(Last Updated On: )
کیا نہیں موجود؟ موجود و عدم موجود ہیں
اس جہاں میں رنگ سارے بیش و کم موجود ہیں
کاشکے موجودگانِ شہرِ خوبی دیکھتے
آج ناموجود ہیں وہ اور ہم موجود ہیں
آہ بھرتا ہوں کہ شاید بھر سکے دل کا خلا
آنکھ بھرنے کے لیے دنیا کے غم موجود ہیں
بے توجہ ہی رہیں، اتنی تسلی کم ہے کیا
آپ کے پیش نظر ہم کم سے کم موجود ہیں
عشق صاحب کی اکڑ نکلی نہیں پوری طرح
پیچ زلف یار کے بھی خم بہ خم موجود ہیں
کیا خبر کب جلتا سورج اپنی آنکھیں میںچ لے
یہ زمین و آسماں اب کوئی دم موجود ہیں
آپ جیسوں سے نہیں ہونے کا یہ کارِ جنوں
آپ جیسوں کا بھرم رکھنے کو ہم موجود ہیں
آپ کی موجودگی کا شکریہ صد شکریہ
ہم سے کم مایہ بھی از راہِ کرم موجود ہیں
کاشر اپنی گمرہی سے سیکھ لے جو سیکھ لے
آنے والوں کے لیے نقشِ قدم موجود ہیں