صبح سے گیسٹ آنا شروع ہو گئے تھے۔ عنیزہ کی خالہ ماموں لوگ سب آ گئے تھے۔ ساری لڑکیاں اسے گھیرے بیٹھیں ہوئی تھیں۔ مہندی کا انتظام لون میں کیا گیا تھا۔
فائق اور اس کے کزنز سب انتظام دیکھ رہے تھے۔ بڑے لاؤنج میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔ فردوس بیگم اٹھ کے عنیزہ کے کمرے کی طرف بڑھیں۔
عنیزہ۔۔
انھوں نے روم میں جا کر اسے آواز لگائی۔
جی ماما۔
ڈریسنگ روم سے اس کی آواز سنائی دی۔
بچے پارلر کتنے بجے جانا ہے۔ شام ہونے کو آئی ہے اور آپ ابھی تک گئی ہی نہیں ہو۔
ماما تھوڑی دیر تک جا رہی ہوں۔ وہ باہر آتے ہوۓ بولی۔
اچھا ٹھیک ہے۔
اور یاد سے اپنی ساری چیزیں لے جانا۔
میں نے بیگ پیک کر کے رکھا ہوا ہے۔ اس میں سارا کچھ ہے۔ پر تم ایک بار اسے چیک کر لینا شاید کچھ مس ہو۔
اوہ ماما۔
اتنی ٹینشن نا لیں۔
سب کچھ پورا ہی ہو گا۔
وہ ان کے منہ کو ہاتھوں کے پیالے میں لیتے بولی۔
اور آپ اتنی فکر نا کریں بی پی شوٹ ہو جائے گا۔
میں کیوں نا فکر کروں۔ میری لاڈلی بیٹی کی شادی ہے۔ سب اچھے سے ہونا چاہیے نا۔
عنیزہ نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
اب آپ جلدی سے پارلر چلی جاؤ۔
میں نیچے جا رہی ہوں۔
اوکے ماما میں جاتی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
مہندی اپنے عروج پر تھی۔
ہر طرف گہما گہمی تھی۔ لون کو بہت اچھے سے سجایا گیا تھا۔
عنیزہ گولڈن اور پنک کلر کے لہنگے میں ملبوس تھی۔ پھولوں کی جیولری پہنے اور ہلکے ہلکے میک اپ میں وہ محفل پر چھائی لگ رہی تھی۔وہ اسٹیج پر بیٹھی سب کی نظروں کی مرکز بنی ہوئی تھی۔ اور سب باری باری اسے مہندی لگا رہے تھے۔
میوزک چل رہا تھا۔ لون مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔
اکبر صاحب ، عفت بیگم ، نوال اور ابراھیم بھی آئے ہوۓ تھے۔
حازم کو پولیس اسٹیشن میں ضروری کام تھا جس کی وجہ سے وہ نہیں تھا آ سکا۔
اس نے فون کر کے فائق سے معذرت کر لی تھی۔ اور کل آنے کا عہد کیا تھا۔
مہندی تقریباً سب لوگ لگا چکے تھے اب ساری کزنز ڈانس کی تیاری کر رہے تھے اور ڈی جے سے اپنی پسند کا میوزک سیٹ کروا رہے تھے۔
فائق باری باری سب مہمانوں سے مل رہا تھا۔
ہر کوئی مصروف ہی نظر آ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
عنیزہ آپی جلدی نیچے آ جائیں ماما نے کوئی مجھے دسویں بار بیجھ دیا ہے۔ پر آپ ہیں کے اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔ جیسے ساری نیندیں آج ہی پوری کرنی ہیں۔ کچھ سسرال کے لیے بھی بچا لیں۔ وہاں جا کر کون سا آپ نے پہرے دار بننا ہے جو آپ سے سویا نہیں جائے گا۔
عفاف کی بچی تم چپ کرتی ہو یا میں اٹھاؤں جوتا۔
وہ کمفرٹر منہ سے اتار کے اونچی آواز میں بولی۔
آج بھی جوتا اٹھائیں گی۔
اب تو آپ کی شادی ہونے والی ہے کچھ تو رحم کریں مجھ بیچاری پر۔
وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنا حجاب سیٹ کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ عنیزہ کی باتوں کا جواب بھی با خوبی دے رہی تھی۔
شادی ہو گی تو میری جان کو بھی سکون آئے گا۔ تم عذاب سے تو جان چھوٹے گی۔ جو صبح صبح نازل ہو جاتی ہے میرے سر پر۔
عنیزہ بیڈ سے اٹھتے ہوۓ بولی۔
ٹھیک جا رہی ہیں آپ۔ ابھی شادی ہوئی نہیں اور ابھی سے رنگ ڈھنگ بدل رہیں ہیں۔ یہ مت بولیں ساری زندگی آپ کے کام میں نے ہی کیے ہیں۔ اور بی جان سے سے بھی میں ہی بچاتی تھی۔
وہ منہ کے زاویے بنا کر کہ رہی تھی۔
اوہ میری ماں۔۔
بس کر۔
خدا کے لیے آج کے دن تو بس کر۔
عنیزہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوۓ بولی۔
