زندگی ایک قید ہے۔۔۔۔پنجرہ،۔۔۔معلوم نہیں کب موت آئے گی اور اس سے جان چھوٹ جائے گی۔۔۔اور یہ جو تاریکی میں گھٹی گھٹی زندگی گزر رہی ہے اس کا خاتمہ ہی شاید مجھے سکون کے پل فراہم کر دے گا۔ابا جی کی وفات کے بعد ہی میں ایسا سوچنے لگا تھا۔کڑی محنت جھیلنا پڑ رہی تھی تب زندگی کی گاڑی چل رہی تھی ۔چاچے تو اچھے ہوتے ہیں مگر ابا کی وفات کے بعد سارے چاچوں کو معلوم نہیں کیا ہوجاتا ہے،وہ بھی آنکھ بدل دیتے ہیں۔مگر مجھے اپنے چاچوں سے یہ شکایت نہیں تھی،میرا شکوہ تو اس غربت سے تھا جس کے بادل میری طرح ان پر بھی کھل کر برس رہے تھے۔ ایسے میں بھلا وہ میر ی گاڑی کو کیا سہارا دیتے،ایک ماموں رہ گئے تھے وہ نہ ہوتے تو میری ماں کو اپنی بیوگی اور چار بچوں کا ساتھ بہت بھاری محسوس ہوتا اور بڑا بیٹا ہونے کے حوالے سے مجھے بھی ماں کا سہارا بننا تھا اور تین بہن بھائیوں کی پرورش میں ماں کا ہاتھ بٹانا تھا اور یہ بار میرے ناتواں کندھوں کے تناسب سے بہت بھاری تھا۔
اماں کی باتیں جہاں مجھ میں توانائی بھر رہی تھیں وہیں میری رہبر بھی رہیں ”بیٹا یہ کڑا وقت بھی کٹ جائے گا۔رات کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو سورج کی ایک کرن اس کا اندھیرا ختم کرنے کے لیے بہت ہوتی ہے”مگر مجھے یقین نہ آتا،ابا کو گزرے دو سال ہو گئے تھے۔میں تو دس برس کا ہوگیا مگر حالات جوں کے توں رہے،تبدیلی آئی تو بس اتنی کہ حالات بد سے بدترین ہوتے چلے گئے۔شازیہ، ابا کی موت کے تیسرے مہینے پیدا ہوئی،اس معصوم نے تو ابا کی صورت تک نہیں دیکھی،ہاں مفلسی،غربت اور مفلوک الحالی کے ساتھ ساتھ بے بسی،لاچارگی اور مجبوری کی صورتوں کو اپنی مکمل رعنائی سمیت دیکھ لیا تھا۔حامد دو برس کا تھا جب کہ ریحانہ چھ خزاں رسیدہ بہاریں دیکھ چکی تھی۔میں نے چاچا کے ساتھ منڈی جانا شروع کر دیا تھا۔صبح سویرے منڈی جاتا اور شام ڈھلے تھکا ماندہ گھر کو لوٹتا۔دن بھر پلاسٹک کے لفافے بیچا کرتا اور شام کو باسی سبزی اور گلے سڑے پھل لے کر گھر لوٹ آتا۔
”کیا یہی زندگی ہے؟”
”کیا زندگی اسی کا نام ہے”
”اسی کو جینا کہتے ہیں؟”
”کیا سب کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے”؟
میرے معصوم ذہن میں فلسفیانہ خیالات مسلسل چکر کاٹتے رہتے تھے کہ لفافے بیچتے ہوئے ایک دن میں نے دیکھا کہ موٹر سائیکل سوار آکر رکا جس کی عمر چالیس بیالیس سال ہو گی اور اس کے ساتھ میری عمر کا بچہ جو یقینا اس کا بیٹا ہوگا۔سبزی خریدنے کے لیے منڈی کی جانب بڑھے۔اپنے لفافے بیچنے کے لیے میں ہر گاہک کی طرف بڑھا کرتا تھا اسی ارادے سے میں ان کے پاس گیا کہ جیسے ہی وہ کچھ خریدیں میں سبزی کے لیے اپنا لفافہ پیش کروں۔باپ اپنے بیٹے سے ہم کلام تھا۔
”دیکھو زندگی مشکل ہے”پھولوں کی سیج نہیں۔
