ایک آواز۔
پوربوں میں دھول دھول سورجوں کے گردباد بجھ گئے۔
شام بے لباس ہے
اور اس کی کوہ کوہ چھاتیوں پہ آسماں جھکا ہوا
گھونٹ گھونٹ پی رہا ہے کپکپاتی آنکھ سے
بے نمود روشنی کی لذتیں
آ کہ یہ عبادتوں کا وقت ہے
اے عظیم باپ تو
ہمیں ہمارے بنجروں کے سہم سے نجات دے
یہیں کہیں
ہزار بجلیاں ہوا کی مٹھیوں میں بند ہیں
کھڑے ہیں اپنے آپ سے جدا، ہم اپنے سامنے نہ جانے عکس۔
آئینے کی پیاس کب مٹائے گا
اے عظیم باپ تو
ہمیں بجھا۔۔ ۔۔ کہ پوربوں کی آندھیاں
ہماری زرد راکھ کے لباس کو اتار دیں
دوسری آواز۔۔ ۔۔
قدیم جسم دلدلوں کی شام میں
غروب ہو چکا ہے۔۔ ۔۔ دیکھتے نہیں ؟
لہو کی روشنائی سے زمین کی جبین پر
لکھی ہوئی شہادتیں
اے عظیم موت! تو گواہ رہ
وہ کہ جن کی گردنوں سے خوف کی رسولیاں
لٹک رہی تھیں
بے نشان ہو چکے !
دھوپ اور سارس
لہو کی شاخوں سے اس کے اعضاء لٹک رہے تھے
زمیں کے اوپر
پرانا سارس جھکا ہوا روشنی کے
کیڑوں کو کھا رہا تھا
ہم اپنے چہروں پہ شام کی راکھ مل چکے تھے
وہ اپنی آنکھوں کے تہ خانے میں زینہ زینہ اتر رہا تھا
ہرے گلاسوں سے تیز خوشبو کی جھاگ کے بلبلے اڑا کر ہوا کی دلہن
ہمارے کپڑوں کو چھو کے گزری
تو یوں لگا۔۔ ۔۔ یوں لگا کہ جیسے
دیا سلائی کی شرشراتی ہوئی زباں نے
اچانک انگلی کو ڈس لیا ہو
تو اس نے سوچا
ہری ہری شادیوں کے موسم میں
اس کے چہرے پہ بد شگونی کی میل کیوں ہے
گلی کے لڑکوں کی تیز و تازہ، مہکتی آواز کے غبارے
فضا کو رنگیں بنا رہے ہیں
جوان بوتل کے سرخ ہونٹوں سے
قہقہوں کا سنہرا پانی ابل رہا ہے
مگر وہ خوشیوں سے بے تعلق
کسی اندھیرے محاذ پر جنگ لڑ رہا ہے
عجیب نمکین ذائقہ ہے
پرانے دشمن کے خون کا۔۔ ۔۔ دانت
اس کے اپنے ہی بازوؤں میں
گڑے ہوئے ہیں
٭٭٭