لب بھینچ کر اس نے ملازمہ کو ڈاکٹر کو لانے کا کہا اور خود جھک کر سحرش کو اپنے بازووں میں اٹھایا اور کمرہ میں بیڈ پر لاکر بٹھایا ۔۔۔۔۔
“کیا ضرورت تھی تمھیں چھلانگ لگانے کی اب رو بیٹھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔”
سحرش کو اسکی باتوں سے اشتعال آگیا اور پھٹ پھڑی :
“تم ہو اس سب کے ذمہ دار۔۔۔ تمھاری وجہ سے میری یہ حالت ہوئی ہے …..اور مجھے اس طرح بھاگنے پر بھی تم نے ہی مجبور کیا ہے تم۔۔۔۔۔۔۔۔”
ابھی اس کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ ملازم ڈاکٹر کو لے کر اگیا تھا ۔۔۔ ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد دوائی دی اور ایک ہفتہ آرام کا کہہ کر چلے گئے ۔۔۔ اونچائی سے گرنے کی وجہ سے پاوں کی ہڈی متاثر ہوئی تھی ۔۔۔۔۔
جہانگیر کمرہ میں ہی ٹہر گیا تھا رات کو اسکو کسی بھی چیز کی ضرورت پڑسکتی تھی اور سحرش دوائی کے زیر اثر غنودگی میں چلی گئ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن اسے بی جان نے گھر آنے کا کہا مگر وہ سحرش کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا دشمنی تو اسکے باپ سے تھی سحرش کو وہ کوئی نقصان نہیں پہچانا چاہتا تھا یہ جہانگیر کی اپنی سوچ تھی ۔۔۔۔۔۔
“تم تیاری کرلو ہمیں یہاں سے نکلنا ہے ”
وہ ابھی ابھی ملازمہ کی مدد سے فرش ہو کر بیٹھی تھی ۔۔
سحرش نے اسے گھور کر دیکھا اس نے اسکی گھوری کو نظر انداز کیا اور اپنی بات جاری رکھی۔۔۔
” ہم سکندر پیلس جائیں گے وہاں بی جان یعنی میری ماں رہتیں ہیں اب تم وہیں رہو گی ۔۔۔۔”
” کیا فرق پڑتا ہے مجھے ایک قید سے دوسرے قید میں لے جارہے ہو مجھے تمہاری بی جان سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔۔۔ ”
نہایت بد لحاظی سے جواب دیا ۔۔۔
اپنی بکواس بند کرو میں اس لہجہ کا عادی نہیں ہوں تم بھولو مت کہ تم ابھی بھی میری دسترس میں ہو آئیندہ جب مجھ سے بات کرو تو تمیز کے دائرے میں رہ کر کرنا ورنہ انجام کی ذمہ دار تم خود ہوگی ۔۔۔۔”
آواز میں شیر کی سی ڈھاڑ تھی جو اسے سہما گئ
اس نے ملازمہ سے چادر منگوائی اور ملازمہ سے کہہ کر ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا کہا
سحرش خاموشی سے اسکی کاروائی دیکھ رہی تھی سحرش کے قریب اکر اس کو چادر اڑائی اور اسے اپنے بازووں میں اٹھا کر گاڑی کے قریب آیا اور فرنٹ سیٹ پر بٹھایا وہ جو ٹکر ٹکر اسے دیکھے جارہی تھی اسکے اتنے قریب ہونے پر انکھیں زور سے میچھ لیں دل تیزی سے ڈھڑکنے لگا جیسے ابھی نکل کر باہر اجائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہانگیر اسے اب وہاں چھوڑنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا اس نے اسے سکندر پیلس لے جانے کا ارادہ کیا ۔۔۔یوں بھی وہ بار بار اتنی دور نہیں آسکتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سحرش اپنے حواس بہال کرنے میں لگی ہوئی تھی –
میں خود ڈرائیو کروں گا جاو تم ؟؟؟
“جی صاحب جی ۔۔۔۔”
ڈرائیور کو کہہ کر کار میں بیٹھ گیا :
گاڑی روڈ پر لاتے ہی اس نے سحرش کی جانب دیکھا جو باہر کے نظارے دیکھنے میں مگن تھی ۔۔۔۔
