(١)
کہتے ہیں دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ “ادھر دعا مانگی، اُدھر قبول”۔ کیا تعجب وہ قبولیت ہی کی گھڑی ہو جب فیروزہ جا نماز سے اٹھ، انگنائی میں آ، گود پھیلا اس طرح گڑگڑائی:
“آدھی رات کا سماں، سوتا سنسار، جاگتا پاک پروردگار، الہی! اگر میں نے ساس سے لگایا ہو تو میرا ناس، اور نہیں تو جیسا جھوٹا الزام شعبانہ نے مجھ پر رکھا، اس کے دیدے گھٹنوں گود پیٹ اور کوک مانگ کے آگے”۔
وہ کمبخت کچھ بات بھی ہو۔ ہوا یہ کہ فیروزہ اور شعبانہ دونوں دیورانیاں جیٹھانیاں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ ساس گئیں نماز کو۔ میکے کی نکل آئی ماما۔ شعبانہ نے ساس سے چُھپواں نینوں کا تھان، چار پینڈیاں، دو خربوزے اور تین روپے اس کو دے دیے۔ ادھر سے آتی تھیں ساس، ادھر سے چلی ماما۔ ڈیوڑھی میں ہوئی مد بھیڑ، چور کے پاؤں کہاں؟ ماما سٹ پٹائی اور سٹ پٹاتے ہی بغل کی پوٹلی نیچے، روپے چھنکے، خربوزے لڑھکے، پینڈیوں کا ہوا چور۔
ساس! ساس کلیجہ کی پھانس، بلکہ اس سے بھی سوا سہی۔ مگر اگلے زمانے کی آدمی، بھاری بھرکم عورت، ایسی پیٹ کی ہلکی نہ تھیں کہ اتنی سی بات بھی ضبط نہ کر سکتیں۔ مگر بدگمانی کا علاج کیا؟ چور کی ڈاڑھی میں تنکا۔ شعبانہ کا ماتھا ساس کو مسکراتے دیکھتے ہی ٹھنکا۔ فیروزہ کی کھسر پھسر نے اور بھی یقین دلا دیا۔ یہ فیروزہ کی تقدیر کہ بیچاری کہتی تھی کچھ، لپ گئی کچھ۔ ہم سے پوچھو تو قصور سر تا سر شعبانہ کا ہے۔ چیز اپنی، مال اپنا، ماں کو بھیجا تو خوب کیا اور ماما کو دیا تو خوب کیا۔ ڈر کس کا اور چوری کس کی؟ فضول تھا چھپانا، اور بے سود تھا ڈرنا۔
(٢)
اس واقعہ کو مشکل سے ایک مہینہ ہوا ہوگا۔ صبح کے وقت ایک روز تار والے نے آواز دی۔ تار کا نام سنتے ہی ساس بہوؤں کے کلیجے دھکڑ دھکڑ کرنے لگے۔ لڑکے نے اٹھ کر تار لیا، کھولا پڑھا اور پڑھتے ہی چیخ مار کر کہا: “ہائے محسن بھائی گذر گئے”۔
خاوند کی موت کا سننا تھا کہ شعبانہ کی آنکھوں میں دنیا اندھیر ہو گئی۔ پانچ برس کی بیاہی ابھی دنیا کا دیکھا ہی کیا تھا؟ بلبلاتی تھی اور پچھاڑیں کھاتی تھی۔ ہر چند چاہتی تھی کہ صبر کرے، مگر دل تھا کہ اندر سے آپ ہی آپ امڈا چلا آتا تھا۔ سوچتی تھی کہ یہ پہاڑ سی زندگی، بچے کا ساتھ کیا کروں گی؟ کیا نہ کروں گی؟ کچھ ایسا دھاکا بیٹھا کہ چالیسویں سے پہلے ہی پہلے ہتنی جیسا ڈیل سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔ دن ہو یا رات، صبح ہو یا شام، چپکی بیٹھی ہے اور کسی نہ کسی خیال میں محو ہے۔ کھانا پینا تھک گیا۔ ہنسنا بولنا چھٹ گیا۔ جو شعبانہ جٹھانی کی آدھی بات سننے کی روادار نہ تھی، ہزاروں باتیں سنتی اور اف نہ کرتی۔ بہت جلتی تو اتنا کہہ دیتی “میرا زور ڈھے گیا، میرا وارث اٹھ گیا، تم جو کہو سب سچ”۔
