“کیا ہوا یوسف محمد؟ صبح سے نہ کام پر گئے اور نہ سکون سے بیٹھ رہے ہو . کوئی الجھن ہے تو کہہ دے مجھ سے.” زلیخا بی آٹا گوندھ رہی تھیں جب انہوں نے شوہر کو پریشانی سے چھوٹے سے صحن میں ٹہلتے دیکھا تو پوچھے بنا رہ نہیں سکی تھیں. وہ ٹہلنا موقوف کر کے، پیڑھی کھینچ کر ان کے قریب بیٹھ گئے.
“پتا نہیں کیوں زلیخا، کل شام سے دل بہت بےچین سا ہے. انجانے سے خوف سے رواں رواں کانپ رہا ہے, جیسے کچھ ہونے والا ہو, انہونا اور ناقابلِ برداشت.” زلیخا بی نے آٹا برتن میں نکالا اور بولیں:
“اللّٰہ خیر کرے گا یوسف محمد. شاید حورعین کے جانے کے خیال سے ایسے برے خیال آ رہے ہیں. صدقہ خیرات کرنا. ان شاءاللہ ساری بلائیں ٹلیں گی.”
“اللّٰہ کرے ایسا ہی ہو. اللّٰہ میری دھی رانی سے ہر آفت اور بلا کو دور رکھے.”
“آمین” دونوں نے ہی بیک وقت کہا تھا.
“گنتی کے دس گیارہ دن رہ گئے شادی میں. اللّٰہ خیر کرے. پتا نہیں کیسے دل لگے گا اس کے بغیر, کیسے رہ پاؤں گا میں. ایک دن اسے نہ دیکھوں تو آنکھیں نابینا لگتی ہیں. شادی کے بعد تو کتنی دور چلی جائے گی وہ. تب کیا کروں گا میں؟ میرے منھ میں خاک جو میں ان ہستیوں کی برابری کروں, لیکن لگتا ہے، جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کے فراق میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں ایسے ہی اس کے غم میں رو رو کر میں بھی…” ان کی آواز بھر آئی تھی. زلیخا بی سر جھکائے آنسو پینے کی سعئ ناکام کر رہی تھیں.
“واہ رے مولا.. تیرے کام بھی نرالے ہیں. ساری عمر سینے سے لگا کر رکھی جانے والی اولاد کو کیسے…”
“اب بس بھی کر یوسف… ہم کوئی دنیا سے نرالا کام تو نہیں کر رہے بیٹی کو رخصت کرکے. صدیوں سے یہی ریت چلی آ رہی ہے.” دوپٹے کے پلو سے آنسو پونچھ کر انہوں نے شوہر کو کم, خود کو تسلی زیادہ دی تھی. حورعین کا دل دکھ سے بھر آیا تھا. کاش اس کے بس میں ہوتا تو کہہ دیتی کہ اسے کہیں نہیں جانا انہیں چھوڑ کر, کیونکہ نہ تو وہ ان کے بغیر رہ سکتی تھی اور نہ ہی اس میں اس اجنبی کی امانت میں خیانت کرنے کا یارا تھا. لیکن سچ تو یہی تھا کہ اس کی سرشت نہیں تھی کہ اپنے اباجی کی بات کو رد کرتی. وہیں گھٹنوں میں سر دیے خاموشی سے آنسو بہائے گئی تھی.
؎ کیوں ان دنوں سوار ہے دو کشتیوں پہ دل.
چاہت اک اجنبی کی تو اک آشنا کا دکھ.
کل رات سے جو بےچینی تھی، وہ ابھی بھی کسی صورت کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی. شادی کے دن تھے کہ سر پر کھڑے تھے، اور دل پنجرے میں قید کسی بے بس پرندے کی طرح پھڑپھڑا رہا تھا. ایسے لگتا تھا جیسے قضا بس آیا ہی چاہتی ہے.
؎ آغاز محبت ہے آنا ہے نہ جانا ہے
اشکوں کی حکومت ہے آہوں کا زمانا ہے
تصویر کے دو رخ ہیں جاں اور غم جاناں
اک نقش چھپانا ہے اک نقش دکھانا ہے
**،،،***،،،***،،،***،،،**
؎ ہے مجھ کو تیری شان کریمی پہ بھروسہ.
وہ چیز مانگ رہا ہوں جو مقدر میں نہیں.
وہ حالت سجدہ میں دعا کیے جا رہا تھا. آنسوؤں سے اس کا چہرہ تر تھا. کتنا ہی وقت گزر گیا تھا دعا مانگتے ہوئے. اور اتنی دیر میں اس کے جسم کا رواں رواں اللّٰہ سے بس ایک ہی دعا مانگ رہا تھا. محبوب کا وصل اور قرب.
