(امی مبارکہ حیدرکے حوالے سے)
امی کے بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے ابو کی طرف سے ہدایات ملی ہیں کہ بعض مشہور باتوں کی تکرار نہ کی جائے۔مثلاََ ساری مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں،ماں کی عظمت اور مقام، ماں کے قدموں کے نیچے جنت،ماں کی مامتا،ماں کی بے لوث محبت وغیرہ،کیونکہ یہ حقائق اور یہ سچائیاں ساری دنیا بخوبی جانتی ہے۔پھر یہ بھی پابندی کہ امی کی جن یادوں اور باتوں کو کسی اور نے لکھا ہوا ہے،ان کو غیر ضروری طور پر دہرایا نہ جائے۔اس لیے اب مجھے براہِ راست اپنی گزری ہوئی یادوں میں سے ہی بعض باتیں یاد کرنی ہیں۔
ابو جب کبھی کوئی گانا اہتمام سے سن رہے ہوتے تو ان پر امی بڑے مزے کے تبصرے کیا کرتی تھیں۔ان کا کچھ ذکر ابو نے اپنی کتاب’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘میں کر رکھا ہے اور کتاب’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘میں بھی وہ اقتباسات شامل ہیں۔میرے ساتھ بھی ایسا کچھ ہوتا رہا ہے۔بچپن میں پاکستان میں فلم ’’دل‘‘ کا گانا سنا ہوا تھا۔
مجھے نیند نہ آئے،مجھے چَین نہ آئے
کوئی جائے ذرا ڈھونڈ کے لائے،نہ جانے کہاں دل کھو گیا۔۔۔۔۔
میں اپنی لہر میں فل والیوم کے ساتھ یہ گانا گنگنا رہا تھا۔اچانک امی کی مسکراہٹ بھری آواز سنائی دی
’’ٹھہر جا!میں تیراچََین لے کے آتی ہوں۔‘‘
ادھر جرمنی میں آ جانے کے بعد لڑکپن میں ایک بار میں اپنے بے سُرے انداز میں مگر فل آواز میں ایک گانا گا رہا تھا۔یہ گانا فلم ’’ہم دل دے چکے صنم‘‘کا تھا اور اس کے بول تھے۔
تڑپ تڑپ کے اس دل سے آہ نکلتی رہی
دوسرے کمرے سے امی کی مخصوص مسکراتی ہوئی آواز آئی’’اوئے کس نے تمہیں اتنا تڑپا دیا ہے۔‘‘
ابو کے دل کی پانچ بار سرجری ہو چکی ہے۔ڈاکٹر کی طرف سے ہدایت تھی کہ دو وقفوں کے ساتھ سہی لیکن دن میں کم از کم دو گھنٹے سیر ضرور کریں۔ابو اس معاملے میں کافی سستی کر جاتے۔امی کے اصرار پر انہوں نے ایک گھنٹے کی روزانہ سیر کو اپنا معمول بنا لیا۔عام طور پر گھر کے قریب دریا کی طرف نکل جاتے۔یہ بھی غنیمت تھا۔لیکن امی کی وفات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ امی نے ابو کو دو گھنٹے کی سیر کا عادی بنا دیا ہے۔اب ابو روزانہ صبح فجر کی نماز کے بعد ایک گھنٹہ سیر کے لیے نکلتے ہیں اور ایک گھنٹہ شام کو سیر کے لیے نکلتے ہیں۔سیر میں یہ باقاعدگی اس لیے آئی ہے کہ ابو اب دریا کی طرف سیر کرنے نہیں جاتے بلکہ قبرستان کی طرف سیر کرنے کے لیے جاتے ہیںجو ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں ہے۔ایک بار کی سیر کا،آنے جانے اور رک کر دعا کرنے کا اوروہاں بیٹھ کر کچھ باتیں کرنے کا دورانیہ پورا ایک گھنٹہ ہوجاتا ہے۔امی کی قبر پر دعا کرنے کے ساتھ خوبصورت پارکوں جیسے خوبصورت قبرستان میں سیر ان کے لیے ایک نیا تجربہ ہے۔خیال رہے کہ ابو نے امی کی قبر کے ساتھ والی قبر کی جگہ اپنے لیے با ضابطہ طور پر بک کرا لی ہے۔اس کے لیے خاصی بلکہ بھاری فیس ادا کی جا چکی ہے۔
میرے پاس امی،ابو کے گھر کی ایک اضافی چابی ہوتی ہے۔چند سال پہلے کی بات ہے،میں شام کو گھر میں گیا توعجیب سا منظر محسوس ہوا،گھر روٹین کے مطابق روشن نہیں تھا بس کچھ ہلکی سی روشنی جیسی کوئی چیز ضرور محسوس ہوئی۔میں گلی کی بتی جلا کر اندر کمرے میں آیا تو دیکھا کہ امی، ابو بجلی بند کرکے موم بتیاں جلا کے کھانا کھا رہے ہیں۔میں نے کمرے کی بتی بھی جلا دی اور ساتھ ہی شوخی کے ساتھ کہا’’آہا۔۔۔کینڈل ڈنر ہو رہا ہے۔‘‘
امی مسکراتی رہیں اور کھانا کھاتی رہیں لیکن ابو نے کہا ’’یار! آج پاکستان بہت یاد آرہا تھا۔اس لیے ہم دونوں نے سوچا کہ پاکستان کی لوڈ شیڈنگ کو یاد کرتے ہیں اور موم بتیاں جلا کر مزہ لیتے ہیں۔
بس پاکستان کی اسی یاد کے چکر میں کینڈل ڈنر بھی ہو گیا۔‘‘
آخرمیں ایک روایت کو بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔یہ ماں کے مقام کے بارے میں بیان کردہ مشہور درجات سے ذرا ہٹ کر روایت ہے۔میں صرف مفہوم بیان کر رہا ہوں۔آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی ﷺسے حضرت عائشہ ؓنے پوچھا کہ یا رسول اللہ(ﷺ)!کیا آپ ﷺ کے دل میں بھی کوئی حسرت ہے؟
حضورﷺ نے فرمایا،ہاں۔میرے دل میں بھی ایک حسرت ہے۔
کاش میری ماں زندہ ہوتی،رات کو میں نماز پڑھ رہا ہوتااور ماں میرا نام پکار کر مجھے بلاتی،میں فوراََ نماز توڑ کر ماں کے پاس جاتا اور پوچھتا کیا حکم ہے میری ماں؟
اس سے آگے کیا لکھوں؟
میں خود آقاﷺ کی غلامی میں اسی حسرت سے بھر گیا ہوں۔
کیا حکم ہے میری ماں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://www.urduhamasr.dk/viewers_text/story.php?code=20190715065222