(Last Updated On: )
راحم کیا کر رہے ہو؟۔۔۔
راحم شیشے کے سامنے کھڑا بال سیٹ کر رہا تھا۔۔۔علی نے کمرے میں داخل ہوکے پوچھا۔۔۔۔
آفس کے لیے نکل رہا ہوں ارمان بھائ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو میں ڈیل کرونگا۔۔۔۔
جنید کہاں ہے وہ نہیں جائے گا کیا آج آفس۔۔۔
پتا نہیں ابھی تک تو نیچے نہیں آیا ۔۔۔۔
اچھا سنو تم رہنے دو اپنی جگہ جنید کو بھیج دو ۔۔۔
کیوں یہ بہت بڑی ڈیل ہے میں جنید کو نہیں دےسکتا ۔۔۔
راحم ہلکا سا غرایا۔۔۔
سمجھنے کی کوشش کرو راحم ایک یہی راستہ ہے جنید کو اس گھر سے دور رکھنے کا اگر وہ اس گھر سے باہر نہیں نکلا تو ہمارے لیے مشکل ہوجائے گی۔۔۔
علی نے سمجھانا چاہا۔۔۔
ہاں میں سمجھ گیا آپ جنید کو بھیج دیں۔۔۔۔
علی راحم کو سمجھا کے جنید کے روم میں گیا ۔۔۔
جنید۔۔۔۔
جنید کال پہ بات کر رہا تھا علی کی آواز پہ مڑا
ہاں بولو۔۔۔۔
ہاں اس دن جو ڈیل ہوئ تھی یاد ہے تمہیں۔۔۔
علی نے یاد کروایا۔۔۔۔
ہاں اچھے سے یاد ہے اور راحم میٹنگ کرےگا۔۔۔۔
جنید منہ بنا کے بولا۔۔۔۔
راحم یونی چلا گیا اور ارمان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو تم اس ڈیل کو ہینڈل کرو گے۔۔۔
علی کی بات پہ جنید اندر سے خوش ہوا لیکن باہر سے ظاہر نہیں کیا۔۔۔
ویسے تم آج کل بزنس میں بڑی دلچسپی لے رہے ۔۔۔۔
حالت تم اچھے سے سمجھتے ہو اب ان حالات میں میں اپنوں کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا ۔۔۔
ہممم لیکن تمہارا بھی نقصان ہورہا ہے اس مہینے تمہارا پیپر تھا نہ۔۔۔۔
جنید کو اب ٹینشن ہونے لگ گئ تھی اگر علی نے بزنس جوائن کر لیا تو اس کا پلین برباد ہو جائے گا۔۔۔۔
اب ایسے میں یوں سب کو چھوڑ کے تو نہیں جاسکتا نا اگلے سال دے دونگا فلحال ارمان کی جگہ میں آفس دیکھونگا ۔۔۔
علی نے اداسی سے کہا۔۔۔۔۔۔۔
میں جانتا ہوں تم سب کی فکر کرتے ہو اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھتے لیکن اب تمہارے ساتھ میری بہن نے زندگی گزارنی ہے اس کے بارے میں تو سوچو۔۔۔میں تو کہتا ہوں اگلے مہینے ہی رخصتی کردیتے ہیں۔۔۔
جنید کی بات پہ علی نے غصے سے گھورا ۔۔۔۔۔
دیکھو ارمان کو تو محبت کا روگ لگ گیا ہے ساری زندگی لیکن میری بہن اس کو یوں کیوں بیچ راہ میں لٹکایا ہوا ہے۔۔۔۔
علی نے جنید کو تفتیش نظروں سے دیکھا۔۔۔۔
ایک منٹ تمہیں کیسے پتا اجالا اور ارمان کی محبت کا۔۔۔
علی کی بات پہ جنید گڑبڑا گیا۔۔۔
بھئ ارمان کی آنکھوں سے صاف پتہ لگ رہا ہے کہ یہ روگ محبت کا ہے اب ایسے کوئ بندہ کسی کی باتوں کو دل سے تو نہیں لگاتا۔۔۔۔۔
اور رہی بات زوجاجہ کی رخصتی کی وہ تو دو سال سے پہلے سوچنا بھی نہیں اگر اتنی جلدی ہے تو بات طلاق تک پہنچ جائے گی۔۔۔
میٹنگ شام چھ بجے کی ہے تم پانچ بجے گھر سے نکل جانا۔۔۔
علی میں ابھی آفس چلا جاتا ہوں اس کانٹریکٹ کے حوالے سے ایک نظر دوبارہ دیکھ لونگا۔۔۔
اوکے جیسے تمہاری مرضی۔۔۔
علی اتنا کہہ کے باہر چلا گیا۔۔۔
آدھے گھنٹے بعد جنید کی گاڑی کی آواز آئ۔۔۔۔
۔علی اور راحم جنید کے کمرے کی تلاشی لے رہے تھے۔۔۔
