(Last Updated On: )
شہناز نبی
کیا کہیں اس دل کو کیسا مرحلہ درپیش ہے
آنکھ میں آنسو نہیں اور سانحہ درپیش ہے
پھر کسی منصور کو ہے شوقِ حق گوئی یہاں
پھر وہی دار و رسن کا واقعہ درپیش ہے
پھر کہیں دریاؤں پہ پہرے بٹھاتا ہے کوئی
پھر کسی کی پیاس کو اک حادثہ درپیش ہے
میرے اس کے بیچ کوئی رابطہ باقی نہیں
معنیٔ بے لفظ کا اک سلسلہ درپیش ہے
راستے مسدود ہیں یاں رہروانِ شوق پر
اور سفر نا آشنا کو راستہ در پیش ہے
کیوں نہیں مٹتی ہیں جسم و روح کی یہ دوریاں
خود سے ملنے میں یہ کیسا فاصلہ درپیش ہے
یہ لبا لب زندگی اور تلخیٔ کام و دہن
لمحہ لمحہ آنسوؤں کا ذائقہ د رپیش ہے