کچھ ایسا دل مرا کہ کسی بات کو جی ہی نہ چاہتا تھا۔ ایک تصویر ہے کہ چل پھر رہی ہے۔ کپڑے چکٹ، سر پھولا ہوا، سر منہ لپیٹے پڑی ہے اور رو رہی ہے۔ جن ہاتھوں میں دو پونے دو سو روپیہ مہینے کے مہینے آتا اور اٹھتا، اب ان میں ایک ایک پیسہ اشرفی ہو گیا۔ اتفاق سے ایک دن کھلونے والا دروازہ پر آ نکلا۔ بچہ ایک تصویر پسند کر کے دوڑا دوڑا ماں کے پاس آیا اور کہنے لگا: “اچھی میری اماں یہ تصویر لے دو”۔
اتنا کہا اور کہتے ہی گلے میں ہاتھ ڈال کر لپٹ گیا۔ بچہ کا لپٹنا تھا کہ شعبانہ کا دل بھر آیا۔ بچہ کو چمٹا کر پیار کیا اور آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ساتھ ہی خیال آیا کہ اس تقدیر کی کیا خبر تھی کہ احسن اس طرح آ کر لپٹے گا اور بہار دیکھنے والا قبر میں جا سوئے گا۔ بچہ کو گود میں لٹا کر تصویر دیکھنے لگی، دیکھتی ہے تو اس میں چار آدمی ہیں ایک میاں ایک بیوی دو بچے۔ ایک بچہ ماں کی گود میں ہے، ایک باپ کی اور دونوں میاں بیوی بچوں کو دیکھ کر نہال نہال ہو رہے ہیں۔ خوشیوں کا مینہ ان کے چہروں پر برس رہا تھا اور بے فکری کی مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر کھیل رہی تھی۔ جس آگ کو شعبانہ مشکل سے دبا رہی تھی، اس تصویر نے اس میں دیا سلائی دکھا دی۔ شعلہ بھڑک اٹھا اور خاوند کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر گئی۔ دل بے اختیار ہو گیا اور آنسو بہنے لگے۔ اس ہی حالت میں بچہ کو پیار کیا۔ بچہ ماں کو روتا دیکھ کر کہنے لگا: “اماں روتی کیوں ہو؟”
بچے کا یہ کہنا کلیجے کے پار ہو گیا۔ دوپٹے سے آنسو پونچھے، پیار کیا اور کہنے لگی: “نہیں میاں روتی نہیں، جاؤ پوچھ آؤ تصویر کتنے کی ہے؟”
بچہ کے جاتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ بچہ لپک کر گیا اور آ کر کہا: “ایک روپیہ کی”۔ اب غریب شعبانہ کو روپیہ تو کیا، پیسہ بھی بڑی چیز تھی۔ چمکار کر کہا: “نہیں میاں! بری چیز ہے پھیر آؤ”۔ اللہ آمین کا بچہ، لاڈوں کا پلا، لوٹ گیا اور لگا پٹخنیاں کھانے۔ شعبانہ جس بچے کے ایک آنسو کی روادار نہ تھی، اس کی یہ حالت دیکھ کر اور بھی بے قابو ہو گئی۔ تصویر پھیرنے جاتی تھی، ہونی شدنی، دو ہی قدم چلی ہوگی کہ ہاتھ سے چھوٹی اور شیشے کے دو ٹکڑے، تصویر کا ٹوٹنا تھا کہ شعبانہ کی جان نکل گئی۔ ادھر بچہ لوٹ رہا ہے اُدھر تصویر والا باتیں بنا رہا ہے۔ روپے کا پتہ نہیں۔ ساس سے مانگا، ان کے پاس نہ تھا۔ فیروزہ سے پوچھا، اس نے جواب دے دیا۔
کیا حسرت ناک وقت تھا۔ ایک روپیہ کے واسطے ایک ایک سے مانگتی پھرتی تھی اور نہ جڑتا تھا۔ اتفاق سے احسن کی انا آ نکلی۔ انا کی صورت دیکھتے ہی شعبانہ بےاختیار ہوگئی۔ چپکے سے پاس بلایا اور کہا:
“انا! میرے ہاتھ سے تصویر ٹوٹ گئی۔ روپیہ میرے پاس ہے نہیں یہ پیمک بیچ کر اس کا روپیہ دے دے”۔ انا شعبانہ کی یہ گفتگو سن کر رو دی اور کہا: “بیگم! جی بھاری نہ کرو، روپیہ میں دے دیتی ہوں۔ میرے پاس ہے”۔