راحم یہ پسٹل ملی ہے جنید کے کبڈ سے۔۔۔
علی رومال سے جنید کی پسٹل لے کے نیچے چلا گیا۔۔۔۔۔
اس پسٹل پہ جنید کے نشان ہیں اب ہمیں جنید کے ہاتھ کے ایک اور نشان چائیے
ایک منٹ آپ ادھر ہی رکھیں میں جنید کے ہاتھ کے نشان لے کے آتا ہوں ۔۔۔راحم فائل لے کے نیچے جنید کے پاس گیا۔۔۔۔
جنید تم ابھی تک گئے نہیں ۔۔۔۔
ہاں وہ بس میں جا ہی رہا تھا اپنی ایک فائل بھول گیا۔۔۔
جنید واپس کمرے میں جانے لگا کہ راحم نے آواز دےدی۔۔۔۔
کہیں وہ فائل یہ تو نہیں ۔۔۔راحم نے فائل آگے کی۔۔۔
ہاں شاید یہی ہے جنید نے راحم کے ہاتھوں سے فائل کھول کے دیکھی۔۔۔
نہیں یہ میری فائل نہیں ہے یہ تو ارمان کی ہاسٹل کی فائل ہے۔۔۔
او سوری میں نے فائل اندر سے دیکھی نہی تم یہ فائل مجھے دے دو۔۔۔راحم نے جنید سے دوبارہ فائل لے لی
جنید اپنی فائل لے کے آفس چلا گیا۔۔۔۔
جنید کے جانے کے بعد راحم علی کے کمرے میں گیا۔۔۔۔
علی اس فائل پہ جنید کی انگلیوں کے نشان ہیں ۔۔
علی اور راحم پسٹل لے کے پولیس اسٹیشن چلے گئے۔۔۔
اسلام و علیکم مسٹر علی آج بڑے دنوں بعد آئے ہمیں آپکو ایک بات بتانی تھی۔۔۔
انسپکٹر صاحب آپ بات بعد میں بتائیں گا پہلے یہ پسٹل اور اس فائل پہ جو انگلیوں کے نشان ہیں آپ چیک کر کے بتائیں کہ ان دونوں پہ جو انگلیوں کے نشان ہیں کیا وہ ایک ہی شخص کے ہیں ۔۔۔ ۔۔اور یہ گولی کا پچھلا حصہ اس پسٹل کی ہے یا نہیں یہ بھی پتا لگوائیں ۔۔۔۔علی نے فائل اور پسٹل انسپکٹر کو دےدی۔۔
اسلم یہ دونوں لے جاو۔۔۔
ہاں تو آپ کیا کہہ رہے تھے۔۔۔
علی واپس انسپیکٹر کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔۔
مسٹر علی ابھی ابھی میرے آدمی نے جنید کو کسی غیر علاقے سائیڈ جاتا دیکھا ہے۔۔۔۔
غیر علاقی سائڈلیکن وہ تو آفس کے لیے نکلا تھا۔۔۔۔
انسپیکٹر نے اپنا موبائل علی کے سامنے کیا۔۔۔آپ کا آفس اس سائیڈ ہے جبکہ جنید اس سائیڈ گیا ہے۔۔۔
علی نے لوکیشن چیک کی تو پولیس اسٹیشن کے پندرہ منٹ کی دوری پہ جنید کی گاڑی تھی۔۔۔
یہ تو وہی علاقہ ہے جہاں اس دن واقعہ ہوا تھا۔۔۔
علی نے سر اٹھا کے راحم کو دیکھا۔۔۔
لیکن یہ وہاں کیا کرنے گیا ہے ۔۔۔علی نے سوچا۔۔۔
علی ۔۔۔ہوسکتا ہے اپنا کوئ ثبوت مٹانے گیا ہو
راحم کی بات پہ علی نے گردن نفی میں ہلائ۔۔۔
نہیں نہیں اگر ثبوت مٹانا ہوتا ہو سب سے پہلے وہاں جاتا۔۔۔۔
راحم تو ادھر ہی رکھو میں جنید کا پیچھا کرتا ہوں کہ آخر وہاں اس علاقے جا کیوں رہا ہے۔۔۔ایسا کیا کام ہے۔۔۔
علی انسپیکٹر کے ہاتھ سے موبائل لے کے باہر نکل گیا۔۔۔۔
علی کی گاڑی جنید کی گاڑی سے دس منٹ کی دوری ہے تھی۔۔۔۔
علی نے چند منٹ کی دوری پہ اپنی گاڑی روک دی چپ چاپ جنید کا پیچھا کرتا ایک لکڑی نما گھر کے اندر چلا گیا۔۔۔
جنید کسی لڑکے سے چلا چلاکے بات کر رہا تھا سامنے والا لڑکا کرسی میں بیٹھا ہوا تھا۔۔۔جنید کی پشت تھی علی کے سامنے تبھی علی سامنے کرسی پہ بیٹھے لڑکے کو دیکھ نہیں پارہا تھا۔۔۔۔
یہ کس سے بات کر رہا ہے۔۔۔یہاں سے تو نظر ہی نہیں آرہا۔۔۔