؎ وصل اس کا خدا نصیب کرے
میرؔ جی چاہتا ہے کیا کیا کچھ
دریں اثنا دروازے پر دستک ہوئی تھی اور اسید اندر داخل ہوا. زرک نے اس کے قدموں کی آہٹ اور پرفیوم کی مہک سے اسے پہچان لیا تھا. وہ سجدے سے اٹھ گیا اسید گھٹنوں کے بل ہی اس کے قریب بیٹھ گیا تھا.
“کب تک روتے رہو گے زرک جہاں.؟” اسید کو اس کے آنسوؤں نے بہت تکلیف دی تھی.
“جب تلک میری مراد بر نہیں آتی.” اس نے ہتھیلی سے آنسو پونچھے.
“ایسا کیسے ممکن ہے اسید کہ میں اتنے یقین اور لگن سے اللّٰہ سے کچھ مانگوں اور وہ نہ دے؟ جبکہ وہ خود کہتا ہے کہ مجھ سے مانگو. میں عطا کروں گا. اتنے عرصے میں, میں نے نہ اس کے سوا کچھ سوچا ہے نہ کچھ مانگا ہے.. تو اب اللّٰہ خود یہ کہے کہ یقین سے مانگی گئی دعا رد نہیں ہوتی. تو وہ کیسے میری اتنے یقین سے مانگی جانے والی دعا کو نامقبول کر سکتا ہے؟ ” اسید کے پاس کوئی جواب نہیں تھا.
” اب بس میرا دل چاہتا ہے کہ جس دن وہ کسی اور کی مقدّر بنے، اللہ اسی دن مجھے موت دے دے.”
“اللہ نہ کرے.” اسید نے دہل کر اس کی بات کاٹی تھی.
“میں سچ کہتا ہوں اسید.. میں بہت سمجھاتا ہوں خود کو، تقدیر و جزا کے معاملے پر دل کو ٹھہرانے کی کوشش بھی کرتا ہوں. لیکن کچھ بھی نہیں کر پاتا. جب یہ سوچتا ہوں کہ میں نے مانگا اور مجھے نہ ملا. پھر میرا یقین متزلزل ہونے لگتا ہے. دعا سے، اللہ پر سے..” وہ چپ ہوا اٹھ کر کھڑکی میں جا کھڑا ہوا.
“بجائے اس کے کہ دعا کے رد ہونے کے غم میں، مَیں اللہ سے بدگمان ہو جاؤں، میرا مر جانا ہی اچھا ہے.”
؎ میری ناکامی کے در پے ہے فلک
آرزوئیں مٹ نہ جائیں سب کی سب
اسید میں مزید سننے کا یارا نہ تھا. وہ تیزی سے اس کے پاس آیا اور اس کا بازو تھام کر باہر لے جاتے ہوئے بولا:
“بہت دن ہوئے ہم نے مل کر کافی کا ایک کپ تک نہیں پیا. چلو آج..” اس نے بہت آنا کانی کی. لیکن اسید نے اس کی ایک نہیں سنی تھی، وہ جس حلیے میں تھا اسی حلیے میں کھینچتا گاڑی تک لایا تھا.
“اپنی بس یہی اوقات رہ گئی ہے کہ جو جدھر لیے جاتا ہے کٹھ پتلی کی طرح اس کے اشاروں پر ناچتے پھرتے ہیں. کیا تقدیر کیا تدبیر، سبھی نے کھلونا بنا دیا زرک جہاں کو.” اس کی بات تلخ اور دل دکھانے والی تھی، لیکن مقابل بھی اسید تھا جسے اس کی ذہنی حالت کا بخوبی اندازہ تھا. اس نے گاڑی اسی کیفے کے سامنے روکی جہاں وہ ہمیشہ آیا کرتے تھے. مخصوص جگہ پر بیٹھ کر اس نے کافی کا آرڈر دیا تھا. زرک جہاں کو دیکھ کر مینیجر خود اسے خوش آمدید کہنے آیا. زرک جہاں محض ہوں ہاں کیے گیا. آرڈر پلیس ہوا تھا اچانک داہنی طرف سے آنے والی ایک کھنکتی آواز نے دونوں کی توجہ کھینچی تھی. “مجھے تو یقین ہی نہیں آتا ثمرین کہ اگلے مہینے میری اور احد کی شادی ہو رہی ہے. مجھے اب یقین ہو گیا ہے کہ اگر عشق صادق ہو تو محبت کرنے والے مل جاتے ہیں” اس انجان لڑکی کا ایک ایک لفظ زرک جہاں کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہوا تھا. اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہونے لگا.