(٣)
جس شعبانہ کے منہ پر کبھی عید بقرعید کو بھی ہنسی نہ آتی تھی، آج چاروں طرف ہشاش پھر رہی ہے۔ رات کا وقت ہے مگر خوشی کے مارے نیند نہیں آتی۔ بھتیجے کی بسم اللہ ہے۔ صبح کو جانا ہے، مشکل سے رات کاٹی۔ اندھیرے سے کپڑے نکالے، سر گوندھا، منہ ہاتھ دھویا۔ بچہ اٹھا تو نہلا دھلا کر کپڑے بدل ڈولی منگوا کر میکے آئی۔ مہینوں کی چھوٹی، مدتوں کی بچھڑی، ایک ایک سے ملتی پھرتی تھی۔ دوپہر کے وقت ادھر تو مہمانوں کی افراتفری، ادھر کھانے کا شور و غل۔ چار ساڑھے چار برس کا گورا بھبوکا بچہ پہنے اوڑھے لیس کی ٹوپی سونے کے بٹن، آنکھوں ہی آنکھوں میں غائب ہو گیا۔ دسترخوان پر بیٹھی تو بچہ یاد آیا، گلی گلی اور کوچہ کوچہ دیکھا، دکھوایا، ڈھونڈا، ڈھنڈھوایا۔ خدا معلوم آسمان کھا گیا یا زمین، بچہ نہ ملنا تھا اور نہ ملا۔ کیسی شادی اور کس کی بسم اللہ۔ روتی پیٹتی سسرال آئی مگر یہاں کیا رکھا تھا۔ ایک شبہ تھا وہ بھی نکل گیا۔ ڈاڑھیں مار مار کر روتی اور بلبلاتی تھی۔ کلیجہ امڈا چلا آتا تھا۔ ایک ایک کی منت اور خوشامد کر رہی تھی اور خدا کا واسطہ دے کر کہتی تھی کہ کوئی میرے بچے کو ڈھونڈ دو۔ جاڑوں کی پہاڑ سی رات دروازے پر گذار دی۔ رہ رہ کر ہوک اٹھتی تھی، تھم تھم کر جوش آتا تھا۔ کسی پہلو چین نہ تھا۔ ایک خیال تھا کہ کلیجے کے ٹکڑے اڑا رہا تھا۔ چار بج گئے، موذن نے اللہ اکبر کی آواز دی۔ انگنائی میں آئی، زمین پر بیٹھی سجدہ میں گری اور رو کر کہا:
“الٰہی مجھ پر رحم کر۔ میرے احسن کو ملا دے”۔
دن گذر گئے، مہینے نکل گئے۔ باغوں میں پودے لگے، پودوں میں کلیاں آئیں۔ کلیوں سے پھول بنے مگر شعبانہ کے دل کی کلی ایسی مرجھائی کہ پھر کھلنی نصیب نہ ہوئی۔ وہ تھی اور احسن کی یاد۔ اس کے ننھے منے کپڑے اور چھوٹے چھوٹے کھلونے اٹھاتی، سر اور آنکھوں پر رکھتی، دیکھتی اور کلیجے میں تیر لگتے۔ بہتیرا ہی سب سمجھاتے، تسلی دیتے، دل بہلاتے مگر صبر تو درکنار، کوئی لمحہ ایسا نہ جاتا کہ بچہ کو بھولتی ہو۔ دیوانوں کی طرح پھرتی اور مُردوں کی طرح اٹھتی۔ کھانا، پینا، پہننا اوڑھنا سب چھوٹ گیا۔ بیٹھی ہے تو چپکی، کھڑی ہے تو ساکت، جب دیکھو گم سم۔ ظاہر میں خاصی تندرست تھی مگر احسن کے فراق نے اندر ہی اندر کلیجہ کھرچنا شروع کیا۔ مُردوں سے بدتر صورت، فقیرنیوں سے بدتر ہڈرا، آنسو ہیں کہ ٹپ ٹپ گر رہے ہیں۔ دل ہے کہ امڈا چلا آ رہا ہے۔
آدمی تو آدمی مامتا تو خدا جانور تک کی نہ چھڑائے، شعبانہ نے تو چار بچے کھو کر اس پھونسڑے کی صورت دیکھی تھی۔ کیسے کیسے ارمان اور کیا کیا آرزوئیں تھیں۔ مگر سب خاک میں مل گئیں۔ سچ پوچھو تو احسن نے چھوٹ کر ماں کی زندگی ختم کر دی۔ رات ہوتی وہ ہوتی، تاروں بھرا آسمان ہوتا اور حسرت بھرا دل۔ مچھلی کی طرح تڑپتی اور چاروں طرف لوٹتی، کوٹھے پر جاتی ادھر ادھر جھانکتی اور کہتی: “اے احسن صورت دکھا”۔