مگر تمہیں اپنا آپ بہتر بنانا ہے”
”اس قابل کہ تم زندگی کی کڑی دھوپ میں چلنے کے قابل ہوسکو”
بیٹا اپنے باپ کی باتیں اتنے انہماک سے نہیں سن رہا تھا،جتنے غور اور شو ق سے میں کان دھرے ہوئے تھا،اور اس قدر غر ق تھا کہ اپنے لفافے بیچنا بھول گیا تھا۔وہ آدمی سبزی کی دکان پر رکا سبزی کے بھاؤ پوچھے اور کچھ سبزیاں تولنے کا کہا۔دکان دار نہایت مستعدی سے اس کے اشاروں پر عمل کرتا چلا گیا۔مجھے یہ سب کچھ بہت گراں گزر رہا تھاحالانکہ اس سے پہلے یہ میرے لیے ایک معمول کی بات ہوتی اور ساتھ خوشی کا لمحہ بھی ہوتا کہ دوتین پلاسٹک کے لفافے بِک جایا کرتے تھے۔مگر آج میرا ذہن بٹا ہوا تھا۔مجھے اس آدمی کو دیکھ کر اس کمی کا احساس ہر گز نہیں ہوا کہ میرے والد نہیں ہیں بلکہ میں سننا چاہتا تھا کہ اس مشکل زندگی کو بدلا کیسے جا سکتا ہے۔۔خود کو بہتر بنانے کا طریقہ کیا ہوگا۔سو میں غور سے اسی آدمی کی طرف دیکھ رہا تھا جو سبزی لینے کے بعد رقم بھی ادا کر چکا تھا اور اب ایک لفافے کی تلاش میں تھا۔
”لفافہ تھمانا بیٹا۔۔۔۔۔”
”ارے تمہیں کہہ رہا ہوں ایک لفافہ دینا”
وہ مجھ سے مخاطب تھا مگر مجھے تو جیسے آواز ہی نہیں آرہی تھی اس لیے اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے جھنجھوڑا اور دوبارہ لفافے کا مطالبہ کیا۔
جی جی۔۔۔۔صاحب یہ لیں۔۔۔بڑے والا چاہئے یا یہ چھوٹے والا؟میں بوکھلاہٹ میں بولا،
ایسا کرو، دو چھوٹے لفافے دے دو۔وہ آدمی بولا۔
لفافے لے کر اس میں اپنا سامان ڈالا مجھے مطلوبہ رقم ادا کی اور ایک لفافہ بیٹے کو تھمایا اور ایک(جس میں سامان زیادہ تھا)خود اٹھا کر اپنے سکوٹر کی جانب روانہ ہوگیا،اور میں تھوڑے فاصلے سے ساتھ ساتھ آگے بڑھا وہ آدمی گویا ہوا۔”بیٹا تم سوچو تم کیسے خود کو اعلیٰ بنا سکتے ہو؟”
اس کے دس سالہ بچے نے مستفسرانہ نگاہوں سے باپ کو دیکھا۔
بیٹا آپ کو اس حقیقت کا شعور ہونا چائیے کہ جب سے دنیا بنی ہے وحشی نسلوں کو چھوڑ کر دنیا پر علم نے حکمرانی کی ہے۔اگر تم علم حاصل کرنے کا راستہ اختیار کرو گے، محنت سے دل لگا کے پڑھو گے تو تمہیں روزگار کے مواقع بھی ملیں گے اور تم کاروباری دنیا میں بھی اپنے قدم جما سکو گے اس طرح ایک خوشحال اور معزززندگی تمہارا مقدر ہوگی۔
باپ بیٹا موٹر سائیکل پر سوار ہوکر چلے گئے مگر میں کچرے کے ڈھیر کے پاس بیٹھا رہا اور سوچتا رہا، مایوسی کا اندھیرا کبھی شدت اختیار کرتا کبھی اس میں سے امید کی کرن دکھائی دیتی۔مجھے یہ تو معلوم ہوگیا تھا کہ اگر حالات کو تعلیم کے ذریعے ہی بدلا جا سکتا ہے تو میرے لیے ناممکن ہے کیونکہ محنت مزدوری نہیں کروں گا تو گھر کی دال روٹی کیسے پوری ہوگی، سکول جاؤں گا تو کتابوں، کاپیوں اور فیس کے پیسے کون دے گا۔ ان ہی خیالات میں الجھتے الجھتے مجھے شام ہوگئی اور میں چاچا کے ساتھ گھر آگیا۔رات کھانا کھانے کے بعد کھلے آسمان تلے چارپائی پر لیٹے دور چاند کو تکتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ جیسے یہ چاند مجھ سے بہت فاصلے پر ہے اور درمیان میں ہزاروں کلو میٹر پر محیط تاریک رات۔۔۔۔ایسے ہی خوش حال زندگی تک پہنچنا ناممکن ہے۔کیونکہ اس زندگی کے راستے میں مایوسی کے گہرے بادل ہیں۔