جنید نے اس لڑکے کو فائل دیکھائ اور زور زور سے ہنسنے لگ گیا۔۔۔
جنید ہنس کے تھوڑا پیچھے ہوا لیکن اس بار علی کی آنکھیں حیرانگی سے پوری باہر اگئ تھی۔۔
۔سامنے کرسی پہ بیٹھے وجود کو علی آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔جیسے یقین کرنا چاہ رہا ہو۔۔ار ارحم ۔۔۔
جنید ارحم کو تھپڑ مار کے بولا۔۔۔۔
تیرے پاس چند سانیس باقی ہیں
بس آج وہ ڈیل مجھے مل جائے میری زندگی بن جائے گی پھر تجھے تیرے ابو کے پاس پہنچا دونگا۔۔۔
آج کی شام تیری آخری شام ہوگی میرے بھائ ۔۔۔تو بس چند گھنٹوں کا مہمان ہے۔۔۔
لیکن تو ٹینشن نہیں لینا کل تک ارمان کو بھی تیرے پاس پہنچا دونگا ۔۔۔۔
جنید مکراو ہنسا۔۔۔۔
ارحم کو تھپکی دے کے باہر نکل گیا۔۔۔۔
علی ہوش میں آیا جنید کے جانے کے بعد وہ ارحم کے سامنے آیا۔۔۔
ارحم نے سر اٹھا کے دیکھا تو آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔۔
ارحم میرے بھائ تو تو زندہ ہے۔۔علی ارحم کے پاس جا کے اسے چھونے لگ گیا۔۔۔
علی مجھے یہاں سے لے چلو ورنہ آج سب ختم ہوجائے گا ارمان بھائ کی زندگی ختم ہوجائے گی بھائ جنید کو روکھ لیں وہ ارمان بھائ کا سب کچھ اپنے نام کروانے جا رہا ہے۔۔۔
ارحم کی بات پہ علی نے نہ سمجھی سے دیکھا۔۔۔
تم کیا کہہ رہے ہو میں سمجھا نہیں ۔۔۔۔
علی ، جنید کہہ رہا تھا کہ آج ارمان کی بربادی کا دن ہے جنید جس ڈیلر کے پاس جا رہا ہے ارمان بھائ کو بہت بڑا نقصان ہوگا آج۔۔۔
ارحم کی بات پہ علی نے فون نکالا ۔۔۔۔۔
ایک منٹ میں اس آدمی کو منع کر دیتا ہوں۔۔علی اپنا موبائل نکال کے کال کرنے لگ گیا ۔۔۔۔
ہیلو ۔۔صوفیان صاحب ۔۔۔۔جی جی میں علی بول رہا ہوں۔۔۔
جی آپ سے ایک کام تھا ہم آج ڈیل نہیں کرسکتے آپ کل کی میٹنگ رکھ لیں اصل میں آج ارمان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے جی ۔۔۔جی شکریہ ۔۔۔اچھا ایک اور بات آج آپکے پاس جنید آئے گا وہ فائل لے کے آپ جنید سے فائل لے لینا اور اسکے ساتھ کوئ ڈیل نہیں کرنا اور نہ ہی کسی بھی پیپر میں سائن کرنا۔۔۔جی وہ میں آپکو کل سمجھا دونگا۔۔۔جی شکریہ اللہ حافظ۔۔۔
چلو ایک مسلہ تو حل ہوا۔۔۔
علی اتنا کہہ کے ارحم کی رسیاں گھولنے لگ گیا۔۔۔۔
ارحم تمہیں سب دیکھ کے بہت خوش ہونگے۔۔۔علی ارحم کی رسیاں کھول کے گلے لگ گیا۔۔۔۔
علی خرم کا کوئ قصور نہیں ہے وہ بےقصور ہے مجھے جنید نے گولی ماری تھی۔۔۔
ہاں میں سب کچھ جانتا ہوں۔۔لیکن تم کیسے بچ گئے تمہیں تو گولی لگی تھی اور تم پانی میں گر گئے تھے۔۔۔
علی وہ سب میں تمہیں گھر جا کے بتاونگا لیکن ابھی یہاں سے نکلو جنید کسی بھی وقت یہاں پہنچ جائے گا۔۔۔
اسے تو میں نہیں چھوڑونگا کمینہ آستین کا سانپ ہے ۔۔۔
علی اور ارحم گاڑی میں بیٹھ کے گھر کی جانب روانہ ہوگئے۔۔۔علی نے راحم کو فون میں سب کچھ بتا دیا تھا۔۔۔اور جنید کو کسی بھی طریقے سے گھر پہ روکھنے کا آڈر دیا تھا۔۔۔جنید جو اپنے پلین کا فیل ہونے کے وجہ سے غصے میں ارمان کے پاس آیا تھا کے ارمان انہیں کال کر کے سمجھائے کے ڈیل آج ہی سائن کرنی ہے۔۔۔۔
