’’مگر… میں… کوئی تو جگہ ہو میرے لئے۔ کیا نیا دھرم مجھے پناہ نہیں دے گا؟‘‘ اس نے کہا۔
’’کیوں نہیں۔ تمہارے بارے میں ہم نے فیصلہ کرلیا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’کنور ریاست علی کو تم جانتی ہو۔ بھرا پرا گھرانہ ہے ان کا، اور پھر جب انہیں یہ معلوم ہوگا کہ تم مسلمان ہوگئی ہو تو اتنا احترام ہوگا تمہارا ان کے گھرانے میں کہ تم سوچ بھی نہیں سکتیں۔ بعد میں ہم کوئی مناسب حل نکال لیں گے۔‘‘
’’نہیں، مہاراج نہیں۔ ایسا نہ کرو مہاراج۔ مجھے آپ کی پناہ چاہئے۔ میں ڈر کے مارے مر جائوں گی۔ آپ اسے پوری طرح نہیں جانتے مہاراج، آپ اسے پوری طرح نہیں جانتے۔ یہاں اس جگہ، بس اس جگہ میں محفوظ ہوں ورنہ جب اسے یہ پتہ چلے گا کہ میں…‘‘ وہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا کر سسکنے لگی۔ بُری طرح خوفزدہ تھی بے چاری۔ میں نے پریشان نگاہوں سے اکرام کو دیکھا تو اکرام نے کہا۔
’’ٹھیک ہے مسعود بھائی۔ کچھ وقت گزر جانے دیں۔ آیئے چلیں۔‘‘ ٹھیک ہے عارفہ تم آرام کرو۔ میں نے تعجب سے اکرام کو دیکھا لیکن کچھ کہا نہیں، اور ہم وہاں سے واپس آ گئے۔ اکرام بولا۔ ’’تو پھر کیا ارادہ ہے، کیا فیصلہ کیا۔‘‘
’’اب تم ہی بتائو، کتنا وقت گزارنا چاہتے ہو۔ تمہارے ذہن میں کیا منصوبہ ہے۔‘‘
’’مم۔ میرے ذہن میں؟‘‘ اکرام حیرت سے بولا۔
’’تم نے اچانک اس کے پاس سے واپس آنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں سمجھا تم نے کچھ سوچا ہے۔‘‘
’’میں نے فیصلہ کرلیا؟‘‘ وہ اور حیرت سے بولا۔
’’تم نے کہا تھا نا کہ کچھ وقت گزر جانے دیں۔ اور پھر تم نے کہا تھا کہ آیئے چلیں۔‘‘
’’مم… میں نے…!‘‘ اکرام پریشان ہوگیا۔ اچانک ہی میرے ذہن کو جھٹکا لگا۔ اکرام کے انداز سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ اپنے کہے وہ الفاظ نہیں جانتا، کچھ سوچ کر میں نے پھر کہا۔
’’ایک بات اور بتائو اکرام…‘‘
’’جی مسعود بھائی؟‘‘ وہ پھولے ہوئے سانس کے ساتھ بولا۔
’’تم نے عارفہ کے یہاں قیام کی سفارش بھی کی تھی۔ کیا تم نے یہ بھی نہیں کہا تھا کہ وہ جو پرانا حجرہ پڑا ہے، صحن مسجد سے الگ تھلگ اگر آپ خاموشی سے اسے کچھ وقت کے لئے وہاں رہنے دیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
’’خدا کی قسم مسعود بھائی۔ مجھے بالکل یاد نہیں ہے۔ نہ میں آپ کے سامنے بولنے کی جرأت کر سکتا ہوں۔ چہ جائیکہ کسی کی ایسی سفارش۔‘‘
’’تب سب ٹھیک ہے۔ بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’لیکن مسعود بھائی۔‘‘
’’کچھ نہیں اکرام، میرا بھی یہی خیال ہے کہ ابھی عارفہ کو یہیں رہنے دیا جائے۔‘‘
مغرب کی نماز میں کنور صاحب بھی آئے تھے۔ نماز کے بعد کچھ دیر نشست رہی، پھر انہوں نے جوالاپور کے حالات بتائے۔
’’آج تو پورے شہر کی دُکانیں کھلی ہیں۔ کاروبار بھی ہوئے ہیں، اب پولیس اپنا کام کر رہی ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’جو پولیس کا کام ہوتا ہے۔ معلومات اور پھر پکڑا دھکڑی۔ میں نے کچھ لوگوں کو مقرر کر دیا ہے کہ مسلمانوں کا خیال رکھیں۔ دو وکیل بھی ضمانتوں کے لئے حاصل کرلئے ہیں۔ انصاف ہونا چاہئے۔ بلوہ ہوا ہے انفرادی جھگڑا تو نہیں ہے کہ کسی کو نامزد کیا جائے۔ مگر پولیس کے مفادات کے بارے میں سب جانتے ہیں۔‘‘
’’بھائی چارہ کمیٹی کیا کر رہی ہے؟‘‘
’’کام کر رہی ہے۔ ہندو، ہندوئوں کو سمجھا رہے ہیں کہ کسی مسلمان کا جھوٹا نام نہ لیا جائے اور اثر ہوا ہے۔ ویسے ایک بات اور ہوئی ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’بے چارے بابو مول چند پر سے ہندوئوں کا اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ بعض کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کا پٹھو ہے۔‘‘
’’ہاں اسے سب سے زیادہ نقصانات اُٹھانے پڑے ہیں۔ بہرحال آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’آپ کے دم کی رونق رہنی چاہئے شاہ صاحب۔ ہمیں بس آپ کی ضرورت ہے…‘‘ کنور صاحب کو میں نے اس سے زیادہ کچھ نہیں بتایا تھا۔ اب ضرورت نہیں رہ گئی تھی کہ عارفہ کے بارے میں کچھ کہا جائے۔ جو کچھ اکرام کے ذریعہ کہلوایا گیا تھا، وہ میرے لئے باعث اطمینان تھا۔ اکرام دونوں بار جو کچھ بولا تھا، وہ نہ اس کی زبان تھی نہ اس کے الفاظ، کوئی اور ہی بولا تھا اس کی آواز میں۔‘‘
کنور ریاست چلے گئے۔ عشاء کے بعد مکمل فراغت تھی لیکن ساڑھے دس بجے ایک اور گل کھلا۔ اکرام نے بابو مول چند کومسجد کے دروازے میں کھڑے دیکھا تھا… وہ چونک کر اس کے پاس پہنچ گیا۔ میری نظر بھی اسی طرف اُٹھ گئی تھی… میں بھی جلدی سے آگے بڑھا اور اس کے پاس آ گیا۔ مول چند کے چہرے کے تاثرات نظر نہیں آ رہے تھے لیکن جس طرح وہ کھڑا ہوا تھا، اس سے احساس ہوتا تھا کہ اس کا وجود ریزہ ریزہ ہو گیا ہے۔ وہ غم و اندوہ میں ڈُوباہوا ہے۔ میں نے اسے آواز دی تو وہ ایک قدم آگے بڑھ کر بولا۔
’’شاہ صاحب، میں اندر آنا چاہتا ہوں۔‘‘ عجیب سی آواز تھی، بڑا پُردرد لہجہ تھا۔ اس کے علاوہ اس نے مجھے مہاراج کے بجائے شاہ صاحب کہہ کر پکارا تھا۔ یقیناً پہلی بار۔
’’آئو مول چند۔ میں تمہیں پہلے بھی اندر بلا چکا ہوں۔‘‘
’’ایسے نہیں شاہ صاحب۔ ایسے جیسے اسے یہاں جگہ ملی ہے۔‘‘
’’کسے؟‘‘
’’عارفہ کو…‘‘
’’کیا مطلب…؟‘‘
’’نہا دھو کر آیا ہوں۔ اسی ترکیب سے جو آپ نے اسے بتائی تھی۔‘‘
’’مول چند!‘‘ میں شدید حیرت کے عالم میں بولا۔
’’ہاں مہاراج، اکیلا رہ گیا ہوں بالکل اکیلا رہ گیا ہوں، اب تو کوئی بھی میرا ساتھی نہیں ہے، کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتا مہاراج، آپ ہی اپنا لیجئے مجھے…‘‘
’’یعنی کہ تم، یعنی کہ تم…‘‘
’’آپ کے دھرم میں آنا چاہتا ہوں شاہ صاحب۔ بتایئے کیا کروں دھرم ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر، کس کے ساتھ جیوں، وہ بھی آپ کی ہوگئی جس سے جیون بھر کا ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا تھا، آپ کے چرنوں میں آ گئی وہ شاہ صاحب، مجھے بھی تھوڑی سی جگہ دے دیجئے، سچ کہہ رہا ہوں جگہ چاہتا ہوں آپ کے چرنوں میں پورے خلوص کے ساتھ ان تمام جذبوں کے ساتھ جو انسان کے دل میں جاگتے ہیں اور اس طرح میں ایک بار پھر اس کے قریب ہو سکوں گا، بڑا پریم ہے مجھے اس سے، بات ہی ختم ہو جائے گی۔ اس کا من بھی صاف ہوجائے گا۔ سوچے گی وہ کہ اب نیا دھرم نیا کرم، نہ وہ وہ رہے گی اور نہ میں میں، لیکن یہ دھرم مجھے اس کا ساتھ دے دے گا، ساتھ دے دے گا مجھے اس کا…‘‘ مول چند کا لہجہ اس طرح ٹوٹا ہوا تھا کہ میرا دل بھی بھر آیا اور میں غمزدہ ہوگیا۔ میں نے آہستہ سے اس سے کہا۔
’’اندر آ جائو، اب تو تمہیں مول چند کہنے کو جی بھی نہیں چاہتا۔‘‘ مول چند میرے ساتھ اندر داخل ہوا لیکن نہ میں نے اور نہ ہی اکرام نے سوریہ کرن کو دیکھا تھا جو نجانے کس وقت اپنی جگہ سے نکل کر ہمارے عقب میں آ کھڑی ہوئی تھی، جیسے ہی مول چند نے آگے قدم رکھے اس نے ایک چیخ ماری اور روتی ہوئی مول چند سے لپٹ گئی۔ وہ مول چند کے قدموں سے اپنا چہرہ رگڑ رہی تھی اور اس کے حلق سے عجیب و غریب آوازیں نکل رہی تھیں۔ میں نے حیران نگاہوں سے اسے دیکھا، مول چند بھی ہکّا بکّا رہ گیا تھا۔ وہ جلدی سے اس کے قریب بیٹھ گیا اور زور زور سے چیخنے لگا۔
’’سوریہ، سوریہ، سوریہ کرن، ارے ارے سنبھال خود کو سوریہ، ارے کیا کر رہی ہے بائولی، اری سوریہ، ناں ناں عارفہ، عارفہ یہ یہ تو سن، سن تو سہی، میرا تیرا اب کوئی سمبندھ نہیں ہے، عارفہ عارفہ۔‘‘
’’ہے مول چند، ہے بابو جی، پورا پورا سمبندھ ہے، ہائے مجھے کیا ہوگیا۔ ہائے میں تو کہیں کی بھی نہ رہی، ہائے میں ٹھیک ہوگئی، بابوجی میں ٹھیک ہوگئی، تمہاری سوگند، بھگوان کی سوگند، ٹھیک ہوگئی میں، بھگوان کی سوگند میں ٹھیک ہوگئی۔ ہائے رام یہ سب کچھ کیا ہوگیا تھا مجھے، کیا ہوگیا تھا۔‘‘ میں اور اکرام پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ سوگند، بھگوان، رام وہ ایک دَم بدلی بدلی نظر آنے لگی تھی۔ مول چند اسے بازو سے پکڑ کر سیدھا کرنے لگا۔ بڑی مشکل سے اس نے سوریہ کو سنبھالا، وہ وہیں بیٹھ گئی تھی۔ اس نے کہا۔
’’پاپوں کا گھڑا بھر چکا ہے میرا، بھر چکا ہے میرے پاپوں کا گھڑا، اب کب تک، کب تک جھوٹ بولتی رہوں، ہائے میرا اب بھی کوئی دوش نہیں ہے۔ میں اس پاپی کے پھندے میں ایسی پھنسی ہوں کہ، مگر سنئے، سنئے مہاراج، سنئے غور سے سنئے، ہوسکتا ہے ایسا سمے دوبارہ کبھی نہ آئے، بتانا چاہتی ہوں آپ کو کچھ بتانا چاہتی ہوں، سن لیجئے میری مہاراج، سن لیجئے، بھگوان آپ کا بھلا کرے گا۔‘‘
’’بھگوان نہیں عارفہ، اللہ کہو، اللہ…‘‘
’’کہوں گی، کہوں گی مگر اب سچے من سے کہوں گی، اب جو کچھ ہو گا سچّے من سے ہوگا۔ اب تک جو ہوتا رہا ہے وہ سچّے من سے نہیں ہوا۔ معاف کر دیں، معاف کر دیں، مجھے معاف کر دیں، شاہ صاحب مجھے معاف کر دیں، بڑی بھول ہوئی ہے۔ بڑا بُرا کام کیا ہے میں نے مگر آپ اللہ کی، بھگوان کی جس کی چاہیں سوگند لے لیں یا اس سے بڑی سوگند میں کسی اور کی نہیں کھا سکتی، اپنے بابو جی کی سوگند، اب میں جو کچھ کہہ رہی ہوں سچّے من سے کہہ رہی ہوں اور آپ اس پر پورا پورا یقین کریں گے، پورا وشواس کریں گے مجھ پر…‘‘ میرے سر میں کھجلی ہونے لگی تھی۔ عارفہ یا سوریہ کرن کے الفاظ کچھ اور ہی بتا رہے تھے، بات آہستہ آہستہ میری سمجھ میں آتی جا رہی تھی مگر انتہائی حیران کن؟ ناقابل یقین، خود مول چند بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا، سوریہ کرن زار و قطار رو رہی تھی۔ پھر اس نے کہا۔
’’اس پاپی نے مجھے اپنے جال میں پھانس لیا تھا، میں ہوش میں ہو کر بھی بے ہوش تھی۔ سب سمجھتی تھی مگر کچھ نہیں کر سکتی تھی، اپنے پتی سے پریم کرتی تھی میں، مگر میرا کلیجہ اس کی مٹھی میں تھا، اس کے بس میں تھی میں، پھر جب جوالا چوک پر اس کا منہ کالا ہوا تو وہ ترکیبیں کرنے لگا اور اسی نے مجھ سے کہا کہ میں مسلمان ہونے کا ڈھونگ رچائوں اور یہ سب کچھ۔ مگر میرا پتی، میرا بابو جی، اس کا سفلی علم میرے بابوجی کے پریم کے آگے ہار گیا۔ میرا من ایک دَم صاف ہوگیا۔ بابو جی مسلمان ہونا چاہتے ہیں، میرے لئے تو مہاراج مجھے بھی اب سچّے من سے اللہ کی پناہ میں لے لو۔‘‘
اچانک ہی میرے بدن میں چنگاریاں دوڑ گئیں۔ اتنا شدید غصہ آیا مجھے کہ میرا دماغ تاریک ہوگیا۔ یہ سب کچھ مسجد میں ہو رہا ہے۔ اس نے مجھے اس طرح دھوکا دیا ہے، اللہ کے نام پر۔ میں نے سوریہ کرن کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’اس کے بعد، سن لے سوریہ کرن، اور تو بھی سن لے گرج ناتھ سیوک۔ اس کے بعد اگر دین کے نام پر کوئی فریب کیا گیا مجھ سے تو، پہلے میں ان دونوں سے اپنی جنگ کا آغاز کروں گا۔ زندہ جلا دوں گا ان دونوں کو۔ پھر تیرے مایا مکنڈل آئوں گا اور کسی پر رحم نہیں کروں گا۔ کوئی رحم نہیں کروں گا۔ سوریہ، مجھ سے جھوٹ مت بولنا، ایک ایک لفظ سچ بتائے گی تو… جو کہے گی سچ کہے گی۔ تو نے کلمہ پڑھا ہے میرے سامنے اور مرتد ہوئی ہے۔ تجھے قتل کرنا مجھ پر فرض ہے لیکن سنوں گا، تیری کہانی سنوں گا۔‘‘
’’نہیں شاہ صاحب۔ اب خدا کی قسم جس کا کلمہ میں نے پڑھا ہے جس نے مجھے میرا سنسار واپس کیا ہے، اس اللہ کی قسم، اس کے جال میں آ کر کلمہ پڑھا تھا۔ اب سچّے دل سے پڑھ رہی ہوں۔ بالکل سچّے دل سے، مجھے وہ میٹھے بول یاد ہیں۔ مجھے وہ سب کچھ یاد ہے۔ وہ کلمہ پڑھنے لگی۔ بار بار پڑھنے لگی۔ اس کی آواز میں تیقن تھا۔ کلمہ اس کے ہونٹوں پر سچ بن کر چمک رہا تھا اور بے اختیار بابو مول چند بھی کلمہ دُہرانے لگا۔ وہ دونوں آنکھیں بند کئے وجد میں کلمۂ طیبہ کا ورد کر رہے تھے اور میں اپنے گرد آہٹیں محسوس کر رہا تھا۔ انجانی آہٹیں جو مجھے احساس دلارہی تھیں کہ اس وقت میں اور اکرام ہی نہیں بلکہ دُوسرے گواہ بھی موجود ہیں۔ اس کا ثبوت وہ برتن تھا جو پہلے یہاں موجود نہیں تھا لیکن اب تھا اور اس میں کھجوریں بھری ہوئی تھیں۔ اکرام کی نگاہ بھی اس پر پڑی تھی اور اس نے کچھ بولنا چاہا تھا مگر میں نے اسے خاموش کر دیا۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات ہو رہی تھی، ان کے دل پگھل رہے تھے۔ نہ جانے کتنی دیر ہوگئی۔‘‘
’’اکرام پانی لائو… کنویں کا پانی لائو۔‘‘ میں نے کہا اور اکرام میری ہدایت پر کنویں سے پانی لے آیا۔ ’’عابد علی پانی پی لو۔ میں تم سے کہہ رہا ہوں بابو عابد علی۔ یہ تمہارا اسلامی نام ہے۔ پانی پی لو…‘‘ میں نے کہا اور مول چند نے پانی لے لیا۔ ’’بسم اللہ کہو۔‘‘ میں نے کہا اور اس نے احترام سے گلاس میرے ہاتھ سے لے لیا۔ بسم اللہ کہہ کر اس نے گلاس ہونٹوں سے لگا لیا اور آدھا پانی پی کر وہ رُک گیا۔ اس نے وہ پانی عارفہ کی طرف بڑھایا تو میں نے اسے روک دیا… ’’نہیں… تم دونوں ایک دوسرے کے لئے نامحرم ہو، غیر ہو اور تمہارا کوئی رشتہ نہیں ہے لیکن گھبرائو نہیں۔ میں ناقص العقل ہوں، جو کچھ میری سمجھ میں آ رہا ہے وہ کر رہا ہوں۔ میں اسی وقت اسلامی طرز پر تمہارا نکاح کئے دیتا ہوں۔ اس طرح تم دونوں مسلمان میاں بیوی بن جائو گے۔ کہو تم تیار ہو؟‘‘
’’ہاں شاہ صاحب۔‘‘ دونوں نے بیک وقت کہا۔ اکرام کو گواہ بنا کر میں نے آیات اللہ کے سائے میں دونوں کا نکاح پڑھایا اور وہ یکجا ہوگئے۔ میں نے کھجوریں تقسیم کر دیں، اور پھر میں نے کہا۔
’’مجھے بے حد مسرت ہے عابد علی۔ اللہ نے اس طرح تم دونوں کو اسلام کی سعادت عطا فرمائی۔ اس طرح بہت سی مشکلات کے دروازے بند ہوگئے۔‘‘
’’یہی منو کا منا لے کرآیا تھا شاہ صاحب!‘‘
’’آرزو کہو آرزو… خیر اب اس کے بعد جو دُشواریاں پیدا ہوں گی، ان کا کیا کرو گے؟‘‘
’’دین کی روشنی میں سب کا مقابلہ کروں گا۔ اس کے ساتھ آپ کی رہنمائی درکار ہے۔‘‘
’’دونوں اپنی آرام گاہ میں، میرا مطلب ہے اپنے گھر جائو۔ ایسی جگہ منتخب کر لو جہاں عبادت بھی کر سکو یا آج رات میرے ساتھ نماز پڑھو اور ضروری باتیں سمجھ لو۔ پھر اس وقت تک جب تک مناسب موقع نہ آ جائے، اپنے مسلمان ہونے کا اظہار نہ کرو…‘‘
’’اللہ کے دین سے زیادہ اب مجھے کچھ عزیز نہیں ہے۔ اگر اس کے لئے جوالاپور بھی چھوڑنا پڑا تو چھوڑ دوں گا، کسی ایسی جگہ اپنی کٹیا بنا لوں گا جہاں مجھے کوئی نہ جانتا ہو۔‘‘ عابد علی بولا۔
’’اِن شاء اللہ اس کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔ سمجھداری سے حالات کا جائزہ لو، وقت خود عمل متعین کرے گا۔‘‘ پھر یہ رات ان لوگوں کو ضروری ارکان سمجھاتے اور یاد کراتے گزری۔ فجر سے پہلے میں نے انہیں روانہ کر دیا۔ جاتے ہوئے عابد علی نے کہا۔ ’’اس سے خطرہ رہے گا شاہ صاحب۔‘‘
’’درود پاک کا ورد یاد رکھنا۔ کچھ نہ بگڑے گا…!‘‘ دونوں عقیدت سے گردن ہلا کر چلے گئے۔ رات بھر کی تھکن تھی لیکن دل سرور میں ڈُوبا ہوا تھا۔ نماز فجر کے لئے تیاریاں کرتے رہے۔ پھر اس سے فراغت ہوگئی۔ ایک دن دو دن تقریباً سات دن گزر گئے۔ عارفہ اور عابد علی بھی پُرسکون تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ حالات بالکل پُرسکون ہیں۔ کاروبار جاری ہو چکے ہیں۔ گرج ناتھ کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں ہوا۔ لیکن اس شام مغرب کی نماز میں پوری مسجد بھری ہوئی تھی۔ آج نمازی خصوصیت سے زیادہ تعداد میں آئے تھے۔ کنور ریاست بھی خاص طور سے مغرب کی نماز میں پابندی سے آتے تھے۔ نماز سے فراغت کے بعد کنور صاحب نے کہا۔ ’’حضور شاہ صاحب۔ کیا بات ہے آپ کے کانوں تک پہنچ گئی ہے۔‘‘
’’خیریت کنور صاحب، کون سی بات؟‘‘
’’شیطان پھر جاگ گیا ہے۔‘‘
’’سیوک۔‘‘
’’جی… ملعون سیوک۔‘‘
’’نہیں مجھے کچھ نہیں معلوم؟‘‘
’’دوپہر بارہ بجے جوالا چوک پر آ کھڑا ہوا اور اس نے یہاں کچھ اعلانات کئے ہیں۔‘‘
’’خوب، کیا؟‘‘
’’کہا ہے ہندوئو اور مسلمانو۔ جوالاپور اکھنڈ بھوانی بن کر رہے گا۔ اب بات ہندوئوں کی ہے نہ مسلمانوں کی۔‘‘ دونوں کو جوالاپور خالی کرنا پڑے گا۔ اب صرف یہاں کالی شکتی کے پجاری رہیں گے۔ جسے بھوانی کال کا پجاری بننا ہے، وہ مایا مکنڈ کے ساتھ رکھے ہوئے مٹکے سے گدھے کا پیشاب پیئے۔ اس مٹکے میں رکھے ہوئے پانی میں گدھوں کا پیشاب شامل ہے جو پینے والے کو کنتا بھوانی کا داس بنا دے گا۔ جو یہ پانی نہ پیئے گا اس پر مصیبت نازل ہوگی۔ اگر اسے مصیبت سے چھٹکارا پانا ہے تو وہ جوالاپور سے بھاگ جائے۔ ورنہ اپنا کیا بھگتے گا۔ کئی بار اس نے یہ اعلان کیا اور پھر ایک کالے گدھے پر بیٹھ کر واپس چلا گیا۔ لوگوں نے مایامکنڈل تک اس کا پیچھا کیا۔ وہ اس میں داخل ہوگیا۔
’’اوہ… خوب۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’یہ سب آپ سے ہدایت حاصل کرنے آئے ہیں۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ مدد کرے گا۔ صبر و سکون سے کام لیجئے۔ ہندوئوں کا کیا حال ہے۔‘‘
’’سخت سراسیمگی پھیل گئی ہے، بہت سے ہندو گھرانوں نے اور چند مسلمان گھرانوں نے رختِ سفر باندھ لیا ہے۔‘‘
’’باقی…؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’مسلمان آپ سے راہنمائی کے منتظر ہیں۔‘‘
’’انتظار کیجئے۔ پردئہ غیب سے امداد ہوگی۔ ہم سب کا ایمان ہے۔ مجھے حالات سے باخبر رکھئے۔‘‘
’’بہتر ہے۔ ویسے سب لوگ پریشان ہوگئے ہیں کہ جانے بدبخت کیا ارادہ رکھتا ہے۔‘‘ اس سے زیادہ نہ وہ کچھ کہہ سکے، نہ میں نے انہیں کوئی آس دلائی لیکن دُوسرے ہی دن سے گرج ناتھ سیوک کی طرف سے عمل شروع ہوگیا۔ فجر کی نماز میں تو کوئی خاص بات پتہ نہیں چل سکی لیکن ظہر کی نماز میں بتایا گیا کہ رات بارہ بجے کے بعد سے بھورتی مندر کی طرف سے مٹھ بلند ہو رہے ہیں۔ جادو کی ہانڈیاں فضائوں میں پرواز کر رہی ہیں اور ہر جگہ گر رہی ہیں۔ جوالا چوک پر چار ہانڈیاں پھوٹی ہیں۔ اس کے علاوہ کھیتوں اور کھلیانوں میں بھی مٹھ گرے ہیں، ابھی تک کوئی ردعمل تو ظاہر نہیں ہوا۔ شام کو کنور صاحب نے بتایا کہ ان کے گھر پر ایک مٹھ گرا ہے۔
پھر دو دن کے اندر انتہائی ہیبت پھیل گئی۔ کوئی سو گھرانوں میں ایک انوکھی وبا کے بارے میں اطلاع ملی۔ ان گھرانوں کے دو دو، تین تین افراد اچانک شدید بخار میں مبتلا ہوگئے اور ان کے جسموں سے پیلا پسینہ پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ ان کے جسم دیکھتے ہی دیکھتے لاغر ہوتے جا رہے ہیں۔ اسپتال اور پرائیویٹ کلینک مریضوں سے بھرتے جا رہے ہیں اور ڈاکٹر صاحبان سر کھجا رہے ہیں کہ مرض کیا ہے اور علاج کیا ہے؟ مزید دو دن کےبعد خبر ملی کہ مرض کی وجہ دریافت ہوگئی ہے۔ یہ بخار چھوٹی چھوٹی مکڑیوں کے کاٹنے سے پھیل رہا ہے۔ یہ ننھی مکڑیاں اب ہر گھر میں نظر آ رہی ہیں۔ وہ اس طرح کاٹتی ہیں کہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر کچھ ہی دیر کے بعد بخار چڑھ آتا ہے…‘‘