تمہارا پاوں کیسا ہے درد تو نہیں ہورہا؟؟؟
“نہیں ۔۔۔۔ ”
پہلے والا رعب اور دبدبہ ہی تھا کہ اس نے بغیر چوں چرا جواب دیا ۔۔۔۔
” مجھے گھر لے جائیں میرے۔۔۔ امی ابو سے مل کر میں واپس آپ کے ساتھ چلی جاوں گی ۔۔۔؟؟؟ سحرش نے نہ جانے کس جذبہ کے تحت اس سے التجا کی تھی ۔۔۔
اس نے کرنٹ کھا کر سحرش کو دیکھا جس کے چہرے پر مہم سی امید تھی اس نے اس کے چہرہ پر سے نظریں ہٹالیں اور اپنے لبوں کو باہم بھینچ لیا سحرش نے نا امیدی سے گردن سیٹ کی پشت سے لگا لی بند انکھوں سے انسو نکل رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
جہانگیر کوئی تلخ جواب نہیں دینا چاہتا تھا اس لئے خاموشی اختیار کرلی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد اس نے سکندر پیلس میں گاڑی روکی شام کے سائے گہرے ہورہے تھے پرندے تھک ہار کر اپنے اپنے آشیانوں میں جانے کی تیاری کررہے تھے اس نے گاڑی پورچ میں کھڑی کی اور خود گاڑی سے نکل کر سحرش کی طرف آیا سحرش اسکا ارادہ سمجھ کر جلدی سے خود نکلنے کی کوشش میں پاوں زمین پہ رکھا لیکن درد اسکے پورے جسم میں سرائیت کر گیا ابھی اس سے کہہ کر وہ کسی ملازمہ کو بلواتی جہانگیر جو اس کہ چہرہ کو بگور تک رہا تھا اسے لڑکھڑاتا دیکھ اگے بڑھا اور اسے اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر اپنے روم میں لے آیا ۔۔۔
ملازم سارے اپنے کواٹر میں گوشئہ نشین تھے پیلس میں ہر طرف خاموشی کا راج تھا پیلس اندر سے محل نما بنا ہوا تھا ۔۔۔ جہانگیر نے سحرش کو اپنے بیڈ پر لٹایا اور خود وہیں رکھے صوفہ پر اکر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گیا ۔۔۔ جہانگیر کے کمرے میں ہر چیز مہنگی اور قیمتی لگ رہی تھی دبیز پردے، قالین ہر شئے اپنی بیش قیمت کا عندیہ دے رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانہ کھاو گی ؟؟؟
جہانگیر نے اس سے پوچھا جو نجانے کن سوچوں میں گم تھی ۔۔۔۔
“سحرش نے چونک کر اسے دیکھا اور نفی میں سر ہلایا ۔۔۔۔ ٹھیک ہے پھر تم ایسا کرو فریش ہوجاو آو میں تمھیں واش روم تک چھوڑ دوں ۔۔۔۔ ”
جہانگیر اسے سہارا دے کر واش روم تک لے گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سحرش کو اس کا یہ دھوپ چھاوں رویہ سمجھ نہیں آرہا تھا کئ بار اس کے دل میں آیا کہ اس سے کچھ پوچھے لیکن اس کے ماتھے پہ ہمہ وقت رہنے والے بل اسے کسی قسم کی بات کرنے سے روک رہے تھے اگر کبھی کچھ پوچھ لیتی تو وہ جواب نہیں دیتا تھا۔۔۔۔
یا اللہ میں کہاں پھنس گئ یہ کیسی آزمائش ہے میری امی کا تو رو رو کر برا حال ہوگیا ہوگا۔۔۔
اپنی ماں کا سوچ کر وہ پھر سے رونے لگی تھی۔۔۔ اسے اپنے گھر میں بتائے ہوئے ماہ و سال یاد آنے لگے تھے۔۔۔
میں آج ہی دو ٹوک بات کروں گی ۔۔ تبھی انکھیں ہاتھ کی پشت سے رگڑی اور اٹل فیصلہ کر کے پر سکون ہو گئ تھی ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہانگیر کو کمرے سے گئے ہوئے کافی وقت ہوگیا تھا کھانے کا اس نے منع تو کردیا تھا لیکن اب بھوک سے اسکا برا حال تھا اس نے اٹھنا چاہا لیکن پاوں پر زور پڑتے ہی درد ہونے لگا تھا بھوک بھی زوروں پر تھی درد کی شدت میں اضافہ ہوگیا تھا سحرش نے بے بسی سے رونا شروع کردیا تھا ۔۔۔