جنید ارمان کے کمرے میں گیا۔۔۔
سامنے ارمان کسی گہری سوچ میں مبتلا تھا۔۔۔۔
ارمان یار وہ ڈیل سائن نہیں کر رہے تو فون کر کے سمجھا۔۔۔جنید سخت ٹینشن میں ارمان کو بول رہا تھا۔۔
ابھی تو جا یہاں سے میرا سر پھٹ رہا ہے۔۔۔
ارمان سر پہ دباؤ ڈال کے بولا۔۔۔۔
ارمان وہ ڈیل بہت اہم ہے تو کال کر۔۔۔
جنید کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ارمان کو شوٹ کردے۔۔۔
تیرا کیا جائے گا نقصان تو میرا ہوگا نہ بس میں سہہ لونگابھاڑ میں جائے کانٹریکٹ ۔۔۔ارمان ہلکی آواز میں غرایا ۔۔۔۔۔
راحم ارمان کے کمرے سے آواز سن کے آیا۔۔۔
بھائ آپ ٹھیک ہین ۔۔۔ارمان اپنا سر پکڑے کھڑا تھا۔۔۔۔
راحم جنید کے پاس آیا ۔۔۔کیا بولا ہے تم نے ۔۔۔دیکھ نہیں رہا میرے بھائ کی حالت ٹھیک نہیں ہے دفع ہوجاو یہاں سے۔۔۔۔
جنید کو امید نہیں تھی کہ راحم جنید سے اونچی آواز میں بات کرے گا۔۔۔
بھائ آپ آرام کریں ۔۔راحم ارمان کو لیٹا کے جنید کو باہر لے گیا۔۔۔
سوری یار تم سے اونچی آواز میں بات کری ۔۔بس بھائ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے نا تو دماغ ان کی طرف ہے ۔۔۔
کوئی بات نہیں۔۔۔
جنید اتنا کہہ کے نیچے چلا گیا۔۔۔راحم پیچھے پیچھے ایا۔۔۔
جنید مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔۔
جنید مڑا ۔۔۔
ہاں بولو۔۔۔
راحم کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا بات کرے۔۔۔
(جلدی آجاو علی)
جنید نے سوالیہ نظرون سے دیکھا۔۔
راحم کو چپ کھڑا دیکھ کے جنید واپس جانے لگا کہ سامنے گیٹ سے علی اجلت میں آتا دیکھائ دیا۔۔۔
سیدھا جا کے جنید کا بازو پکڑ لیا۔۔۔۔
دادی ابو بڑی چاچی چھوٹی چاچی ثوبیہ فاطمہ زوجاجہ کہاں ہوں سب جلدی نیچے آو ایک سرپرائز دینا ہے۔۔۔
سب علی کے چلانے سے نیچے آگئے۔۔۔
کیا ہوگیا علی کیوں چلا رہے ہو۔۔۔۔اب بتاو کیا ہوا۔۔۔
ایک منٹ حوصلہ رکھیں دادی ارمان کو بھی نیچے آنے دیں۔۔۔جاو ارحم او میرا مطلب راحم ارمان کو نیچے لے کے آو۔۔۔
علی نے کہا راحم سے اور دیکھا جنید کو۔۔۔۔۔
راحم ارمان کو نیچے لے کے آیا۔۔۔۔
آپ سب کے لیے ایک سرپرائز ہے لیکن جنید۔۔۔علی جنید کے پاس ایا۔۔۔
تمہارے لیے دھماکے دار سرپرائز ہے جسے دیکھ کے تم سکتے میں آجاو گے ۔۔۔دیکھاوں ۔۔۔۔جنید علی کی بات پہ بوکھلا گیا۔۔۔
اندر آجاو ۔۔۔۔۔علی نے آواز لگائ۔۔۔گھر میں سب خاموش تھے گھڑی کی ٹک ٹک پورے گھر میں گونج رہی تھی۔۔۔کوئ اندر آیا ویل چیئر گھسیٹتے ہوئے وہ شخص جیسے جیسے اندر آرہا تھا سب کے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی ایک جنید کی اس شخص کو دیکھ کے دل کی دھڑکن رکھ گئ۔۔۔
علی جنید کا بازو چھوڑ کے ارحم کے پاس گیا۔۔۔اسکی ویل چیئر گھسیٹ کے آمنہ بیگم کے پاس لایا۔۔۔۔ آمنہ بیگم بھاگ کے ارحم کے گلے لگ گئیں۔۔۔
ارحم ۔۔۔۔ میرے بچے میرے لال ۔۔تم زندہ ہو۔۔۔۔
ارحم اپنی ماں کے گلے لگ کے خوب رویا۔۔۔۔۔
ارمان اب بھی ارحم کو دیکھ رہا تھا جیسے ابھی پلک جھپکنےپر ارحم غائب ہوجائے گا۔۔۔
راحم فاطمہ دادو ثوبیہ فرحان صاحب سب ارحم سے مل کے بہت خوش ہوئے ۔۔۔۔
