(Last Updated On: )
لفظ موتی ہیں تو میں ہار بنا لیتا ہوں
ملتے ہیں درد تو اشعار بنا لیتا ہوں
نورِ ایمان ہے دل میں تو مجھے ڈر کیوں ہو
سامنے کفر کے ، دیوار بنا لیتا ہوں
دوستی کے لیے میں خون بہا دیتا ہوں
دوستی میں یہی معیار بنا لیتا ہوں
آگ اس دل کی بجھا لیتا ہوں اشکوں سے سدا
خار کو ایسے میں گلزار بنا لیتا ہوں
دور جائے تو اسے خود ہی بھلا دیتا ہوں
پاس آئے جو اسے یار بنا لیتا ہوں
گیت گاتا ہوں میں الفت کے ہمیشہ عاقل
یار کی زلف کو اِکتار بنالیتا ہوں