اپنے گھر میں تو اس کو کبھی اتنی دیر بھوکا نہیں رہنا پڑا ۔۔۔
جہانگیر روم میں آیا تو سحرش کو بیڈ سے نیچے کارپیٹ پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھا روتا ہوا دیکھا تو شوپنگ بیگز سائیڈ پر رکھ کر بھاگ کر اس کے قریب آیا اور اسے آرام سے بیڈ پر بٹھایا ۔۔۔
تمہیں منع کر کے گیا تھا نہ کہ ہلنا نہیں؟؟؟ جہانگیر کی آواز میں سختی تھی ۔۔۔
اسے اپنے اوپر بھی غصہ آرہا تھا کہ اتنی دیر میں کیوں آیا ۔۔۔
سحرش نے اب باقاعدہ زور و شور سے رونا شروع کردیا تھا ۔۔۔۔۔۔ جہانگیر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو لب بھینچ لئے ۔۔۔ پھر اٹھ کر سائیڈ ٹیبل پر رکھے ہوئے جگ سے گلاس میں پانی بھرا اور سحرش کو دیا۔۔۔۔۔
اب بتاو کیوں رو رہی ہو ؟؟؟
جہانگیر نے اب کہ لہجہ نارمل کرلیا تھا۔۔۔
” مجھے بھوک لگی ہے میں کچن میں جانا چاہتی تھی درد کی وجہ سے اگے نہ بڑھ سکی اور گر گئ ۔۔۔۔ ”
سحرش کے چہرہ سے بے بسی عیاں تھی ہچکیوں سے اسکا جسم لرزرہا تھا جہانگیر کو ندامت نے اگھیرا اور کچن میں اکر خود کھانہ گرم کر کے اسے دیا اور خود بھی ساتھ کھانے لگا بھوک تو اسے بھی بہت لگی ہوئی تھی سحرش نے ہچکچاتے ہوئے کھانا کھایا تھا جبکہ جہانگیر نے اپنا پورا دھیان کھانے پر لگایا ہو تھا جیسے اس سے ضروری اور کوئی کام ہی نہ ہو اس کیلئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے کے بعد جہانگیر نے اسے دوا دی اور خود دوسرے روم میں جاکر سو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کافی سارے دن یوں ہی گزرگئے سحرش کا درد اب ختم ہوگیا تھا وہ آہستہ آہستہ چلنے لگی تھی جب سے آئ تھی وہ کمرہ کی حد تک مقیم ہوکہ رہ گئ تھی ملازمہ اسکو تین ٹائم کا کھانہ کمرے میں ہی دے جاتی تھی جہانگیر اس دن کے بعد سے کمرے میں نہیں آیا تھا ۔۔۔۔۔۔
جلدی جلدی اس نے اپنے بال بنائے کپڑوں کی شکنوں کو ہاتھوں سے درست کیا،
جب سے وہ سکندر پیلس لائی گئی تھی ایک ہی سوٹ میں ملبوس تھی جہانگیر تو اس دن کے بعد سے آیا۔ نہیں تھا کمرہ میں۔۔۔۔
اس لیے چار و نہ چار اسی سوٹ میں گزارا کرنا پڑا ۔۔۔
وہ ایک دن کے بعد کسی سوٹ کو دوبارہ نہیں پہنتی تھی آج یہ کام بھی اسے کرنا پڑگیا مجبوری بھی عجیب شئہ ہے وہ کام بھی کرنے پڑتے ہیں جن سے دور دور تک واسطہ نہ رہا ہو۔۔۔۔۔
سوٹ کا ہم رنگ ڈوپٹہ سر پر اچھی طرح جمع کر کمرہ سے باہر نکلی اور ٹی وی لاونج میں آئی ۔۔۔ ملازمہ اسے دیکھ کر جلدی سے اس کے پاس آئی:
بی بی جی آپ کو کچھ چاہیئے تو مجھے بتادیں آپ کیوں آگئیں ؟؟؟؟
“نہیں کچھ نہیں چاہیئے ۔۔۔”
اس گھر میں کون کون رہتا ہے ؟؟؟
“سحرش نے سوچا اسی سے پوچھ لے ہٹلر صاحب تو ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دیں کجا کہ میری بات کا جواب۔۔”
۔اس نے نفرت سے سوچتے ہوئے سر جھٹکا۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...