ارحم اپنی ویل چیئر گھسیٹ کے ارمان کے پاس آیا جو ایک ہی پوزیشن میں بیٹھا ارحم کو آنکھیں پھاڑےدیکھ رہا تھا۔۔۔
ارحم نے جیسے ہی ارمان کا ہاتھ پکڑا ارمان کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگ گئے۔۔۔۔
ارمان ارحم کے گلے لگ کے خوب رویا۔۔۔۔
بس کرو ارمان اب ارحم آگیا ہے نہ ایسا مت رو تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔
آمنہ بیگم ارمان کو الگ کر کے بولیں۔۔۔۔
ارحم میں گنہگار ہوں اجالا کا تمہاری وجہ سے میں سے اسے بہت سزا دی۔۔۔۔
بھائ گنہگار آپ نہیں یہ جنید ہے۔۔۔آستین کا سانپ ہے یہ جنید۔۔۔
ارحم کی بات پہ سب نے بےیقینی سے جنید کو دیکھا جو راحم کا ہاتھ اپنے بازووں سے چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔راحم نے جنید کو گردن سے دبوچا ہوا تھا۔۔۔
کیااااا۔۔۔۔۔
ارمان نے جنید کو دیکھا۔۔۔
سب جنید کی جانب متوجہ ہوئے جسے علی اور راحم نے پکڑا ہوا تھا۔۔۔۔
اس دن مجھے گولی خرم نے نہیں جنید نے ماری تھی ۔۔۔
ارحم نے اس دن کا سارا واقعہ سنادیا ۔۔۔۔
گولی میری ٹانگ پہ لگی تھی۔۔۔اور پھر جب میں پانی میں گرا تو وہ شخص جو ہم تینوں کے علاوہ وہاں موجود تھا اس نے مجھے پانی سے نکال کے مجھے ایک لکڑی نما گھر میں رکھا میرا علاج کیا اور جب میں نے پوچھا کہ جب مجھے گولی ماری تو پھر مجھے بچایا کیوں تب اس نے کہا کہ یہ آپکو بلیک میل کرے گا۔۔۔اس نے مجھے ساری بات بتائ خرم بھائ کا جیل جانا آپکا اور اجالا کا لڑنا آپکا ہر ایک پل اذیت میں گزرنا آپکا نروس بریک ڈاون ہونا ۔۔۔۔اس نے مجھے سب بتایا تاکہ مجھے بھی تکلیف ہو۔۔۔۔مجھے اس گھر میں پانچ مہینے رکھا۔۔۔بھائ جسے آپ اپنا بھائ اپنی جان سب کچھ سمجھتے تھے اسی نے آپکو دھوکا دیا۔۔۔یہ آپ کا بزنس آپکا گھر یہاں تک کے اجالاکو بھی اپنے نام کروانا چاہتا تھا۔۔۔۔اور زوجاجہ کے ذریعے علی سے بھی شیرز اپنے نام کروانے کا سوچ رہا تھا یہ۔۔۔۔
ارحم نے ساری داستان سنادی۔۔۔۔
نغمہ بیگم جنید کے پاس آئیں ایک زور دار آواز گھر میں گونجی۔۔۔۔چٹاخ ۔۔۔۔۔۔
جنید میں پہ ہاتھ رکھے اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
امی آپ نے مجھے تھپڑ مارا۔۔۔۔
مت کہو مجھے اپنی ماں ۔۔۔تم نے یہ صلہ دیا میری پرورش کا۔۔۔
امی اپ بھی اس کی باتوں پہ یقین کر رہی ہیں ثبوت کیا ہے اس کے پاس کے میں نے اسے گولی ماری ہے۔۔۔
جنید اب بھی اپنی بات پہ قائم تھا۔۔
ہمارے پاس ٹھوس ثبوت ہے۔۔۔پیچےسے آواز آئ۔۔۔
پولیس۔۔۔۔
مسٹر جنید آپکے خلاف پختہ ثبوت ہے۔۔۔اور سب سے ٹھوس ثبوت یہ خود ارحم ہے۔۔۔
ارمان آگے آیا جنید کو گریبان سے پکڑ کے ایک تھپڑ لگایا۔۔۔
کیوں کیا تو نے ایسا بول کیوں کیا کمینے۔۔۔۔
تجھے بھائ کا پیار دیا تجھے ہر ایک ایش و آرام دیے
اور تو نے اپنی اوقات دیکھا دی ارے تیرے پاس تھا ہی کیا ایک عام آدمی تجھے فرش سے عرش پے پہنچایا اور تو نے ہمیں ہی دھوکا دیا ۔۔۔۔مجھے میری اجالا سے دور کیا۔۔۔ارمان جنید کو مار رہا تھا۔۔۔
