حسن عباس رضا(نیویارک)
کیا خبر ، کس کی وہ داستاں ہوئے گی
جو ترے آنسوؤں سے بیاں ہوئے گی
سرحدِ جاں سے جس روز گزریں گے ہم
جانے اُس شامِ غم تُو کہاں ہوئے گی
دیکھ پائے گا کون آگ کے اُس طرف
اِس طرف زندگی جب دھواں ہوئے گی
یہ تو ممکن ہے ہم شہرِ جاں میں نہ ہوں
پر وہاں ہوں گے ہم ، تُو جہاں ہوئے گی
میری سانسوں میں اک سانس تیری بھی ہے
جب یہ تھم جائیں گی ، وہ رواں ہوئے گی
چاند ابھرے گا اب تیری پازیب سے
تیرے پیروں کی خاک آسماں ہوئے گی
مجھ کو تقسیم کر دے گی اطراف میں
اور تُو خود کہیں درمیاں ہوئے گی
خواب اُتریں گے تیری ہتھیلی پہ جب
تُو بھی اُس روز خود پہ عیاں ہوئے گی
وہ نگر آرزوؤں کا ہوگا ، جہاں
ہم عوام ، اور تُو حکمراں ہوئے گی
دل بچھا دیں گے آنگن سے دہلیز تک
جب کبھی تُو وہاں میہماں ہوئے گی
خود ہدف اُڑ کے پہنچیں گے تِیروں تلک
تیرے ہاتھوں میں جس دن کماں ہوئے گی
ہم کھنچے آئیں گے مسجدِ عشق میں
جب بھی مینارِ جاں سے اذاں ہوئے گی
چوم لیتی تھی وہ میرے آنسو حسنؔ
میری ماں جیسی کیا کوئی ماں ہوئے گی !