“وہ سبھی کو دیتا ہے، اوروں کے لیے اس کے خزانے کم نہیں پڑتے، ایک صرف میرے لیے ہی اس کے خزانے میں کمی ہو جاتی ہے. ” وہ زبان کو شکوے سے روک نہیں پایا تھا.
” تو میں مان لوں اسید کہ کمی میرے ہی یقین میں تھی اور میرا ہی عشق صادق نہ تھا.” وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا تھا.
“مجھے گھر لے چلو اسید پلیز! ورنہ میرا دم گھٹ جائے گا.” اسید نے عجلت میں بل ادا کیا اور کیفے سے نکل آیا تھا.
؎ نہ سنے داور محشر تو کروں کیا اے داغؔ
سب سے اظہار ہوئے میرے گواہوں کے سوا
اسید نے باہر آ کر دیکھا، وہ گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگائے کھڑا تھا. اسے دیکھتے ہی ہاتھ پھیلا دیا:
“گاڑی کی چابی.!”
“تمھاری ذہنی کیفیت ایسی نہیں ہے زرک جہاں کہ تم ڈرائیو کر سکو، میں تمھیں لے چلتا ہوں جہاں کہو گے.” اسید کا بالکل ارادہ نہیں تھا کہ وہ اسے گاڑی چلانے دے.
“میں چلا جاؤں گا اسید! چابی مجھے دے دو، اور تم ٹیکسی سے چلے جاؤ.” آخری جملے پہ اس کا ماتھا ٹھنکا.
“میں تمھیں کہیں بھی اکیلے نہیں جانے دوں گا.” زرک جہاں نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا اور خفگی سے بولا:
“میں بچہ نہیں ہوں اسید.!”
“لیکن میرے ساتھ چلنے میں قباحت ہی کیا ہے؟ تمھیں جو کرنا ہے کرنا، میں کب تمھیں روک رہا ہوں؟”
“مرنے جا رہا ہوں.” اس نے نہایت سنجیدگی سے بے تکی بات کی تھی.
“تو چلو! ایک ساتھ مرتے ہیں.” اسید نے آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھول دیا تھا.
“بچپن سے ساتھ رہے ہیں، زمانے میں مثال قائم کریں گے دونوں، کہ ساتھ جیے اور ساتھ مر گئے.”
“اسید پلیز…! سمجھنے کی کوشش کرو”
“زرک جہاں.! تم سمجھنے کی کوشش کرو. میں اس وقت تمھیں کسی قیمت پر اکیلا نہیں جانے دوں گا. تمھاری اس ضد نے بہت خوار کروا لیا تمھیں. اب بس کرو، سنبھالو خود کو. کچھ چیزیں انسان کے مقدر میں نہیں ہوتیں، صبر اور برداشت سے کام لیا جاتا ہے، نہ کہ بھری دنیا میں خود کو تماشا بننے کے لیے رکھا جاتا ہے.” اس کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا، وہ مزید اسے یوں برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا.
“اسید…!!! مجھے جانے دو، میں نے کوئی ضد نہیں کی، میں بھی نہیں چاہتا کہ یوں سر عام خود کا تماشا بنواتا رہوں. تم تو میری عادات و اطوار سے واقف ہو اسید… کیا تم نہیں جانتے کہ میں خود کو تماشا بنوا ہی نہیں سکتا..” اس کی آواز رندھ گئی. چٹان سی مضبوط آن بان لیے وہ مرد اب بات بہ بات بچوں کی طرح بلکنے لگتا تھا.
“تقدیر و رضا کی باتیں تم کرتے ہو اور تم ہی مجھے کہتے ہو کہ یہ سب نہ کروں.. میں نہیں چاہتا یہ سب کرنا، ایسے رہنا لیکن مجھے بتاؤ کہ ایسا کیا کروں کہ میرا دل سکون پا جائے.” اسید نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا، تسلی بھرا ہاتھ.
“گھر چلتے ہیں. لوگ اکٹھے ہو گئے تو…”
“وحشت ہوتی ہے مجھے گھر میں.” وہ گاڑی کے دروازے پہ سر ٹکائے ہوئے تھا.
“بس ایک بار، آج آخری بار مجھے وہاں جانے دو اسید… میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس کے بعد کبھی تم سے، ڈیڈی سے یا… یا اللہ سے بھی ضد نہیں کروں گا. میں یہ سب چھوڑ دوں گا.” اسید کو اس کے لہجے میں کچھ کھٹکا تھا.. کیا تھا..؟ وہ سوچنے لگا، اندر جیسے کہیں بہت کچھ ٹوٹ گیا تھا. اس نے بنا کچھ کہے گاڑی کی چابی اس کے حوالے کر دی اور خود پیچھے ہو گیا تھا. تشکر آمیز نگاہ سے اسے نواز کر وہ وہاں سے گاڑی نکال لے گیا تھا.