مسٹر ارمان آپ چھوڑیں ہم ہینڈل کر لیں گے آپ پیچھے ہٹیئییں۔۔۔ہولدار اریسٹ ہم۔۔۔۔
ارمان اپنی ماں کے پاس آیا۔۔۔
امی مجھ سے بہت بڑی بھول ہوگئ ۔۔۔
علی مجھے اجالا کے پاس لے چل میں اس سے معافی مانگ لونگا۔۔۔
علی نےارمان کو سہارا دیا۔۔۔
دونوں گاڑی میں بیٹھ کے اجالا کے گھر کی جانب نکل گئے۔۔۔
************♡***********
ارے بھئ آرہے ہیں آرام سے۔۔۔
جی کو۔۔
۔سامنے کھڑے ارمان کو دیکھ کے اجالا کا منہ بند ہوگیا۔۔۔
خرم گھر پہ نہیں ہے دو دن کے لیے اسلام آباد گئے ہوئے ہیں۔۔۔
وہ رخ پھیر گئ ۔۔۔
میں خرم سے نہیں تم سے ملنے آیا ہوں۔۔
ارمان کی حالت دیکھ کے اجالا کا دل ڈوبا ۔۔۔
ارمان کی حالت صدیوں کا بیمار ،رف بال ، آواز میں لڑکھڑاہٹ۔۔۔۔
کیوں اب کون سا تماشہ دیکھنے آئے ہیں ۔۔۔۔۔اجالا غصے سے بولی۔۔۔
تماشہ تو میری زندگی نے میرے ساتھ کیا ہے ۔۔۔۔۔
اجالا۔۔ارمان نے اتنا ہی کہا کہ اجالا نے بیچ میں روکھ دیا۔۔
اپنی زبان سے میرا نام بھی مت لینا۔۔
آپ جائیں یہاں سے ۔۔۔اجالا جیسے ہی دروازہ بند کرنے لگی ارمان نے ہاتھ سے روکھ دیا۔۔۔۔اجالا پیچھے ہوگئ۔۔۔
ارمان اندر آکے اپنے ہاتھ اجالا کے سامنے جوڑ دیے۔۔
مجھے معاف کردو اجالا پلیز میں نے اپنے ساتھ ساتھ تمہیں بھی تکلیف پہنچائ ہے۔۔۔
معاف۔۔۔تمہیں ذرا سے بھی شرم نہیں آئ مجھے اتنی اذیت دے کے تم مجھ سے معافی کی امید رکھ رہے ہو۔۔۔۔
جب میں چلا چلا کے کہہ رہی تھی کہ میرا بھائ بےقصور ہے تم تمہاری آواز کہاں دب گئ تھی تب تم نے کیوں نہیں یقین کیا۔۔تم نے خرم کے ساتھ ساتھ مجھے بھی تکلیف دی ہے اور تم مجھ سے معافی کی امید کر رہے ہو۔۔۔اجالا ارمان کا گریباں پکڑ کے بولی۔۔۔
تم نے جنید پہ اعتبار کر لیا لیکن اپنی محبت پہ اعتبا نہیں کیا ۔۔۔۔۔
میں مانتا ہوں مجھ سے غلطی ہوگئ۔۔۔لیکن خدا کا واسطہ مجھے معاف کردو۔۔اجالا میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں
اس نے ارمان کو دیکھا۔۔۔۔
محبت دنیا کا سے سے آخری اور خطرناک نشہ ہے
اگر تم کسی سے پیار کرنے کا دعوائ کرتے ہو تو اسے نبھانے کی ہمت بھی رکھو۔۔۔۔
میں پاگل تھی جو اپنی محبت کی خاطر جنید سے لڑتی رہی مجھے فخر تھا کہ جنید میری محبت کے سامنے ہار جائے گا کیوں کہ چاہے دنیا ادھر کی ادھر ہوجائے تم میرا ساتھ دو گے ۔۔۔
اس دن تمہارے بھائ ارحم کے ساتھ ساتھ ہماری محبت بھی مرگئ ارمان اس محبت کا تم نے اپنے منہ سے جنازہ پڑھا ہے دفن ہوگئ ہے ہماری محبت مت کھودو دوبارہ اس محبت کی قبر کو ۔۔۔۔
آج میں ہار گئ اور جنید جیت گیا ارمان تم نے انہی ہاتھوں سے اپنی محبت کا گلا گھونٹ دیا اب کیا لینے آئے ہو یہاں۔۔۔اجالا ارمان کے دونوں ہاتھ پکڑ کے چلائ۔۔۔
جاو۔۔۔ گھر جا کے اپنی محبت کا سوگ مناو۔۔۔
نہیں چائ ہے مجھے تمہاری محبت بس ایک احسان کردو اگر تم مجھ سے سچی محبت کرتے ہو نہ تو پلیز آئندہ اپنا چہرہ مجھے مت دیکھانا۔۔۔میں تمہارے سامنے ہاتھ جھوڑتی ہوں۔۔۔۔جاو یہاں سے ارمان کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں میری بھی قبر پہ فاتحہ نہ پڑھنا پڑے۔۔۔۔
کیا ملا محبت سے_______!!
