“کیا کر رہی ہو بل بتوڑی…؟؟” وہ پورے بیڈ پر کتابیں بکھراۓ بیٹھی ایک سوال میں الجھی ہوئ تھی جب حسن دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا… اور اسے ایک نیا لقب دیتے ہوۓ کتابیں ایک طرف کر کے دھپ سے بیڈ پر آن گرا…
” ڈانس کر رہی ہوں… کرو گے…؟؟” وہ سلگ ہی تو اٹھی تھی اس کے دئیے گۓ نام پر…
“یس شیور… واۓ ناٹ… کم آن بے بی…لیٹس ڈانس..” وہ مسخرہ پن اپناتے ہوۓ بیڈ سے اترتا اس کی جانب ہاتھ بڑھا کر بولا…
ہانیہ نے خون آشام نگاہوں سے اسے دیکھا… پھر زور سے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے اسے پیچھے دھکیلا…
“حسن تم کسی دن قتل ہو جاؤ گے میرے ہاتھوں… دفع ہو جاؤ یہاں سے… پہلے ہی دماغ خراب ہوا پڑا ہے میرا…” وہ واقعی ہی پریشان لگ رہی تھی… حسن کو بھی سنجیدہ ہونا پڑا…
“کیا ہوا…؟؟ خیریت…؟؟ ٹینس کیوں ہو…؟؟” اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھتے ہوۓ حسن نے بھی ایک کتاب اٹھائ…
“حسن… کل پیپر ہے میرا… اور قسم سے… بالکل تیاری نہیں ہے میری… کیا کروں گی وہاں جا کر میں… کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا…” وہ روہانسی ہونے لگی…
“چچ چچ چچ… بہت افسوس کی بات ہے ویسے… میرے اتنے ذہین چچا کی بیٹی اتنی کند ذہن اور نالائق ہے… مجھے بالکل اندازہ نہ تھا… ” وہ افسوس بھرے لہجے میں کہہ گیا…
“حسن…” ہانیہ احتجاجاً کہتی اسے گھورنے لگی…
“سچ تو کڑوا ہی ہوتا ہے ہمیشہ… ویسے ایک بات تو بتاؤ… کیا فائدہ اتنا پڑھنے کا… ہونا تو فیل ہے تم نے… خوامخواہ چچا جان کا پیسہ ضائع کر رہی ہو…. ” وہ ابھی بھی اسے چھیڑنے سے باز نہیں آیا تھا…
“کیوں…تمہیں کیا تکلیف ہے….اپنے بابا کے پیسے ہی خرچ کرواتی ہوں نا… تمہارے تو نہیں…. ” وہ حسب توقع تڑخ کر بولی تھی… حسن کے لبوں پر شرارتی سی مسکراہٹ نے اپنی جھلک دکھلائ….
“ہاں نا… تکلیف ہوتی ہے مجھے… میرے اکلوتے چچا ہیں وہ… دن رات خون پسینہ ایک کر کے کماتے ہیں… اور تم ان کی نکمی بیٹی… ضائع کرتی ہو ان کی کمائ… ایک ہی بیٹی عطا کی رب نے… وہ بھی تم جیسی… مجھے ہمدردی ہے چچا جان سے…” شرارتی لہجہ اپناۓ وہ بیڈ سے اٹھ گیا تھا… جانتا تھا اب کوئ ردِعمل تو دے گی وہ…
ہانیہ چند پل غصے سے اسے دیکھتی رہی… پھر ہاتھ میں جو بھی کتاب آئ اس کا نشانہ باندھتے ہوۓ حسن کی طرف اچھال دی… وہ ہنستے ہوۓ بچتا بچاتا دروازے سے نکلتا دروازہ بند کر گیا…
“ایڈیٹ… آ جاتا ہے دماغ کھانے…” وہ بڑبڑا کر رہ گئ…
💝💝💝💝💝
اس کا آج سیکنڈ ائیر کا آخری پیپر تھا… پیپر دے کر ایگزام سنٹر سے باہر آتے ہوۓ اس نے سکھ کا سانس لیا…
“شکر ہے خدایا… ان ایگزامز سے تو جان چھوٹی… توبہ…سولی پہ لٹکا رکھا تھا پیپرز نے تو…” باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر شکر ادا کرتے ہوۓ وہ ربیعہ سے مخاطب تھی… دونوں ایک ہی کالج اور ایک ہی کلاس کی اسٹوڈنٹ تھیں…اور بہترین دوستیں بھی… خوش قسمتی سے دونوں کا سنٹر بھی ایک ہی جگہ بنا تھا…