کبھی کبھار بھولے بسرے پلنگ پر لیٹی اور کہنا شروع کیا:
“اے لال! کس ظلم کے پھندے میں پھنسا۔ آ آ آ۔ احسن منہ دھلاؤں، کھانا کھلاؤں، پانی پلاؤں۔ اے احسن آ۔ کلیجہ سے لگاؤں۔ سینہ سے چمٹاؤں”۔
شعبانہ کی حالت دیکھ کر غیروں کو رحم آتا تھا۔ ایک ایک کی صورت دیکھتی اور روتی۔ اس درد سے بچہ کو یاد کرتی تھی کہ سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوتے۔ احسن کو بچھڑے ہوئے دو سوا دو برس ہو گئے مگر اس کا صدمہ ہر وقت تازہ تھا۔ اس کے میلے کچیلے کپڑے منہ پر ڈال کر لیٹ جاتی اور روتے روتے ہچکی بندھ جاتی۔ تصویر ہاتھ میں لی اور الگ تھلگ جا پڑی۔ سینہ پر رکھتی، آنکھوں سے لگاتی، غور سے دیکھتی اور دیکھتے دیکھتے چیخ مارتی اور کہتی: “ہائے میاں! کہاں چلا گیا”۔
حالت بے قراری میں ایک روز اسی طرح چیختی چیختی دروازے تک گئی، آ کر دیکھتی ہے تو تصویر ندارد۔ گھر بھر سے پوچھا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا، مگر کسی نے جواب نہ دیا۔
اصل یہ ہے کہ شعبانہ کی زندگی ختم تو کبھی کی ہو چکی تھی۔ اب اگر کوئی سہارا تھا تو احسن کے ملنے کی امید۔ تسکین تھی تو اس کی تصویر۔ یہ تقدیر کی خوبی تھی کہ بچہ گیا، بچہ کی یادگار گئی۔ اتنا کہا اور رونے لگی:
“میرے لال کی نشانی تھی۔ کوئی لے کر کیا نہال ہوگا”۔
(٤)
ایک دن آدھی رات کے قریب اسی بے اوسانی اور بے قراری میں انگنائی کے چکر کاٹ رہی تھی اور آنکھ سے آنسو کی لڑیاں بہ رہی تھیں۔ سڑک پر کوئی لڑکا یہ گاتا ہوا نکلا:
خدا جانے وہ کیڑے دیس ہوگا
پھٹے کپڑے وہ میلا بھیس ہوگا
اس آواز کے کان میں آتے ہی بے اختیار ہوگئی۔ سوچنے لگی:
“بیمار پڑتا، مر جاتا، صبرکرتی۔ ہائے کھیلتا مالتا سامنے سے غائب ہوگیا۔ ایسا روٹھا کہ پلٹ کر نہ دیکھا، کہاں ہوگا؟ کس حال میں ہوگا؟ بھوکا پیاسا ہوگا؟ آہ کیا کروں، کلیجہ نکلا جاتا ہے، کدھر جاؤں؟ کس سے پوچھوں؟ بے غیرت ہے میری زندگی اور بے حیا میرا جینا۔ احسن چھوٹے اور میں زندہ رہوں۔ مجھے سے زیادہ بد نصیب کون ہوگا۔ ایسی پڑی کہ خدا دشمن پر نہ ڈالے۔ پانچ برس کی بیاہی رانڈ ہوئی۔ خلیل جلیل جیسے لال ڈھائی ڈھائی تین تین برس کے پورا سے پھرتے آنکھوں کے سامنے اٹھ گئے، آمنہ جمیلہ جیسی پیاریاں دنیا بھر کی باتیں لمکاتی جنگلوں میں جا سوئیں۔ ایک احسن کا دم رہا تھا وہ بھی رخصت ہوا۔ بھرا گھر دیکھتے دیکھتے سنسان ہوگیا اور میں سب کی رونے والی باقی رہ گئی۔ دل نہ ہوا، پتھر ہوا۔ کس کس کو یاد کروں؟ اور کہاں کہاں سر ٹکراؤں؟ اس زندگی کو سلام جس سے صدموں کے سوا کچھ اور نہ پایا۔ الہ العلمین اب موت دے مگر اتنی التجا ہے کہ ایک دفعہ احسن کی صورت دیکھ لوں”۔