’’پیلی مکڑیاں…!‘‘ اس خبر نے مجھے چونکا دیا۔ ’’بھوریاچرن…‘‘ میرے منہ سے نکلا…! لیکن لیکن…‘‘
بھوریا چرن اس مسئلے میں کیسے آ گیا۔ گرج ناتھ
تو بالکل ہی الگ شخصیت کا مالک تھا۔ وہ تو خود کالے جادو کا ماہر تھا۔ اس کا بھوریا چرن سے کیا تعلق۔ اس دوران مجھے ان لوگوں کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہو چکا تھا۔ ان کے الگ الگ گروہ ہوتے ہیں۔ ہندو دھرم لاتعداد دیویوں اور دیوتائوں کا مرکب ہے۔ ان میں ان کے عقیدے کے مطابق اچھے کرموں والے بھی ہوتے ہیں اور برے لوگ بھی۔ سارا نظام ناقابل یقین عمل اور جادو ٹونوں پر مشتمل ہے۔ کوئی کالی دیوی کا پجاری ہے تو کوئی بھوانی ماتا کا۔ کوئی گودرو دھن کو گردھاری مانتا ہے تو کوئی لونا چماری کا داس۔ سب کے پنتھ الگ الگ ہوتے ہیں۔ انہی میں سے کچھ اچھے عمل کو اُلٹ کر اسے کالے جادو میں بدل لیتے ہیں اور اس کے بعد ان کے دیوی دیوتا وہ نہیں ہوتے بلکہ سب کا مسلک شیطان سے جا ملتا ہے۔ کوئی کالکا کا سیوک ہوتا ہے تو کوئی لونا پنتھی کا۔ ہو سکتا ہے گرج ناتھ کا مسلک یا نشان مکڑی ہو یا ہو سکتا ہے وہ اسی ملعون سے رابطہ رکھتا ہو۔
دل میں ایک نیا تصور پیدا ہوا تھا۔ اگر گرج ناتھ کا کسی طرح بھوریا چرن سے تعلق ہے تو اس پر ہاتھ ڈالنا ضروری ہے تاکہ بھوریا چرن کا پتہ مل سکے اور بھوریا چرن کا پتہ ملے تو بےچاری ثریا کے بارے میں کچھ معلوم ہو۔ اکرام میرے ساتھ تھا لیکن مایوسی کے عالم میں۔ وہ اپنی بہن کی تلاش کے وسائل نہیں رکھتا تھا لیکن اس کا دل اس آرزو سے کب خالی ہو گا۔
عشاء کی نماز میں مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ لوگ باغ میں بھی موجود تھے۔ خلاف معمول کنور ریاست علی بھی آئے تھے۔ مجھے احساس ہو گیا تھا کہ اتنی تعداد کیسے آئی ہے۔ نماز سے فراغت کے بعد کنور ریاست علی نے کہا۔
’’حضور شاہ صاحب۔ جوالاپور کے مسلمان سخت پریشان ہیں، رفتہ رفتہ پیلی مکڑیوں کی پھیلائی ہوئی بیماری ہر گھر تک پہنچ رہی ہے۔ مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے سب ہی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان کے جسموں کا گوشت خشک ہو رہا ہے۔ ہر گھر سے آہ و بکا کی آوازیں ابھر رہی ہیں۔ اس طرح گرج ناتھ سیوک کو کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ مسلمان مر جانا گوارہ کرتے ہیں لیکن گندا پانی پینے کو تیار نہیں ہوں گے لیکن بچوں کی بیماری نے سب کو نڈھال کر دیا ہے جب کہ بعض ہندوئوں نے نہ چاہنے کے باوجود بھوانی مکنڈل کے مٹکے سے غلیظ پانی پی لیا اور اس کا ردعمل حیرت ناک ہوا۔
’’کیا…؟‘‘ میں نے بے اختیار پوچھا۔
’’وہ صحت یاب ہو گئے۔‘‘
’’ایسے لوگ کتنے ہوں گے؟‘‘
’’کوئی دس پندرہ گھرانے۔ حضور شاہ صاحب یہ سب پریشان ہیں اور بحالت مجبوری جوالاپور چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر اس طرح اس ناپاک کا مقصد پورا ہو جائے گا۔‘‘
’’ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔‘‘ میں نے کرب سے کہا۔
’’شاہ صاحب۔ میری بیوی اور منجھلا لڑکا بھی اس بخار میں مبتلا ہو چکے ہیں۔‘‘ کنور صاحب نے کہا۔
’’کنور صاحب۔ رات بھر انتظار کر لیجئے۔ کل صبح کی نماز میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو یہاں آنے کی دعوت دیجئے۔ اِن شاء اللہ کوئی حل نکل آئے گا۔’’
’’حضور شاہ صاحب۔ ایک اور اطلاع بھی ملی ہے۔‘‘ ایک دوسرے آدمی نے کہا۔
’’کیا…؟‘‘
’’جادو کی ہانڈیاں جہاں جہاں گر کر پھوٹی ہیں وہاں کھیتوں اور کھلیانوں میں پیلی مکڑیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ وہ اناج کھا رہی ہیں اور انہوں نے ٹڈی دل کی طرح اناج کی صفائی شروع کر دی ہے۔ مزید سبزیوں میں بدبو آنے لگی ہے اور وہ سڑنا شروع ہو گئی ہیں۔‘‘
’’کل صبح تک انتظار کریں آپ لوگ۔‘‘ میں نے کہا۔
نمازی سست قدموں سے
واپس چل پڑے۔ کنور ریاست علی رکے رہے تھے۔ جب وہ تنہا رہ گئے تو بری طرح رو پڑے۔
’’ارے ارے کنور صاحب۔‘‘
’’شاہ صاحب۔ بڑا سینہ تان کر ساری آفتوں کا مقابلہ کرتا رہا ہوں مگر اب ہمت پست ہونے لگی ہے۔ جو بچہ بیمار ہوا ہے وہ میرا سب سے چہیتا بچہ ہے۔ بچپن میں بیمار پڑ گیا تھا تو پورے ہندوستان کے مزارات پر لئے لئے پھرا تھا، بڑی منتیں مرادیں مانی تھیں، پھر کہیں جا کر خدا نے اسے صحت عطا فرمائی۔ ایک ایک لمحہ پھونک پھونک کر قدم رکھتا رہا ہوں، بڑا کمزور بچہ ہے شاہ صاحب، میری ساری ہمت پست ہوئی جا رہی ہے، خدا کے لئے مجھے سہارا دیجئے۔ میں… میں شاید اس دکھ کو برداشت نہ کر سکوں۔‘‘
’’حوصلہ رکھئے کنور صاحب، یقیناً اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے گا، کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ ہاں ذرا ایک بات تو اور بتایئے۔ کیا تازہ تازہ کسی موت کی اطلاع ملی ہے آپ کو۔ میرا مطلب ہے اس بخار سے…‘‘
’’نہیں، ابھی تک کوئی نئی اطلاع نہیں ملی۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ رحم فرمائے گا، آپ صبح فجر کی نماز میں ضرور تشریف لایئے گا۔‘‘
اکرام بھی ان باتوں کو سن رہا تھا اور اتنا ہی متفکر نظر آتا تھا جتنا کہ میں… کنور ریاست علی کے چلے جانے کے بعد تشویش زدہ لہجے میں بولا۔
’’اس طرح سب کچھ مٹی میں مل رہا ہے، بات ہندوئوں اور مسلمانوں کی نہیں، انسانوں کی ہے مسعود بھائی۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ہندوئوں نے بھی بڑی عقیدت سے ہمارا ساتھ دیا ہے۔ جو لوگ مشکل کا شکار ہو کر بھٹک گئے ہیں وہ اپنی جگہ۔ لیکن آپ دیکھ لیجئے کہ رفتہ رفتہ بہت سے لوگ اس ناپاک غلاظت کو پینے پر آمادہ ہو جائیں گے جو انہیں صحت دے رہی ہے۔‘‘
’’ہاں اکرام مجھے اندازہ ہے۔‘‘ میں نے مختصراً کہا اور ایسا انداز اختیار کیا کہ اکرام اس کے بعد کچھ پوچھنے کی جرات نہ کر سکا لیکن میرے دل میں بھی ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہو رہی تھی اور اب ضروری تھا کہ میں رہنمائی طلب کروں۔ اگر کچھ نہ بن پائے تو کم از کم صبح ہونے سے قبل جوالاپور چھوڑ دوں تاکہ ان لوگوں سے شرمندگی نہ ہو جنہیں میں نے صبح کی آس دلائی تھی۔
وضو کر کے مراقبہ کرنے بیٹھ گیا۔ درود پاک کا ورد کرتا رہا اور یہی میرا سب سے بڑا سہارا تھا۔ مجھے ہمیشہ یہیں سے رہنمائی ملی تھی۔ دعا بھی کر رہا تھا کہ بار الہٰا جو منصب تو نے مجھے عنایت کیا ہے اس کی لاج رکھ، چوروں کی طرح منہ چھپا کر بھاگ جائوں گا تو نہ جانے کتنے ایمان متزلزل ہو جائیں گے۔ میں تو تیرے ہی نام کے ساتھ ہر شخص سے کوئی وعدہ کرتا ہوں۔ تیری عنایتوں کی وجہ سے جو تو نے اب تک مجھ گناہ گار پر کی ہیں، انسانوں کی بھلائی کے لئے تجھ سے دعا مانگ رہا ہوں۔ میری مدد کرنا۔ یہ سلسلہ آدھی رات سے زیادہ تک جاری رہا۔ میں آنکھیں بند کئے اپنے آپ میں گم ہو گیا۔ اب کوئی احساس نہیں تھا۔ ہونٹ ہل رہے تھے، ذہن سو چکا تھا، آنکھیں نہ جانے کہاں کہاں بھٹک رہی تھیں… پھر میں نے ایک منظر دیکھا… وہ کنواں جو اس وقت بھی وہاں موجود تھا، جب میں یہاں آیا تھا، میری نگاہوں کے سامنے آ گیا۔ میں نے دیکھا کہ میرے اطراف میں پیلی پیلی مکڑیاں بج بجا رہی ہیں۔ زمین ان سے بھری ہوئی ہے اور وہ اِدھر سے اُدھر دوڑتی پھر رہی ہیں۔ اکرام کنویں میں ڈول ڈال کر پانی نکال رہا ہے… پھر اچانک ہی اکرام نے یہ دیکھا کہ مکڑیاں کنویں کی منڈیر پر چڑھنے لگی ہیں تو اس نے پانی کا بھرا ہوا ڈول مکڑیوں پر بہا دیا… اور اس کا ردعمل بڑا ہی عجیب ہوا۔ وہ مکڑیاں پھول پھول کر کپا ہو گئیں اور اس کے بعد پانی ہی کی طرح زمین پر بہہ گئیں، جہاں جہاں تک پانی کے قطرے پہنچے وہاں مکڑیوں کا صفایا ہو گیا اور دوسری مکڑیاں اس صاف جگہ کی طرف رخ کرنے کی ہمت نہ کر سکیں۔ اکرام نے تین چار ڈول پانی بہایا اور پیلی مکڑیوں کا کھیت ختم ہو گیا۔ باقی جو بچیں وہ بری طرح بھاگ نکلیں اور اسی وقت میرے ذہن کو شدید جھٹکا لگا۔ میں چونک پڑا اور میں نے اپنے اطراف میں بکھرے ہوئے گہرے سناٹے کو دیکھا۔
اکرام کی یہ خوبی تھی کہ اگر میں جاگتا تھا تو وہ بھی جاگتا تھا۔ شاذ ہی ایسا ہوتا کہ وہ بے خیالی میں سو گیا ہو ورنہ وہ میرا پورا پورا ساتھ دیتا تھا، اس وقت بھی وہ مجھ سے کافی فاصلے پر دوزانو بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے سرخوشی کے عالم میں اسے آواز دی اور وہ اس طرح ہڑبڑا کر اٹھ گیا جیسے پائوں میں سانپ نے کاٹ لیا ہو۔
میری خوشی بھری آواز کو اس نے محسوس کیا اور میرے قریب آ کر بولا… ’’کیا ہوا، کیا ہو گیا مسعود بھائی…؟‘‘
’’ہماری رہنمائی ہو گئی اکرام۔ ہماری رہنمائی ہو گئی، یہاں جو بھی جگہ ہے وہ بھر دو اس پانی سے۔‘‘ اکرام حیران نگاہوں سے میرا منہ تک رہا تھا۔ میں نے اس کا شانہ جھنجوڑتے ہوئے کہا۔ ’’اس کنویں کا پانی جوالاپور کے چپے چپے میں پھیلا دو، ہر گھر میں پہنچا دو۔ ہندو ہو یا مسلمان، جانور ہو یا کھیت کھلیان، ہر جگہ اس پانی کو پہنچا دو۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ گرج ناتھ سیوک کو ایک بار پھر اپنا منہ کالا کرنا پڑے گا۔ آہ اکرام میرا جی چاہتا ہے کہ میں فوراً ہی یہ عمل شروع کر دوں۔ چلو ایسا تو کرو جتنے برتن ہیں وہ اس پانی سے بھر لو۔ صبح کو اس کنویں پر لاتعداد انسانوں کی یلغار ہوگی۔
اکرام نے عقیدت مندانہ نگاہوں سے مجھے دیکھا۔ اس کے انداز سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ جو کچھ میں نے کہا ہے، اسے اس کا پورا پورا یقین ہے اور اس کے بعد ہم مسجد میں وہ تمام جگہیں جہاں پانی ذخیرہ کیا جا سکتا تھا، بھرتے رہے یہاں تک کہ روشنی کی کرنوں نے فجر کے وقت کا اعلان کیا اور ابھی اذان بھی نہیں ہوئی تھی کہ لوگوں نے آنا شروع کر دیا۔ میں نے تحمل سے کام لیا۔ میری ہدایت کے مطابق اس وقت رات سے بھی زیادہ افراد موجود تھے اور بڑے بے چین نظر آ رہے تھے۔ میں پرسکون تھا اور یہ سکون اس بات کی ضمانت تھا کہ جو چیز مجھے عطا کی گئی ہے اس پر مکمل بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔
فجر کی نماز پڑھائی، لوگ منتظر نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ تب میں نے کہا۔ ’’خوشخبری دیتا ہوں آپ لوگوں کو۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر اپنا کرم فرمایا ہے۔ گندی قوتیں کلام الٰہی کے ایک بول کے سامنے اس طرح فنا ہو جاتی ہیں کہ ان کا نشان بھی نہیں رہتا۔ اس بدبخت نے جو گندگی یہاں پھیلائی ہے اس کا حل دریافت ہو گیا ہے، کنور ریاست علی صاحب آپ کو بڑی تنظیم کے ساتھ کام کرنا ہو گا، مجھے اس وقت بے شمار کارکنوں کی ضرورت ہے۔‘‘
کنور صاحب پُرجوش انداز یں آگے بڑھے اور مجھ سے بولے۔ ’’اس وقت جتنے افراد یہاں موجود ہیں شاہ صاحب، وہ سب میرے کارکن ہیں، آپ حکم فرمائیں۔‘‘
’’صحن مسجد کے اس کنویں کا پانی اس مرض کے لئے تریاق ہے جو غلاظت سے پھیلایا گیا ہے، جو بھی اسے استعمال کرے گا وہ شفا پائے گا اور کسی بھی قیمت پر اسے دوبارہ وہ مرض نہیں ہو گا۔ میرا وعدہ ہے… اس پانی کو کھیتوں، کھلیانوں میں چھڑک دیجئے۔ ان تمام سبزیوں پر ڈال دیجئے جو سڑنے لگی ہیں، بچوں کو، عورتوں کو، مردوں کو سب کو پلایئے اور جو بے دین اسے قبول کرے اسے بھی دے دیجئے۔ غرض یہ کہ اس میں مذہب کی تفریق نہیں ہے بلکہ انسانیت کا معاملہ ہے اور ہر انسان کی زندگی کے لئے یہ پانی تریاق ہے۔ اب آپ اسے نکلوانے کا بندوبست کیجئے۔ برتنوں وغیرہ کی ضرورت بھی ہو گی اسے لے جانے کے لئے۔ بسم اللہ کر کے اپنے کام کا آغاز کر دیجئے گا۔ یہ چند برتن جو یہاں بھرے ہوئے موجود ہیں یا یہ پانی کی چھوٹی سی ٹنکی جو ہم نے بھر دی ہے، پہلے خالی کر لی جائے، بسم اللہ کیجئے۔‘‘
اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ لوگوں نے بھرپور عقیدت کے ساتھ سارے انتظامات کئے۔
بڑی بے ترتیبی پھیل جاتی اگر کنور ریاست علی اس سلسلے میں باقاعدہ منظم پیمانے پر کام نہ کراتے۔ لوگوں کو مسجد سے کافی دور پہنچا دیا گیا۔ ہر شخص کو ہدایت کی گئی کہ وہ برتن لے کر آئے، پانی اس تک پہنچ جائے گا۔ لائنیں لگ گئیں، ڈول سے پانی نکالنے والوں کے ہاتھ شل ہو گئے، ڈیوٹیاں بدلتی رہیں اور صبح سے لے کر دوپہر تک اتنا پانی کنویں سے نکالا گیا کہ یقین نہ آئے… لیکن یہ بھی ایک بابرکت بات تھی کہ کنویں کا پانی کسی طور ختم ہونے کو نہیں آ رہا تھا۔ مسلمان تو مسلمان، ہندو بھی برتن لے کر دوڑ پڑے تھے اور اس وقت مول چند کا باغ انسانوں کے لئے ایک سمندر جیسی شکل اختیار کر چکا تھا۔ ہر شخص برتن لئے وہاں موجود تھا اور کنور ریاست علی درجنوں لائنیں لگوا کر لوگوں کو برق رفتاری سے پانی فراہم کر رہے تھے۔ حالانکہ ابھی تک کسی کی شفایابی کی اطلاع نہیں ملی تھی… لیکن اس عقیدت کے ساتھ تو ہر وہ کام ہو سکتا ہے جس کا تصور بھی ذہن میں نہ آ سکے۔ مجھے اب اس کے ردعمل کا انتظار تھا۔ یہ ایمان تو تھا میرا کہ جو کچھ مجھے عطا کیا گیا ہے اس میں کہیں بھی کوئی کھوٹ نہیں اور یہ صرف ایک تصور نہیں ہو گا کیونکہ بارہا اس کا تجربہ کر چکا تھا… غرض یہ کہ پورا دن اسی ہنگامے میں گزر گیا۔ جوالاپور کا کون شخص تھا جو یہاں نہ پہنچا ہو، رات گئے تک یہ سلسلہ جاری رہا اور آدھی رات کے قریب غالباً تمام جوالاپور میں پانی پہنچ گیا، پھر بھی چند افراد نے اجازت چاہی کہ اگر وہ رات میں بھی یہ پانی نکالیں تو کوئی ہرج تو نہیں ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ جب تک جوالاپور میں رہنے والا ایک ایک شخص شفایاب نہ ہو جائے، پانی حاصل کرتے رہیں۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ کنویں کے پانی میں کمی نہیں ہوگی۔
اور یہی ہوا… دوسرے دن صبح ہی کی نماز میں خوشیوں بھرے نعروں سے پتہ چلا کہ جس بچے، عورت، مرد، بوڑھے کو پانی پلایا گیا، اس کا حلیہ ہی تبدیل ہو گیا اور اب چاروں طرف عقیدت مندی کا یہ عالم ہے کہ کیا ہندو، کیا مسلمان، سارے کے سارے یہ پانی حاصل کرنے کے لئے چڑھ دوڑے ہیں۔ رفتہ رفتہ پھر ہجوم بڑھ گیا اور یہ سلسلہ تقریباً چار دن تک جاری رہا۔ ان چار دنوں میں… میں اور اکرام بھی مصروف رہے تھے اور کوئی دوسری بات سوچنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔
پانچواں دن تھا، جوالاپور میں ایک بار پھر سکون کی لہر دوڑ گئی تھی۔ عابد علی یعنی سابق مول چند اکثر میرے پاس آتا رہتا تھا اور مجھے تفصیلات بتاتا رہتا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ اس نے اپنے گھر سے سارے دیوی، دیوتائوں کے بت ہٹا دیئے ہیں، سارے ملازم نکال دیئے ہیں لیکن ابھی اس سلسلے میں کوئی چرچا نہیں ہوا کیونکہ لوگ اپنی ہی مصیبت کا شکار تھے، انہیں بظاہر کوئی مشکل نہیں ہے۔ عابد علی نے کہا۔
’’شاہ صاحب میں چاہتا ہوں کہ باقاعدہ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دوں اور اس کے بعد اس کا ردعمل بھی دیکھ لوں، یہ مناسب وقت ہے ورنہ ہو سکتا ہے جب لوگوں کی مصیبتیں ٹل جائیں تو ان کے عقیدے میں کمی آ جائے۔‘‘
’’باقاعدہ اعلان کرنا چاہو یا نہ کرنا چاہو عابد علی لیکن اپنے حلقے میں یہ کہنا شروع کر دو کہ تم مسلمان ہو گئے ہو، ردعمل تو خود ہی معلوم ہو جائے گا۔
اس نے میری ہدایت پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ پانچویں رات کو… یعنی اسی دن کی رات جس دن عابد علی نے مجھ سے ملاقات کی تھی، اکرام نے کہا۔
’’مسعود بھائی ایک خیال میرے ذہن میں بار بار آرہا ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’اس کم بخت ملعون کی جرات چند لمحوں کے لئے ختم ہو گئی ہے۔ شکست تو اسے جوالا چوک پر بھی ہوئی تھی، جب اس کا جادو کا بت وہاں ایستادہ نہ ہونے دیا گیا تھا… لیکن اس کے بعد اس نے عمل کیا۔ یقیناً سفلی عمل کے ذریعے اس نے وہ گندی وبا پھیلائی ہو گی… اور اب جب کہ اس کا حل دریافت ہو گیا اور ایک بار پھر امن و سکون پھیل گیا تو آپ کے خیال میں وہ کیا کسی نئی کوشش میں مصروف نہیں ہو گا؟‘‘
’’میں نے اس خیال کو نظرانداز نہیں کیا ہے اکرام اور اس کے بارے میں سوچتا رہا ہوں۔‘‘
’’یوں تو جوالاپور والے بے چارے بے شمار حادثات کا شکار ہو چکے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں یہ سلسلہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک کہ گرج ناتھ سیوک کو کوئی ایسا سبق نہ مل جائے کہ وہ جوالاپور چھوڑ بھاگے۔‘‘
’’ہوں، تم نے ٹھیک کہا اکرام۔ اس کے لئے کچھ سوچنا ہی پڑے گا بلکہ میرا خیال ہے کل کا دن میں اس کے لئے مخصوص کئے دیتا ہوں۔‘‘
’’کس کے لئے، کیا کریں گے آپ…؟‘‘
’’ذرا اس بھوانی مندر کی سیر کر لی جائے۔ ذرا دیکھیں تو سہی اس میں کیا کیا ہے…؟‘‘
’’آپ کو اس بات کا علم ہے کہ اس میں کوئی دروازہ نہیں بنایا گیا…‘‘
’’اگر اللہ کا حکم ہوا اور کوئی بہتری پیدا کرنی ہوئی اسے تو دروازے ہی دروازے بن جائیں گے اس میں اکرام…‘‘
’’ہاں یہ سچ ہے اور سمجھتا ہوں نہایت ضروری بھی کہ اس کے لئے کچھ کیجئے گا۔ کب جائیں گے آپ وہاں…؟‘‘
’’ایسی جگہوں پر جانے کے لئے دوپہر کا وقت مناسب رہتا ہے۔ میرا خیال ہے ٹھیک بارہ بجے مجھے وہاں پہنچ جانا چاہئے۔‘‘
’’میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا۔‘‘ میں نے مسکرا کر گردن ہلائی اور کہا… ’’نہیں اکرام۔ ہر جگہ جانے کے لئے ضد نہیں کیا کرتے۔ میں تنہا ہی جائوں گا۔‘‘
اکرام فوراً ہی خاموش ہو گیا۔ یہ اس کی عادت تھی کہ ضد کبھی نہیں کرتا تھا۔ اس رات کنور ریاست علی خان صاحب سے بھی اس موضوع پر بات ہوئی۔ ریاست علی کا تو چہرہ مجھے دیکھ کر فرط مسرت سے کھل اٹھتا تھا، بڑی عقیدت سے کہنے لگے۔