خواب کی مسافت سے
وصل کی تمازت سے
روز و شب کی ریاضت سے____!!
کیا ملا محبت سے؟؟؟
اک ہجر کا صحرا_____!!
اک وصل کی خواہش
اک شام یادوں کی
اک تھکا ہوا آنسو
ارمان چپ چاپ باہر آگیا سامنے علی کھڑا تھا ارمان کو دیکھ کے سیدھا اس کے پاس چلا گیا۔۔۔
“کیا کہا اجالا نے”۔۔علی بےچین نظروں سے ارمان کی طرف دیکھا۔۔
ارمان چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔
علی نے بھی دوبارہ کوئ سوال نہیں کیا وہ سمجھ گیا تھا کہ اجالا نے ابھی تک معاف نہیں کیا بس ایک ترسی نگاہ ارمان پہ ڈالی۔۔(کاش ارمان تم وہ سب نہیں کرتے کتناروکا تھا تمہیں)۔۔۔
“اب آپ یہاں کیوں آئے ہیں”۔۔اجالا نے اپنے سامنے علی کو دیکھ کے پوچھا۔۔۔
“اگر آپ ارمان کی سفارش لے کے آئے ہیں تو پلیز چلے جائیں”اجلا نے روکھا جواب دے کے منہ پھیر لیا۔۔۔
“نہیں میں یہاں ارمان کی سفارش لے کے نہیں آیا ۔۔میں تو یہ بولنے آیا ہوں کہ بہت اچھا کیا تم نے ارمان کے ساتھ ایسے ہی ہونا چائ ہے اور تم بہت اچھا کر رہی ہو”
اجالا علی کو حیران نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔
“اتنا حیران ہونے کی کیا بات ہے جو سچ ہے وہی کہہ رہا ہوں مت معاف کرنا اسے ساری زندگی تڑپانہ وہ اسی لائق ہے جب جب وہ تڑپے گا تب تب تمہیں سکوں ملے گا”
علی کی آخری بات پہ اجالا نے تڑپ کے دیکھا۔۔۔
“تم تو یہی چاہتی ہو نہ کہ وہ بھی تڑپے جتنا تم تڑپی ہو”
“علی پلیز بس کرو”
“نہیں اجالا بولنے دو مجھے ۔۔۔واقعی اس نے تمہاری محبت کی قدر نہیں کی اسکی یہی سزا ہے وہ ساری زندگی اذیت میں رہے گا تمہاری بددعا سے”
“علییی پلیز بند کرو اپنی بکواس”اجالا کانوں پہ ہاتھ رکھ کے چلائ۔۔۔
“تکلیف ہو رہی ہے ارمان کے لیے میرے منہ سے یہ سب سن کے تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔میں اسکا جگری دوست اسکا بھائ جو اسکے خلاف ایسی باتیں سوچ بھی نہیں سکتا وہ ایسی باتیں کر رہا ہے تم حیران ہو رہی ہو تو سوچو میں کتنا حیران ہوگیا تھا جب تمہارے منہ سے ایسی باتیں سنی تھی جب مجھے تماری باتیں سب کے دکھ ہو رہا تھا تو ارمان پہ کیا گزری ہوگی” علی دکھ سے بولا۔۔۔
“لے لو تم بھی اسکی حمایت لے لو ساری غلطی میری ہے اس نے میری محبت کی توہین کی تو کچھ نہیں بگڑا میں نے ذرا سا کیا بول دیا تم سب میرے پیچھے پڑگئے۔۔۔۔ابھی بھی وہ بڑے مزے سے بیٹھا ہوگا اپنے گھر میری صبح والی باتوں سے اسے دکھ ہوا ہوگا لیکن تھوڑی دیر بعد اس جنید نے میرے خلاف دو چار لگا کے اسے اپنے جال میں پھنسا لیا ہوگا وہ تو شکر کر رہا ہوگا کہ جان چھوٹی”اجالا نے اپنی بھڑاس نکالی۔۔علی افسوس نگاہوں سے اجالا کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔
“نکال لو بھڑاس جتنی نکالنی ہے نکال لو اپنے دل کو اسی باتوں سے بہلاو کہ ارمان اس وقت گھر بیٹھا پرسکون ہوگا۔۔۔