“ہاں یار…اب بس پریکٹیکل رہ گۓ ہیں… وہ بھی ہو جائیں تو پھر موجیں ہی موجیں…” دونوں مگن سے فٹ پاتھ پر چلتی جا رہی تھیں…
“ارے ہاتھی نکل گیا دم رہ گئ… اب کس بات کی ٹینشن ہے… پریکٹیکل بھی ہو جائیں گے…ان کی کوئ خاص فکر نہیں ہے مجھے…” ہانیہ نے کہتے ہوۓ عادتاً بالوں کو پیچھے کی جانب جھٹکا…
“آج حسن نہیں آیا تمہیں لینے…؟؟” ربیعہ نے ادھر ادھر نگاہ دوڑاتے ہوۓ پوچھا… کیونکہ ایگزامز کے دوران اسے پک اینڈ ڈراپ سروس دینے کی ڈیوٹی حسن کے سر ہی تھی… اور یہ آرڈر تائ اماں نے دیا تھا اسے…
“نہیں یار… اسے ایک جاب کے انٹرویو کے لیے جانا تھا آج… وہاں سے بے چارہ تھک ہار کے آیا ہو گا… میں نے ہی منع کیا تھا اسے یہ کہہ کر کہ میں خود ہی آ جاؤں گی آج تمہارے ساتھ…” ہانیہ نے بات کرتے کرتے کلائ میں بندھی گھڑی پر نگاہ دوڑائ… مغرب ہونے میں تقریباً پون گھنٹا باقی تھا… ربیعہ چونکہ لوکل ہی آتی جاتی تھی اسی لیے آج ہانیہ کو بھی اس کے ساتھ ہی واپس گھر جانا تھا…
“اچھا ٹھیک ہے…جلدی چلو پھر… بس نکل جاۓ گی… بعد میں دوسری بس کے لیے بہت انتظار کرنا پڑتا ہے…” ربیعہ نے کہتے ہوۓ اسپیڈ بڑھائ تو ہانیہ بھی اپنے دوپٹے کو کندھے پر درست کرتی اس کے قدم سے قدم ملانے لگی…
💝💝💝💝💝
بس نے ایک جگہ اسٹاپ کیا تھا… ہانیہ جو سیل فون پر ٹیکسٹ میسیجز کے ذریعے حسن سے بات کر رہی تھی یونہی ایک لمحے کو اس نے سر اٹھایا… اور پھر جیسے ایک دم چونکی… بس روانہ ہونے کو تھی جب وہ ایک دم اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑی ہوئ…
“بھائ صاحب گاڑی روکیے ذرا…” کنڈیکٹر سے کہتے ہوۓ اس نے جلدی سے ایک جانب رکھا اپنا بیگ اٹھایا…
“چلو ربیعہ…” وہ جلدی جلدی اس سے مخاطب ہوتی دروازے کی جانب بڑھنے لگی…ربیعہ حیران سی اسے دیکھ رہی تھی…
“ہانیہ…کیا ہوا…؟؟ یہ ہمارا ایریا نہیں ہے… ابھی دو اسٹاپ کے بعد ہمیں اترنا ہے…” ربیعہ کو لگا جیسے ہانیہ کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار ہو کر بس سے اترنے لگی ہے…
“پتا ہے مجھے… تم چلو تو میرے ساتھ…” وہ پر جوش سی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچتی ہوئ اپنے ساتھ لے آئ… بس کا کرایہ وہ دونوں پہلے ہی ادا کر چکی تھیں… باقی مسافر حیران سے کبھی ہانیہ کو دیکھتے اور کبھی ربیعہ کو… بالآخر اسے بس سے اتار کر ہی ہانیہ نے دم لیا…
“ہانیہ! پاگل تو نہیں ہو گئ ہو تم… یہاں کیوں اتری ہو…؟؟ اچھے بھلے بس میں سوار تھے…مزید آدھے گھنٹے تک گھر پہنچ جانا تھا ہمیں…” ربیعہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہونے لگی… دونوں اس وقت سڑک کنارے کھڑی تھیں…
ہانیہ کچھ کہنے ہی والی تھی جب اس کا فون بجنے لگا… اسکرین پر حسن کا نمبر جگمگا رہا تھا… شاید ریپلاۓ نہ ملنے کے باعث وہ اب کال کر رہا تھا…
“ہیلو… ہاں حسن…؟؟ ” وہ ربیعہ کو خاموش رہنے کا اشارہ کرتی فون پر بات کرنے لگی…