’’آپ بھی عجیب ہیں شاہ صاحب، اس وقت یوں سمجھ لیجئے کہ جوالا پور کا ایک ایک شخص آپ کا پرستار ہے، آپ پر عقیدت سے جان نچھاور کرنے کے لئے تیار۔ ہر شخص اپنا سب کچھ دینے کے لئے آمادہ ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ ہندوئوں پر اس کا خاص طور سے اثر ہوا ہے۔ مول چند نے اپنا باغ تو آپ کو دے ہی دیا تھا جیسا کہ اس نے کہا… لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ جوالا پور کے ہندوئوں کو حکم دیں کہ اس باغ کے گرد ایک عمارت تعمیر کر دی جائے تو شاید وہ مول چند سے دوبارہ یہ باغ خریدنے پر آمادہ ہو جائیں اور اپنی جیب سے اس کی رقم ادا کریں۔‘‘
’’کنور صاحب اب وہ وقت آ گیا ہے کہ میں آپ کو ایک خوشخبری سنا دوں۔ ابھی تک تو میں نے اس بات کو صیغہ راز میں رکھا ہے… لیکن مستقبل میں آپ کو عابد علی کی مدد کرنا ہو گی، ہو سکتا ہے اپنے مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد ان لامذہبوں کو پھر سے اپنا مذہب یاد آ جائے۔ بھولے تو وہ اب بھی نہیں ہیں اپنے مذہب کو لیکن خیر مسئلہ عابد علی کا ہے۔‘‘
’’کون عابد علی؟‘‘
’’جو کبھی مول چند تھا…‘‘
’’کک کیا۔‘‘ کنور ریاست علی خان اچھل پڑے۔
’’ہاں خدا کے فضل سے وہ ایک ہفتے قبل مسلمان ہو چکا ہے، نہ صرف وہ بلکہ اس کی بیوی سوریہ کرن جو اب عارفہ کے نام سے جانی جاتی ہے۔‘‘ میں نے کنور ریاست علی خان کو ساری تفصیلات بتائیں اور وہ آنکھیں بند کر کے جھومنے لگے۔
’’میں تو اسے اپنی اور جوالا پور کی خوش بختی سمجھتا ہوں کہ اس وقت آپ اس بدبخت جادوگر کے مدمقابل ہیں جسے واقعی اگر موقع مل جاتا تو اس قسم کی وبائوں کے ذریعے وہ تو خدانخواستہ مسلمانوں تک کو اپنا دین چھوڑنے پر مجبور کر دیتا یا پھر انہیں جوالا پور سے بے دخل کر دیتا۔ بہرطور یہ بڑی خوشخبری ہے، میں اگر اجازت ہو تو عابد علی سے مل لوں…؟‘‘
’’ابھی نہیں، کچھ وقت کے لئے رک جایئے۔ بہرحال مستقبل میں آپ کو اس کی مدد کرنی ہے۔‘‘
’’دل و جان سے حاضر ہوں، نہ جانے کتنے عرصے سے میری اور اس کی مخاصمت چل رہی تھی۔ میں نے کبھی اس کو اپنا ہم پلہ قبول ہی نہیں کیا اور وہ اس بات پر بہت تلملاتا تھا… لیکن اب… اب تو میرا اور اس کا دین کا رشتہ ہو گیا ہے۔ اتنا ہی محترم ہے میرے لئے جتنا میرا اپنا کوئی سگا بھائی۔ بہرحال شاہ صاحب اللہ نے آپ کو جوالا پور کے لئے نہ جانے کیا بنا کر بھیجا ہے، کبھی کبھی تو اس بات سے خوفزدہ ہو جاتا ہوں کہ کہیں آپ یہاں سے جانے کا فیصلہ نہ کر لیں۔‘‘
’’میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ جانا تو مجھے ہے، جب اور جہاں کے لئے حکم ہو جائے، بھلا اس سلسلے میں کیا کیا جا سکتا ہے، یہ تو وہاں کی باتیں ہیں جہاں سے وہ ساری چیزیں عنایت ہوتی ہیں جو میرے تصور سے بھی باہر ہیں لیکن جو مجھے عزت بخشیں اور میرے ذریعے دوسروں کو فائدہ پہنچائیں۔ تاہم یہ کنور ریاست علی خان سے کہنے کی بات نہیں تھی، البتہ میں نے ان پر اپنا مقصد ظاہر کر دیا۔
’’کنور صاحب، گرج ناتھ سیوک بدستور موجود ہے اور اس کا خطرہ ابھی تک دور نہیں ہوا ہے۔‘‘
’’اس میں کوئی شک نہیں، آج ہی پنڈت دوارکا ناتھ جو بڑے اچھے آدمی ہیں، اس بارے میں گفتگو کر رہے تھے، کہنے لگے سفلی علوم کا ماہر اپنے بنائے ہوئے مندر میں خاموش نہیں بیٹھا ہو گا جس طرح وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر پیلی مکڑیوں کا بخار لایا تھا، اسی طرح اب وہ کسی نئی غلاظت کو مسلط کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہوگا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ شاہ صاحب سے کہیں کہ کوئی مستقل یا پائیدار حل نکالیں اس سفلی جادوگر کا، اسے فنا کر دیں کہ جوالا پور کے لوگوں کو اس سے نجات مل جائے۔‘‘
’’بہرحال ایسا کوئی دعویٰ تو میں بالکل نہیں کر سکتا کنور صاحب لیکن فیصلہ کر رہا ہوں کہ کل دوپہر بارہ بجے میں ذرا آپ کے باغ میں اس مایا مکنڈل کو بھی دیکھوں۔‘‘ کنور ریاست علی کا چہرہ ایک دم سے سرخ ہو گیا، چمکتی ہوئی آنکھوں سے مجھے دیکھ کر کہنے لگے… ’’آپ، آپ خود وہاں جائیں گے۔‘‘
’’ظاہر ہے اس شیطان کے گھر کو ذرا دیکھنا تو پڑے گا نا۔‘‘
’’تو میں سواری بھجوا دوں گا، میرے لائق اگر کوئی خدمت ہو تو مجھے ضرور ہدایت فرمایئے۔‘‘
’’نہیں کنور صاحب، البتہ مجھے ایک کدال درکار ہو گی اور آپ وہ کدال مجھے فراہم کیجئے گا۔‘‘
’’میں خود آپ کے ساتھ چلوں گا، مجھے ہدایت دیجئے۔ اللہ کے کرم سے میں ڈرتا نہیں ہوں کسی سے، طویل عرصے پہلے کی بات ہے کہ ایک بزرگ نے مجھے ایک تعویذ دیا تھا اور کہا تھا کہ ہر آفت سے محفوظ رہوں گا، درحقیقت وہ بزرگ میری والدہ کو اپنی بیٹی کی مانند چاہتے تھے اور انہی کی درخواست پر انہوں نے یہ تعویذ مجھے لکھ کر دیا تھا۔ خدا کے فضل و کرم سے اس وقت سے اب تک ہر آفت سے محفوظ رہا ہوں اور مجھے پورا پورا تحفظ حاصل ہے کلام الٰہی کا، آپ اطمینان رکھئے، مجھے کوئی گزند نہیں پہنچے گی۔‘‘
’’پھر بھی کنور صاحب میرے نقطہ نظر سے آپ کا جانا مناسب نہیں ہے۔‘‘
’’جیسا آپ پسند فرمائیں، کدال لے کر خود ہی باغ کے دروازے پر حاضر ہوں گا۔‘‘ میں نے اس بات سے انکار نہیں کیا۔ بہرطور اس کے بعد وقت گزرتا رہا۔ اکرام ذرا سنسنی کا شکار تھا اور کئی بار دبی زبان سے اس کا اظہار کر چکا تھا کہ کل کے سلسلے میں وہ میرے لئے تشویش زدہ رہے گا۔ میری واپسی کب تک ہو جائے گی وغیرہ۔ میں نے اسے تسلیاں دے کر کہا کہ اکرام میری جگہ مسجد تم سنبھالو گے۔ ظاہر ہے اس طلسم کدے میں جس کی ہلکی ہلکی معلومات مجھے عابد علی سے مل چکی ہیں، میں زیادہ وقت رکنا پسند نہیں کروں گا۔ جونہی میرا کام ختم ہوا یا اللہ کا جو حکم ہوا یا تو میں واپس آ جائوں گا ورنہ تم صبر کر لینا اور میرے لئے دعائے مغفرت کرنا۔‘‘ اکرام پریشان ہوا تو میں نے اسے صبر و رضا کی تلقین کی اور کہا کہ ہر چیز منجانب اللہ ہوتی ہے، جو ہو جائے اسے سچے مسلمان کی طرح اللہ کا حکم سمجھ کر قبول کر لینا چاہئے۔ غرض یہ کہ میں نے اسے ہر طرح سے تسلیاں دیں اور پھر اپنے آپ کو بھی مضبوط کر لیا اور مقررہ وقت پر مسجد سے باہر نکل آیا۔ اکرام کو دوسری ضروری ہدایات میں نے دے دی تھیں۔ کنور ریاست علی خان صاحب بھی میرے سلسلے میں ہر لمحہ مستعد رہتے تھے لیکن ذرا سی الجھن اس وقت پیش آئی جب ان کے باغ میں داخل ہوا، بہت سے افراد کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ یہ بھی خدا کا شکر تھا کہ انہوں نے باقاعدہ اعلان نہ کرا دیا تھا ورنہ شاید مجھے باغ تک پہنچنا بھی نصیب نہ ہوتا، ویسے بھی بچ بچ کر ایسے راستوں سے آیا تھا جہاں لوگوں کی نگاہ مجھ پر نہ پڑے۔ عقیدت مند بہت سے تھے لیکن مجھے یہ عقیدت درکار نہیں تھی، جو صلہ مجھے مل سکتا تھا وہ تو مل ہی رہا تھا۔ کنور ریاست علی خان صاحب ایک نئی کدال لئے ہوئے خود کھڑے تھے، مجھے تمام لوگوں نے سلام کیا اور میں نے ان سے مصافحے کئے۔ کنور صاحب نے کدال مجھے پیش کر دی۔ میں نے ہنس کر کہا۔
’’آپ نے تو اس چیز کو ایک تقریب کی حیثیت دے دی کنور صاحب۔ بہتر یہ تھا کہ یہ بندوبست بھی میں خود ہی کر لیتا۔‘‘
’’میں کیا کروں آپ یقین فرمایئے صرف زاہد میاں سے ذکر کیا تھا کہ بات ان چند افراد تک پہنچ گئی۔ ایسی منت و سماجت کی انہوں نے کہ میں تو انکار نہیں کر سکا۔ بہرحال معذرت خواہ ہوں اگر آپ کو اس سے ذہنی تکلیف ہوئی۔‘‘
’’اب آپ لوگ آرام کیجئے اور مجھے قسمت آزمائی کرنے دیجئے۔‘‘
’’آپ بسم اللہ کیجئے۔ ہم یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔‘‘
بہرحال ان بے چاروں سے کیا کہتا۔ ظاہر ہے عقیدت ابل رہی تھی ان کے دلوں میں۔ کوئی سختی تو کر نہیں سکتا تھا۔ مجھے اپنے کام سے غرض تھی، خودستائی کا تو تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے وہ مندر گہری نگاہوں سے دیکھا جس کے بارے میں لاتعداد کہانیاں میرے علم میں آ چکی تھیں، عجیب و غریب قسم کی پتھریلی اینٹوں سے بنا ہوا تھٓا اور دیکھنے ہی میں بے حد مضبوط نظر آتا تھا۔ عقب میں کون ہے اور کس نگاہ سے مجھے دیکھ رہا ہے، اب یہ سارا تصور ذہن سے نکال دیا تھا۔ جانتا تھا کہ ایک بار پھر سفلی علم کے ایک ماہر کا سامنا ہے اور مجھے تمام تر توجہ اس کی جانب دینی ہے۔
مندر کی ایک دیوار کے قریب پہنچ کر رکا۔ بسم اللہ کہہ کر کدال اٹھائی اور پہلی کدال اس دیوار پر ماری۔ کدال بری طرح اچٹ گئی تھی جیسے کسی نے اسے پیچھے دھکیل دیا ہو یا جیسے وہ کسی ایسی ربڑ پر پڑی ہو جو اپنے اوپر پڑنے والی ہر شے کو اسی قوت سے واپس کر دینے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ میں نے کدال کو سنبھال لیا اور دانت بھینچ کر دوبارہ قسمت آزمائی کی۔ کدال کو جھٹکا تو ویسا ہی لگا تھا جیسے پہلے لگا تھا لیکن اس بار میں نے اپنے ہاتھوں میں ایسی لچک رکھی تھی کہ وہ اس قوت سے واپس نہ آئے اور پھر کچھ اور بھی ہوا تھا۔ کدال کا نوکیلا سرا کسی چیز میں اٹکا تھا اور پتھر کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ٹوٹ کر نیچے گر پڑا تھا۔ میری ہمت بڑھ گئی اور پھر میں نے مسلسل کدال اسی نشان پر مارنا شروع کر دی۔ اب وہ نشان گہرائی اختیار کرتا جا رہا تھا اور میری ہمت بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ میں نے مسلسل کوششوں سے ایک اچھا خاصا گڑھا پیدا کر لیا۔ پسینے میں تر ہو گیا تھا، اپنی محنت کا صلہ سامنے دیکھ کر کسی تھکن کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔ میں مسلسل کدالیں برساتا رہا اور پہلا سوراخ اس دیوار میں نمودار ہو گیا بس یہیں سے دیوار کمزور ہو گئی اور میں اس کے نچلے حصوں پر طاقت آزمائی کرتا رہا۔ ہر کدال بسم اللہ پڑھ کر مار رہا تھا اور اس کا صلہ مجھے مل رہا تھا یہاں تک کہ اتنا بڑا سوراخ ہو گیا کہ میں اس سے اندر داخل ہو سکوں۔ میں نے سوراخ پر ہاتھ پھیر کر دیکھا اور پھر کدال ایک جانب پھینک دی اور اپنا سر سوراخ سے داخل کر دیا۔ ہاتھوں کے زور سے میں اپنے جسم کو اندر لے گیا اور چند لمحات کے بعد میرے پائوں دوسری جانب ٹک گئے تھے لیکن اس سے پہلے کہ میں سامنے دیکھتا، دفعتاً ہی شعلوں کا ایک طوفان آیا۔ اس تیز ہوا کے ساتھ کہ کانوں کے پردے پھٹنے لگے۔ میں نے سنبھل کر سامنے دیکھا۔ تین عظیم الشان مجسمے جو نہایت ہیبت ناک شکلیں اختیار کئے ہوئے تھے، میرے عین سامنے ایستادہ تھے اور ان کے منہ سے شعلوں کے مرغولے ابل رہے تھے۔ شعلوں کا یہ طوفان مجھے تین سمت سے اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھا، میں ساکت ہو گیا اور میں نے درود پاک کا ورد شروع کر دیا۔ شعلے مجھ تک نہیں پہنچ پا رہے تھے لیکن ان کی تپش مجھے اچھی طرح محسوس ہو رہی تھی۔ میں ہمت کر کے آگے بڑھا اور ان بتوں کے قریب پہنچ گیا۔ سب سے سامنے والے بت کے منہ پر میں نے اپنی ہتھیلی رکھ دی ہر خدشے سے بے نیاز ہو کر اور مجھے اس میں خاطرخواہ کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے منہ سے شعلے نکلنا بند ہو گئے تھے لیکن دوسرے بتوں نے اپنی گردنیں گھما لی تھیں اور میرے جسم سے شعلے ٹکرا رہے تھے لیکن تپش کے باوجود یہ بھی ایک دلچسپ بات تھی کہ نہ تو میرے لباس میں آگ لگی تھی اور نہ یہ شعلے میرے جسم پر پڑ کر جلن کا احساس پیدا کر رہے تھے۔ ایک طریقہ کار کامیاب ہوا تھا۔ چنانچہ میں نے ایک ایک کر کے ان دونوں بتوں کے منہ پر بھی ہاتھ رکھے اور شعلوں کی لپکتی زبانیں اندر چلی گئیں۔ تب میں نے ان کے درمیان سے نکل کر دوسرا منظر دیکھا۔ عظیم الشان ہال بنا ہوا تھا۔ اس میں قبر کے کتبوں کی مانند بت نصب تھے۔ چھوٹے بڑے، ننگ دھڑنگ ہیبت ناک شکلوں والے لیکن ان کی آنکھیں انسانی آنکھوں کی مانند چمک رہی تھیں، وہ سو فیصدی پتھر کے بت تھے۔ بس ان کے چہروں پر انسانی آنکھیں موجود تھیں جو گول گول اِدھر سے اُدھر گھوم رہی تھیں اور گردش کر رہی تھیں۔ بے شمار آنکھیں مجھ پر ٹکی ہوئی تھیں، میں نے دو قدم آگے بڑھائے تو بتوں کے ہاتھ بھی ہلنے لگے… پھر مزید چند قدم آگے بڑھا تو ان کے درمیان پہنچ گیا اور وہ اپنی جگہ چھوڑنے لگے۔ پھر کہیں سے ایک چیخ کی آواز ابھری اور اس کے بعد چیخوں کا طوفان آ گیا۔ چاروں طرف سے وہ بت شور مچا رہے تھے اور اب ان میں بھاگنے دوڑنے کی صلاحیتیں بھی پیدا ہو گئی تھیں۔ اس ہیبت ناک منظر نے بلاشبہ جسم کے رونگٹے کھڑے کر دیئے تھے۔ میں اس خوفناک افراتفری کو دہشت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور میری آنکھیں ان بھاگتے دوڑتے جسموں پر جمی ہوئی تھیں جو عجیب افراتفری کے عالم میں ایک دوسرے کو دھکیل دھکیل کر آگے بڑھ رہے تھے اور پھر ان سب نے ایک طرف کھڑے ہو کر اپنے ہاتھ پھیلائے اور بھرّا مار کر میری جانب دوڑ پڑے۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ درود شریف میرا محافظ تھا۔ اللہ کے اس کلام سے مجھے اب تک جو کچھ حاصل ہوا تھا، اسے میں اتنی ہی عقیدت سے محسوس کرتا تھا جتنی میرے دل میں ہونی چاہئے تھی۔ بھاگنے والے مجھ تک پہنچے اور ہوا کے جھونکے کی مانند مجھ سے گزر کر دوسری جانب نکل گئے۔ ایک لمحے تک میں آنکھیں بند کئے رہا۔ وہ شور اچانک ہی معدوم ہو گیا تھا اور شور کے ایک دم ختم ہو جانے سے جو سناٹا پیدا ہوا تھا وہ بری طرح میرے ذہن کو متاثر کر رہا تھا۔ صحیح معنوں میں اس شور سے کانوں کے پردے نہیں پھٹ رہے تھے بلکہ اس سناٹے نے میرے ذہن میں ہلچل پیدا کر دی تھی لیکن رفتہ رفتہ یہ کیفیت بھی بحال ہونے لگی۔ مجھے کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل ہو رہی تھیں اور یہ میری توقع سے مختلف نہیں تھیں۔ میں نے آنکھیں کھول کر چاروں طرف دیکھا۔ اب یہ پورا ہال نما حصہ سنسان اور سپاٹ تھا۔ وہ تینوں مجسمے بھی غائب ہو چکے تھے جو آگ اگل رہے تھے۔ وہ دروازہ بھی نظر نہیں آ رہا تھا جس سے میں اندر داخل ہوا تھا۔ چاروں طرف ایک ہیبت ناک سکوت طاری تھا۔ میں آہستہ آہستہ چند قدم آگے بڑھا۔ پھر ایک اور قدم آگے رکھا تو یوں محسوس ہوا جیسے پائوں زمین میں دھنسنے لگا ہو، میں گرتے گرتے بچا تھا۔ گرنے سے بچنے کے لئے میں نے ہاتھوں کا سہارا لیا تو یوں محسوس ہوا جیسے زمین گندھے ہوئے آٹے کی طرح نرم ہو، میں پھرتی سے سیدھا کھڑا ہو گیا لیکن میرے پائوں ٹخنوں ٹخنوں تک زمین میں دھنس گئے۔ میں اچھل کر پیچھے کی سمت آیا جہاں سے گزر کر یہاں تک پہنچا تھا لیکن اب یہ زمین بھی بالکل ویسی ہی تھی۔ مجھے حیرانی ہوئی تھی ایک لمحے کے لئے لیکن دوسرے لمحے یہ حیرانی ذہن سے مٹ گئی، جو کچھ بھی نہ ہو جاتا کم تھا۔ اب یہ پورا ہال ایک نرم مٹی کا بنا ہوا ہال تھا جس میں جہاں بھی پائوں رکھتا وہاں مٹی دھنسنے لگتی تھی۔ میں بار بار اچھل کر اپنی جگہ تبدیل کرتا رہا تاکہ میرے پائوں اس سے زیادہ زمین میں نہ دھنسیں لیکن یہ احساس ہو رہا تھا کہ اگر ایک منٹ بھی کسی ایک جگہ کھڑا رہا تو شاید اس نرم مٹی میں دفن ہی ہو جائوں۔ پریشانی کے کچھ لمحات پیدا ہو گئے تھے میرے لئے، میں نے لمبی لمبی چھلانگیں بھی لگائیں لیکن کسی بھی جگہ اپنے پائوں نہ جما سکا۔ پھر اچانک ہی میرے بدن میں ایک پھریری سی اٹھی اور اس بار جب میں ابھر کر زمین پر گرا تو اس خوداعتمادی کے ساتھ کہ اب میرے پائوں زمین میں نہیں دھنسیں گے اور خدا نے اس خوداعتمادی کی بھی لاج رکھی۔ میرے پائوں واقعی اس نرم زمین پر ٹک گئے تھے۔ چند لمحات، میں اسی جگہ کھڑا رہا۔ دفعتاً ہی میری نظر سامنے کی سمت اٹھ گئی۔ وہ گندھے ہوئے آٹے جیسی زمین ایک جگہ سے گومڑے کی شکل میں بلند ہو رہی تھی اور یہ گومڑا ابھرتا ہی چلا جا رہا تھا، پھر اس کا اوپری حصہ پھٹا اور اس میں سے ایک انسانی سر نمودار ہوا۔ بدہئیت اور بدنما، میں اسے دیکھ چکا تھا۔ یہ گرج ناتھ سیوک تھا جو زمین پھاڑ کر برآمد ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ اس طرح ہلے بغیر اوپر ابھرتا آ رہا تھا جیسے کسی مشینی عمل کے ذریعے اوپر ابھر رہا ہو۔ یہاں تک کہ وہ پوری طرح میرے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس کی آنکھیں غضب ناک تھیں۔ منہ وحشت سے پھٹا ہوا تھا اور چہرہ لال بھبوکا ہو رہا تھا۔ اس نے غرا کر کہا۔
’’مایا مکنڈ میں آیا ہے پاپی، ہتھیارے، مایا مکنڈ میں آیا ہے، جا نہیں سکے گا واپس۔ اب دیکھوں گا تجھے، اب دیکھوں گا کون سی مہان شکتی ہے تیرے پاس۔‘‘ میں نے مسکراتی نگاہوں سے گرج ناتھ کو دیکھا۔ پھر کہا۔
’’تیرے اس مکنڈل کے راستے میرے لئے تو کھل گئے گرج ناتھ۔ میرے راستے تو نہ رک سکے۔‘‘
’’ارے یہ کون سی بڑی بات ہے۔ بس اسی پر اِترا رہا ہے تو…!‘‘
’’تیری کنتا بھوانی بھی جوالا چوک پر استھان نہیں کر سکی تھی۔‘‘ میں نے کہا۔
’’بس۔ اسی پر تو نے خود کو مہان سمجھ لیا۔‘‘
’’تیرے بیر بھی بھاگ گئے۔‘‘ میں مسلسل اس کا مذاق اُڑا رہا تھا۔
’’چنتا مت کر۔ سارے حساب چکتے ہو جائیں گے آج۔‘‘
’’تو کیا چاہتا ہے گرج ناتھ۔ یہاں جوالاپور میں تو کیا چاہتا ہے۔‘‘
’’اکھنڈ بھوانی۔ اکھنڈ بھوانی بنانا چاہتا ہوں اسے۔ یہاں سب بھوانی داس ہوں گے۔ سونے کا جوالاپور ہو گا۔ یہی بات ہے میرے من میں۔ نہیں میاں جی۔ تم کچھ بھی کر لو… چلے گی نہیں تمہاری۔‘‘
’’ٹھیک ہے پھر وار کر گرج ناتھ۔ میں تیری قوت دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور اچانک وہ جس طرح ابھرا تھا اسی طرح زمین میں غروب ہو گیا۔ لیکن میں نے زمین کو عجیب انداز میں متحرک دیکھا، وہ برق رفتاری سے زمین کھودتا ہوا ایک لکیر کی شکل میں آگے بڑھا اور عین میرے سامنے ابھر آیا لیکن میں تیار تھا۔ جیسے ہی اس کا سر زمین پھاڑ کر برآمد ہوا، میں نے ایک زوردار مکا اس کے سر پر رسید کر دیا۔ وہ پھر زمین میں گم ہو گیا اور زمین کے نیچے بھونچال آ گیا۔ وسیع و عریض ہال میں ابھری ہوئی لکیریں اِدھر سے اُدھر دوڑ رہی تھیں اور میں گھوم گھوم کر اسے دیکھ رہا تھا۔ دوسری بار وہ پھر میرے بالکل قریب ابھرا۔ اس بار میری لات اس کے منہ پر پڑی تھی۔ وہ پھر زمین میں گم ہو کر ساکت ہو گیا پھر مجھ سے دس گز کے فاصلے پر اچانک زمین پھٹی… لیکن اس بار وہ انسانی شکل میں نمودار نہیں ہوا تھا۔ یہ انتہائی ہیبت ناک شکل کا غیرانسانی وجود تھا جس کے درجنوں ہاتھ پائوں تھے۔ بڑے بڑے اوپر کو اٹھے ہوئے کان، گیند کے برابر گول گول سرخ آنکھیں تھیں۔ لمبے لمبے دانت منہ سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ اس نے مجھے گھورتے ہوئے انسانی آواز میں ایک عجیب سے اشلوک پڑھے۔