پہلے ارمان پہ ترس آتا تھا مجھے کہ اس سے اپنے ساتھ بہت غلط کیا ابھی بھی آتا ہے لیکن اب اس کے ساتھ ساتھ مجھے تم پہ بھی ترس آتا ہے۔۔۔تم پتھر دل ہوگئ ہو اجالا”
“پتھر دل بھی مجھے ارمان نے بنایا ہے”
“چھوڑو اس بات کو میں تمہیں کچھ بتاونگا اور تمہیں اپنے دل مضبوط کر کے باتیں سننی ہوگی”
جس دن تم اس گھر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ارمان کو چھوڑ کے گئ تھی اس دن سے وہ پاگل ہوگیا تھا اس دن وہ بلا وجہ ہنس رہا تھا پاگلوں کی طرح ہنس رہا تھا اس دن کے بعد وہ بلا وجہ ہنستے ہنستے رونے لگ جاتا تھا اسے پتا تھا کہ خرم نے ارحم کو نہیں مارا بس وہ اس بات کو تسلیم نہیں کر پارہاتھا کہ ارحم ہم سب کو چھوڑ کے چلا گیا۔۔۔ارمان کے کہنے پہ ہی پولیس نے خرم کو رہا کیا اس دن وہ آفس میں تم سے معافی مانگنے ہی آیا تھا لیکن تم نے اسکی ایک بات بھی نہیں سنی ارمان کی رات اذیت میں گزرتی تھی ارمان کو نروس بریک ڈاون بھی ہوا تھا۔۔۔ارحم زندہ ہے اجالا وہ صحیح سلامت گھر آگیا کل ہی جنید کی سچائ ارمان کے سامنے آگئ جنید کو جیل ہوگئ جب ارمان کو سچائ پتا چلی تو جنید کو بہت مارا اس کے بعد میں اسے تمہارے پاس لے کے آیا لیکن تم نے آج ایک بار پھر اسکی کوئ بات نہیں سنی۔۔۔
علی جیسے جیسے بول رہا تھا اجالا کے قدم بھاری ہو رہے تھے۔۔۔
بہت مـــــــضبوط تھا وہ مگــــر وہ کہتے ہیں نہ
محـــــــبت اچھـے اچھـــــوں کو اجــــاڑ دیتی ہے۔۔۔
اس کا بھی یہی حال ہے۔۔۔۔
یہ جو تم نے بولا تھا نہ کہ محبت دنیا کا سے سے آخری اور خطرناک نشہ ہے
اگر تم کسی سے پیار کرنے کا دعوائ کرتے ہو تو اسے نبھانے کی ہمت بھی رکھو۔۔۔یہ تم پہ بھی لاگو ہے اجالا تم میں اب ہمت نہیں رہی۔۔۔
تم نے اپنی محبت کو دفنا دیا اجالا لیکن ارمان نے اپنی محبت کو بھی تک برقرار رکھا ہے وہ بہت خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ تم اسے معاف کر کے اسکی محبت کو دوبارہ اپنا لوگی لیکن بہت جلد اسکی خوش فہمی بد قسمتی میں بدل گئ۔۔آج تمہاری محبت کے ساتھ ساتھ اسکی محبت بھی دفن ہوگئ اب تم اسکی محبت کے ساتھ ساتھ اسکے جنازے پہ بھی فاتحہ پڑھ لینا۔۔۔
“کیااا مط مطلب”اجالا کی زبان لڑکھڑائ
“وہ مر رہا ہے اجالا” علی بے بسی سے بولا۔۔۔
“اسکے پاس وقت کم ہے”میں چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پارہا میں بے بس ہوں”
اپنی محبت کے ساتھ ساتھ وہ بھی دفن ہوجائے گا ۔۔۔اس نے تمہاری باتوں کو دل سے لگا لی ہیں اجالا کل رات اسکا نروس بریک ڈاون ہوا ہے علی کی بات پہ اجالا صوفے پہ ڈھے گئ۔۔۔
“وہ اس وقت آئ سی یو میں ہے”
“وقتی طور کے لیے اپنی نفرت اور انا کو سائڈ پہ رکھ کے اسکے جنازے پہ آجانا” خدا حافظ۔۔۔علی ایک نظر اجالا کو دیکھ کے باہر کی جانب جانے لگا کہ اجالا نے آواز دے دی۔۔ع علی۔۔۔اجالا کی زبان لڑکھڑا رہی تھی اسکے جسم میں جان باقی نہیں رہی ہو۔۔۔
مجھ مجھے اسکے پا پاس لے چلو۔۔۔
*******************