔ ڈھکے چہرے سے جھلکتے دو نشیلے نین اذیت بھری داستانیں سنا رہے تھے۔۔۔
زینہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مجھے اس کائنات میں صرف تم سے محبت ہے۔ دنیا کی کوئی عورت تمہاری جگہ نہیں لے پائے گی۔۔!
تمہیں میں نے بولا تھا کہ جب تم رخصت ہو کر میرے کمرے میں آؤ گی تو میں تمہیں تمام حقائق سے آگاہ کروں گا مگر آج میری سیاہ کاری کا پہلا باب شگفتہ عرف گوفی نے دھڑلے سے کھول دیا ہے ۔۔
میں مانتا ہوں میرا غلیظ ترین ماضی تھا، میں نے ہر وہ کام کیا ہے جس سے اللہ کی پکڑ آئے۔۔
زینہ اس وقت تو میری رسی دراز تھی ، مگر اب میری رسی کھینچ لی گئی ہے ، میری پکڑ کا وقت آ چکا ہے ۔ میری آزمائش شروع ہو چکی ہے۔۔ میرے سے وعدہ کرو مجھے چھوڑو گی نہیں پلیز۔۔
اشک بہاتی زینہ سسکیوں سے ہچکیوں تک پہنچ آئی جبکہ روحیل اس پارسا ہستی کے ساتھ کا بھکاری بنا جواب کا منتظر تھا۔۔
زینہ میری طرف دیکھو۔۔!!
زینہ نے پلٹ کر دیکھا ۔
کچھ تو بولو زینہ ۔!
مجھے برا بھلا ہی بول دو ، مجھے علم ہے میں برا تھا، میں نے برائیاں کی ہیں مگر مجھے زینہ حیات کا ساتھ چاہیئے ہے۔۔۔ وجیہہ خوبرو روحیل آج ٹوٹ کر بکھر چکا تھا۔۔
گاڑی میں مکمل سکوت چھا گیا۔۔۔ زینہ کی شکوہ کناں ہچکیاں روحیل کا دل چھلنی کرنے کے لیے کافی تھیں۔۔۔
زینہ مجھے اپنا ہاتھ دو ۔!!!
زینہ نے بنا دیکھے اپنا دایاں ہاتھ روحیل کی طرف بڑھا دیا۔۔
روحیل کو کچھ حوصلہ ہوا ، دل میں اطمینان اتر آیا۔۔۔
روحیل ہاتھ تھام کر گویا ہوا ۔ زینہ مجھے پتا تھا تمہارا ظرف بہت بڑا ہے شاید کہ میری سوچ سے بھی زیادہ۔۔!
زینہ مجھے تمہاری آواز سننی ہے ۔ ایک لفظ ہی بول دو پلیز۔! روحیل نے نرمی سے زینہ کا ہاتھ دبایا۔۔
ہمیں دیر ہو رہی ہے گھر بھی پہنچنا ہے یار۔ زینہ پھپھو کے سامنے کچھ ظاہر نہ کرنا پلیز۔! اگر ڈیڈ کو بھنک بھی پڑ گئی تو میری چمڑی ادھیڑ دیں گے۔ زینہ تم نے جو بولنا ہے مجھے ادھر ہی بول دو ۔! اپنے دل کی بھڑاس یہیں پر نکال دو ۔! میں چاہتا ہوں تم گھر پر ہنستی مسکراتی ہوئی داخل ہو۔!
پلیز زینہ۔!! میری اچھی والی بیوی ہونا تو پلیز بولو۔۔! روحیل کا ملتجی لب و لہجہ اور اسکے احسانوں تلے دبی زینہ بھرائی ہوئی آواز میں گویا ہوئی۔۔
“میں محلوں کی خواہش مند کبھی بھی نہ تھی۔! میں تو کردار اور اخلاق کی متمنی تھی، مجھے آپ نے گھاٹی سے دھکا دے کر ایک تاریک غار میں چن دیا ہے ۔۔۔ غار بھی ایسا ہے کہ اگر نکلنا بھی چاہوں گی تو آپ کی عیاشی کی پستیاں مجھے ڈس لیں گی ۔۔۔
کاش۔!!! میرے بدگمان دل میں آپ کے لئے کوئی گنجائش نکل آئے مگر میں اپنی چھلنی روح کی کرچیاں سمیٹ نہیں پاؤں گی”۔۔
روحیل آپ نے مجھے بہت دکھ دیا ہے۔!
میرا جی چاہ رہا ہے میں آپ سے دور بہت دور چلی جاؤں۔!! ہچکیوں میں بولتی زینہ کی ہمت جواب دینے لگی۔۔نڈھال ہو کر نشست کی پشت سے سر ٹکا لیا۔۔۔
زینہ مجھ سے کبھی بھی دور جانے کا سوچنا بھی مت۔!!
زینہ میں تمہارے بنا نہیں رہ پاؤں گا۔۔
ابھی صرف میرے تمہارے رشتے کی بات چل رہی تھی تو مجھے ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے تم میرے آس پاس ہو ، میرے ساتھ ہمکلام ہو۔ !
زینہ میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا ہوں۔!
زینہ تم میرے دل کی ملکہ ہو ۔!
تم میری روح کا قرار ہو۔!
تم میری آنکھوں کی پارسا بینائی ہو زینہ۔!!!