’’شننت شورانن پربھاگو تریان۔ ات ماتنترا سردھا سدھات۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اس کے سارے ہاتھ بلند ہو گئے اور میں نے دیکھا اس کے تمام ہاتھوں میں کوئی نہ کوئی ہتھیار آ گیا۔ کسی میں تیزدھار کی انیوں والا سات کونوں کا ستارہ، کسی میں مڑا ہوا خنجر، کسی میں تلوار، کسی میں ترشول، کسی میں چھوٹا سا نیزہ۔ وہ لاتعداد ہتھیاروں سے مسلح ہو گیا، پھر وہ ایک ایک قدم آگے بڑھنے لگا۔ اس کی گول سرخ آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں۔
’’بسم اللہ۔‘‘ میں نے خود بھی سنبھل کر کہا۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اب وہ مجھ پر براہ راست حملہ آور ہو گا لیکن میرے منہ سے لفظ ’’بسم اللہ‘‘ نکلتے ہی پٹاخے جیسی ایک آواز بلند ہوئی اور اچانک ہی زنجیروں جیسی کھنکھناہٹ ابھری، ساتھ ہی ایک تیز چنگھاڑ۔ وہ جھک کر اپنے پیروں کو دیکھنے لگا۔ اس کے اس طرح دیکھنے سے ہی میری نگاہ اس کے پیروں پر پڑی۔ میں نے دیکھا کہ اس کے پیروں میں لوہے کے دو بڑے بڑے حلقے آ گھسے تھے جن میں موٹی زنجیریں تھیں جو اسی زمین میں دفن تھیں۔ وہ بری طرح اچھلنے کودنے لگا۔ شاید وہ خود کو ان حلقوں سے آزاد کرا رہا تھا۔ اسی کوشش میں وہ ایک بار زور سے اُچھلا تو زمین پر گر پڑا۔ اٹھنے کی کوشش کی لیکن شاید وہ زنجیریں اور تنگ ہو گئیں۔ اس کے حلق سے کسی درندے جیسی غراہٹیں نکلنے لگیں۔ وہ زور زور سے چنگھاڑنے لگا۔ سارے ہتھیار ایک ایک کر کے ہاتھوں سے گر گئے۔ وہ الٹا اپنی مصیبت میں گرفتار ہو گیا تھا۔ تمام ہاتھوں سے وہ ان فولادی حلقوں کے جوڑ کھولنے کی کوشش کر رہا تھا اور اب اس کے پیروں سے خون رسنے لگا تھا۔ وہ تھکتا جا رہا تھا اور میں بالکل خاموش کھڑا دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا۔ پھر وہ چند لمحات کے لئے زمین پر لیٹ کر ساکت ہو گیا۔ اس وقت اسے اس کی شکست کا احساس دلانا غرور کے الفاظ ہو سکتے تھے، اس لئے میں نے اس سے کچھ نہ کہا۔ کچھ دیر ساکت رہ کر وہ پھر اٹھا اور بیٹھ گیا۔ وہ کراہ رہا تھا۔ پھر اس کے منہ سے آواز نکلی۔
’’جے پدم شنکھا۔ جے پدما پدم ہاری۔ جے شنکھ شنکھاری۔ تیرا داس ہار رہا ہے۔ ایک ملچھ کے ہاتھوں ہار رہا ہے۔ میرے کرنت سماپت ہو گئے ہیں۔ اب مجھے تیری ساگتا چاہئے۔ پدم شنکھا۔ پدم شنکھا۔ شنکھ شنکھاری۔‘‘ ساتھ ہی اس نے ایک ہاتھ میں دبا سنکھ منہ سے لگا کر پھونکنا شروع کر دیا۔ سنکھ کی بھیانک آواز ابھرنے لگی اور اچانک مایا کنڈ کے اس ہال کی چھت میں گڑگڑاہٹ ہونے لگی۔ چند پتھر نیچے گرے لیکن مجھ سے دور… اور اس کے ساتھ ہوائوں میں شور، سنسناہٹ سنائی دینے لگی۔ گردوغبار کا ایک مرغولہ چھت میں ہونے والے سوراخ سے نیچے اتر رہا تھا۔
گہرا مٹیالا غبار گرج ناتھ سیوک سے کوئی دو گز کے فاصلے پر جمع ہونے لگا۔ مجھ سے اس کا زیادہ فاصلہ تھا۔ میں دلچسپی سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ پھر اس میں سے ایک انسانی بدن نکل آیا اور میں نے ہونٹ بھینچ کر گردن ہلائی۔ بھوری مکڑیوں کے حوالے سے ہی میں سمجھ گیا تھا کہ گرج ناتھ سیوک کا تعلق کسی نہ کسی طرح بھوریا چرن سے ہے اور اب مفلوج ہو کر اس نے پدم شنکھا کو پکارا تھا۔ اس وقت بھی مجھے اس کا خیال آیا تھا اور بھوریا چرن آ گیا تھا لیکن اس کا رُخ گرج ناتھ ہی کی طرف تھا۔
’’جے شنکھا۔‘‘ گرج ناتھ نے مسرور لہجے میں کہا۔
’’کیا ہوا رے تجھے۔ یہ کیا ہے گرجے؟‘‘ بھوریا چرن کی آواز اُبھری۔
’’پیچھے دیکھ شنکھا۔ پیچھے دیکھ۔‘‘ گرج ناتھ نے کہا اور بھوریا چرن چونک کر پلٹا۔ اس نے حیرت بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر جو کچھ ہوا اس کی مجھے اُمید نہیں تھی۔ بھورے مٹیالے غبار کا وہ مرغولہ جو شنکھا کی سواری تھا اسی جگہ ٹھہرا ہوا تھا جہاں سے بھوریا چرن نمودار ہوا تھا۔ بھوریا چرن نے اس میں چھلانگ لگا دی اور مرغولہ ایک تیز جھکڑ کی شکل اختیار کر کے اچانک ایک زنّاٹے کے ساتھ اُوپر اُٹھا اور چھت کے سوراخ سے باہر نکل گیا۔ بھوریا چرن اس طرح دُم دبا کر بھاگ جائے گا میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ماحول صاف ہوگیا، تب میں نے گرج ناتھ کو دیکھا اس کی آنکھیں چڑھتی جا رہی تھیں۔ پھر وہ چند لمحات تڑپا اور پھر ساکت ہوگیا۔ اس کے ساکت ہوتے ہی ایک سنسناہٹ سی اُبھرنے لگی… میں نے مایا مکنڈل کے در و دیوار لرزتے ہوئے دیکھے۔ ان سے مٹی جھڑنے لگی تھی۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ طلسمی عمارت زمین بوس ہو رہی ہے۔ اب یہاں سے نکل جانا ضروری ہے۔ چنانچہ میں نے باہر کا رُخ کیا اور کچھ لمحات کے بعد میں باہر نکل آیا۔ مگر باہر کا منظر دیکھ کر میں مبہوت ہوگیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے سارا جوالاپور کنور ریاست علی خاں کے باغ کے سامنے جمع ہوگیا ہو۔ کیا ہندو کیا مسلمان سب وہاں جمع تھے اور لطف کی بات یہ تھی کہ خاموش کھڑے تھے۔ مایا مکنڈل کے سامنے کی دیوار سب سے پہلے گری تھی اور جونہی میں برآمد ہوا، اچانک فضا میں آواز اُبھری۔
’’نعرئہ تکبیر…‘‘
’’اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر۔‘‘
مسلمان جوش سے دیوانے ہوگئے تھے۔ ہندو خاموش کھڑے ہوئے تھے ۔میرے باہر آتے ہی مندر کا ایک ایک حصہ گرنے لگا اور لمحوں میں پوری عمارت زمین بوس ہوگئی۔ یہ کالے جادو کی شکست تھی۔ ہندوئوں کے ایک ٹولے نے جس کی رہنمائی پنڈت رام اوتار کر رہے تھے آگے بڑھ کر ’’مہاراج کی جے، مہاراج کی جے، کے نعرے لگانا شروع کر دیئے۔ پنڈت رام اوتار نے کہا۔
’’خاموش ہو جائو بھائیو۔ خاموش ہو جائو۔ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘ سب خاموش ہوگئے۔ ’’جوالاپور کے باسیو۔ ہندو اور مسلمانو! جوالاپور انسانوں کی بستی ہے۔ پرکھوں سے ہم یہاں رہتے آئے ہیں۔ ہمارے درمیان دھرم کا نہ سہی بھائی چارے کا رشتہ تو ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ وہ پاپی کالے دھرم والا نہ ہندو تھا نہ مسلمان۔ وہ تو شیطان کا پجاری تھا اور جو کچھ کیا تھا اس نے، شیطانی عمل تھا۔ ہم کالے جادو کے اَثر میں آ گئے تھے۔ جان علی کی مسجد والے مولوی صاحب نے اس کی شکتی ختم کر کے صرف مسلمانوں ہی کا نہیں ہندوئوں کا بھی بھلا کیاہے۔ ہم ہندو بھی ان کا احسان مانتے ہیں اور ان کی جے جے کار ہمیں بھی کرنے دو…‘‘
’’مسجد والے مہاراج کی جے۔ مسجد والے مہاراج کی جے۔‘‘ ہندو نعرے لگانے لگے۔ میں ساکت کھڑا تھا۔ میں یہ سب کچھ نہیں چاہتا تھا۔ مگر جوش میں ڈوبے لوگوں کو میں کیسے روک سکتا تھا۔ اسی وقت لوگ کسی کو راستہ دینے لگے۔ کچھ دیر کے بعد ہجوم میں سے کنور ریاست علی خاں آگے آ گئے۔ انہیں دیکھ کر کچھ اطمینان ہوا تھا۔
’’دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں شاہ صاحب۔ اللہ کے نام کا بول بالا ہوا۔‘‘
’’مگر یہ سب کنور صاحب…‘‘
’’بخدا کسی کو کچھ بتایا نہیں گیا۔ رفتہ رفتہ آپ کے یہاں آنے کی خبر پھیلتی گئی۔‘‘
’’یہ سب نہیں ہونا چاہئے۔ یہ غیرمناسب ہے۔ صرف اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔ میں کیا میری اوقات کیا…‘‘
’’بے شک مانتا ہوں لیکن ان لوگوں کی عقیدت کا کیا کریں گے آپ انسان تو بہت ہی کمزور اور معصوم شخصیت کا مالک ہے، آپ دیکھئے مسجد کے کنویں کے پانی سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوئوں کو بھی اتنا ہی فائدہ پہنچا ہے اور بات وہی انسانیت والی آ جاتی ہے۔ بے شک دین دھرم بہت بڑا مقام رکھتے ہیں لیکن انسانی کمزوریوں کو بھی تو کسی طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مقام اللہ تعالیٰ ہی نے آپ
کو بخشا ہے کہ اس وقت یہ لوگ اپنی عقیدت کا اظہار کررہے ہیں۔ خدا کے فضل سے آپ نے جوالاپور کے آسمان سے کالی نحوست کا نشان مٹا دیا ہے، بڑا کشت و خون ہوا ہے، یہاں دیوانگی طاری ہوگئی تھی لوگوں پر لیکن میرا خیال ہے کہ اب یہاں ایک نئی زندگی کا آغاز ہوگا اور مسعود شاہ صاحب خدا آپ کو طویل عمر عطا کرے بھلا جوالاپور والے آپ کو نظرانداز کر سکتے ہیں۔‘‘
’’مم… مگر میں کیا کروں، یہاں تو بڑا ہجوم ہے مجھے یہاں سے نکالئے کنور صاحب۔‘‘
’’آپ کی ایک آواز ان لوگوں کو منتشر کر دے گی۔ میری التجا ہے کہ ان سے کچھ الفاظ کہہ دیجئے، میں اعلان کئے دیتا ہوں۔‘‘
’’کیا کہوں میں ان سے؟‘‘
’’کچھ بھی جو آپ کا ذہن قبول کر لے۔ میں خود بھی اتنا ہی پُرجوش ہو رہا ہوں۔‘‘کنور ریاست علی کپکپاتے ہوئے لہجے میں بولے۔ بہرحال یہاں سے نجات حاصل کرنا تھی۔ میں نے آگے بڑھ کر دونوں ہاتھ اُٹھائے اور لوگ اس طرح خاموش ہوگئے کہ سوئی گرنے کی آواز بھی سنائی دے جائے۔ میں نے کہا۔
’’جوالاپور کے رہنے والو! ہندو اور مسلمانو! آپ سب لوگوں کو کالے جادو کے ایک ماہر کے تسلط سے نجات مبارک ہو اور باقی ہر شخص کو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قصور کسی کا نہیں تھا، شیطان کو بہرطور قوتیں عطا کی گئی ہیں اور وہ اپنے شیطانی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ جیسا پنڈت رام اوتار نے کہا کہ کالا دھرم نہ ہندوئوں کا ہے نہ مسلمانوں کا، وہ اور ہی تھا اور آپ لوگوں نے بھی دیکھ لیا کہ ایک وقت ایسا آیا جب اس نے نہ ہندو کی پروا کی، نہ مسلمان کی بلکہ کالے علم سے سبھی کو نقصان پہنچایا۔ اللہ کے کلام میں جو برکت ہے اس کا سہارا لے کر میں نے اللہ کے نام کے ساتھ اس سے جنگ کی اور نتیجے میں وہ ہلاک ہوگیا، آپ سب اطمینان رکھئے اب وہ آپ کو پریشان کرنے کے لئے دوبارہ اس دُنیا میں نہیں آسکے گا۔ اگر آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میں نے آپ کی کچھ خدمت کی ہے تو اس کا صلہ مجھے اس طرح دیجئے کہ بھائی چارے کی فضا پیدا کر کے اپنی اپنی زندگی گزاریئے۔ مسلمان اپنے مذہب کے مطابق عبادت کریں، ہندو اپنے مذہب کے مطابق اور مل جل کر رہیں۔ بس یہی عرض کرنا چاہتا تھا میں آپ سے۔ اب براہ کرم اپنے اپنے گھروں کو جایئے اور نئے انسانوں کی طرح اپنی زندگی گزاریئے، بس اب جایئے میری التجا ہے کہ آپ لوگ اب منتشر ہو جایئے۔‘‘ مجمع برق رفتاری سے چھٹنے لگا۔ کنور ریاست علی خاں مسکراتی نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے، لوگ آہستہ آہستہ چلے گئے اور پھر میں بھی کنور ریاست علی خاں کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ کنور صاحب کہنے لگے۔
’’میں تو ان لمحوں کو کوستا ہوں جب آپ میرے پاس آئے تھے اور میں نے آپ کی ناقدری کی تھی۔ پتہ نہیں آپ اور خدا مجھے معاف کریں گے یا نہیں۔‘‘
’’کیا اب بھی اس کی گنجائش ہے کنور صاحب، ہمارے آپ کے درمیان تو بڑی دوستی ہوگئی ہے؟‘‘ میں نے ان کے ساتھ چلتے ہوئے مسکرا کر کہا اور کنور صاحب نے عقیدت سے جھک کر میرے ہاتھ چوم لیے۔
’’لفظ دوستی تو مجھے آسمان میں بلند کرنے کے لئے کافی ہے، مجھے تو اگر آپ خادم کی حیثیت سے بھی قبول کرلیں تو اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کوئی نہیں ہوگی۔‘‘
’’جذباتی نہ ہوں کنور صاحب، کچھ ذمّےداریاں اللہ کے حکم سے بندوں کے سپرد بھی کر دی جاتی ہیں اور مجھے یہ اعزاز بخشا گیا تھا کہ یہاں اس گندے علم والے کے خلاف جنگ کروں، بس اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوں میں اور اگر آپ نے اپنی عقیدت کے سہارے مجھے ضرورت سے زیادہ اعزازات بخشے تو آپ یقین فرمایئے میرے لئے تکلیف دہ ہوں گے، بس انسانوں ہی کی مانند میرے ساتھ سلوک کیجئے، آپ کی محبت اتنی ہی کافی ہے میرے لئے۔‘‘
کچھ دیر کے بعد ہم مسجد آ گئے۔ کنور صاحب نے کہا۔ ’’حضور چند لمحات لے سکتا ہوں۔‘‘
’’ہاں ہاں تشریف لایئے فرمایئے۔‘‘
اکرام اندر موجود تھا اور اس بے چارے کو ساری صورت حال شاید معلوم بھی نہیں تھی، وہ ہمارا انتظار ہی کر رہا تھا، کنور ریاست علی کہنے لگے۔ ’’حضور مجھے یہ گستاخی کرنی تو نہیں چاہئے لیکن جو دل کو لگی ہے اسے زبان تک لائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ جوالاپور میں طویل عرصے قیام فرمائیں؟ میں کسی قدر اُلجھی ہوئی نگاہوں سے کنور ریاست علی کو دیکھنے لگا، پھر میں نے کہا۔‘‘
’’کنور صاحب، جوالاپور میں انسان ایک مشکل کا شکار تھے۔ میری خدمات یہاں کام آئیں، نہیں کہہ سکتا کہ آئندہ کہاں جائوں، براہ کرم مجھ سے کوئی وعدہ نہ لیجئے، ابھی یہاں مقیم ہوں، کبھی چلا جائوں خاموشی سے تو اسے میری بے وفائی تصور نہ فرمایئے گا اور نہ ہی وعدہ شکنی، بس یوں سمجھ لیجئے کہ مجھے کوئی ذمّے داری سونپی گئی تھی۔‘‘
کنور صاحب نے عقیدت سے گردن ہلائی اور بولے۔ ’’میں سمجھتا ہوں لیکن حضور ابھی تک مجھے کسی خدمت کا موقع عطا نہیں کیا گیا۔‘‘
’’اس کا تصور بھی نہ کیجئے۔ میں نے آپ سے عرض کر دیا تھا کہ میری ضرورتیں اللہ کے حکم سے پوری ہو رہی ہیں، ہاں اگر کہیں کوئی مشکل پیش آئی تو وعدہ کرتا ہوں کہ آپ ہی کو زحمت دوں گا۔‘‘
’’اس کے لئے میں انتہائی شکرگزار ہوں۔‘‘ کنور ریاست علی چلے گئے تو اکرام متجسس انداز میں میرے سامنے آ گیا۔
’’کیا ہوا مسعود بھائی؟‘‘
’’اللہ کے حکم سے وہ شیطان فنا ہوگیا۔‘‘ میں نے جواب دیا اور اکرام خوشی سے لرز گیا۔
’’زندہ باد، زندہ باد مجھے تو پہلے ہی یقین تھا، تو وہ بالکل ختم ہوگیا۔‘‘
’’ہاں اور کنور صاحب کے باغ میں وہ بھوانی کنڈ جو بن رہا تھا، وہ بھی زمین بوس ہوگیا۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ آپ کو مسلسل کامیابیاں عطا فرمائے۔‘‘
پھر ہم معمولات میں مصروف ہوگئے، لوگوں کی عقیدت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ وہ جو شاید کم ہی نماز پڑھتے ہوں گے، یہاں باقاعدہ نماز پڑھنے آنے لگے اور میری درخواست پر وہی بزرگ جنہوں نے روزِ اوّل تمام افراد کی امامت کی تھی، امامت کرتے رہے۔
دو تین دن تک کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جو قابل ذکر ہو، میں منتظر تھا کہ اب دیکھئے مجھے یہاں سے کب اور کہاں روانگی کا حکم ملتا ہے۔ رفتہ رفتہ باتیں سمجھ میں آتی جا رہی تھیں، جو ہدایت مجھے ملنا ہوتی تھی، اس کا ذریعہ کسی نہ کسی شکل میں نکل آتا تھا۔ جیسے جوالاپور آنا اس سے پہلے کے چند واقعات، غرضیکہ کام اسی انداز میں چل رہا تھا۔ تیسرے دن البتہ ایک دلچسپ صورت حال پیش آئی۔ کوئی ساٹھ ستّر افراد باغ کے کنارے پہنچ گئے۔ وہ مسجد کے قریب نہیں آئے تھے بلکہ انہوں نے اپنا ٹھکانہ الگ بنایا تھا، پنڈت رام اوتار ان کی رہنمائی کرتے ہوئے یہاں تک آئے تھے اور انہوں نے اسحاق احمد نامی ایک شخص کا سہارا لیا تھا، پتہ نہیں کیوں یہ مسئلہ کنور ریاست کو نہیں پیش کیا گیا تھا۔ اسحاق مسجد میں داخل ہوا، مجھے سلام کیا اور کہا۔ ’’حضور، کچھ لوگ آپ سے ملنا چاہتے ہیں، پنڈت رام اوتار کی رہنمائی میں وہ یہاں آئے ہیں، کیا آپ انہیں شرفِ ملاقات بخشیں گے ۔ میرا نام اسحاق احمد ہے۔‘‘
’’آئو اسحاق احمد، اگر انہیں مجھ سے کوئی کام ہے تو ضرور چلتا ہوں۔‘‘
میں ان ساٹھ ستّر افراد کے درمیان پہنچ گیا، سبھی نے ہاتھ جوڑ کر ماتھے سے لگا لئے تھے، پنڈت رام اوتار بھی آگے بڑھ آئے تھے۔
’’معافی چاہتا ہوں مہاراج آپ کو پریشان کیا، مگر ان لوگوں کی پریشانی بھی بہت بڑی ہے۔ یہ آپ سے مدد مانگنے آئے ہیں۔‘‘
’’ہاں ہاں کہئے پنڈت جی، کیا حکم ہے میرے لئے؟‘‘
’’مہاراج یہ سب بڑی پریشانی میں پڑ گئے ہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حالات سے گھبرا کر مایا مکنڈل کے سامنے رکھے ہوئے مٹکے سے وہ پانی پی لیا تھا جو ناپاک تھا، انہیں فوراً ہی آرام مل گیا تھا لیکن اب بات یوں ہو گئی ہے کہ ہندوئوں نے انہیں اپنے دھرم سے نکال دیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ یہ کالے دھرم والے ہیں، انہیں جوالاپور چھوڑنا ہوگا۔ کوئی بھی ان کے ساتھ رعایت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس وقت بے چارے پریشانی میں سوجھ بوجھ کھو بیٹھے تھے لیکن اب کیفیت یہ ہے کہ لوگ انہیں اچھوت بنا کر چھوڑے ہوئے ہیں اور ہر طرح کی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں ان کی، اب یہ آپ سے مدد مانگنے آئے ہیں، دوسری صورت میں انہیں جوالاپور چھوڑنا ہوگا، پنچایت نے یہی فیصلہ کیا ہے۔ آپ اگر ان کی کوئی مدد کر سکتے ہیں مہاراج تو کر دیجئے۔‘‘ دفعتہً ہی میرے دل میں ایک خیال آیا، عابد علی اور عارفہ یاد آ گئے تھے۔ بہرطور اس نیکی سے گریز نہیں کر سکتا تھا، میں نے پنڈت رام اوتار سے کہا۔ ’’آپ ہندو دھرم کے ایک محافظ ہیں پنڈت جی، آپ ان کی سفارش کیجئے ان لوگوں سے جو انہیں ہندو دھرم سے نکال پھینکنا چاہتے ہیں۔ آپ انہیں بتایئے کہ انسانی کمزوری نے انہیں مجبور کر دیا تھا ورنہ شاید یہ ایسا نہ کرتے۔‘‘
’’میں ہی کیا، بڑے بڑے لوگ یہ باتیں ایک دوسرے سے کر چکے ہیں مہاراج، مگر کوئی ماننے کے لئے تیار نہیں ہے، شاید آپ کی بات مان لیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ انہیں وہ مقام کبھی نہیں مل سکے گا جو یہ کھو چکے ہیں۔‘‘ میں نے ان سب کی طرف دیکھا اور کہا۔
’’کیا آپ کے بال بچّے بھی آپ سے اختلاف رکھتے ہیں؟‘‘
’’نہیں مہاراج، ان بے چاروں کے لئے ہی تو ہم نے یہ سب کچھ کیا تھا۔ بس مت ماری گئی تھی، تقدیر کو یہ سب کچھ کرنا تھا ہمارے ساتھ، سو ہوگیا، اب ہمارا اپنے دھرم میں کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔‘‘
’’تو پھر پنڈت رام اوتار جی آپ مجھے اجازت دیجئے کہ میں وہ کہوں جو میرے دل میں ہے؟‘‘
’’ارے رام رام، ہم اجازت دیں گے آپ کو مہاراج…‘‘ پنڈت رام اوتار نے کہا۔
’’میں انہیں اپنے دین میں خوش آمدید کہوں گا۔ اگر یہ محسوس کرتے ہیں کہ اب ان کا اپنے دھرم میں کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ اگر یہ چاہتے ہیں کہ جوالاپور ہی میں رہیں اور انسانوں کی طرح رہیں تو پھر میں انہیں مسلمان ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔‘‘
رام اوتار نے محبت سے مجھے دیکھا۔ دیر تک سوچتا رہا پھر کسی قدر ہچکچاتے ہوئے بولا۔ ’’کچھ پوچھنا چاہتے ہیں مہاراج۔‘‘
’’ضرور رام اوتار…‘‘
’’مہاراج۔ ان کے شریر گندے ہو چکے ہیں۔ یہ ادھرمی ہو چکے ہیں، کالے جادو کی گند اِن کے شریر میں دوڑ رہی ہے۔ کیا آپ کا دھرم اس کے باوجود انہیں سوئیکار کرے گا۔‘‘
میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں نے کہا۔ ’’ہاں رام اوتار جی۔ اس کی وجوہ ہیں۔‘‘