“ہاں ہو گیا ہے پیپر ختم… نہیں نہیں…تم رہنے دو… تھکے ہوۓ آۓ ہو گے… ہم بس کا انتظار کر رہے ہیں… پہلی بس نکل گئ تھی اب کچھ دیر تک آۓ گی دوسری بس… پھر ہم گھر کے لیے روانہ ہو جائیں گے… تھوڑی دیر ہو جاۓ گی آنے میں… تم مما کو بھی بتا دینا… اوکے گھر آتی ہوں تو بات کرتے ہیں… خدا حافظ…” جلدی جلدی بات ختم کرتے ہوۓ ہانیہ نے کال کاٹ دی… اس کے چہرے پر نہ جانے کیوں انجانی سی خوشی نظر آئ تھی ربیعہ کو… جس کی کوئ وجہ وہ ابھی تک سمجھ نہیں پائ تھی…
“جھوٹ کیوں بولا تم نے حسن بھائ سے… کہ ہم بس کا انتظار کر رہے ہیں… جبکہ بس سے تم خود اتری ہو…” ربیعہ دونوں ہاتھ کمر پر ٹکاۓ تفتیشی انداز اپناۓ سوال کر رہی تھی…
“ارے یار… وہ سب چھوڑو تم… یہ پوچھو کہ یوں اچانک بس سے اترنے کا خیال کیسے آیا میرے دماغ میں…” وہ تجسس بھرے لہجے میں کہہ رہی تھی…
“ہانیہ… تمہارے ذہن میں نا فضول خیالات ہی آتے ہیں… اور ہر بار اپنے ساتھ ساتھ تم مجھے بھی پھنساتی ہو… اب کچھ پھوٹو گی منہ سے… یا یہیں رات گزارنے کا ارادہ ہے… اللّہ معاف کرے…کیسا ویران سنسان سا علاقہ ہے… جیسے کوئ انسان ہی نہیں بستا یہاں پر…” ربیعہ نے جھرجھری لیتے ہوۓ اردگرد کا جائزہ لیا… وہاں دور دور تک آبادی کے آثار نہ تھے… بس دائیں طرف ایک سڑک نظر آ رہی تھی جو کافی آگے شاید کسی گاؤں میں جاتی تھی…
“یہی بات… مجھے بھی یہی خیال آیا تھا اس جگہ کو دیکھ کر… ایسا لگتا ہے جیسے یہاں انسانوں کا نہیں جنات کا بسیرا ہو… اور تمہیں پتا ہے مجھے کس بات نے بس سے اترنے پر مجبور کیا…؟؟” وہ آنکھوں میں چمک لیے سوالیہ انداز میں اس کی جانب دیکھنے لگی… ربیعہ نے الجھے انداز میں نفی میں سر ہلایا…
“اپنے پیچھے دیکھو ذرا…” ہانیہ نے اسے کندھوں سے پکڑ کر گھما ڈالا… وہاں سے دور کافی فاصلے پر ایک پرانی اور بڑی سی عمارت نظر آ رہی تھی جو شام کے پھیلتے اندھیرے میں خوفناک تاثر پیش کر رہی تھی… ربیعہ نے اس عمارت سے نگاہیں ہٹا کر ادھر ادھر دیکھتے ہوۓ ہانیہ کی مطلوبہ چیز تلاش کرنی چاہی جو وہ اسے دکھانا چاہ رہی تھی…
“کیا…. ؟؟ کیا دیکھوں پیچھے…؟؟ کچھ بھی تو نہیں ہے یہاں…” وہ ابھی بھی ہانیہ کا مطلب نہیں سمجھی تھی…
“ارے ڈفر… وہ اتنی بڑی عمارت نظر نہیں آ رہی تمہیں…؟؟ آنکھیں ہیں یا گول بٹن…؟؟” ہانیہ اسے گھور کر رہ گئ… جبکہ اس کی بات پر ریبعہ کی آنکھیں ابل کر باہر آ گئیں… چند ہی لمحے لگے تھے اس بار اسے ہانیہ کے شیطانی دماغ تک پہنچنے میں… اور وہ فوراً سے پیشتر بدک اٹھی تھی…
“تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ہانی…؟؟ خبردار جو کسی قسم کی کوئ الٹی سیدھی حرکت کرنے کی کوشش کی تو… چلو یہاں سے…” وہ خوف سے سفید پڑتے ہوۓ ہانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچنے لگی…