عفاف اس کے ایسا کرنے پر فوری اس کے گلے آ لگی۔
عنیزہ حیران اسے دیکھ رہی تھی۔
آپی آپ مجھے بہت یاد آئیں گی۔
اس کی آواز رندھ گئی تھی۔
پلیز نا جائیں نا۔
میرا دل کیسے لگے گا۔ اور بی جان کا بھی۔
آپ کو پتہ ہے پرسوں وہ بہت رو رہی تھیں۔ وہ کہ رہی تھیں ہمارے تو گھر کی رونق ہی چلے جائے گی۔
ہمیں آپ کی عادت ہو گئی ہے یار۔
آپ چلیں جائیں گی تو ہمارا گھر سنسان ہو جائے گا۔
آپ کی شرارتیں ، آپ کا لڑنا ، ہم بہت مس کریں گے۔
وہ اس کے گلے لگے ہوۓ ہی بولی۔
یار تم ایسے کرو گی تو میں کیسے شادی کر سکوں گی۔
اور ویسے بھی تم لوگ تو شکر کرو میں تم لوگوں کی جان کھانے والی جا رہی ہوں۔ ایک عذاب سے تو جان چھوٹے گی۔
عنیزہ نے ماحول کو نارمل کرنے کے لیے کہا۔
آپ ہمارے لیے عذاب نہیں ہیں۔
عفاف پیچھے ہٹتے ہوۓ بولی۔
اس کی آنکھیں آنسوں سے لبریز تھیں۔
وہ اتنا کہتی کمرے سے باہر چلے گئی۔
افففف۔۔
ایک تو یہ لڑکی بھی نا۔
کبھی کبھی بہت ہی اموشنل ہو جاتی ہے۔
عنیزہ بڑبرائی۔۔
اصل میں تو اس کا خود کا دل بھی بہت گھبرا رہا تھا۔
وہ سر جھٹکتی واشروم کی طرف بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
عفاف آپ نے عنیزہ کو اٹھا دیا ہے نا؟
فردوس بیگم مصروف سے انداز میں بولیں۔
جی ماما وہ اٹھ گئیں ہیں۔
آتی ہی ہوں گی نیچے۔
اچھا ٹھیک ہے۔
میں نے اس کا سارا سامان بیگ میں پیک کر دیا ہے۔ پارلر جاتے ہوۓ لے جانا۔ اور ایک بار آپ چیک کر لینا۔
جی ماما میں کر لوں گی۔
وہ جواب دے کر چپ ہوئی۔
فردوس بیگم نے الماری بند کرتے ہوۓ مر کے اس کی طرف دیکھا۔
کیا ہوا ہے آپ کو عفاف؟
انھوں نے اس کی طرف آتے پوچھا۔
کچھ نہیں ماما۔
پھر آپ اتنا چپ کیوں ہو؟
انھوں نے دوبارہ سوال کیا۔
نہیں تو۔۔
بس ویسے ہی۔
بیٹا یہ ٹائم تو ہر کسی پر آتا ہے۔
بس ہمیں اچھے نصیب کی دعا کرنی چاہیے۔ ایسے اداس ہونے سے کیا ملے گا۔
اور آپ کو اداس دیکھ کر عنیزہ کا بھی دل خراب ہو گا۔ خوش رہو۔ یہ تو خوشی کا موقع ہے۔ بس دعا کرو اللّه سب خیرو عافیت سے نپٹا دیں۔
ان شاءاللّه ماما۔
سب بہت اچھے سے ہو جائے گا۔
ان شاءاللّه۔۔
جاؤ جا کے دیکھو عنیزہ نیچے آئی یا نہیں؟
جلدی پارلر چلی جاؤ پھر آپ لوگوں کو ہوٹل بھی پہنچنا ہے۔
اچھا۔
میں دیکھتی ہوں۔
وہ اٹھ کے باہر کی طرف بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
سب لوگ ہوٹل پہنچ گئے تھے۔
عنیزہ بھی تیار ہو کے آ گئی تھی اور برائیڈل روم میں بیٹھی ہوئی تھی۔
اب بس برات کا انتظار تھا۔
فائق بچے آپ نے کی کال؟
فواد صاحب نے باہر آ کر فائق سے پوچھا۔ جو بار بار عدیل کے گھر فون کر رہا تھا پر آگے سے کوئی جواب مصول نہیں تھا ہو رہا۔
انکل میں نے کافی دفعہ ٹرائے کیا ہے آپ کوئی اٹھا ہی نہیں رہا۔
سب تیاریوں میں مصروف ہوں گے۔ شاید اس لیے کوئی نہیں اٹھا رہا۔ آتے ہی ہوں گے آپ ٹینشن نا لو۔
ابھی وہ کہ ہی رہے تھے جب فائق کا فون بجا۔
اس نے فون کی طرف دیکھا تو ریاض صاحب کا فون تھا۔
کس کا فون ہے؟
انکل ریاض کا۔ عدیل کے ابو۔
فائق نے بتاتے ہوۓ فورا فون اٹھایا۔
السلام علیکم انکل۔۔
آپ کب تک پہنچ رہے ہیں۔ یہاں سب آپ کا ویٹ کر رہے ہیں۔ ٹائم بھی اتنا زیادہ ہو گیا ہے۔فائق نے ایک سانس میں ہی سارا کچھ پوچھا۔
I’m sOrry beta..
ہم لوگ برات لے کر نہیں آ رہے۔ عدیل دو دنوں سے غائب ہے۔ اس کا کچھ آتا پتہ نہیں ہے۔ میں آپ سے بہت شرمندہ ہوں۔ میں آپ کو پہلے ہی بتا دیتا پر مجھے لگا شاید وہ شادی تک آ جائے۔ لیکن وہ۔۔
وہ نادم نادم سے بول رہے تھے۔
فائق کے ہاتھوں فون نیچے گر گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!