’’ہم جاننا چاہتے ہیں۔‘‘
’’انسانی وجود تو مٹی ہے رام اوتار جی۔ مٹی سے بنا، مٹی میں جا ملا۔ اس میں ہے کیا۔ گندگی ہی گندگی۔ صرف رُوح ہے جو اسے پاک صاف رکھتی ہے۔ رُوح نکل جائے دو دن رکھ کر دیکھ لو، پاس کھڑے نہ رہ سکو گے۔ اسلام رُوح کا دین ہے۔ اس میں رُوح کی پاکی کو اوّل مقام دیا گیا ہے۔ اگر رُوح پاک ہے تو جسم بھی پاک ہے۔ پھر ہمارا دین رام اوتار جی انسانی کمزوریوں کو بھرپور تحفظ دیتا ہے۔ گناہ کی معافی ہے۔ غلطیوں کے لئے عفو ہے۔ سچّے دل سے انحراف گناہ کر لو۔ معافی کا امکان ہے۔ مقصد یہ کہ ہمارے دین کا معاملہ رُوح کی سچائی سے ہے۔ اگر یہ سچّے دِل سے کلمہ پڑھ لیں تو عام مسلمانوں میں اور ان میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔‘‘
’’ہم مسلمان ہونا چاہتےہیں۔ ہم اپنے بچوں کے ساتھ مسلمان ہونا چاہتے ہیں۔‘‘ وہ سب بول پڑے۔
’’ٹھیک ہے مہاراج۔ ان کا بھی یہ پرکھوں کا ٹھکانہ ہے۔ پھر جو آپ کہہ رہے ہیں اس سے تو کوئی اختلاف نہیں کرے گا۔ کیا ہندو کیا مسلمان سب آپ کو مانتے ہیں۔‘‘
’’تو پھر تیاریاں کیجئے۔ میں چاہتا ہوں کوئی اختلافی مسئلہ نہ پیدا ہو۔‘‘
’’آپ جو حکم دیں مہاراج وہی ہم کریں۔‘‘ رام اوتار بولے۔
’’اب یہ ذمّے داری آپ ہم پر چھوڑ دیں رام اوتار جی۔‘‘ میں نے کہا اور وہ تیار ہوگئے۔ اتنی بڑی سعادت حاصل ہو رہی تھی مجھے۔ میں لاچار گناہ گار بھلا یہ حیثیت کہاں رکھتا تھا لیکن اللہ نے مجھے یہ مقام عطا فرمایا تھا۔ کنور ریاست علی خاں کو بلا بھیجا۔ وہ تو تھے ہی میرے دیوانے، ایک تقریب ہی منا ڈالی انہوں نے۔ دیگیں چڑھوا دیں۔ تمام گھرانوں کو باغ میں بلوا لیا۔ سب کا کھانا کیا۔ ہندو خاموش تھے کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا لیکن کوئی شریک بھی نہیں ہوا تھا۔ اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر سابق مول چند اور موجودہ عابد علی نے بھی مع اپنی بیوی سب کے سامنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اور یہ مقدس رسم بخیر و خوبی سرانجام پا گئی۔ کنور صاحب بھی بے حد خوش تھے۔ انہوں نے ان نومسلم گھرانوں کےسارے مسائل نبھانے کا وعدہ کرلیا تھا۔
اسی رات، رات کے کوئی دو بجے تھے۔ کچھ عجیب سی تھکن سوار تھی۔ گہری نیند سو گیا تھا۔ اچانک کسی نے پائوں پکڑ کر زور سے ہلایا اور میں چونک کر جاگ گیا۔
’’باہر کوئی بلا رہا ہے۔‘‘ آواز سنائی دی اور میں ہڑبڑا کر اُٹھ گیا۔ کچھ فاصلے پر اکرام سو رہا تھا۔ جگانے والا نظر نہیں آیا۔ البتہ کچھ فاصلے پر ایک سایہ سا محسوس ہوا جو آگے بڑھ رہا تھا۔ الفاظ بھی سنے تھے میں نے، پائوں پر لمس کا احساس بھی تھا۔
سوتے ہوئے ذہن نے چند لمحوں میں کوئی فیصلہ کیا۔ لیکن پھر فوراً اپنی بات سمجھ میں آگئی۔ الفاظ ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہے تھے میں نے جلدی سے آنکھیں بھینچ کر ذہن کو جھٹکا اور پھر مسجد کے دروازے کی جانب چل پڑا۔
بالکل درست بات تھی۔ باہر میں نے ایک بیل گاڑی دیکھی ایک آدمی بھی اس میں سوار تھا۔ میں جلدی سے آگے بڑھ کر بیل گاڑی کے نزدیک پہنچ گیا اور میں نے بیل گاڑی میں بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کیا، جواب میں وعلیکم السلام سنائی دیا اور پھر اس شخص نے کہا۔
’’بیٹھ جائو، طلبی ہوئی ہے، چلو آ جائو دیر نہ کرو…‘‘ ایک عجیب سا تحکمانہ انداز تھا۔ ایک لمحے کے لئے تو ذہن سوچ میں ڈوبا رہا۔ پھر کسی احساس نے گاڑی میں لا بٹھایا۔ بیل گاڑی ہانکی جانے لگی تھی… اور میں اپنے ذہن سے نیند کے اثرات دُور کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ بار بار آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بیل گاڑی چلانے والے کی صورت دیکھنا چاہی لیکن پتہ نہیں بینائی میں کوئی فرق آ گیا تھا یا پھر آنکھیں رات کی تاریکی کی وجہ سے صحیح صورت حال کا اندازہ نہیں لگا پا رہی تھیں۔ بیل گاڑی ہانکنے والے کے خدوخال ایک بار بھی واضح نہیں ہو سکے، سیدھا سادا سا معمولی سا لباس بدن پر تھا اور وہ اپنے کام سے کام رکھے ہوئے تھا۔ میں گہری سانس لے کر خاموش ہوگیا۔ؒ زیادہ تجسس بھی بہتر نہیں ہوتا، مدھم مدھم روشنیاں گھروں سے جھانک رہی تھیں اور رات کے اس پہر کا صحیح اندازہ ہو رہا تھا۔ انسان کی فطرت میں تجسس بے پناہ ہوتا ہے لیکن بعض اوقات ضرورت سے زیادہ تجسس بھی مسائل کا باعث بن جاتا ہے، جس غیرمتوقع انداز میں یہ سب کچھ ہوا تھا، اس نے کچھ دیر تک تو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ پھر گزرتے ہوئے لمحات کے ساتھ میں نے اپنا ذہن آزاد چھوڑ دیا۔ جوالاپور کی روشنیاں پیچھے رہ گئیں، اب دونوں سمت کھیت تھے اور ان کے درمیان ایک پگڈنڈی پر یہ گاڑی چل رہی تھی، کوئی ڈیڑھ گھنٹے یہ سفر جاری رہا۔ بدن کو خوب جھٹکے لگے اور ہوش و حواس اب بالکل بیدار ہوگئے۔ گاڑی چلانے والا بالکل خاموش تھا، میں نے بھی خاموشی اختیار کئے رکھی۔ پھر کافی فاصلے پر درختوں کےجھنڈ نظر آئے اور ان کے درمیان مدھم مدھم روشنی، عجیب سی سفید روشنی۔ میں نے ایک گہری سانس لی۔ گاڑی کا رُخ اسی جانب تھا۔ کچھ دیر کے بعد وہ درختوں کے جھنڈ کے پاس پہنچ کر رُک گئی۔ لوگ محسوس ہو رہے تھے، سفید سفید سائے اِدھر سے اُدھر آ جا رہے تھے۔ میں بھی گاڑی سے نیچے اُتر آیا اور گاڑی والا میری رہنمائی کرتا ہوا درختوں کے جھنڈ کے بیچ لے گیا مجھے… یہاں ایک جگہ صاف ستھری کر کے اس پر قالین بچھایا گیا تھا اور میرے پہنچنے کے بعد وہاں گردش کرتے ہوئے تمام سائے گول دائرے کی شکل میں بیٹھ گئے۔ انہوں نے گردنیں جھکا لی تھیں۔ میں بھی آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا ہوا ان کے درمیان پہنچنے کی کوشش کرنے لگا۔ تو اچانک ہی ایک شخص نے پیچھے سے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر مجھے روک دیا۔
’’نہیں یہ قطب اور اَبدالوں کی محفل ہے، تم ان کے درمیان نہ بیٹھو، تمہاری جگہ ان کے عقب میں ہے، خاموشی سے انہی کی مانند بیٹھ جائو۔‘‘ میں نے ان الفاظ پر غور کیا اور ہدایت کے مطابق بیٹھ گیا۔ قطب اور ابدال… میں نے دل ہی دل میں سوچا، بڑے مرتبے ہوتے ہیں۔ بھلا میرا ان کے درمیان کیا دخل، تاہم دوزانو بیٹھ کر گردن اسی انداز میں خم کر لی۔ آنکھیں خود بخود بند ہوگئیں اور یوں محسوس ہوا جیسے ان بند آنکھوں میں بہت سے مناظر روشن ہوگئے ہوں۔ میں نے ان تمام سایوں کو کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا۔ مدھم مدھم آوازیں کانوں میں اُبھر رہی تھیں اور گفتگو کی جا رہی تھی۔ پھر چند افراد میری جانب متوجہ ہوئے اور ایک شخص نے مجھے بغور دیکھتے ہوئے کہا۔
’’نہ تم قطب ہو اور نہ ابدال… اور یہی تجویز کیا گیا ہے تمہارے لئے کہ ابھی رکنیت اختیار کئے رہو، ایک کارکن کی قدر و قیمت بھی بہت ہوتی ہے اور جو تجویز کیا جائے وہی زیادہ بہتر کہ ترک دُنیا کے لئے بہت کچھ ترک کرنا پڑتا ہے لیکن بُرا نہیں کہ دُنیا سے تمہارا تعلق رہے۔ ہاں جو ذمہ داریاں سونپی جائیں ان کی انجام دہی کےبعد ہی منزل مل سکتی ہے۔ سو ذمہ داریاں نبھانے کے لئے ابھی بہت کچھ ہے، وقت مختصر نہیں ہوتا، سوچ مختصر ہوتی ہے، عمل طویل اور عمل طویل سے گزرے بغیر کچھ نہیں ملتا۔ لیکن ترک دُنیا کرنا چاہو تو آرزو کرنا اور نہ چاہو تو نقصان نہیں، تمہارا واسطہ چند افراد سے ہے اور جہاں سے ابتدا ہوئی وہاں واپسی لازم ہوگی اور اس کےبعد چھوڑنا چاہو گے تو قبول کیا جائے گا، وہ بھی فیصلے کے بعد اور عمل کی گنتی گن کر… چنانچہ تمہارے لئے طے پایا کہ جہاں ذمہ داریاں سونپی جا رہی ہیں وہاں تمہاری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ وہ جو تم سے زیر ہوئے بے شک لیکن وہ ابھی حیات ہے، تمہیں اس کا پیچھا کرنا ہے، سات کھونٹے گاڑے ہیں اس نے اور یہ ساتوں کھونٹے اُکھاڑنے ہیں تمہیں کہ ذمہ داریاں تم پر سے کم کر دی گئی تھیں جو پورنیاں تم نے اپنی حماقت سے خود پر چڑھا رکھی تھیں، وہ ایک گندی رُوح کا شکار ہوگئیں اور تم خوش قسمتی سے اپنے وقت کی طوالت کو کم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن وقت مختصر نہیں ہوتا اور تمہیں اس طوالت سے گزرنا ہے۔ وہ سات کھونٹے رفتہ رفتہ تمہارے سامنے آئیں گے اور یہ تمہارا فرض ہوگا کہ انہیں اکھاڑ پھینکو، بڑی بڑی باتیں ہی نہیں چھوٹے چھوٹے کام بھی ہوتے ہیں اور صرف بڑے ہی کاموں کی طرف توجہ دینا بالکل غیرمناسب۔ سو یوں کرو کہ چل پڑو اور اسے ساتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کم از کم اس وقت تک جب تک کہ ایک شیطان اس کا پیچھا کر رہا ہے، تمہیں اس کی مدد کرنی ہے۔ اسے بچائے رکھو اور جو چھوٹے چھوٹے ضرورت مند تم تک پہنچیں ان کی ضرورت میں کام آئو لیکن خاموشی سب سے بہتر ہوتی ہے اور تمہیں ہر کام خاموشی ہی سے کرنا ہے۔ خبردار کسی ستائش سے نڈھال نہ ہو جانا کہ وہیں سے برائیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ ہاں دلوں کو رکھنا بھی ایک عبادت ہے، اس سے گریز نہ کرنا اور جو دل میں آئے اسے زندہ رکھو، ابھی تمہیں قتل کی اجازت نہیں ملی ہے، اس کے لئے تو بڑے مدارج طے کرنا ہوتے ہیں، بس اتنی ہی ذمہ داریاں تھیں تمہاری۔ واپسی میں وہ جگہ چھوڑ دو اور ضروری نہیں ہے کہ تم اس کا اعلان کرو کہ لوگ معصوم ہوتے ہیں اور عقیدت وسیع، لیکن اس میں کچھ برائیاں بھی شامل ہو جاتی ہیں اور تمہیں اس سے گریز کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ بس اب واپسی اور نہ سمجھ پائے ہو تو سمجھا دیا جائے گا کہ ابھی طالب علم ہو اور علم کے سمندر سے ایک قطرہ بھی حاصل نہیں کر سکے، تاہم جو فرض پورا کر رہے ہو، اس کا صلہ ضرور ملتا ہے، سو ملے گا۔ بس اب جاگ جائو۔‘‘
مجھے زوردار جھٹکا لگا اور یوں محسوس ہوا جیسے اچانک ہی بلندی سے نیچے گرپڑا ہوں۔ اسی طرح دوزانو بیٹھا ہوا تھا لیکن آنکھوں کے سامنے نہ وہ جھنڈ تھا اور نہ وہ روشنی اور نہ ہی اَبدالوں کی محفل بلکہ جہاں مسجد میں سویا تھا وہی جگہ تھی اور کچھ فاصلے پر اکرام نظر آ رہا تھا۔ کچھ دیر دل و دماغ سنبھالتا رہا۔ دوبارہ آنکھیں بند کر لیں اور ذہن میں وہ ہدایات تازہ کرنے لگا جو دی گئی تھیں۔ یہاں سے روانہ ہونا تھا۔ فیصلہ کیا کہ فجر کی نماز سے فراغت حاصل ہوتے ہی سفر کا آغاز کر دوں گا۔ فجر کی اذان دی تو اکرام جاگ گیا۔ کچھ دیر کے بعد نمازی آنے شروع ہوگئے، نماز پڑھی اور پھر اکرام کو صورت حال سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا۔
’’اکرام یہاں سے چلنا ہے۔‘‘
’’کہاں مسعود بھائی؟‘‘
’’اللہ کی زمین وسیع ہے۔‘‘
’’بے شک لیکن کب؟‘‘
’’اب سے چند لمحات کے بعد۔‘‘
’’اوہ ، تیاریاں کروں؟‘‘
’’تیاریاں کیا کرنی ہیں۔ بس اُٹھیں گے اور چل پڑیں گے۔‘‘
’’ان لوگوں کو اطلاع نہیں دیں گے۔‘‘
’’مناسب نہیں ہے اکرام۔ ان کی محبتیں بے پایاں ہیں۔ میں انہیں نہ سنبھال پائوں گا۔‘‘
’’یہ تو درست ہے۔‘‘ اکرام نے کہا۔ نمازی ایک ایک کر کے چلے گئے اور میں اکرام کے ساتھ خاموشی سے باہر نکل آیا۔ پھر ایک سمت اختیار کر کے ہم تیز رفتاری سے چل پڑے۔ ذہن آزاد چھوڑ دیا تھا، رفتار تیز تھی چلتے رہے دوپہر ہوگئی۔ دُھوپ چلچلا رہی تھی۔ گرمی کے مارے بدن جلا جا رہا تھا۔ ایسی شدید پیاس لگ رہی تھی کہ چکر آنے گے تھے۔ پھر یک بیک اکرام نے کہا۔
’’وہ، وہ مسعود بھائی۔ وہ۔‘‘ میں نے اس کے اشارے پر نگاہ دوڑائی۔ بہت دُور گہرائیوں میں کچھ درخت نظر آ رہے تھے۔ میں نے اُدھر رُخ کرنے سے احتراز نہیں کیا۔ لیکن کافی فاصلہ طے کرنا پڑا تھا۔ خدا کی قدرت کا تماشا نظر آیا۔ درحقیقت اسے چشمۂ حیات کہا جا سکتا تھا۔ بے آب و گیاہ چٹانوں میں انسان سے اللہ کی محبت کا جیتا جاگتا ثبوت تھا۔ ایک چٹان سے چشمہ َرس رہا تھا اور پتھریلی شفاف گہرائیوں میں ننھی سی جھیل ہلکورے لے رہی تھی۔ پانی اتنا شفاف تھا کہ تہہ کے پتھر تک نظر آ رہے تھے۔ ساتھ میں تاڑ کے درخت اُگے ہوئے تھے۔ پیلے پکے تاڑ کے پھل دُور دُور تک زمین پر بکھرے ہوئے تھے۔ اکرام نے سوالیہ نگاہوں سے مجھے دیکھا۔
’’اللہ کی ملکیت ہے اور ہمیں اجازت ہے۔‘‘ پانی پیا، تاڑ کے پھل کھائے اور آرام کرنے لیٹ گئے۔ چشمے کے پانی سے چھو کر چلنے والی ہوائوں نے پلکیں جوڑ دیں اور سورج ڈھلے تک سوتے رہے۔ اکرام نے بدحواسی سے مجھے جگایا تھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’عصر کی نماز نکل گئی۔‘‘
’’وقت ہے؟‘‘
’’میرا خیال ہے کہ نہیں ہے۔‘‘
’’قضا پڑھ لیتے ہیں۔ اللہ معاف فرمائے۔‘‘ عصر کی اور کچھ دیر کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔ پھر سفر کے لئے تیار ہوگئے۔ پانی پیا اور چل پڑے دن کا سفر رہ گیا تھا، اس لئے کسر پوری کی اور آدھی رات تک سفر جاری رکھا۔ اس طرح چار دن سفر میں گزر گئے۔ پانچویں رات بھی ایک دشت میں قیام کیا تھا، لیکن یہاں سے کوئی میل بھر کے فاصلے پر روشنی نظر آئی اور میں نے اکرام کو ادھر متوجہ کیا۔ اکرام نے ایک درخت پر چڑھ کر دُور تک دیکھا پھر نیچے آ کر بولا۔
’’پوری آبادی ہے اور کوئی اچھا خاصا شہر ہے۔‘‘
’’کیسے اندازہ ہوا…؟‘‘
’’وہ جو روشنی سامنے نظر آ رہی ہے کس قدر بلندی پر ہے۔ اس کے پس منظر میں بہت سی روشنیاں جل رہی تھیں۔ آسمان پر دن کا عکس یہاں سے بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔‘‘
’’گویا ہماری منزل۔‘‘
’’یہیں آنا تھا ہمیں؟‘‘
’’شاید۔‘‘ میں نے پُرخیال انداز میں کہا۔ ’’پھر اکرام سے پوچھا کہ آگے بڑھنے کی ہمت ہے۔‘‘
’’کیوں نہیں مسعود بھائی۔‘‘
’’آئو پھر اس پھیلی روشنی میں قیام کرتے ہیں۔ دیکھیں وہاں کیا ہے۔‘‘ ہم چل پڑے۔ روشنی ایک خانقاہ کے چراغ کی تھی جو طاق میں جل رہا تھا۔ پہاڑی پتھروں کو چن کر ایک بلند کمرہ جیسا بنایا گیا تھا جس کا دروازہ بند تھا۔ انہیں پتھروں کا ایک قدم آدم دیواروں والا احاطہ بنایا گیا تھا جس میں کسی انسان کا پتہ نہیں تھا البتہ کچھ اور چیزیں یہاں موجود تھیں مثلاً ایک سمت پتھروں ہی کو چن کر ایک چبوترا سا بنایا گیا تھا۔ دُوسری سمت چند مٹکے رکھے ہوئے تھے جن میں پینے کا پانی تھا کیونکہ گلاس اور پانی نکالنے والا برتن بھی وہاں موجود تھا، احاطے کی وسعت اچھی خاصی تھی۔ چند درخت بھی لگے ہوئے تھے جن کی چھائوں زمین پر پھیلی ہوئی تھی۔ اُوپر کچھ جھنڈے جیسے بھی لگے ہوئے تھے جن سے یہ اظہار ہوتا تھا کہ یہ خانقاہ کسی کا مزار بھی ہے مگر مکمل ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ کوئی یہاں موجود نہیں تھا یا اگر کوئی ہوگا تو پھر اس وسیع و عریض کمرے کے اندر ہوگا، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔ ہم تو روشنی دیکھ کر چلے آئے تھے اور اکرام کے بیان کے مطابق دُوسری سمت ایک وسیع و عریض آبادی پھیلی ہوئی تھی۔ مدھم مدھم روشنیاں اس آبادی میں زندگی کا پتہ دیتی تھیں۔ یہ جگہ خاصی الگ تھلگ تھی اور کسی پہاڑی کٹائو کی بلندی پر واقع تھی، بستی نیچے کی سمت آباد تھی۔ میں نے ایک گہری سانس لے کر اکرام کو دیکھا اور کہا۔ ’’اکرام اچھی جگہ ہے۔ کیا خیال ہے؟‘‘
’’ہاں مسعود بھائی آپ کے کہنے کے مطابق اللہ کی وسیع و عریض زمین پر ہر جگہ اچھی ہے۔‘‘
’’تو بس پھر یہیں قیام کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ آئو وہ گوشہ اپنا لیں، درختوں کی پناہ میں پہنچ جائیں۔‘‘ اکرام نے حسب عادت گردن ہلا دی اور ہم نے ایک صاف ستھری جگہ ڈیرہ ڈال لیا، وقت گزرتا رہا، سونے کی کوشش کر رہے تھے۔ نجانے رات کا کون سا پہر تھا کہ اچانک کچھ آہٹیں محسوس ہوئیں اور اکرام اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
’’کوئی آ رہا ہے بھیّا۔‘‘ اس نے کہا۔
’’آنے دو، خدا کے بندے ہی ہوں گے۔‘‘ میں لاپروائی سے بولا۔
’’معلوم کیا جائے کون سی جگہ ہے؟‘‘
’’میرا خیال ہے مناسب نہیں ہے، صبح سورج نکلے گا خودبخود پتہ چل جائے گا جو کوئی بھی ہے نجانے کس مقصد کے تحت آیا ہے۔‘‘ اکرام خاموش ہوگیا اور ہم انتظار کرتے رہے۔ پھر یکے بعد دیگرے اُوپر آنے والی سیڑھیوں سے چند سر اُبھرے۔ مدھم روشنی میں ان کے خدوخال تو واضح نہیں ہو سکے تھے، آنے والوں کی تعداد غالباً سات تھی، کوئی سامان اُٹھائے ہوئے آ رہے تھے۔ خانقاہ کے دروازے کے بغلی حصے سے گزرتے ہوئے وہ غالباً خانقاہ کے عقب میں چلے گئے۔ ہم خاموشی سے بیٹھے انہیں دیکھتے رہے تھے، نجانے کیا سامان لدا ہوا تھا ان کے شانوں پر۔ ہمارا خیال تھا کہ شاید وہ واپس آئیں، انتظار کرتے رہے، لیکن کوئی واپس نہیں آیا اور پھر آہستہ آہستہ آنکھوں میں نیند رینگ آئی اور ہم دونوں ہی سوگئے۔
صبح کو معمول کے مطابق آنکھ کھل گئی تھی۔ فجر کی نماز کا وقت قریب آ رہا تھا۔
’’نماز پڑھ لیں اکرام۔‘‘
’’ہاں مسعود بھیّا۔‘‘
وضو کا انتظام تھا۔ نماز پڑھی اور پھر وہاں سے آگے بڑھ آئے۔ بڑا سہانا وقت تھا۔ آسمان سے نور برس رہا تھا۔ تاحد نگاہ خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ہم دونوں اس سمت آ کھڑے ہوئے، یہاں سے گہرائیوں میں بکھرا شہر نظر آ رہا تھا۔
’’نہ جانے کون سا شہر ہے؟‘‘
’’معلوم ہو جائے گا لیکن وسیع ہے اور خوبصورت ہے۔‘‘
’’اوہ۔ وہ دیکھئے۔‘‘ اچانک اکرام نے اشارہ کیا۔ دو آدمی جو خانقاہ کے بغلی گوشے سے ٹہلتے ہوئے باہر آئے تھے۔ ہم ان سے زیادہ دُور نہ تھے۔ پھر انہوں نے ہمیں دیکھ لیا۔ دونوں ٹھٹک گئے۔ پھر تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے ہمارے پاس آ گئے۔ جوان آدمی تھے، چہروں اور آنکھوں میں زندگی تھی اور کسی قدر شبہے کے آثار۔
’’کیا کر رہے ہو یہاں۔‘‘ ان میں سے ایک نے سخت لہجے میں کہا۔
’’ارے بھائی نہ سلام نہ دُعا۔ عجیب سوال کیا ہے تم نے۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا۔
’’اتنی صبح یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’نماز سے فارغ ہوئے ہیں اور حسن خداوندی دیکھ رہے ہیں۔‘‘
’’نماز سے فارغ ہوئے ہو۔‘‘ دُوسرے نے کسی قدر حیرت سے کہا۔
’’کیا رات کو یہاں رہے ہو۔‘‘ پہلا بولا۔
’’ہاں۔ مسافر ہیں۔ سفر کر رہے تھے۔ روشنی دیکھ کر اِدھر آ گئے اور پھر یہاں پڑ رہے۔‘‘
’’کہاں تھے؟‘‘
’’اس درخت کے نیچے۔‘‘
’’کہاں سے آئے ہو۔‘‘
’’جوالاپور سے۔‘‘
’’اس خانقاہ کے بارے میں کیا جانتے ہو؟‘‘