“ربیعہ چپ رہو تم… جسے دیکھو میرے شوق کی راہ میں رکاوٹ بنتا رہتا ہے… ایک وہ حسن ہے… جسے میری اس خواہش کا سنتے ہی نہ جانے کیوں شدید غصے کا دورہ پڑ جاتا ہے… اور اب تم… تم بھی اسی لائن میں جا رہی ہو… میں کہے دیتی ہوں… مجھے آج موقع ملا ہے تو میں اس موقع کا فائدہ ضرور اٹھاؤں گی… شکر ہے آج وہ سڑیل حسن نہیں ہے میرے ساتھ… قسمت میرا ساتھ دے رہی ہے… مجھے موقع دے رہی ہے میری اس خواہش کو پورا کرنے کا… میں آج اس عمارت میں ضرور جاؤں گی… دکھنے میں کافی پرانی لگتی ہے… کسی کھنڈر کے جیسی… بس دعا کرو وہاں کچھ نہ کچھ مل جاۓ مجھے… کم از کم ایک بھوت تو ضرور ہی ملے… ” وہ اپنی ہی رو میں بولتی چلی جا رہی تھی جبکہ ربیعہ کی جان ہوا ہونے لگی تھی اس کی باتوں سے… وہ اس معاملے میں خاصی ڈرپوک واقع ہوئ تھی… اور ہانیہ کی ضدی طبیعت سے بھی آشنا تھی… جانتی تھی وہ جو ٹھان لیتی ہے وہ کر کے رہتی ہے… اور اسے اس عمارت میں جانے سے روکنے کے لیے کوئ حربہ بھی نہ مل رہا تھا ربیعہ کو…
“ہانیہ فار گاڈ سیک یار… مغرب کا وقت ہے یہ… اس وقت ویسے بھی یہ مخلوق آزادانہ ادھر ادھر گھوم رہی ہوتی ہے… ایسی باتیں مت کرو… میری مانو تو چلو گھر چلتے ہیں…کچھ نہیں رکھا ان سب باتوں میں…” ربیعہ ہر ممکن کوشش کر رہی تھی کہ اسے اس کی اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے سے روک سکے…
“یار کس قدر ڈرپوک لڑکی ہو تم ریبعہ… مطلب… بندہ اتنا بھی بزدل نہ ہو… وہ بھی ہماری طرح اللّہ کی مخلوق ہی ہیں… اور پھر یہ بھی معلوم نہیں کہ وہاں کوئ ایسی غیر انسانی مخلوق ملے گی بھی یا نہیں…تم پہلے ہی رونا لے کر بیٹھ گئ ہو… ٹھیک ہے… تمہیں نہیں جانا تو مت جاؤ…. میں اکیلی بھی جا سکتی ہوں… ڈرتی نہیں ہوں کسی سے میں…. تم جاؤ گھر سکون سے… آ جاؤں گی میں خود ہی…” وہ ضدی انداز اپناتے ہوۓ کہہ کر اس عمارت کی جانب چل دی… وہاں کھیتوں میں پگڈنڈیاں بنی تھیں جن پر چل کر وہ جا رہی تھی… اس عمارت کی طرف جاتی سڑک کافی پیچھے رہ گئ تھی شاید اور پیچھے کی جانب اتنا سفر طے کرنے کا کوئ موڈ نہیں تھا ہانیہ کا… ویسے بھی شام کا اندھیرا پھیل رہا تھا اور اسے جلد از جلد اس عمارت کو اندر سے دیکھنے کے بعد واپس بھی آنا تھا…
“ہانیہ بہت غلط کر رہی ہو تم… پچھتاؤ گی… اگر سچ میں وہاں کچھ نظر آ گیا تو…؟؟ ” ربیعہ نے بے بسی سے بلند آواز میں کہتے ہوۓ اسے ڈرانے کی کوشش کی…
“ارے جاؤ جاؤ… بزدلوں کو بس دوسروں کو ڈرانا ہی آتا ہے… ” وہ ایک پل کو رکی اور مذاق اڑاتے لہجے میں کہہ کر پھر واپس مڑ گئ… ربیعہ نے چند پل کچھ سوچا… ایک نگاہ اپنے اردگرد ڈالی… اس ویران سی جگہ پر اکیلی رہنے سے اچھا تھا وہ بھی ہانیہ کے ساتھ ہی چلی جاتی…
“رکو… میں بھی آ رہی ہوں…” بالآخر تھک کر اس نے بھی فیصلہ کیا اور اسے آواز دیتی بھاگتی ہوئ اس تک پہنچی…
“اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے…” ہانیہ زیرِ لب مسکرائ اور ربیعہ کے منہ کے بگڑتے زاویوں کی پرواہ کیے بغیر پھر آگے بڑھ گئ…