میں تمہیں کبھی بھی نہیں چھوڑ سکتا ہوں۔زینہ کا ہاتھ تھامے روحیل اپنے جذبات و احساسات سے زینہ کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا جبکہ ڈیش بورڈ پر پڑا فون بار بار چلاتا۔۔۔
آپ فون اٹھائیں۔!! ویر کی کال ہے ۔! زینہ نے سوگوار لہجے میں بول کر اپنا ہاتھ آزاد کروانا چاہا جسے روحیل نے دوبارہ مضبوطی سے جکڑ لیا۔۔
بائیں ہاتھ سے فون سپیکر پر لگا دیا۔۔۔
کال اٹھاتے ہی عاصم لتے لینے لگا ۔ یار بھیا ۔!
آپ لوگ میک اپ کروانے گئے ہو یا مویشی منڈی۔؟؟
حد ہوتی ہے یار ۔! ڈیڈ اور پھپھو آدھے گھنٹے سے آئے بیٹھے ہیں اور آپ دونوں کا بار بار پوچھ رہے ہیں اوپر سے میرا فون بھی نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔۔۔ ڈیڈ نے بارہا کال کی ہے مگر آپ بیوی کے غلام بن چکے ہیں۔۔۔ دیکھنا گھر آتے ساتھ پھپھو نے آپ کی کٹ لگانی ہے۔۔
چھوٹے بولنے کا موقع دوگے تو بولوں گا یار۔
جی جی دلہا صاحب فرمائیے۔
اور میری بہن کب سے خراب ہو چکی ہے۔؟ اتنے نخرے ۔!! توبہ اب تو میرا فون بھی نہیں اٹھاتی ہے۔۔۔
یار تم زینہ کو کچھ نہیں بولو۔!!
ہائے ماں صدقے جائے بڑے بھائی کی زن مریدی پر۔!! ۔
ابھی نکاح کو اڑتالیس گھنٹے بھی نہیں گزرے اور موصوف کا یہ حال ہے ، اللہ جانے جب گزر جائیں گے تو پھر بیگم کے قدموں میں ہی پائے جائیں گے۔۔!
عاصم تم بہت فضول بولتے ہو یار۔ روحیل پھیکا ہنسا۔۔۔
بھیا جی یہ تو آپ گھر تشریف لائیں گے تو آپ کو پتا چلے گا کہ میں زیادہ بولتا ہوں یا پھر پھپھو ۔!!
بہرحال پیشگی چھترول مبارک ہو۔! میرا کام تھا مطلع کرنا جو میں کر چکا ہوں باقی آپ جانو اور آپکی چہیتی بیگم ، مجھ کنوارے کے زخمی دل کو کوئی نہ چھیڑے۔۔۔!!
عاصم کی دہائی سے روحیل کا قہقہہ بلند ہوا جبکہ زینہ کا دماغ مسلسل “استعمال شدہ” کی گردان کر رہا تھا۔۔۔
چل بچے تیرا بھی کوئی بندوبست کرواتا ہوں ۔ ! فون بند کر میں گاڑی چلانے لگا ہوں۔۔
روحیل نے فون بند کر کے جیب میں ڈالا اور یکدم زینہ کے ہاتھ کو لبوں سے لگا لیا۔۔۔
زینہ کو جھٹکا لگا۔۔
یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟؟
اپنی پارسا بیوی کو اسکی پارسائی کا انعام دے رہا ہوں جو اس سے بھی زیادہ کی حقدار ہے۔!!!
کوئی دیکھ لے گا ۔میرا ہاتھ چھوڑیں۔!!! زینہ نے اپنے دفاع میں ہاتھ چھڑانا چاہا۔۔۔
زینہ اگر یوں ضد سے ہاتھ چھڑاؤ گی تو میں کبھی بھی نہیں چھوڑوں گا۔ اور ویسے بھی ابھی مغرب طلوع ہونے والی ہے اور اس ویران کار پارک میں ہمیں دیکھنے کے لیے کوئی نہیں فارغ بیٹھا ہوا۔۔
پیار سے بولو گی تو ہاتھ چھوٹے گا ورنہ میں ساری رات ادھر ہی بتا دوں گا۔!!!
یا اللہ۔ یہ شخص تو پاگل ہے ، دیوانہ ہے۔
آپ بس میرا ہاتھ چھوڑیں۔! زینہ کا روٹھا لہجہ روحیل کو مسکرانے پر مجبور کر گیا۔۔
نہیں چھوڑوں گا۔!
کر لو جو کرنا ہے۔!!
دیکھیں ہمیں مغرب سے قبل گھر پہنچنا ہے۔
تو کیا ہوا ۔؟ پانچ منٹ کی ڈرائیو ہے ۔
ٹھیک ہے پھر میں نے گھر جاکر سب سے پہلے میک اپ کو وضو کی نظر کرنا ہے پھر آپ کی پھپھو سے ملوں گی۔۔!
ہاہاہاہا ہاہاہاہا میری بلی مجھے ہی میاؤں۔۔ مجھے دھمکی دی جا رہی ہے۔۔ روحیل نے معنی خیز نظروں سے زینہ کی طرف دیکھا۔۔
آپ سے ہی سیکھا ہے۔! زینہ ہنوز روٹھی ہوئی تھی۔۔۔
زینہ تم بہت خوبصورت دل رکھتی ہو۔! تمہارا ایسے دھمکی دینا اچھا لگا ہے۔۔
ایسے ہی کیا کرو۔!
مجھے اچھا لگے گا، تمہارا یوں حق جتانا، نخرے دکھانا۔
میں نخرے نہیں دکھاتی۔!!!
آپ عشق فرمانے کے بجائے گاڑی چلائیں پلیز۔
روحیل کا جاندار قہقہہ بلند ہوا۔ گوفی کا پھیلایا ہوا گند زینہ کی حکمت اور اعلیٰ ظرفی نے وقتی طور پر زائل کر دیا*