’’ابھی تو کچھ بھی نہیں۔ تم پہلے انسان نظر آئے ہو۔ تم سے یہاں کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں۔‘‘
دونوں نے ایک دُوسرے کی شکل دیکھی۔ پھر ایک بولا۔ ’’بڑی غلطی کی ہے تم نے یہاں رات گزار کر۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’یہ بہت خطرناک جگہ ہے۔‘‘
’’مگر ہمیں تو… ہمارا خیال تو تھا کہ یہ کسی بزرگ کا مزار ہے۔ یہ جھنڈا اور یہ…‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے۔ یہ بھورے شاہ کا مزار ہے۔ لیکن۔‘‘
’’لیکن کیا؟‘‘
’’بے وقوفو۔ یہاں مغرب کے بعد کسی کا آنا منع ہے۔‘‘ مغرب سے پہلے پہلے لوگ چلے جاتے ہیں کیونکہ اس کے بعد یہاں شیر آ جاتے ہیں
’’شیر؟‘‘
’’ہاں۔ بھورے شاہ کے غلام۔ احاطے کی صفائی کرتے ہیں۔ بھورے شاہ کے دربار میں حاضری دیتے ہیں ہم لوگوں نے خود دیکھا ہے۔ ایسے میں اگر یہاں انسان موجود ہوں تو تم خود سوچو کیا ہو سکتا ہے۔‘‘
’’کیا ہو سکتا ہے۔‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔
’’خوش نصیب ہو بچ گئے۔ ورنہ پتہ چل جاتا کہ کیا ہوتا ہے۔‘‘ دُوسرا ہنس پڑا۔
’’شیروں نے کسی کو ہلاک کیا ہے کیا۔‘‘
’’لوگ تمہاری طرح بے وقوف نہیں ہیں۔ دُھوپ چڑھے منتیں، مرادیں مانگنے آتے ہیں اور دُھوپ ڈھلے چلے جاتے ہیں۔ کوئی ہو تو شیر اسے ہلاک کریں۔ آئندہ یہاں نہ رُکنا۔‘‘
’’آپ لوگ کون ہیں؟‘‘
’’ہم خدّام ہیں بھورے شاہ کے۔‘‘
’’شیروں نے آپ کو نقصان نہیں پہنچایا؟‘‘
’’ہم تو اندر رہتے ہیں۔ مگر تم بحث کیوں کر رہے ہو۔‘‘ دُوسرا تیز لہجے میں بولا۔
’’اس لئے کہ ہمیں تم سے اختلاف ہے۔‘‘
’’کیسا اختلاف۔‘‘
’’شیر اگر یہاں آتے ہیں تو عقیدت مند بن کر۔ اس وقت وہ شیر نہ ہوتے ہوں گے بزرگ کے خادم ہوتے ہوں گے۔ وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ یہ تمہاری خام خیالی ہے۔ ویسے یہ شہر کون سا ہے۔‘‘
’’عازم آباد۔ تم یہ بھی نہیں جانتے۔‘‘
’’ہاں۔ معلوم نہیں تھا۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے اب معلوم ہوگیا۔ شام ہونے سے پہلے یہاں سے بھاگ جانا۔‘‘ وہ آگے بڑھ گئے۔ میں نے مسکرا کر اکرام کو دیکھا۔
’’کیا کہتے ہو اکرام؟’‘‘
’’عجیب سی باتیں ہیں۔ مگر ہمیں کیا۔‘‘
’’نہیں اکرام۔ اب یہی ہمارا ٹھکانہ ہے۔ جب تک۔‘‘ میں نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ اکرام نے چونک کر مجھے دیکھا اور خاموش ہوگیا۔
عقیدت مندوں نے آنا شروع کر دیا تھا۔ پھول، ہار چادریں۔ خانقاہ کا دروازہ کھل گیا تھا۔ ہم نے بھی اندر موجود مزار کی زیارت کی ایک وسیع قبر بنی ہوئی تھی جو پھولوں اور چادروں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ دوپہر کے بعد سے رش بڑھ گیا۔ کچھ خوانچے والے بھی آ گئے۔ میری جیب میں آٹھ روپے موجود تھے۔ جوالاپور سے نکل آئے تھے اس لئے خرچ پھر ملنے لگا تھا۔ جو کچھ ملا خرید کر پیٹ بھر لیا۔ یوں پورا دن گزر گیا۔ سرشام لوگوں نے واپسی شروع کر دی۔ کچھ گھبراہٹ سی پائی جاتی تھی۔ غالباً اسی روایت کا نتیجہ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے انسان غائب ہوگئے، سورج چھپ گیا۔ ہم نے پرانا ٹھکانہ سنبھال لیا۔ خانقاہ کا دروازہ بند ہوگیا، چراغ روشن ہوگیا۔ اب اکرام بھی اس ماحول سے پوری دلچسپی لے رہا تھا۔ رات کو اچانک وہ دونوں آ گئے۔ پورے احاطے کا چکر لگا کر ہماری طرف آئے تھے۔
’’ارے تم… تم ابھی تک یہاں موجود ہو۔‘‘
’’ہاں بھائی۔ ابھی کچھ وقت یہاں گزاریں گے۔‘‘
’’اور ہم نے جو کچھ کہا تھا۔‘‘
’’اللہ مالک ہے۔‘‘
دونوں کچھ سوچتے رہے۔ پھر واپس پلٹ گئے۔ لیکن کچھ دیر کے بعد وہ پھر آئے ایک کے ہاتھ میں کھانے کے برتن تھے۔
’’خانقاہ کے مہمان بنے ہو تو لو کھانا کھائو۔‘‘
’’جزاک اللہ۔‘‘ میں نے انحراف نہ کیا۔ وہ کھانا رکھ کر چلے گئے اور ہم کھانے میں مصروف ہوگئے۔ پانی کے برتن بھی تھے۔ عمدہ کھانا تھا خوب ڈٹ کر کھایا۔ پھر پانی پیا۔ لیکن اچانک۔ پانی پیتے ہی سر بُری طرح چکرانے لگا۔ عجیب سی کیفیت ہوگئی تھی۔ ہر شے گھومتی محسوس ہو رہی تھی اکرام لمبا ہوگیا۔ میں نے اسے آواز دینا چاہی لیکن زبان ساتھ نہ دے سکی اور پھر میں بھی دُنیا و مافیہا سے بے خبر ہوگیا۔
غالباً صبح ہو گئی تھی۔ کچھ رخنوں سے دھوپ کی لکیریں زمین کرید رہی تھیں اور دن کی وجہ سے اردگرد کا ماحول خوب روشن ہو گیا تھا۔ میری نگاہوں نے اطراف کا جائزہ لیا۔ بدن کے نیچے کھردرا سنگی فرش بھورے رنگ کی ناہموار دیواریں تھیں، جن رخنوں سے روشنی کی لکیریں جھانک رہی تھیں، وہ بے ترتیب تھیں یعنی روشن دان نہیں تھے بلکہ باریک باریک درزیں پڑی ہوئی تھیں۔ صاف ظاہر ہو جاتا تھا کہ کوئی پہاڑی غار ہے۔ نگاہوں نے اپنا کام پورا کیا تو دوسرے احساسات جاگے اور ان میں پہلا احساس یہ تھا کہ ہاتھ پائوں نہایت مضبوطی سے کس کر باندھ دیئے گئے ہیں اور اس طرح کہ یہ بندشیں کھولی نہ جا سکیں۔ فوراً ہی اکرام کا خیال آیا، دیواریں اور چھت تو دیکھ لی تھی۔ فرش پر اکرام کے تصور سے نظر دوڑائی تو وہ ایک دیوار ہی سے لگا بیٹھا ہوا نظر آیا۔ مجھ سے پہلے جاگ گیا تھا۔ مگر جاگنے کی بات کہاں، اسے تو بے ہوشی کے بعد ہوش کا نام دیا جا سکتا تھا۔ اکرام کی صورت دیکھتے ہوئے میں نے گزرے لمحات پر نظر دوڑائی اور صاف ظاہر ہو گیا کہ جو کھانا ہمیں دیا گیا تھا اس میں کوئی خواب آور شے ملی ہوئی تھی۔ کچھ اور پیچھے ذہن دوڑایا تو وہ لوگ یاد آئے جنہوں نے کھانا دیا تھا۔ ہمارے بارے میں ان کے سوالات کرنے کا انداز مشکوک تھا اور اس کے بعد غالباً انہوں نے ہمارے بارے میں فیصلہ کیا تھا اور اسی فیصلے کے تحت ہمیں خانقاہ کا مہمان بنایا گیا تھا۔ لیکن کیوں آخر کیوں۔ اکرام بھی یقیناً بے ہوش زمین پر پڑا ہوا ہو گا اور کھسک کھسک کر اس نے دیوار کی پشت پناہی حاصل کی ہوگی۔ میں نے بھی اپنے ہاتھوں اور پیروں کو جنبش دے کر دیکھا اور مجھے احساس ہوا کہ میں کھسک کر اکرام کے پاس پہنچ سکتا ہوں۔ سو میں نے اس پر عمل کر ڈالا اور چند لمحات کے بعد اس دیوار سے جا لگا۔ اکرام ساکت بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی صورت دیکھ کر مجھے ہنسی آ گئی اور وہ حیران ہو کر مجھے دیکھنے لگا۔
’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’بس یہی تمام سب کچھ اور ایک اور بات بھی سوچ رہا ہوں۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’مسعود بھائی اگر انسان کو زندگی میں کوئی ایسا دکھ نہ مل جائے جو اس کے دل کو داغدار کرتا رہے تو سچی بات یہ ہے کہ یہ زندگی جو میں گزار رہا ہوں یا اگر آپ مجھ سے اتفاق کریں تو ہم گزار رہے ہیں، بری نہیں ہے۔‘‘
’’ارے انوکھی بات کہی تم نے اکرام۔ یعنی یہ زندگی جو ہم گزار رہے ہیں، تمہیں پسند ہے؟‘‘
’’ہاں اب پسند آ گئی ہے، کم از کم اس میں لمحہ لمحہ تبدیلیاں تو ہیں، تجسس تو ہے، انفرادیت ہے، خطرہ ہے، بلکہ میں تو اب یہ سوچ رہا ہوں کہ جو لوگ ایک لگی بندھی زندگی گزارتے ہیں، گھر سے دفتر یا پھر دکان یا کھیت یا کسی بھی جگہ جہاں سے انہیں رزق حاصل ہوتا ہے اور اس کے بعد واپس گھر، یکسانیت ہوتی ہے اس زندگی میں، اور یہ زندگی جس میں کچھ وقت میں نے گزارا ہے، توقع کے برعکس ہے۔ اس میں یہ نہیں ہوتا کہ دکان پر جانا ہے، سامان بیچنا ہے، واپس آ جانا ہے، دفتر جانا ہے، فائلوں میں وقت گزاری کرنی ہے، گھر کا رخ کرنا ہے بلکہ اس میں پتہ نہیں ہوتا کہ آگے کیا ہو گا اور جب کچھ ہو جاتا ہے تو وہ لطف دیتا ہے۔‘‘
’’بڑے فلسفی بنے ہوئے ہو اس وقت۔ ہاتھ پائوں نہیں دکھ رہے۔‘‘
’’دکھ رہے ہیں لیکن لطف آ رہا ہے یہ سوچ کر کہ ہوا کیا ہے اور وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا ہے اور یہ کون سی جگہ ہے۔‘‘ اکرام کے لہجے میں درحقیقت ذرا بھی خوف کا احساس نہیں تھا اور ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اس معاملے میں دلچسپی لے رہا ہے۔ میں نے ایک سمت کچھ آہٹیں سن کر کہا۔ ’’لو بتانے والے آ گئے۔‘‘
بتانے والے دو افراد تھے، دراز قامت، گیروا رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے، بہترین جسامت کے حامل اور کرخت چہروں والے، ایک دروازے سے اندر آئے تھے اور ہمارے پاس آ کھڑے ہوئے تھے، دونوں کڑی نگاہوں سے ہمیں گھورنے لگے۔ میں نے کہا۔
’’بھائی باقی تو جو کچھ ہے وہ آپ بہتر جانتے ہیں البتہ ایک زیادتی ضرور ہوئی ہے ہمارے ساتھ۔ فجر کی نماز قضا کرا دی آپ نے اور اب تو سورج اتنا نکل آیا ہے کہ۔ کہ۔‘‘
’’زیادہ شریف بننے کی کوشش مت کرو۔ جو کچھ تم سے پوچھا جائے اس کا جواب دو ورنہ نتیجہ یہ ہو گا کہ زندگی بھر کے لئے اپاہج ہو جائو گے۔ سڑکوں پر گھسٹتے پھرو گے، دوستانہ مشورہ ہے تمہارے لئے کہ تم سے جو کچھ پوچھا جائے بالکل سچ اور صاف بیان کر دو۔‘‘
’’ٹھیک ہے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ جھوٹ نہیں بولیں گے۔ لیکن آپ لوگ بھی وعدہ کریں کہ ہمارے کہے کو سچ سمجھیں گے۔‘‘
’’اس کا تو پتہ چل جائے گا، زیادہ چالاک بننے کی کوشش مت کرنا۔‘‘
’’چلئے یہ بھی وعدہ ہے کہ زیادہ چالاک بننے کی کوشش نہیں کریں گے۔‘‘
’’تو پھر یہ بتائو تم لوگ کون ہو؟‘‘
’’خدا کے فضل سے انسان ہیں، مسلمان ہیں، مسافر ہیں، بس نہ اس سے کچھ آگے ہیں، نہ کچھ پیچھے ہیں۔‘‘
’’ایک جملہ
بھول گئے۔‘‘ ان میں سے ایک نے زہریلے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
’’بھلا وہ کیا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’سی آئی ڈی والے ہیں۔‘‘ وہ شخص بولا اور مجھے ہنسی آ گئی۔ میں نے کہا۔ ’’ارے نہیں بھائی ایسی کوئی بات نہیں ہے، بس مسافر ہیں اور یہ جانے بغیر اس طرف نکل آئے تھے کہ یہ کون سا شہر ہے، یہیں آ کر پتہ چلا۔ جنگل کی جانب سے ادھر پہنچے تھے، خانقاہ کا پہلا چراغ نظر آیا، سو اسی جانب چل پڑے۔ اس سے پہلے کبھی نہ اس شہر میں آئے، نہ بھورے شاہ کے مزار پر۔‘‘
’’بکواس مت کرو، جھوٹ بول رہے ہو۔ تمہارا تعلق سی آئی ڈی سے ہے؟‘‘
’’ہم نے تو وعدہ کیا تھا کہ جھوٹ نہیں بولیں گے، سو جھوٹ نہیں بولے لیکن آپ اپنے وعدے پر پورے نہیں اتر سکے۔ اب اس کے بعد آپ کو آزادی ہے کہ جس طرح چاہیں ہمارے بارے میں تصدیق کریں۔ جھوٹ نکلے تو قابل سزا ہوں گے ہم اور سچ نکلے تو ہمیں رہائی دے دیجئے۔‘‘
’’رہائی کی بات کر رہے ہو۔ یہاں سے زندہ نہیں جا سکو گے تم سمجھے۔‘‘
’’تقدیر، موت کے لئے وقت اور جگہ متعین کرتی ہے اگر باری تعالیٰ نے یہی جگہ ہماری موت کے لئے منتخب فرمائی ہے تو آپ بھی ہمیں معاف کرنا چاہیں تو نہ کر پائیں گے۔ موت برحق ہے، بھائی بھلا اس سے کیا خوفزدہ ہونا۔‘‘
’’دیکھو ابھی تمہارے ساتھ کوئی سختی نہیں کی جا رہی۔ تمہارا فیصلہ بابا بھورے شاہ کریں گے، وہ موجود نہیں ہیں، آ جائیں گے تو تمہارے بارے میں انہیں بتا دیا جائے گا۔ البتہ ایک بات ہم ضرور بتا دیتے ہیں۔ ہمیں فوراً پتہ چل جائے گا کہ تمہارا تعلق سی آئی ڈی یا پولیس سے ہے یا نہیں اور بابا بھورے شاہ کا ایک اصول ہے کہ اگر وہ کسی کے ساتھ مہربانی کرنا چاہیں اور اس کے باوجود وہ ان سے جھوٹ بولے تو پھر وہ اسے زندہ نہیں چھوڑتے۔ اپاہج کر دیتے ہیں، تمہاری زبان کاٹ دی جائے گی یا ہاتھ پائوں توڑ دیئے جائیں گے اور اس کے بعد تمہیں مزار سے دور پھنکوا دیا جائے گا۔ تم یہ نہیں کہہ پائو گے کسی سے کہ تمہارے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا۔‘‘
’’خیر اس بات کو چھوڑیئے۔ لیکن کیا آپ یہ بات بتائیں گے ہمیں کہ مزار پر سی آئی ڈی والوں کا کیا کام ہو سکتا ہے یا پھر یہ کہ آپ کو شبہ کیسے ہوا ہم پر کہ ہم سی آئی ڈی والے ہیں، یہاں بھلا کون کیا کھوج کرنے آ سکتا ہے۔ یہ تو روحانیت کا معاملہ ہے۔ یہاں لوگ نیکیوں کے لئے تو آ سکتے ہیں، بھلا سی آئی ڈی والے یہاں کیا پتہ چلانے آئے ہیں؟‘‘
’’میں نے کہا نا، چالاک بننے کی کوشش نہ کرو سمجھے، تمہارے ہاتھ کھول دیئے جائیں گے حالانکہ اصولی طور پر کھولے نہیں جانے چاہئیں، پیر بندھے رہیں گے تاکہ تم بھاگ نہ سکو۔ یہ بھی ایک حماقت کی بات ہے کیونکہ پیر تم اپنے ہاتھوں سے کھول سکتے ہو لیکن یہاں تمہیں ہمارے حکم کی تعمیل کرنا ہو گی، پیروں کی رسی کھلی پائی گئی تو تمہارے ہاتھ توڑ دیئے جائیں گے سمجھے، جب تک بابا بھورے شاہ تمہارے بارے میں فیصلہ نہ کر دے اسی جگہ بندھے رہو گے۔ ہاتھ اس لئے کھولے جا رہے ہیں کہ اپنے چھوٹے موٹے کام کر سکو۔ ابھی تھوڑی دیر میں تمہارے لئے ناشتہ پہنچ جائے گا۔ کھانا پینا اور یہیں لوٹیں لگانا۔ خبردار یہاں سے باہر نکلنے کا وہی ایک دروازہ ہے، دروازے کے آگے ایک چھوٹی سی سرنگ ہے اور اس سرنگ کے دوسرے حصے پر زبردست پہرہ موجود ہے۔ پہرے دار یہ نہیں پوچھیں گے کہ تم سرنگ کے دہانے تک کیسے پہنچے اور کیوں پہنچے، انہیں جو ہدایت ملی ہے اس پر عمل کریں گے۔ بس اتنی ہی بات کرنی تھی تم سے، چلو رسیاں کھول دو۔‘‘
ہمارے ہاتھوں کی رسیاں کھول دی گئیں۔ میں نے گردن خم کر کے کہا۔ ’’بہت بہت شکریہ بھائی۔ ہم سے آپ کو شکایت نہیں ہو گی۔‘‘
’’کیا کیا نام ہیں تمہارے؟‘‘
’’میرا نام مسعود احمد ہے اور یہ اکرام علی ہے۔‘‘
’’اور تعلق تمہارا جوالاپور سے ہے؟‘‘
’’ہاں جوالا پور سے بھی ہے۔‘‘ ان دونوں نے میرے اس ’’بھی‘‘ پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ خاموشی سے کھولی ہوئی رسیاں اٹھا کر باہر نکل گئے تھے۔ میں اور اکرام اپنی کلائیاں مسل رہے تھے جن پر بندھے ہونے کی وجہ سے خاصے گہرے نشانات پڑ گئے تھے۔ اکرام کے بارے میں، میں نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ اب اس کے اندر بے حد پختگی پیدا ہو گئی ہے اور وہ کسی بھی قسم کے حالات سے گھبراتا نہیں ہے۔ کلائیوں کی سوزش جب ختم ہو گئی تو اکرام نے مجھ سے کہا۔ ’’کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں مسعود بھائی؟‘‘
’’ابھی اس پر غور ہی نہیں کیا اکرام۔‘‘
’’مجھے تو کچھ اور لگتا ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’یہ خانقاہ ڈھونگ ہے اور ہو سکتا ہے یہ قبر بھی جھوٹی قبر ہو۔ ایسی داستانیں اکثر سنی ہیں۔ اس قسم کے جعلی مزارات بنا لئے جاتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر بہت سی برائیاں کی جاتی ہیں۔ معصوم اور سادہ لوح انسانوں کو جال میں پھانس کر ان سے چڑھاوے وصول کئے جاتے ہیں۔ آپ یقین کیجئے مجھے تو اسی وقت شبہ ہوا تھا جب ہمیں شیر کی کہانی سنائی گئی تھی۔ بلاشبہ بزرگان دین کا ایک مرتبہ ہوتا ہے اور وہاں نہ جانے کیا کیا ہوتا ہے لیکن اس طرح اس کی پبلسٹی نہیں ہوتی اور پھر آپ ان لوگوں کو بھی نہیں بھول سکے ہوں گے جنہیں ہم نے رات کی تاریکی میں سامان اٹھا کر آتے ہوئے دیکھا تھا۔ کچھ چکر ضرور چل رہا ہے۔ یہاں کوئی جرم ہو رہا ہے۔‘‘
’’اللہ بہتر جانتا ہے۔ اگر ہمارے سپرد اس جرم کی بیخ کنی کی گئی ہے تو اپنا فرض ضرور پورا کریں گے۔‘‘
’’آئندہ ارادہ کیا ہے؟‘‘ اکرام نے پوچھا اور میں مسکرا دیا۔ میں نے کہا۔ ’’ارادہ یہ ہے کہ پائوں کی رسی کھولنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ بھورے شاہ صاحب۔ ارے ہاں ایک بات تو بتائو۔ یہ مزار بھورے شاہ ہی کا تو ہے اور وہ کہہ گئے ہیں کہ بھورے شاہ آ کر فیصلہ کریں گے۔ گویا صاحب مزار زندہ ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے۔‘‘
’’جلدبازی میں کہہ گئے ہیں شاید۔ ویسے اب ہم ان کے قبضے میں ہیں، ہم سے انہیں خطرہ بھی تو نہیں ہوگا۔‘‘
ہم دونوں خاموش ہو گئے۔ اپنے اپنے طور پر سوچ رہے تھے۔ پھر ہمیں ناشتہ دے دیا گیا۔ مکئی کے آٹے کی موٹی موٹی روٹیاں اور ان پر مکھن کے لوندے رکھے ہوئے، ساتھ ہی چھاچھ کے دو بڑے بڑے گلاس۔ ناشتہ تو واقعی بہت عمدہ تھا، لطف دے گیا۔ بڑے عرصے کے بعد ایسی کوئی چیز کھائی تھی۔ اکرام بھی پوری طرح لطف اندوز ہوا۔ البتہ اس نے کہا۔ ’’ناشتہ بہترین ہے لیکن اسے ہضم کرنے کے لئے تھوڑی سی چہل قدمی ہونی چاہئے تھی۔‘‘
’’نہیں۔ ایسے ہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
غالباً وہاں دوپہر کے کھانے کا رواج نہیں تھا یا پھر میزبانوں نے زحمت اٹھانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ چنانچہ دوپہر یونہی گزر گئی۔ ویسے بھی ناشتہ دیر ہضم تھا۔ شام کو پانچ بجے کے قریب ہی بھوک لگی تھی۔ ساڑھے چھ بجے غار میں کوئی روشنی لے کر پہنچ گیا۔ دیئے تھے جو شاید سرسوں کے تیل سے جلائے گئے تھے۔ دیئے غاروں کے ابھرے ہوئے پتھروں پر رکھ دیئے گئے۔ اوپر سے روشنی بخشنے والے چراغ تاریک ہو گئے تھے اور اب یہ سرسوں کے تیل کی روشنی والے چراغ، غار کی دیواروں کو مدھم سی پیلاہٹوں کا شکار کر چکے تھے۔ آنے والے وہیں کھڑے ہو گئے اور کچھ دیر کے بعد ایک شخص اسی دروازے کے اندر داخل ہوا۔ یہ بھی اچھے تن و توش کا مالک تھا۔ اس کے ساتھ آنے والے مشعلیں اٹھائے ہوئے تھے۔
سیاہ لمبے لبادے میں ملبوس شخص جس کے بال شانوں سے نیچے تک بکھرے ہوئے تھے، ہمارے سامنے پہنچ گیا۔ دو آدمیوں نے ہماری بغلوں میں ہاتھ ڈال کر ہمیں کھڑا کر دیا تھا۔ غار میں چھ سات افراد موجود تھے۔ آنے والے نے مشعل، مشعل بردار کے ہاتھ سے اپنے ہاتھ میں لی اور ہمارے چہرے کے قریب کر کے ہمیں غور سے دیکھنے لگا۔ پھر اس نے کہا۔
’’اور تم کہتے ہو تمہارا تعلق سی آئی ڈی سے نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں پیر صاحب۔ ہم تو غریب مسافر ہیں جو ادھر سے گزرتے ہوئے اس مزار کو پناہ گاہ سمجھتے ہوئے ادھر آ گئے۔‘‘
’’میں پیر نہیں ہوں، خبردار جو اس کے بعد تم نے مجھے پیر کہا۔ میں تو ایک گناہ گار انسان ہوں، بدترین کردار کا مالک، ایک ذلیل ترین انسان… اس کے بعد مجھے پیر یا بزرگ کہہ کر مخاطب مت کرنا۔ یہ لوگ مجھے بابا بھورے شاہ کہتے ہیں۔ میں وہ بھی نہیں ہوں۔ یہ نام میں نے مجبوراً قبول کیا ہے مگر چھوڑو… تمہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہئے۔ تم سے کہا گیا تھا کہ رات کو مزار پر رکنے کی کوشش مت کرنا۔ تم نے حکم کی تعمیل کیوں نہیں کی؟‘‘
’’ہمارا یہاں اس شہر میں نہ کوئی شناسا ہے، نہ کوئی ٹھکانہ، کچھ وقت یہاں گزارتے، اپنا کھاتے پیتے، پھر یہاں سے آگے بڑھ جاتے بلکہ کسی مزار پر قیام تو آپ یوں سمجھ لیجئے کہ ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔ بس یونہی آوارہ گرد پھرتے ہیں، کبھی کہیں جا پڑتے ہیں، کبھی کہیں، نہ کوئی گھر ہے نہ بار ہے۔ اس سے پہلے بھی ہم نے کہا تھا کہ اگر جھوٹ نکلے تو آپ اپنے اصولوں کے مطابق عمل کیجئے، ہم اسے اپنی تقدیر سمجھ لیں گے۔‘‘