”اماں!میں پڑھنا چاہتا ہوں”
صبح جاگتے ہی میں نے اماں سے اپنی حالت کی تبدیلی کے واحد سہارے کا اظہار کیا۔رات کے بچے ہوئے چاول صبح ناشتے کے لیے گرم کرتے ہوئے اماں اوپلوں کی آگ کو پھونکیں مار رہی تھیں۔ان کی آنکھیں دھوئیں کی وجہ سے نمناک تھیں یا میری پڑھائی والی بات کے بعد انہیں رونا آگیا تھا۔مجھے نہیں پتہ،میری ماں کچھ نہ بولی۔مگر ان کی خاموشی نے ان کی بے بسی کو بیان کر دیا تھا۔صبح منڈی کی طرف جاتے ہوئے میں ان بچوں کو لاچارگی سے دیکھ رہا تھا،جو بھاری بستے،تختیاں،سلیٹیں اٹھائے سکول کی طرف رواں دواں تھے اور ان کو دیکھ کر رشک و حسد کی ایک چنگاری میرے تن من کو جلا کر راکھ کرنے کے لیے کافی تھی۔ سب ہی آگے بڑھ جائیں گے۔کوئی اپنی غربت مٹا دے گا۔کوئی کامیاب زندگی میں قدم رکھے گا۔کوئی ترقی کے بام کو چھو لے گا۔ایک میں ہوں کہ ہزار چاہنے کے باوجود کچھ بھی نہ کر پاؤں گا۔
مسائل کو حل کرنے کے لیے یا کم کرنے کے لیے وسائل کس قدر ضروری ہیں۔یہ عقدہ مجھ پر بچپن میں ہی کھل چکا تھا،اور مسائل کو حل کرنے کے لیے وسائل کا نہ ہونا خود مسائل سے بڑھ کر ایک المیہ ہے۔یہ راز بھی اوائل عمر میں ہی مجھ پر عیاں ہو چکا تھا۔مگر وسائل نہ ہونے کے باوجود آگے بڑھنے اور بہتر سے بہترین تلاش کرنے کا جذبہ اور بالآخر منزل پا لینے کی لگن معلوم نہیں کب میرے دل نے خود ہی ایجاد کر لی۔ محنت مزدوری کر کے اگر گھر بار کو مشکل سے چلایا جا سکتا ہے تو زیادہ محنت اور زیادہ مزدوری کر کے ٹیوشن لے کر تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا جا سکتا ہے۔میں مزدور سے منشی ہوگیا۔مڈل،میٹرک،ایف۔اے اور بی۔اے پرائیویٹ کیا۔
ارے مانی۔۔۔۔۔۔اٹھ جا۔۔۔”
مالک یہ تو بہت دیر سے سجدے میں ہی ہے۔اک مزدور بولا۔
منڈی کا مالک یہ سن کر بولا۔”عمران اٹھ جا بیٹے۔۔۔تو تو زمین پر خاک میں سجدہ ریز ہوا ہے۔۔۔
یہ کہہ کر منڈی کے مالک شیخ عطا وہیں زمین پر بیٹھ گئے اور میرے کاندھوں کو جھنجھوڑنے لگے۔۔۔انہوں نے ہاتھوں کی مضبوط گرفت سے مجھے اٹھایا۔میرا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔
ارے توُ تو رو رہا ہے۔۔کیوں کیا ہوا۔۔مالک نے حیرت سے پوچھا۔
میں انہیں کیا سمجھاتا کہ سی۔ایس۔ایس میں ٹاپ کرنے والا غریب عمران سجدے میں پڑا کیوں رو رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...