غریب معصوم و مسکین مجید بابو نے دوبارہ اپنی کانپتی ہوئی انگلیاں اپنی پرانی گھسی ہوئی واسکٹ کی جیب میں ڈال کر موجودہ رقم کو محسوس کیا۔
چہرے پر پھیلی ہوئی غربت کی جھُرّیاں کچھ کم نظر آنے لگیں بیروں میں گھِسا ہوا جوتا جو کبھی حاجی ولایت شاہ نے اپنے بچوں کو اُردو پڑھانے کی عیوض بنواکر دیا تھا اور کئی بار مرمّت ہو جانے کے باوجود ایڑی میں کیل چُبھتی ہی رہتی جس کی وجہ سے ایڑی میں مستقل زخم ہو کر رہ گیا تھا اور جس کی پرواہ کرنا بھی انھوں نے چھوڑ دی تھی کیونکہ انھیں تو بس ایک ہی فکر کھائے جا رہی تھی۔
’’عارفہ کا بیاہ کیسے ہو گا؟ کہاں سے میں اتنی رقم لاؤں گا؟ ‘‘ اب تو وہ بس ڈاک خانے کے باہر ٹوٹی کرسی پر بیٹھے ان پڑھ لوگوں کے پوسٹ کارڈ لکھتے یا پھر منی آرڈر پر دو لائن کی تحریر جس سے دن بھر میں دس بیس روپیہ بن جاتے مگر اب اس میں بھی کمی آنے لگی تھی لوگ خط ہندی میں لکھوانے لگے تھے یا ٹیلی فون پر ہی بات کر لیتے بس چند غریب لوگوں کی وجہ سے ان کا کام چل رہا تھا اب تو آنکھوں سے بھی ان کو کم نظر آتا تھا ورنہ اسکول کی اچھی بھلی نوکری سے کیوں جواب ملتا۔ اسکول کی پنشن اور ڈاک خانے کے باہر سے کمائے ہوئے روپے ملاکر پانچ سو کے قریب ہو جاتے تھے لیکن بیوی کے کھُردُرے ہاتھوں پر جب صرف تین سو روپے رکھتے تو خود ان کا دل خون کے آنسو روتا کہ کاش دوسروں کی بیویوں کی طرح عالیہ بیگم بھی جھگڑا کریں، لڑیں، پیسے پھینک دیں، میکے چلے جانے کی دھمکی دے ڈالیں مگر ایسا کچھ نہ ہوتا۔ مسکین سے مجید بابو کی مسکین سی بیوی عالیہ بیگم ہاتھوں میں نوٹ لے کر آسمان کی طرف دیکھتیں اور خدا کا شکر ادا کرتیں۔ گھر کے کام کاج کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے کپڑے بھی سیتیں اور عارفہ کے لیے کبھی ایک جوڑا کپڑا اور کبھی کوئی چھوٹا موٹا برتن لے کر اُسی بکس میں ڈال دیتیں جو ان کی امیدوں کا واحد مرکز تھا۔
عارفہ اب اٹھارہ سال کی ہو گئی تھی۔ سرخ و سپید کتابی چہرے پر سجی سیاہ بھونرا جیسی آنکھوں میں جب طرح طرح کے خواب کروٹیں لیتے تو وہ نظریں جھُکالیتی اور اس کی نظریں ہمیشہ ہی جھُکی رہتیں سر پر پلو لمبے بالوں کا جوڑا یا چوٹی ہمیشہ تیل میں چپڑی رہتی کہ کہیں کوئیان لمبے حسین بالوں میں نظر نہ لگادے یا کسی کی نظر نہ پڑ جائے۔ نیک ماں باپ کی نیک اولاد جس کا حُسن اس کی ہر جُنبش میں تھا۔
جب دروازے کی کُنڈی کھٹکی تو عارفہ بچوں کی طرح قلانچ بھر کر دروازے پر پہنچ گئی۔
’’بابا آپ آ گئے ‘‘ اس نے ہاتھ سے جھولا لے لیا۔
’’ہاں بٹیا‘‘ ! مجید بابو کی تھکن کو زندگی مل جاتی۔ جلدی سے وہ برآمدے کا پلنگ بچھاکر پانی لینے دوڑ گئی پانی کے ساتھ چند پکوڑیاں جو اس نے صرف اپنے بابا کے لیے کھانا پکانے کے دوران بنالی تھیں لے کر آ گئی اور جب تک مجید بابو پانی پیتے رہے اس نے ان کے پاؤں دھو ڈالے۔ اپنے دوپٹے سے ان کے پاؤں خشک کر کے تسلہ اٹھالیا۔
’’بابا چائے بناؤں۔ ؟‘‘
’’نہیں بٹیا آج گرمی بہت ہے ابھی دل نہیں چاہتا ابھی حاجی ولایت شاہ کی طرف بھی جانا ہے ‘‘ وہ پھر اپنی انگلیوں سے جیب میں حرارت محسوس کرنے لگے۔
عارفہ ان کے سرہانے تکیہ رکھ کر اپنے کاموں میں لگ گئی۔
بیوی کے آ جانے پر مجید بابو اٹھ کر بیٹھ گئے۔
’’لو بھاگوان تمہارے کہنے پر اس بار پیسے جمع کروانے نہیں گیا ابھی جا کر وہ پیسے بھی لے آؤں گا جو کئی برسوں سے عارفہ کے لیے جمع کر رہا ہوں پھر تو سب کام ٹھیک ٹھاک ہو جائے گا نا۔ ؟‘‘
’’ہاں عارفہ کے ابّا۔ ہم غریبوں کی بیٹیاں عزت سے اپنے گھر کی ہو جائیں اس سے بڑی ہماری کوئی تمنّا کہاں ہے۔ خدا کا دیا جو ہے سو بہت ہے، شکر ہے اس پروردگار کا کہ اتنا اچھا گھر مل گیا نہ جہیز کی مانگ کی ہے نہ اور کوئی فرمائش۔ سب ہو جائے گا اب فکر مت کرو۔ بس اللہ کا نام لے کر جاؤ اور وہ دس ہزار لے آؤ جو جمع کیے ہیں ‘‘۔ وہ جھُک کر چادر برابر کرنے لگیں۔
’’ہاں عالیہ بیگم حاجی صاحب بھی ہمارے لیے مددگار ثابت ہوں گے تھوڑا بہت بیٹی عارفہ کے لیے اپنے پاس سے بھی ضرور دیں گے۔ ‘‘
’’نہیں عارفہ کے ابّا۔ اللہ کے سوا کسی اور سے کبھی اُمیدیں نہ لگایا کرو، پوری نہ ہوں تو بڑا دُکھ ہوتا ہے بس اللہ حلال رزق میں بیڑہ پار لگائے، جو پیسہ پیٹ کاٹ کاٹ کر اتنے برس جمع کیا ہے لے آؤ تو کچھ کپڑا لتّا خرید لیں۔ ایک چاندی کا سیٹ خرید لیں تو ہماریبٹیا سج جائے گی۔ آگے اُس کی قسمت؟۔ ‘‘
عارفہ باورچی خانے کے دروازے سے طلوع ہوئی، چائے لاکر دونوں کو تھمائی اور سر جھُکائے واپس باورچی خانے میں غروب ہو گئی۔ ٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...