’’عجیب لیچڑ آدمی ہو تم لوگ، پڑھے لکھے ہو؟‘‘
’’جی تھوڑے بہت۔‘‘
’’شامی اگر یہ پڑھے لکھے ہیں تو کیوں نہ انہیں عرضیاں لکھنے پر لگا لیں۔ بھاگ تو سکیں گے نہیں۔ اندازہ لگائیں گے ان کے بارے میں۔ غلط لوگ نکلے تو ہمارا کیا بگاڑ لیں گے۔ عرضی لکھنے والوں کی بڑی پریشانی ہوتی ہے اور سب سے زیادہ مشکل مجھے اسی کام میں پیش آتی ہے۔‘‘
’’جو حکم بڑے بابا۔ جیسا آپ کہو۔‘‘ جس شخص کو شامی کے نام سے مخاطب کیا گیا تھا، اس نے کہا۔
ٹھیک ہے سنو! اگر تم سچ کہہ رہے ہو تو خاموشی سے یہاں بیٹھ کر عرضیاں لکھا کرو، یہ لوگ تمہیں بتا دیں گے کہ عرضیاں کیسے لکھی جاتی ہیں۔ بعد میں بھروسے کے آدمی ثابت ہوئے تو بڑا مقام دیا جائے گا۔ دوسری صورت میں ہم تمہیں اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ تمہارے بارے میں تصدیق نہ ہو جائے کہ تم سی آئی ڈی کے آدمی نہیں ہو، بھوکے پیاسے مرو گے یہاں پر، تم اگر انسان بن کر رہنا چاہتے ہو تو یہاں تمہیں جو کام بتایا جائے اسے سرانجام دو۔ تین وقت کا کھانا، چائے، ناشتہ سب ملے گا اور تمہارا کام پسند آ گیا تو نوکری مستقل بھی ہو سکتی ہے، معاوضہ جو مانگو گے مل جائے گا اس کی فکر نہیں ہے۔‘‘
میں نے سنجیدہ نگاہوں سے اس بڑے بابا کو دیکھا جو بھورے شاہ کہلاتا تھا۔ فی الحال اس سے تعاون کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ چنانچہ میں نے گردن خم کر کے کہا۔ ’’آپ کے ہر حکم کی تعمیل کی جائے گی۔‘‘
’’بس بس شامی تم ان کے انچارج ہو، ان دونوں کا خیال رکھو گے اور سنو میرے اصول جانتے ہو، شیر کی نظر رکھنا ان پر… لیکن کھانے پینے کی کوئی تکلیف نہ ہو اور جو آسانیاں کسی انسان کو دی جا سکتی ہیں وہ انہیں دی جائیں اور یہ اگر ان آسانیوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں تو جس چیز کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کریں، اس سے ان کو محروم کر دینا، میرا مطلب ہاتھ، پائوں اور آنکھیں ہیں۔‘‘
وہ شخص یہ کہہ کر تیزی سے واپس مڑا۔ بڑا پھرتیلا معلوم ہوتا تھا، باقی لوگوں کو اس کے پیچھے دوڑنا پڑتا تھا اور تھوڑی دیر کے بعد غار پھر خالی ہو گیا۔
پیلی روشنی میں غار کا ماحول بے حد پُراسرار نظر آ رہا تھا۔ اکرام بھی بالکل خاموش تھا مگر جب یہ خاموشی طویل ہو گئی تو میں نے اسے توڑا۔
’’کس سوچ میں ڈوبے ہوئے ہو اکرام۔‘‘
’’بڑے بابا۔‘‘ اکرام نے کہا اور ہنس پڑا۔
’’تمہیں اس کے وہ الفاظ یاد ہیں۔‘‘
’’کون سے؟‘‘
’’جب میں نے اسے پیر کہا تھا۔‘‘
’’ہاں یاد ہیں، ساری باتیں انوکھی ہیں اور مسعود بھائی یہ عرضیاں کیا ہیں؟‘‘
’’وہی لوگ بتائیں گے تو پتہ چلے گا۔‘‘
’’چلئے کیا فرق پڑتا ہے، تین وقت کے کھانے کا تو وعدہ کیا ہے۔‘‘ اکرام ہنستا ہوا بولا۔
میں سوچ میں ڈوبا رہا۔ ایک یقین دل کو تھا جہاں میرے قدم پہنچتے تھے، بے مقصد نہیں ہوتے تھے، روانہ ہونے سے قبل ہدایت کر دی جاتی تھی کہ جانا ہے۔ اس بار بھی ہدایات ملی تھیں اور جو کچھ کہا گیا تھا مجھے یاد تھا۔ چنانچہ اب یہاں آیا تھا۔ گو نئی اور انوکھی دنیا تھی مگر دلچسپی سے خالی نہیں تھی۔ نماز کے اوقات کی پریشانی کے علاوہ اور کوئی پریشانی نہیں تھی۔
دوسرے دن ان عرضیوں کے بارے میں معلوم ہوا۔ شامی کو ہمارا انچارج بنایا گیا تھا وہی ہمیں لے کر ایک اور غار میں پہنچا تھا۔ یہاں ایک موٹا قالین بچھا ہوا تھا جس پر دو ڈیسک رکھے ہوئے تھے۔ کاغذ، قلم کا معقول انتظام تھا۔ سامنے دیوار میں ایک لائوڈ اسپیکر لگا ہوا تھا۔ ہمیں قالین پر بٹھا دیا گیا۔ شامی بولا۔
’’دیکھو…شام چار بجے سے چھ بجے تک تمہیں اس لائوڈ اسپیکر سے آوازیں سنائی دیں گی، عورتوں کی آوازیں بھی ہوں گی، مردوں کی بھی… وہ اپنا نام، پتہ بتائیں گے، پھر منت مانیں گے، دل کی مرادیں بتائیں گے، جو کچھ وہ کہیں گے تمہیں اس میں سنائی دے گا، تم دونوں ان کے نام، پتے اور جو کچھ بھی وہ کہیں کاغذ پر لکھ لینا۔ ہر عرضی کو الگ الگ سنبھال کر رکھنا۔ ’’بڑابابا‘‘ انہیں دیکھے گا۔‘‘
’’ایک کام کرنا ہے تمہیں شامی۔‘‘
’’ہاں بولو…‘‘ اس نے کہا۔
’’کسی بھی قسم کی ایک گھڑی ہمیں چاہئے۔‘‘
کیوں…؟‘‘
نماز کے وقت کے لئے پریشانی ہوتی ہے۔ غار میں پتہ نہیں چلتا۔‘‘
’’مل جائے گی۔ اور کچھ…‘‘
’’وضو وغیرہ کے لئے پانی بھی درکار ہو گا۔‘‘
’’اس کا بندوبست بھی ہو جائے گا۔‘‘
’’بس تمہارا شکریہ…‘‘ میں نے کہا۔ ہمارا کام اسی دن سے شروع ہو گیا تھا۔ بات کچھ کچھ سمجھ میں آ رہی تھی۔ اکرام نے کہا۔ ’’کچھ سمجھے مسعود بھائی…!‘‘
’’ہاں اکرام، وہی تمام تر انسانی کمزوریاں اور ان سے فائدہ اٹھانے والے ان لوگوں نے بھورے شاہ کے نام پر ایک جعلی مزار بنا لیا ہے، لوگ منتیں مرادیں مانتے ہوں گے اور ان لوگوں کا کاروبار چل رہا ہو گا۔‘‘
’’ویسے بڑے ظلم کا کام ہے مسعود بھائی… انسان اپنی مجبوریوں کے ہاتھوں بے بس ہو کر ایسی باتوں کا سہارا لیتا ہے اور جھوٹے دلاسوں میں کھو جاتا ہے۔ اب ظاہر ہے یہ لوگ انہیں بلانے تو نہیں جاتے ہوں گے، خود ہی یہاں یہ سب آتے ہیں اور ان چالاک انسانوں نے انہیں احمق بنانے کے لئے یہ سارا کھیل رچا رکھا ہے۔ کیا کہا جائے، غلطی کس کی ہے لیکن کیا آپ کا ضمیر اس چیز کو قبول کر لے گا۔‘‘میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’مجبوریوں کے بارے میں تم کیا کہہ سکتے ہو اکرام… اگر ہم یہ نہ کریں تو تمہارا کیا خیال ہے، یہ لوگ ہمیں آسانی سے چھوڑ دیں گے۔‘‘ اکرام ایک ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہو گیا۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ لازمی امر ہے جو لوگ یہاں آتے ہوں گے وہ مصیبتوں کے شکار ہوتے ہوں گے، مصیبتوں کا حل وہ انہی ذرائع سے چاہتے ہیں، یہ بھی ایمان کی کمزوری ہے۔ بزرگان دین صرف دعائیں ہی کر سکتے ہیں، ان کے لئے، اگر ان چھوٹے چھوٹے مسائل کا حل کسی طرح اگر میرے علم میں آ جائے تو میں اس چالاک شخص ہی کو سہی، یہ بتا دوں کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ کیا اچھا ہو کہ اگر کسی طرح مشکل میں گھرے انسانوں کو ان کی مشکل کا حل مل سکے، بس ایک احساس دل میں آیا تھا۔
وقت ہو گیا۔ شامی نے مجھے گھڑی لا کر دے دی تھی اور ہمیں یہ احساس ہو رہا تھا کہ اگر ان لوگوں سے تعاون کیا جائے تو ان کا رویہ ہمارے ساتھ بہتر ہی رہے گا۔ وقت مقررہ پر شامی نے ہی آ کر مجھے ہوشیار کیا۔ کہنے لگا۔ ’’بس اب سے چند لمحات کے بعد آوازیں آنا شروع ہو جائیں گی۔ خبردار ہوشیاری سے اپنا کام سرانجام دینا۔‘‘
میں نے اکرام کو بھی ہوشیار کر دیا۔ دونوں آدمیوں کو اس لئے متعین کر دیا گیا تھا کہ اگر ایک سے سننے میں کچھ غلطی ہو جائے تو دوسرا اس غلطی کا ازالہ کر لے۔ لائوڈ اسپیکر پر کھرکھراہٹیں سنائی دینے لگیں۔ پھر رونے کی آواز ابھری۔ کوئی مرد ہی تھا، زاروقطار رو رہا تھا۔ میں اور اکرام اس آواز کو سننے لگے۔ پھر اس شخص کی رندھی ہوئی آواز ابھری۔
’’یادرویش، یاولی۔ اکیلا بیٹا ہے میرا، بڑی منتوں مرادوں سے پیدا ہوا تھا۔ بچا لو اسے ولی، بچا لو میرے بچے کو ولی… وہ ڈائن کھا گئی اسے… وہ ڈائن اسے کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ بچا لو اسے ولی، بچالو اسے… میرا نام شاکر علی ہے اور میں یہیں اسی بستی میں رہتا ہوں۔ ولی اکیلا بیٹا ہے میرا، شادی کر دی تھی میں نے اس کی۔ وہ پاپی عورت جو اس کی بیوی بن کر آئی تھی اسے کھا گئی، کہیں کا نہ چھوڑا اسے، نہ جانے کیا کیا تعویز گنڈے کرا دیئے ہیں اس کے لئے، سوکھتا جا رہا ہے اور اب پلنگ سے لگ گیا ہے۔ میرے بیٹے کا نام ناصر علی ہے۔ ولی رحم کر دو… وہ جادو کے زیراثر ہے، یہ جادو توڑ دو اس کا… میں… میں کسی کی دشمنی نہیں چاہتا۔ بس میرے بیٹے کی زندگی مجھے مل جائے ولی۔ اسے معاف کر دو اسے بچا لو۔‘‘ وہ شخص زاروقطار روتا رہا۔ پھر ایک اور آواز سنائی دی۔ ’’چلو وقت ہو گیا، وقت ختم ہو گیا ہے۔ تمہیں فوراً باہر نکل جانا ہے۔‘‘
’’میرا خیال رکھنا ولی، اگر میرا کام ہو گیا تو چادر چڑھائوں گا، لنگر کروں گا، مزار کے لئے دس ہزار روپے دوں گا۔ ولی میرا یہ کام کرا دو۔‘‘
’’جاؤ بھائی جاؤ، اب دوسرے کی باری ہے۔‘‘ میں نے اور اکرام نے شاکر علی کا نام اور اس کی مشکل لکھ لی تھی اور دل ہی دل میں مسکرا رہے تھے۔ اکرام نے مجھے دیکھا تھا۔ شانے ہلائے تھے۔ پھر ایک دوسری آواز سنائی دی۔
’’ہمارا نام پاروتی ہے بھورے مہاراج، بستی چنارپور کے رہنے والے ہیں ہم۔ کیتھورام نے کہا تھا کہ تم ہندو، مسلمان سب کے کام آئو ہو، ہمارا پتی بھوگندر ناتھ مایا جال میں پھنس گیا ہے۔ ایک سسری بیسوا اس کے پیچھے لگ گئی ہے، جان کو اٹک گئی ہے وہ اس کے۔ اس نے پتی چھین لیا ہے ہمارا۔ بھگوان کی سوگند بڑا پریم کرتا تھا ہم سے، پریم کر کے ہی شادی کی تھی اس نے ہم سے۔ مگر وہ نرکھنی اب اسے ہمارے پاس نہ آنے دیوے ہے، ہم ہتھیا کر لیں گے مہاراج۔ نہ چاہئے ہمیں دھن دولت، ٹکڑے کھا کر گزار لیں گے، ہم کو ہمارا پتی ہمیں دلوا دو… ہمارا پتی ہمیں دلوا دو… منہ مانگا دیں گے، جو مانگو گے دیں گے، دیا کرو ہم پر، مہاراج دیا کرو۔‘‘
’’چلو بہن، اب دوسرے کی باری ہے۔‘‘ آواز آئی۔
’’دیا کرو ہم پر مہاراج… دیا کرو…‘‘
بے بس لوگ، دکھ بھری کہانیاں، دل ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہے، سب مشکل کا شکار، کسی کی کوئی مشکل، کسی کی کوئی مشکل، کوئی بیس عرضیاں لکھی تھیں، کام ختم ہو گیا، وقت ختم ہو گیا تھا۔ میں نے اکرام سے پوچھا۔
’’اکرام تم نے سب کے دکھ لکھ لئے۔‘‘
’’ہاں مسعود بھیا۔‘‘
’’اگر تم سے یہ عرضیاں مانگی نہ جائیں تو انہیں محفوظ رکھنا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
’’ہم وہاں سے نکل کر اپنی رہائش گاہ آ گئے۔ پھر رات کے کھانے سے فراغت ہوئی تھی کہ بھورے شاہ آ گیا۔ شامی اور دو اور آدمی اس کے ساتھ تھے۔ مٹی کے تیل کے کچھ لیمپ بھی ساتھ لائے گئے تھے جنہیں روشن کر کے رکھ دیا گیا تھا۔ بھورے شاہ کا موڈ بہت اچھا تھا۔ مجھے دیکھ کر بولا۔ ’’کہئے دولہا میاں عرضیاں لکھیں؟‘‘
’’آپ کے حکم کی تعمیل ہوئی ہے۔‘‘ میں نے ادب سے کہا اور عرضیاں نکال کر اس کی طرف بڑھا دیں۔ وہ قہقہہ مار کر ہنس پڑا تھا۔
’’واہ… یہ خوب رہی…‘‘
’’کیا مطلب… میں سمجھا نہیں۔‘‘
’’ارے بھائی، ہم پڑھ سکتے تو لکھ بھی لیتے، کیوں تکلیف دیتے، پڑھ کر سنائو۔‘‘ اس نے کہا اور میں اسے عرضیاں پڑھ کر سنانے لگا۔ اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں اور خاموشی سے ساری عرضیاں سننے لگا تھا۔ میں نے آخری عرضی بھی پڑھ کر سنا دی۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا۔ ’’شامی او شامی…‘‘
’’جی بڑے بابا…‘‘
’’آدمی تو کام کے لگتے ہیں۔‘‘
’’اچھے لوگ ہیں بڑے بابا، نمازی پرہیزگار بھی ہیں۔‘‘
’’خیال رکھنا ان کو کوئی تکلیف نہ ہونے دینا۔‘‘
’’جی بڑے بابا۔‘‘ شامی نے کہا اور پھر وہ عرضیاں لے کر چلا گیا۔ میں نے یا اکرام نے اس وقت کچھ نہیں پوچھا تھا لیکن دوسرے دن جب شامی ملا تو میں نے اس سے پوچھ لیا۔ ’’آج کس وقت عرضیاں لکھنی ہیں شامی۔‘‘
’’دو دن کے بعد… آج منگل ہے…اب جمعرات کو لکھنا ہوں گی، پیر کو فیصلے سنائے جاتے ہیں۔‘‘
’’فیصلے…!‘‘
’’ہاں بڑے بابا فیصلے لکھواتا ہے، یہ کام بھی تمہیں کرنا ہو گا اتوار کو۔‘‘ میں ٹھنڈی سانس لے کر خاموش ہو گیا۔ اکرام، صابر انسان تھا، میرے ساتھ ہر حال میں خوش رہتا تھا۔ اس دوران میں نے تہجد میں مراقبہ بھی کیا اور اپنے لئے حل مانگا مگر خاموشی رہی تھی۔ جمعرات کو پھر بیس عرضیاں لکھیں اور ہر اتوار کو بھورے شاہ صبح صبح میرے پاس آ بیٹھتا۔
’’مسعود نام ہے تیرا رے بھائی۔‘‘
’’ہاں…!‘‘
’’چل بیٹھ جا… منگل کی عرضیوں کے جواب لکھنے ہیں۔‘‘
’’جی شاہ صاحب۔‘‘
’’نا بھائی نا… اللہ کے واسطے ایسی کوئی بات مت کہہ میاں، سب ہمیں بڑے بابا کہتے ہیں، تو بھی بڑے بابا کہہ… یہ شاہ، ولی اور درویش تو اللہ کے نیک بندے ہوتے ہیں، تو ہم جیسے شیطان کو ان سے کہاں ملا رہا ہے۔ بس بڑا بابا کہہ کر کام چلا لیا کر۔‘‘
میں نے ایک بار پھر حیران نگاہوں سے بھورے شاہ کو دیکھا۔ یہ آدمی واقعی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ ایک لمحے اس نے آنکھیں بند رکھیں اور اس کے بعد بولا۔ ہاں پہلی عرضی کیا ہے۔
پہلی عرضی شاکر علی کی تھی جس کا بیٹا ناصر علی مصیبت کا شکار تھا اور بقول شاکر علی کے اس کی بیوی نے اس پر جادو کرا دیا تھا۔ بھورے شاہ ہنس پڑا۔
عورت کا جادو تو ویسے ہی سر چڑھ کر بولتا ہے۔ بڑے میاں کو اپنی بہو سے اختلاف ہو گا۔ یہ کہانی تو ہر گھر میں چل رہی ہے۔ چلو ٹھیک ہے، لکھ دو اس کے آگے کہ سات تعویذ دیئے جائیں گے اور ساتھ فلیتے الگ سے جلانے کے لئے، پڑیا بنا کر رکھنی ہے۔ میں نے اس کی ہدایت کے مطابق اس عرضی پر یہ نوٹ لکھ دیا۔
’’پڑھ کر سنائو۔‘‘ وہ بولا… اور میں نے عرضی پر لکھی ہوئی تفصیلات اسے پڑھ کر سنا دیں۔ دفعتاً اس نے چونک کر مجھے دیکھا اور پھر کہنے لگا۔
’’ارے ہاں اے مسعود بھائی، یہ کام بھی یار تو ہی کر لیجیو، دیکھ سال چھ مہینے یہاں کام کر لے، تو ہمیں سمجھ جائے گا، ہم تجھے سمجھ جائیں گے، پھر ایک لمبی رقم ہم سے لے لیجیو اور یہاں سے دو سو کوس دور چلا جائیو، وعدہ کرتے ہیں خطرہ مول لے لیں گے اور تجھے آزادی دے دیں گے۔ ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے بغور مجھے دیکھتے ہوئے پوچھا اور میں گردن ہلانے لگا۔
’’جیسا آپ کا حکم بڑے بابا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’یہ ہوئی نا بات… اچھا چل آگے کی عرضی پڑھ۔‘‘
یہ دوسری عرضی پاروتی کی تھی جس کا پتی بھوگندر ناتھ کسی بیسوا کے چکر میں پڑ گیا تھا۔ عرضی سنتے ہی بھورے شاہ ہنس پڑا۔
’’بس بس اس کے آگے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، لال پینسل سے نشان مار دے، اس کا کام ہو گیا۔‘‘ میں نے چونک کر اسے دیکھا تو اس نے دوسرا قہقہہ لگایا اور بولا۔ ’’ڈاکو سنتو خان نے اس کے گھر کا پورا پورا صفایا کر لیا ہے، بے چاری کو دھن دولت نہیں چاہئے تھی، پتی چاہئے تھا، سو بھیا پتی اب کہاں جائے گا۔ بیسوا کا کام تو یہی ہے کہ مال لے اور چھوڑ دے۔ سنتو خان نے بے چاری کی مشکل حل کر دی۔ اب اس بیسوا کو دینے کے لئے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے، ٹکڑے ٹکڑے کو محتاج ہو گیا ہے، چھٹی ہوئی، من کی مراد پوری ہو گئی اس عورت کی، چل آب آگے کی عرضی پڑھ۔‘‘
اور اس کے بعد دوسری عرضیاں پڑھنے لگا اور وہ ان پر اپنے تبصرے اور ہدایات لکھواتا رہا۔ یہ کام ختم ہو گیا تو وہ اٹھ گیا۔ شامی پاس ہی موجود تھا۔ اس نے کہا۔
’’شامی، مسعود کو ہر طرح کی آسائشیں ملنی چاہئیں، کوئی تکلیف نہ ہو اسے، خیال رکھنا…‘‘ بہت سے لوگوں کو تعویذ دینے تھے، کچھ لوگوں کے لئے اس نے الٹی سیدھی جڑی بوٹیاں تجویز کی تھیں، حکمت کی کچھ دوائیں بھی لکھی تھیں۔ غرض سارے کا سارا کھیل دھوکا دہی پر مبنی تھا لیکن سنتو خان والی بات میری سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ سنتو خان نے پاروتی کے گھر ڈاکا ڈالا اور اس کے سارے گھر کا صفایا کر دیا۔ اس طرح اس کا مسئلہ حل ہو گیا۔ بہرحال ابھی اس بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے کا وقت نہیں آیا تھا لیکن جب ان سب کے لئے تعویذ اور جڑی بوٹیاں لکھنے کے لئے بیٹھا تو میرے ہاتھ پر سحر طاری ہو گیا۔ جو کچھ اس نے بتایا تھا، وہ نہ لکھا، تعویذوں میں بسم اللہ لکھا اور فلیتوں میں شیطان پر لعنت کے الفاظ میرے قلم سے خودبخود درج ہو گئے اور انہی چیزوں کو میں نے پڑیوں کی شکل میں ہر عرضی کے ساتھ رکھ دیا۔ ایک انوکھا لیکن دلچسپ کام تھا اور اکرام میرے ساتھ ان کاموں میں شریک تھا۔
دس دن پندرہ دن، پھر تقریباً ڈیڑھ ماہ گزر گیا۔
صبر و سکون سے ہم نے سارا وقت گزارا تھا۔ عبادت الہٰی سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔ ہمارا تمام وقت اسی طرح گزر جاتا تھا۔ اکرام کے چہرے پر شکن بھی نہیں آئی تھی۔ اس نے بھی اس ماحول کو قبول کر لیا تھا۔ ان لوگوں کو ہم پر مکمل اعتماد ہو گیا تھا، اس لئے اب کبھی کبھی ہمیں غار سے باہر بھی لے آیا جاتا تھا لیکن یہ سورج ڈھلنے کے بعد ہوتا تھا۔ پہلی بار جب شامی کھلے آسمان کے نیچے لایا تو میں نے اس سے پوچھ لیا۔
’’کیا آج کل شیر یہاں جھاڑو دینے نہیں آ رہے۔‘‘ میری بات سن کر شامی ہنس پڑا۔
’’کیوں ملنا چاہتے ہو شیروں سے؟‘‘
’’کیا مطلب۔‘‘
’’یہاں بیٹھو، ملائے دیتا ہوں۔‘‘ وہ ہمیں بٹھا کر ایک طرف چلا گیا اور پھر چند ہی لمحات کے بعد ہم نے شیر کے دھاڑنے کی آواز سنی۔ اکرام تو اچھل کر کھڑا ہو گیا تھا۔ میں بھی حیرانی سے اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ شیر تو کہیں نظر نہیں آیا مگر اس کے دھٓاڑنے کی آواز کئی بار سنائی دی۔ پھر شامی واپس آ گیا۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’ملے شیر سے۔‘‘
’’تو یہ ہے خانقاہ کا شیر۔‘‘
’’سارا کھیل ایک جیسا ہے۔ مگر تم اس دنیا کو دیکھو، کیسی انوکھی ہے یہ دنیا۔ کسی بیوپاری کے پاس چلے جائو، تمہارے بدن کی کھال اتار لے گا، وہ چکر دے گا تمہیں کہ گھن چکر بن جائو گے۔ ڈاکٹر کے پاس چلے جائو انسانی ہمدردی سے ہٹ کر وہ تمہاری مالی حیثیت کا جائزہ لے گا، تمہاری بیماری کو آسمان پر پہنچا دے گا۔ وکیل، سرکاری افسر، ہر شعبے کا انسان اپنی دولت کے دروازے کھولے رکھتا ہے۔ اسے اپنے فن میں مہارت حاصل ہے، وہ ذہین ہے، چالاک ہے، دوسروں کو احمق بنانا جانتا ہے لیکن اتنی ہی خوشی سے وہ یہاں احمق بننے آ جاتا ہے۔ منتیں مرادیں مانگتا ہے۔ کسی کا تُکا لگ جاتا ہے، جس کا کام نہیں ہوتا وہ اسے تقدیر سمجھتا ہے۔ اس کی عقیدت کم نہیں ہوتی، جس طرح وہ اپنا کام کرتا ہے اسی طرح ہم بھی اپنا کام کرتے ہیں، آج کل ہر چیز پبلسٹی سے ہوتی ہے۔ ہمارا پبلسٹی کا شعبہ بھی سرگرم رہتا ہے اور ہم اپنی پروڈکٹ کی پوری پبلسٹی کرتے ہیں۔‘‘
’’پبلسٹی کا شعبہ؟‘‘