اسی طرح دل سے باتیں کرتی کرتی چارپائی پر آئی، لیٹی اور لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی۔ دیکھتی کیا ہے، کڑکڑاتے جاڑے میں احسن سامنے کھڑا سوں سوں کر رہا ہے۔ بغلوں میں ہاتھ ہیں اور دانت سے دانت بج رہے ہیں۔ بدن پر مار کے نشان ہیں اور تمانچوں سے کلے لال ہو گئے ہیں۔ لمبے لمبے آنسوؤں سے رو رہا ہے۔ گلاب سے رخسار مرجھا گئے ہیں۔ سوکھ کر کانٹا ہو گیا ہے، بے تاب ہو کر آگے بڑھی تو بچے نے کہا: “اماں جان خدا کے لیے بچاؤ، بڑی مصیبت میں ہوں”۔
احسن ابھی پوری طرح کہہ بھی نہ چکا تھا کہ سامنے سے فیروزہ ایک موٹی سی کھپچی لیے ہوئے آئی۔ صورت دیکھ کر سہم گیا اور تھر تھر کانپنے لگا۔ فیروزہ نے پاس پہنچ کر مارنا شروع کیا۔ بچہ ننھے ننھے ہاتھ جوڑے بلک رہا تھا اور کہہ رہا تھا: “اچھی چچی جان اب نہیں”۔
پورے پانچ برس کے بعد بچہ کی صورت کا نظر آنا اور بچہ بھی وہ بچہ جس نے ماں کو جدا ہو کر دیوانہ بنا دیا۔ نظر آنا اور اس حال میں نظر آنا، کچھ ایسا درد انگیز سماں تھا جس نے دل کے ٹکڑے اڑا دیے۔ آگے بڑھی اور کہنے گی:
“او سنگ دل فیروزہ! خدا سے ڈر اور بن باپ کے بچے پر اتنا ظلم نہ کر۔ مجھ سے تڑا میرا کلیجہ توڑ۔ ننھی سی جان پر یہ ستم توڑ رہی ہے، یہ چلے کا جاڑا اور چار چوٹ کی مار۔ میری اس کی صورت دیکھنے کو آنکھیں ترس گئیں اور تو اس پر یہ غضب ڈھا رہی ہے۔ فیروزہ میں نے بڑی مصیبت سے اس لال کو پالا تھا”۔
بچے کی درد ناک آواز نے ماں کے کلیجہ کے ٹکڑے اڑا دیے۔ اس قدر منت خوشامد کی، مگر فیروزہ نے ایک نہ سنی۔ معصوم بچے کا مار کھانا، رونا اور ماں کے چہرہ کو دیکھنا، ماں کے کلیجہ پر تیر لگ رہے تھے۔ تڑپی اور بلبلائی، جب کچھ پیش نہ گئی۔ تو دوڑی دوڑی صندوق کے پاس آئی۔ چاقو نکالا اور فیروزہ پر جھپٹی اور پیٹ میں بھونک دیا۔ خون کا فوارہ چھوٹ گیا۔ تمام زمین اور کپڑے لال ہو گئے، دیکھتی ہے تو فیروزہ دور کھڑی ہنس رہی ہے اور چاقو احسن کے پیٹ میں گھسا ہوا ہے۔ ہائے ہائے کرتی ہوئی دوڑی، بچہ کا سر اٹھا کر گود میں رکھا۔ اور ایک حسرت بھری نگاہ چہرے پر ڈالی۔ بچہ نڈھال تو مار ہی سے ہو گیا تھا، چاقو گھسا تو اس غضب کا کہ پسلیاں اور انتڑیاں باہر نکل پڑیں۔ اتنا تو کہا: “اے ماں مجھ بے گناہ کو کس جرم میں مارا؟”
بچے کی یہ آواز سنتے ہی آنکھ کھل گئی۔ دیکھتی ہے تو نہ احسن ہے نہ فیروزہ۔ وہی گھر اور چارپائی، جس صورت کی دیوانی تھی اس کو اپنے ہاتھ سے خاک میں ملانا گو خواب کا واقعہ تھا مگر دل کی یہ کیفیت تھی کہ چھریاں چل رہی تھیں۔ روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ مگر کسی طرح چین نہ پڑا۔ رات کے دو بجے ہوں گے۔ چادر سر پر ڈالی اور باہر نکل کھڑی ہوئی۔
(٥)
ایک لق و دق میدان میں بندھیاچل پہاڑ کھڑا آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ رات دو حصہ ختم کر چکی۔ گھٹا چھائی ہوئی ہے اور بادل زور شور سے کڑک رہا ہے۔ آبشار بلندی سے گر رہے ہیں اور ہوا کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھونکے بنگالی چڑیوں کو تھپک تھپک کر سلا رہے ہیں۔ شیروں کی دہاڑ اور ہاتھیوں کے چنگھاڑ نے جنگل سر پر اٹھا رکھا ہے۔ اس وحشت ناک مقام پر جہاں کوسوں انسان کا پتہ نہ تھا، پہاڑ کی چوٹی سے یہ آواز آ رہی ہے:
اس دل کی لگی نے کیا جوگن، گھر بار چھٹا تیرے کارن
نیناں ترسیں دکھلا درشن، چھتیں لگ جا آ جا احسن
دن رات ہوئے عمریں بیتیں، کھل کھل کر پھول ہوئیں کلیاں
پر دل کی کلی میری نہ کھلی، جنگل دیکھے، ڈھونڈھیں گلیاں
چلتی ہے ہوا پھولوں میں بسی، کہسار میں جب دن ہوتا ہے
آتی نہیں بو تیری لیکن، دل خون کے آنسو روتا ہے
بچوں سے چھٹا دن بھر کا فلک، جب گود میں تارے لیتا ہے
اس وقت دلِ مجروح مرا اندر سے صدا یوں دیتا ہے
کہہ دیجیو اتنا باد صبا احسن کی طرف گر ہو جانا
چھتین لگ جا یوں ہی احسن، ماں کیسی بونڈی شعبانہ
پہاڑ کی چوٹی، جنگل بیابان، رات کا وقت، غمزدہ شعبانہ اور مصیبت بھرا دل۔ غرض کچھ عجیب سماں تھا۔ مدت خاک اڑاتے ہو گئی۔ گرمی کا سورج، جاڑوں کی راتیں، آندھی اور طوفان سر پر بیتے مگر دل کی لگی نہ بجھنی تھی اور نہ بجھی۔ جن آنکھوں نے کبھی گیدڑ کی صورت نہ دیکھی تھی اب ان کے آگے سے گینڈے اور چیتے گذرتے، کجلی بن کی خطرناک منزل میں بڑے بڑے اژدہے برابر سے نکل جاتے۔ پہاڑوں میں دن گذرے، جنگلوں میں راتیں آئیں، چشمہ کا پانی، جنگل کے پھل، کھایا پیا اور چل کھڑی ہوئی۔
نا امید ہوتی، دل ٹوٹ جاتا اور ارادہ کرتی کہ مر جاؤں۔ پہاڑ سے گروں۔ دریا میں ڈوبوں، شیر کھائے، چیتا پھاڑے پھر خیال آتا کہ نہیں خدا کی قدرت بڑی ہے۔ دلوں کا حال جاننے والا، مظلوموں کی فریاد سننے والا، وقت پر کام آنے والا، وہ زبردست بادشاہ جس کی حکومت کے گیت درختوں کے پتے، پودوں کی کوپلیں، جنگل کے جانور، بستی کے آدمی سب گا رہے ہیں۔ جس نے یعقوب کو یوسف، رحمہ کو موسیٰ دیا، مجھ سے بھی احسن کو ملا دے گا۔ یہ تاروں بھری رات اور پھولوں بسی ہوا کبھی تو کام آئے گی۔ سیوا کرے سو میوہ پائے۔ چھ اور چھ بارہ پورا ایک جگ ہو گیا۔ بارہ برس بعد تو کوڑی کے بھی دن پھرتے ہیں۔ مصیبت کے دن نکل گئے، اب تو فقط آنکھوں کی سوئیاں رہ گئی ہیں۔ کچھ عجیب زندگی بسر کر رہی تھی، کبھی تو امید کی جھلک احسن کے ملنے کا یقین دلاتی، کبھی نا امیدی زندگی کو وبال بنا دیتی۔ وحشت خیز مقام جہاں انسان کا گذر نہ تھا آنکھ کے سامنے ہوتے اور رات بسر کر دیتی۔ محبت کا دریا لہریں لیتا۔ مامتا کا جوش بے چین کرتا، دیوانوں کی سی حالت ہوتی، چیختی چلاتی، روتی گاتی۔ آخر شعر ختم کر چکی تو خیال آیا، کوشش فضول، تلاش بے کار، احسن کہاں اور میں کہاں۔ آنکھیں اس کے تکتے تکتے بند ہونے کو آئیں اور پاؤں اس تک پہنچتے پہنچتے جواب دینے کو ہو گئے۔ دنیا اور دنیا کی چیزیں سب بدستور ہیں، ہاں میرا دل مر گیا جب دل ہی مر گیا تو میں زندہ رہ کر کیا کروں گی۔ بس ڈھونڈھ لیا جتنا ڈھونڈھنا تھا اور دیکھ چکی جتنا دیکھنا تھا۔ اس پہاڑ کی چوٹی سے گر کر ختم ہوں۔ لے میاں احسن خدا حافظ۔ اتنا کہا اور چاہتی تھی کہ نیچے گرے، دفعتاً یہ آواز کان میں آئی:
“او پاپن! تین دن تین رین خاک چھانتے بیت گئے۔ ان جل سب چھوڑ دیا۔ بابا جی کی آنکھ بچا چمپت ہوئی”۔
بجلی چمکی اور شعبانہ نے منہ موڑ کر دیکھا تو ایک جوگی لنگوٹی باندھے بھبھوت ملے لال لال آنکھیں، بڑی بڑی جٹیں ہاتھ پکڑے گھسیٹتا اور دھکے دیتا ایک طرف لے جا رہا ہے۔
(٦)
رات کا گریبان چاک ہو چکا۔ کالے کالے بادل، گھٹا ٹوپ اندھیرا، جھوکے اور جھکڑ سب ہوا ہوئے۔ پو پھٹ رہی ہے اور دریائے گنگا خموشی کے ساتھ لہریں لے رہا ہے۔ درختوں کے جھنڈ کنارے پر چھائے ہوئے ہیں اور رنگ برنگ کے پرند خدا کی تسبیح کر رہے ہیں۔ ایک منڈھیا میں بڈھا پھونس جوگی مرگ چھالا بچھائے آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے اور چار چیلے نیچی نگاہ کیے کھڑے ہیں۔ شعبانہ بد نصیب اس الزام میں کھڑی ہے کہ ایک جوگی کو کھانے میں زہر دیا اور چمپت ہوئی۔
جوگی: اے سائن استری، ہم رام رام جپنے والے مانس دنیا کو چھوڑ چھاڑ اپنے مالک کا دھیان لگائے بیٹھے ہیں۔ سالگ نے تیرا کیا بگاڑا تھا؟
شعبانہ: جوگی مہاراج! میں مامتا کی ماری اپنے لال کی تلاش میں چار کھونٹ پھر رہی ہوں۔ نیا دانہ، نیا پانی، میں اس سے پہلے ادھر نہیں آئی۔ میرا دل آپ ہی کلپ رہا ہے۔ میں کہاں اور آپ کا چیلا کہاں؟
جوگی: اچھا اس استری کو دیوی کی بھینٹ چڑھا دو۔
(٧)
بندھیا چل کی چوٹی پر ایک خوش نما عمارت میں جو دیوی کا مندر ہے، بیسیوں پجاری اچھلتے کودتے پھر رہے ہیں۔ مندر طرح طرح کے پھولوں سے سجایا گیا ہے، مورتی کے گلے میں پنج رنگے ہار، برابر میں ننگی تلوار، جوگی مہاراج مضطرب و بے قرار شکار کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ منڈھیا سے دس بارہ آدمیوں کا ایک گروہ سنکھ بجاتا اور کچھ پڑھتا شعبانہ کو لیے نکلا۔ اس وقت شعبانہ کی حالت اور صورت دونوں دیکھنے کے قابل تھیں۔ سپید اجلی ساڑھی بندھی ہوئی تھی، ماتھے پر چندن کا تلک، ہاتھ میں پھولوں کی تھالی، آنسوؤں کی لڑیاں بہ رہیں، چہرے پر ہوائیاں اڑ رہیں، ٹھنڈے سانس بھرتی، آہستہ آہستہ قدم دھرتی چلی جاتی تھی۔
سوچتی تھی اور سوچتی کیا جانتی تھی کہ ایک آدھ گھڑی کی اور مہمان ہوں۔ خیر اسی بہانے تکلیفوں کا خاتمہ ہوا، مگر اے کم بخت تقدیر! اس آخر وقت بھی ساتھ نہ دیا۔ جان چلی اور نامراد چلی، آنکھیں ایک دفعہ اس لال کی صورت دیکھ لیتیں اور ہمیشہ کو بند ہو جاتیں۔ عمر تھوڑی دیر کو اسے ملا دیتی اور ختم ہو جاتی۔ رخصت کا وقت آ پہنچا اور اے احسن اس وقت تک خبر نہ لی۔ دنیا تیرے فراق نے دوزخ بنا دی۔ حال سے بے حال، صورت سے بے صورت، پھول سے پتھر، آدمی سے جانور، جو کچھ کہ ہونا تھا سب کچھ ہو گئی۔ پردہ ٹوٹا، عزیز چھوٹے، گھر کے بدلے جنگل ملا، تکیوں کے بدلے پتھر ملے، مگر نہ ملنا تھا تو احسن جس کے کارن جوگ لیا۔ کیا خبر تھی کہ تقدیر ان بے دردوں کے پھندے میں پھنسا دے گی اور مجھ بے گناہ کو دیوی کے بھینٹ چڑھا دیں گے۔ “اے خدا کے بندو! مجھ دکھیاری پر رحم کرو، یہ دل جو آج تمھارے ہاتھوں بجھتا ہے، بڑے بڑے ارمانوں سے لبریز ہے۔ میں مامتا کی ماری اس لال سے چھوٹی ہوں، جو چار ساڑھے چار برس میرے سینہ پر لوٹا ہے۔ میری بپتا سنو اور مجھ کو چھوڑ دو، شاید کہیں صورت دیکھ لوں”۔
ابھی جوگی کچھ جواب دینے نہ پائے تھے کہ برابر سے ایک شخص نکلا اور ٹکٹکی باندھ کر شعبانہ کو دیکھا۔ مظلوم کی گریہ و زاری پر غریب کا دل پسیجا۔ ٹھٹکا اور ٹھٹک کر قریب آیا۔ ایک سکتہ کی حالت تھی۔ قریب پہنچ کر تصویر کی طرح کھڑا ہوگیا۔ نگاہ شعبانہ کے چہرے پر جمی ہوئی تھی اور پاؤں زمین پر گڑے ہوئے۔ کچھ دیر تک اسی عالم میں کھڑا رہا اور پھر اس طرح پوچھا:
“کیا ہوا مائی کیا ہوا؟ کہاں سے آئی؟ کدھر چلی؟ کیا بپتا پڑی؟”
حسرت بھری نگاہیں سنتے ہی اوپر اٹھیں اور اس شخص کے چہرہ پر جا پڑیں۔ ایک موثر سماں تھا کہ شعبانہ دیکھتے ہی جھپٹی اور چیخ مار کر دوڑی، لپٹی اور یہ کہہ کر بے ہوش ہو گئی:
“اے لال!”
جوگیوں کے یہ دیکھ کر اوسان جاتے رہے، ایسے بھاگے کہ پلٹ کر نہ دیکھا۔ کہیں ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد جا کر شعبانہ کو ہوش آیا تو کیا دیکھتی ہے کہ بچے کی گود میں سر ہے اور بارہ برس کا بچھڑا ہوا لال گوہر مقصود جوگن ماں کی حالت دیکھ دیکھ کر آنسو بہا رہا ہے۔ بے اختیار ہو کر کلیجے سے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اٹھنا چاہتی تھی مگر نہ اٹھ سکی۔ فرط محبت اور مامتا کا جوش دیوانہ بنا رہا تھا۔ آنکھ سے زار قطار آنسو بہ رہے تھے کلیجے پر سر رکھا اور پھر بے ہوش ہوگئی۔ پھر سوا پہر تک یہی حالت رہی، ہوش آجاتا، صورت دیکھتی، پیار کرتی، بلائیں لیتی اور پھر نڈھال ہو کر گر پڑتی۔ دوپہر کے وقت اٹھ کر بیٹھی اور تمام رام کہانی سنائی۔ احسن کا دل تو ماں کی صورت دیکھتے ہی بگڑ گیا تھا۔ حال سن کر تو اور بھی بے اختیار ہو گیا۔ ہاتھ چومے، پاؤں چومے اور شروع سے سارا حال کہہ سنایا۔ چار پانچ برس کا بچہ جدائی کا وقت خواب سا یاد ہوتا۔ مگر اس نے تو حرف بہ حرف تمام کتاب پڑھ ڈالی۔ فیروزہ بالکل بے گناہ تھی۔ دروازے پر آیا تھا فقیر، بچہ کو دیکھا پہنے اوڑھے، بہانہ سے لے سیدھا ہو لیا اور بنگال کے جنگلوں میں چھوڑ رخصت ہوا۔ وہ دن اور آج کا دن، ادھر شعبانہ ادھر احسن دونوں ماں بیٹے مچھلی کی طرح تڑپتے تھے۔ شعبانہ تو خیر مامتا کی ماری تھی، مگر احسن مُردوں سے بدتر تھا۔ بہتیرا سوچتا تھا، نہ شہر یاد آتا تھا نہ رستہ، ایک اس ماں کی صورت البتہ یاد تھی، جس کی گود میں چار پانچ برس پلا اور بڑھا۔
ختم شد