’’ہاں۔ ہمارے ملازم۔ ہمارے نمائندے اسی شہر میں نہیں، آس پاس کی متعدد بستیوں میں بکھرے ہوئے ہیں، سب کو تنخواہیں ملتی ہیں، وہ بھورے شاہ کی کرامتوں کی کہانیاں سناتے ہیں۔ شعبدہ گری کرتے ہیں۔ مختلف طریقے ہوتے ہیں اس کے، کوئی اچانک پاگل ہو جاتا ہے، ننگ دھڑنگ سڑکوں پر پھرتا ہے، لوگوں کو پتھر مارتا ہے، ہمارے چند نمائندے اسے پکڑ کر یہاں لے آتے ہیں۔ یہاں اسے دعائیں دی جاتی ہیں، تعویذ دیئے جاتے ہیں اور اس کا علاج ہوتا ہے۔ کچھ دن میں وہ بھلا چنگا ہو کر چلا جاتا ہے اور لوگ بھورے شاہ پر عقیدت کے پھول برساتے ہیں۔ کاروبار حیات کے رنگ ایسے ہی بدل گئے ہیں دوست۔ اسی طرح خانقاہ کا شیر ہے۔ شیروں کی اقسام میں اس کا اضافہ بھی کر لو، جنگل کا شیر، قالین کا شیر، خانقاہ کا شیر۔‘‘ شامی قہقہے لگانے لگا۔
’’شامی۔ یہ بھورے بابا کیا ہے؟‘‘
’’آدمی ہے۔ مکمل آدمی ہے۔ اپنے فن کا استاد۔‘‘
’’وہ کس قسم کا آدمی ہے؟‘‘
’’میرے خیال میں اس دور کا ایک کامیاب آدمی۔‘‘
’’تمہاری تعلیم کیا ہے؟‘‘ میں نے اچانک پوچھا۔
’’ارے۔ یہ بھورے شاہ سے اچانک مجھ پر کیوں آ گئے؟‘‘
’’تمہاری باتیں سن کر۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’تمہاری گفتگو بتاتی ہے کہ تم کافی پڑھے لکھے آدمی ہو مگر عرضیاں تم مجھ سے لکھواتے ہو۔ کیوں؟‘‘
شامی ہنس پڑا، پھر بولا۔ ’’کہاں کی باتیں کر رہے ہو دوست۔ جو تعلیم اسکولوں میں دی جاتی ہے وہ کس کے پاس ہوتی ہے۔ اصل معلم وقت ہے، وہی سب کچھ سکھاتا ہے۔ وہی میرا استاد ہے۔ اسی کی سکھائی ہوئی باتیں دہرا رہا ہوں میں۔ لکھنا پڑھنا بالکل نہیں جانتا۔‘‘
’’بھورے بابا بھی عجیب سا انسان ہے۔‘‘
’’کس لحاظ سے؟‘‘
’’وہ جو کچھ کر رہا ہے، خود ہی شدت سے اس کی نفی کرتا ہے۔ میں نے اسے جب بھی شاہ یا درویش کہا، وہ جیسے تڑپ سا گیا۔ اس نے شدت سے مجھے اس کے لئے منع کیا۔‘‘
’’ضمیر تو ہر شخص کا ہوتا ہے نا، اور ضمیر اگر زندہ ہوتا ہے تو سچ بولتا ہے…سچ سنتا ہے۔‘‘
’’مگر ضمیر کے خلاف عمل تو ضمیر کو قتل کر دیتا ہے۔‘‘
’’بعض اوقات ایسے دوراہے آ جاتے ہیں جہاں انسان کو کسی ایک کے قتل کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ بھورے بابا کے سامنے بھی ایسا ہی ایک دوراہا آگیا تھا۔ اگر وہ ضمیر کو قتل نہ کرتا تو اسے خود قتل ہونا پڑتا۔ مگر اسے زندہ رہنا تھا اپنے لئے نہیں، کسی اور کے لئے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’اب تم مجھے قتل کروانا چاہتے ہو۔ بھورے بابا کے بارے میں اتنی بات بھی تم سے ہو گئی ہے جب کہ برسوں سے یہاں رہنے والے بھی اس کے بارے میں اتنا نہیں جانتے۔‘‘ شامی نے کہا۔
’’لیکن شامی۔‘‘
’’بس بس بابا بس۔ مجھے زندہ رہنے دو۔‘‘ شامی نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ پھر بولا۔ ’’چلو۔ چلو۔ زیادہ وقت ہو گیا ہے۔ کہیں شیر نہ آ جائے۔‘‘ وہ ہنس پڑا۔
ہم غار میں آئے۔ اکرام نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کوئی بہت ہی پُراسرار کہانی چل رہی ہے مسعود بھائی۔ بڑا انوکھا کردار ہے اس بھورے شاہ کا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔
مزید کچھ دن گزر گئے۔ معمولات جاری تھے۔ ایک رات اچانک بھورے شاہ عجیب سی کیفیت میں ہمارے غار میں گھس آیا۔ وہ تنہا تھا۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ بہت منتشر معلوم ہوتا تھا۔ ہمیں خاموشی سے گھورتا رہا۔ پھر اس کی آواز سانپ کی پھنکار کی مانند سنائی دی۔
’’تم کون ہو۔ مجھے اپنے بارے میں سچ سچ بتائو۔ کون ہو تم۔ اور سچ نہ بولے تو۔ تو۔ تو!‘‘ اس کے دانت بھنچ گئے اور آنکھیں خون اُگلنے لگیں۔
میں نے پریشان نظروں سے بھورے شاہ کو دیکھا۔ اس کی اس کیفیت کا صحیح اندازہ نہیں ہوپا رہا تھا۔ تاہم میں نے حلیمی سے کہا۔
’’کوئی غلطی ہوگئی بڑے بابا؟‘‘ میرے اس سوال پر وہ سانپ کی طرح بل کھانے لگا۔ بڑے اضطراب کا اظہار ہو رہا تھا اس کی کیفیت سے۔ اس نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے خود ہی دوبارہ نرم لہجے میں پوچھا۔
’’ہم جس دن سے یہاں آئے ہیں بڑے بابا! آپ ہی کا نمک کھایا ہے اور یہی کوشش کرتے رہے ہیں کہ کوئی کام آپ کی مرضی کے خلاف نہ ہو۔ اگر کہیں سے ہمارے بارے میں آپ کو کوئی غلط اطلاع ملی ہے تو ہم آج بھی آپ سے وہی سب کچھ کہیں گے جو پہلے کہہ چکے ہیں یعنی مسافر ہیں اور آوارہ گردی کرتے ہوئے ادھر نکل آئے تھے اور اس کے بعد سے یہیں موجود ہیں۔ ہمارا تعلق کسی سے نہیں ہے بڑے بابا! جہاں سے بھی آپ کو کوئی غلط اطلاع ملی ہے، آپ یقین کرلیں کہ وہ غلط ہے۔‘‘
’’ہاتھ جوڑتا ہوں، تمہارے سامنے، ہاتھ جوڑتا ہوں، تمہارے قدموں میں سر رکھتا ہوں۔ خدا کے لئے، خدا کے لئے ایک بے چین روح کو اور زیادہ بے چین مت کرو۔ دیکھو اگر خدا نے تمہیں عزت سے نوازا ہے، اگر اس نے تمہیں اپنی پناہ میں لے رکھا ہے تو کسی انسان کے ساتھ بدسلوکی مت کرو۔ ایک ایسا جلتا سلگتا انسان تمہارے سامنے ہے جس کے اندر آگ دہک رہی ہے جو زندگی ہی میں جہنم پا گیا ہے، جو جہنم سے گزر رہا ہے، اسے اور جہنمی نہ بنائو۔ خدا کے لئے تمہارے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ تمہارے قدموں میں سر رکھتا ہوں۔ مجھے اپنے بارے میں بتا دو۔ دیکھو انسان ہوں، ساری برائیوں کے باوجود انسان ہوں۔ اپنے آپ کو گناہوں کی دلدل میں اس قدر ڈوبا ہوا محسوس کرتا ہوں کہ مجھے اس کائنات میں خود سے زیادہ گناہگار اور کوئی نظر نہیں آتا۔ خدا کے لئے مجھے اور گناہوں کی دلدل میں نہ دھکیلو۔ مجھ میں اب قوت برداشت نہیں ہے۔‘‘ اس کی آواز لرز گئی اور آخر میں سسکیوں میں تبدیل ہوگئی۔
اکرام نے حیرت سے مجھے دیکھا۔ میں خود ہی ابھی تک کچھ سمجھ نہیں پایا تھا۔ آگے بڑھا اور اس کے شانے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
’’نہیں بڑے بابا۔ میں… میں تمہارا نمک خوار ہوں۔ یہ سب کچھ نہیں چاہتا میں۔ مجھے بس وہ بات بتا دو جس کی بناء پر تمہیں مجھ پر شک ہوا ہے۔‘‘
’’بات بتا دوں۔ میں نے تمہارے ساتھ بدسلوکی کی ہے حالانکہ تم وہ نہیں ہو جو نظر آتے ہو۔ مجھے یقین آگیا ہے کہ تم بہت کچھ ہو۔ میں نے تمہیں جاگتی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا لیکن سوتی آنکھوں نے مجھے تمہاری تفصیل بتا دی ہے۔ آہ! کیا بتائوں تمہیں، کن لمحات سے گزر رہا ہوں میں۔ مجھے احساس ہو رہا ہے کہ مجھے زندگی بھر گناہ کرنے کے لئے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ کوئی ایک تو نیک کام کرلیتا جو روح کی تاریکیوں میں کسی سفید نقطے کی طرح روشن ہوجاتا۔ بڑی بے حرمتی ہوئی ہے میرے ہاتھوں تمہاری۔ قید کر رکھا ہے میں نے تمہیں، دھمکیاں دی ہیں اور… اور کیا کروں، مزاج ہی ایسا بن گیا ہے۔ اپنی اس بے چینی کو بھی صحیح الفاظ نہیں دے سکتا۔ جاہل مطلق ہوں میں۔ چنانچہ جو کچھ کہتا ہوں، اپنی دیوانگی میں کہتا ہوں۔ جس دن سے تم یہاں آئے ہو، نہ جانے کیا ہو رہا ہے، نہ جانے کیا ہوگیا ہے۔ میں تو لوگوں کے ساتھ فریب کرتا تھا، انہیں غلط دلاسے دیتا تھا، الٹی سیدھی
جڑی بوٹیاں بتا دیا کرتا تھا لیکن جب سے تم نے جواب لکھنے شروع کئے ہیں، جسے دیکھو فائدہ ہورہا ہے، سب کی مرادیں پوری ہورہی ہیں، سارے کام سیدھے ہورہے ہیں۔ وہ سب اتنی نذریں لے کر آرہے ہیں میرے پاس کہ میں خود حیران رہ گیا ہوں اور جو خواب میں نے دیکھے ہیں، ان خوابوں نے مجھے لرزا کر رکھ دیا ہے۔ آہ! میں پاگل ہوگیا ہوں اور اب یہ سوچ رہا ہوں کہ جو کچھ مجھ سے ہوگیا ہے، اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ بابا دیکھو، دیکھو بابا خدا کے لئے بڑا بابا میں نہیں ہوں۔ بڑا بابا تم ہو تم، جو اس طرح یہاں اجنبیوں کی طرح آئے۔ اس خانقاہ میں آکر ٹھہر گئے اور اس کے بعد تم نے لوگوں کو فائدے پہنچانا شروع کردیئے۔ میرے نام سے ہو رہا ہے یہ سب کچھ۔ اللہ کے واسطے مجھے اپنی حقیقت سے آشنا کردو۔ دن رات تمہارے قدموں میں پڑا رہوں گا۔ جب تک سر نہیں اٹھائوں گا تمہارے پیروں سے جب تک تم اپنے منہ سے یہ نہ کہو گے کہ تم نے مجھے معاف کردیا ہے۔ ان تمام گستاخیوں پر جو میں نے تمہارے ساتھ کی ہیں۔ آہ! مجھ گناہگار کو اور کتنے گناہوں سے دوچار ہونا پڑے گا۔ میں بابا صاحب! ایک مضطرب دل کا مالک ہوں۔ وہ دل جس سے سکون کا گزر نہیں ہے۔ جو کچھ دل میں آتا ہے، کر ڈالتا ہوں سمجھے۔ ڈاکے بھی ڈالتا ہوں میں، ڈاکو سنتو خان کی حیثیت سے میرا نام ان علاقوں میں گونج رہا ہے۔
راتوں کو میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ خانقاہ سے نکلتا ہوں، بستیوں میں لوٹ مار کرتا ہوں، خونریزی نہیں کرتا میں، کیونکہ انسانی زندگی کو لینے کا حق مجھے نہیں ہے لیکن لوگوں کو قلاش ضرور کردیتا ہوں اور یہاں بھی میں ڈاکا زنی کرتا ہوں لوگوں کی جیبوں پر، ان کی معصوم آرزوئوں کو جھوٹے دلاسے دے کر انہیں حسرتوں کا شکار کردیتا ہوں۔ جس کا کام نہیں بنتا، وہ اسے اپنی تقدیر سمجھ لیتا ہے اور جس کا کام بن جاتا ہے، وہ چڑھاوے چڑھاتا ہے اس جعلی خانقاہ پر، اس جھوٹی قبر پر جس میں کچھ نہیں ہے، سوائے اس مشینی عمل کے جو ان کی آرزوئیں تم تک پہنچاتا ہے۔ بابا صاحب! میں یہ گناہ کرتا ہوں اور بابا صاحب میں یہ سب کچھ کرکے خوش نہیں ہوں لیکن کیا کروں، میرے ماضی نے مجھے یہ صورت دی ہے بابا صاحب۔ میری یہ صورت اسی دنیا نے بنائی ہے۔ میرا قصور نہیں ہے۔ میں جب بھی تنہائی میں بیٹھتا ہوں، اپنا حساب کرتا ہوں تو اپنے آپ کو بے قصور سمجھتا ہوں لیکن بابا صاحب! پھر وہ سکون کہاں ہے جو انسانوں کے دلوں کو میسر ہوتا ہے۔ یہ سب جو میرے ساتھی ہیں، یہ سب سکون سے کھاتے ہیں، پیتے ہیں، آرام کی نیند سو جاتے ہیں لیکن میں نیندوں سے محروم ہوں۔ میرے کانوں میں وہ معصوم آہیں اور سسکیاں گونجتی رہتی ہیں جو میرے ذریعے مصیبت کا شکار ہونے والوں کی ہوتی ہیں۔ بابا صاحب! میں یہ سب کچھ کررہا ہوں لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اپنے لئے کیا کروں۔ آہ! مجھے … مجھے سہارا دیجئے، مجھے مدد چاہئے، مجھے مدد چاہئے۔‘‘ وہ بلک بلک کر رونے لگا۔ اس طرح رو رہا تھا وہ کہ میرا دل موم ہوا جارہا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ شخص ہے کیا چیز… جو کچھ کہہ رہا ہے، اس کی شخصیت اس سے بالکل مختلف ہے لیکن انداز بتاتا ہے کہ وہ اپنی ذات میں ٹکڑے ٹکڑے ہے۔ کیوں… آخر کیوں۔ اس کے علاوہ اس نے جو انکشاف کیا تھا، اس نے مجھے لرزا کر رکھ دیا تھا۔ وہ رات مجھے یاد آگئی تھی جب ہم یہاں پہلی بار آئے تھے اور رات کی تاریکی میں ہم نے کچھ لوگوں کو سامان سے لدے پھندے یہاں آتے ہوئے دیکھا تھا۔ ڈاکو سنتو خان! گویا… گویا یہ جگہ باقاعدہ جرائم کا اڈہ ہے اور اس کا سربراہ یہ شخص ہے لیکن یہ بلکتا ہوا آدمی قابل رحم تھا۔ اس کے اندر احساس گناہ تھا۔ ایک گناہگار کو سزا دینا اللہ کا کام ہے لیکن ایک بلکتے ہوئے انسان کو دلاسہ دینا ہر اس شخص کا فرض ہے جو اس کے سامنے موجود ہو اور اگر ایک برا انسان کسی کی کوششوں سے اچھے راستے پر آسکے تو پھر یہ ایک فرض بن جاتا ہے۔ میں نے ایک لمحے سوچا پھر اکرام سے کہا۔
’’اکرام! پانی لائو۔‘‘ اکرام نے فوراً ہی میرے حکم کی تعمیل کی۔ اب میرا دل اس شخص کی جانب راغب ہوگیا تھا اور جو کچھ میرے بس میں تھا، وہ میں اس کے لئے کرنا چاہتا تھا۔ اکرام کا لایا ہوا پانی میں نے اسے اپنے ہاتھ سے پلایا اور اس کی پشت پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
’’دوست! دنیا میں کوئی کچھ نہیں ہوتا۔ بس یوں سمجھ لو، ہر شخص کی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ تم نے اپنا دکھ مجھ سے کہا، میں اسے سن کر تمہیں دلاسہ دینا چاہتا ہوں۔ بہت سی باتیں ہوں گی اس دوران۔ لیکن… لیکن اس وقت جب تم اپنے دل کی ساری بھڑاس میرے سامنے نکال دو گے، مجھے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے سے آشنا کردو گے۔ میں اس کے بعد تمہارے لئے دعائیں ہی کرسکتا ہوں کہ اللہ تمہیں ان نیک راستوں پر لے آئے جن سے تم دور ہوگئے ہو۔ توبہ کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اور اس کے لئے ہمیں صاف الفاظ میں ہدایت کر دی گئی ہے کہ کبھی رحمت ایزدی سے ناامید نہ ہوا جائے۔ چنانچہ تم جو کوئی بھی ہو، اگر تمہارا دل گوارا کرے تو اپنے دل کو میرے سامنے خالی کردو، میں خلوص دل سے تمہارے لئے دعائیں کروں گا حالانکہ مجھ ناچیز کی حیثیت ہی کیا لیکن اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنے ان بندوں کی سن لیتا ہے جو خلوص سے کچھ مانگتے ہیں۔ مجھے بتائو کون ہو تم، تمہاری کہانی کیا ہے، کوئی بات راز نہ رکھنا۔ اب تو میری سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ تمہیں کس نام سے پکاروں۔ بھورے شاہ کہوں، سنتو خان کہوں یا بڑے بابا کہوں؟‘‘
’’نہ میں بھورے شاہ ہوں، نہ سنتو خان ہوں، نہ بڑا بابا ہوں۔ میرا نام نادر ہے۔ نادر حسین، یہ میرا اصل نام ہے۔ بابا صاحب! میں کسی زمانے میں صرف نادر حسین تھا۔ ایک معصوم دیہاتی، ایک ایسے گھرانے کا فرد جس کے بارے میں لوگ کچھ نہیں کہتے تھے کیونکہ وہ گھرانہ قابل ذکر ہی نہیں تھا۔ میرا باپ کسان تھا، ماں تھی، دو بہنیں تھیں۔ ایک چھوٹی ایک بڑی۔ یہ کنبہ تھا ہمارا۔ میرا باپ اس کنبے کی پرورش کرتا تھا، میں بھی حسب توفیق اس کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ میرے باپ کو سانپ نے کاٹ لیا۔ کھیتوں پر کام کررہا تھا کہ سانپ نے اس کی پنڈلی میں کاٹ لیا۔ زہر چڑھ گیا۔ اس کی پنڈلی پر بند باندھ کر زہر کو آگے بڑھنے سے تو روک دیا گیا لیکن اس کی ٹانگ کا علاج نہیں ہوسکا۔
ہمارے پاس نہ تو پیسے تھے نہ وہ ذرائع کہ ہم کسی اچھی جگہ باپ کا علاج کرا سکتے۔ بس میونسپلٹی کے ڈاکٹر نے میرے باپ کی ٹانگ کاٹ دی اور اس طرح ہمارے ہاں ان مصائب کا آغاز ہوگیا جو انسانی زندگی کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں۔ فاقے شروع ہوگئے ہمارے گھر میں… میرا باپ، چوہدری کے کھیتوں پر کام کرتا تھا مگر چوہدری نے مجھے اس کی جگہ نوکر نہیں رکھا۔ اس کے دل میں برائی آگئی تھی۔ میری بہن کو دیکھ لیا تھا اس نے۔ نوجوان تھی، خوبصورت تھی۔ میری ماں فریاد لے کر گئی تھی اس کے پاس۔ بدنگاہ چوہدری نے ایک منصوبہ تیار کیا۔ وہ اپنی بیوی سے بہت ڈرتا تھا۔ اس کے خلاف کچھ نہیں کرسکتا تھا مگر چوہدری نے اسے شیشے میں اتار لیا۔ وہ بانجھ تھی، اولاد نہیں ہوتی تھی اس کے ہاں۔ ایک دن وہ ہمارے گھر آگئی۔ میری ماں سے اس نے کہا۔
’’تمہاری پریشانی دیکھی نہیں جاتی۔ ایک خیال لے کر آئی ہوں تمہارے پاس۔‘‘
’’حکم دیں بیگم صاحبہ۔‘‘ میری ماں نے کہا۔
’’تمہیں پتا ہے کہ میرے ہاں اولاد نہیں ہوتی۔‘‘
’’اللہ کرم کرے گا بیگم صاحبہ۔‘‘
’’میں نے چوہدری صاحب کو بڑی مشکل سے تیار کیا ہے۔ ایک راستہ ہے میرے سامنے، تمہاری بڑی بیٹی شمو ہے نا؟‘‘
’’ہاں…‘‘ میری ماں نے لرز کر کہا۔
’’اس کا نکاح چوہدری صاحب سے کردو… حق مہر میں ہم ایک باغ اور دس بیگھے زمین دیں گے۔ تمہارے بھی دلدر دور ہوجائیں گے۔ یہ کام بالکل خاموشی سے ہوگا، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی۔ شمو میرے پاس رہے گی۔ بولو کیا کہتی ہو؟‘‘
’’نکاح…‘‘ میری ماں نے دہشت سے کہا۔
’’ایک اولاد پیدا ہوجائے اس سے تو چوہدری صاحب خاموشی سے اسے طلاق دے دیں گے۔ جو اسے دیا ہوگا سب، تمہارا بچہ میرا کہلائے گا۔ بعد میں تم شمو کا بیاہ کردینا، کس کو پتا چلے گا۔‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو بیگم صاحبہ…‘‘ میری ماں بمشکل بولی۔
میں نے بھی سن لیا تھا۔ خون کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا تھا میرے وجود میں، پاگل ہوگیا تھا میں۔ آگے بڑھ کر میں نے بیگم صاحبہ سے کہا۔
’’فوراً گھر سے نکل جائو بیگم صاحبہ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے آدمی تمہاری لاش لینے آئیں۔‘‘
’’تو ایسی کون سی بری بات کہہ دی میں نے…آئے ہائے ایک تو احسان کررہے ہیں۔ چلو ٹھیک ہے بھوکے مرو گے تو خود آئو گے۔‘‘
خون کے سارے گھونٹ سینے میں اتار لئے میں نے، اپنا لہو خود چاٹ لیا۔ معذور باپ، بے کس ماں، جوان بہنوں کا میرے سوا کوئی سہارا نہیں تھا۔ ان کے لئے مجھے زندہ رہنا تھا، صبر کرنا تھا، میں نے صبر کرلیا۔ ہم نے کسی سے کچھ نہیں کہا۔ پیٹ بھرنے کا سہارا چاہئے تھا۔ سب کو پالنا تھا، سب کچھ بھلا دینا تھا۔ کوشش کی کچھ کامیابی حاصل ہوگئی۔ راجہ خان لوہار کے ہاں نوکری مل گئی۔ بھٹی کا پنکھا چلانے کی، گھن چلانے کی۔ روٹیوں کا سہارا ہوگیا۔ راجہ خان بہت برا آدمی تھا۔ جوا کھیلتا تھا، تاڑی پیتا تھا۔ چار، چھ دن کام کرکے کما لیا۔ چار، چھ دن بیٹھ کے کھا لیا۔ مجھے بھی کچھ نہ کچھ مل جاتا تھا۔ اس کے گھر میں بھی آنا جانا تھا۔ اس کی بیوی رشیدہ بڑی نیک عورت تھی۔ نمازی، پرہیزگار، شوہر کی برائیوں کو چھپانے والی۔ بے اولاد تھی۔ مجھے بھائی کی حیثیت دینے لگی۔ وہ میری مدد بھی کرتی تھی۔ خود اچھے گھر کی تھی۔ ماں باپ بھی لیتے دیتے رہتے تھے۔ برے وقت کے لئے پیسے بچاتی تھی کیونکہ شوہر ناقابل بھروسا تھا۔ ان پیسوں میں سے وہ میری مدد کرتی تھی۔ میری مجبوریوں نے مجھے اس کی مدد لینے پر آمادہ کردیا تھا مگر بدکار راجہ نے ان باتوں کو دوسری نگاہوں سے دیکھا اور ایک دن تاڑی کے نشے میں اس نے اپنی بیوی کو مار مار کر زخمی کردیا۔ میں معمول کے مطابق بھٹی پہنچا تھا۔ راجہ تو موجود نہیں تھا مگر رشیدہ کے پورے چہرے پر نیل پڑے ہوئے تھے۔ زخمی سر پر پٹی کسی ہوئی تھی۔
’’ارے، یہ کیا ہوا؟‘‘
’’کچھ نہیں، تو جا اپنا کام کر۔‘‘
’’مارا ہے راجہ بھیا نے؟‘‘
’’نادر… تو اپنا کام کر… تجھے کیا ان باتوں سے، جا بھٹی سلگا، نہیں تو راجہ بگڑے گا۔‘‘
’’کیوں مارا ہے اس نے تجھے؟‘‘ میں نے دلسوزی سے کہا۔
’’شوہر ہے وہ میرا۔ میں جانوں، وہ جانے… تو بلاوجہ بیچ میں آرہا ہے۔‘‘ میں نے افسردگی سے گردن جھکا لی۔ پھر آہستہ سے کہا۔
’’بھائی بھی تو کہتی ہے تو مجھے رشیدہ۔ مگر… میں غیرت مند بھائی کہاں ہوں، میں تو خود تجھ سے پیسے لیتا ہوں۔‘‘ میرے ان الفاظ پر وہ تڑپ گئی۔ آگے بڑھی اور میرا سر سینے سے لگا لیا۔
’’یہ پیسوں کا ذکر تو بیچ میں کیوں لے آیا رے۔ ایسی بیکار باتیں مت کیا کر۔‘‘ اور پھر اس کا چہرہ دہشت سے سفید گیا۔ وہ سہمی ہوئی آنکھوں سے دروازے کو دیکھ رہی تھی۔