**…**…**…**…**..**
اس کے چلے جانے کے بعد اسید کتنی ہی دیر وہاں کھڑا رہا تھا، جب سیل فون کی ٹون نے اس کی توجہ کھینچی. اس نے جیب سے فون نکالا تھا.
“السلام علیکم انکل!” کال اسفند جہاں کی تھی.
“وعليكم السلام.! زرک جہاں کا کچھ پتا ہے کہاں ہے؟ کب سے اسے فون لگا رہا ہوں، اٹھا نہیں رہا. اب گھر جا رہا تھا، سوچا تم سے پوچھ لوں.” پریشانی ان کے ایک ایک لفظ سے عیاں تھی.
“وہ میرے ساتھ ہی تھا انکل! میں ہی اسے کیفے لایا تھا.”اس نے انھیں تسلی دی تھی.
“ابھی کچھ دیر پہلے مجھ سے گاڑی لے کر گیا ہے.”
“کیا.!!؟ کہاں گیا ہے؟”
“مجھے نہیں معلوم کہاں گیا ہے؟ ”
“وہ وہیں گیا ہو گا اسید. اور کوئی جگہ نہیں ہے جہاں وہ جا سکتا ہے. تم جاؤ اس کے پیچھے.”ان کی بات سنتے ہی اسید نے عجلت میں سامنے سے آتی ٹیکسی کو ہاتھ دیا تھا. اور علاقے کا نام بتا کر چلنے کا کہا تھا. فون کی دوسری جانب، اسفند جہاں نے علاقے کا نام سن کر گاڑی گھر لے جانے کی بجائے اسی رخ پہ موڑ دی تھی.
“میرا دل بہت گھبرا رہا ہے، اللہ اس کی حفاظت فرمائے.”
“انکل پر سکون رہیے، میں جا رہا ہوں. آپ گھر پہنچیے تب تک میں بھی اسے لے کر پہنچ جاتا ہوں.” خود اس کا اپنا دل ایک دم بےطرح دھڑکا تھا.
“میں بھی تمھارے ساتھ ہی آ رہا ہوں اسید.!” اس نے محض “جی ٹھیک ہے.” کہہ کر فون بند کیا تھا. اس کی ٹیکسی دائیں جانب تھی، وہ بائیں جانب سے آتی گاڑیوں پہ نظر جمائے ہوئے تھا. تبھی اسے اپنی سیاہ مرسڈیز دکھائی دی تھی. لیکن گاڑی کی رفتار اور ڈگمگانا بھی اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہا تھا. جتنی دیر میں وہ ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا کہتا، اس نے گاڑی کو بے قابو ہوتے دیکھا تھا. وہ بڑی گاڑی اگر بے قابو ہو گئی تھی تو اس کا سنبھالے جانا بھی… اس نے ایک جھرجھری لی تھی اور تقریباً چیختے ہوئے ڈرائیور سے گاڑی روکنے کا کہا تھا. دفعتاً کئی گاڑیاں زوردار آواز سے آگے پیچھے رکی تھیں.
**…**…**…**…**..**
گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی. وہ جگہ جہاں، ہمیشہ وہ اپنی گاڑی کھڑی کیا کرتا تھا. آج وہاں شامیانے لگ رہے تھے. کرسیاں، میز پڑے تھے، ایک کونے میں آگ جلانے کا سامان اور دیگیں پڑی تھیں. اور سامنے وہی گھر تھا. جس گھر کا دروازہ اس نے ہمیشہ کھلنے اور اس دشمن جاں کو دیکھنے کی خواہش کی تھی، آج وہ دروازہ کھلا تھا. لیکن اس کو دیکھ لینے کی خواہش آج بھی پوری نہیں ہوئی تھی اس کھلے دروازے پہ لٹکا صاف ستھرا پردا اس کی خواہش کی راہ میں حائل ہوا تھا.
؎ یاد میں جس کی نہیں ہوشِ تن و جاں ہم کو
پھر دِکھا دے وہ رُخ اے مہرِ فروزاں.! ہم کو
زرک جہاں نے بے اختیاری کی کیفیت میں ادھر جانا چاہا تھا. یہاں پہنچ کر وہ ہمیشہ ہی اپنے حواس کھو بیٹھتا تھا. شامیانے لگانے والوں سے بات کرتے یوسف محمد کی نظر ایک دم اس پہ پڑی تھی. سفید شلوار سوٹ پہ براؤن شال اوڑھے، ہلکی بڑھی شیو اور گہری سیاہ آنکھوں میں ہلکورے لیتی اداسی… اس نوجوان کو دیکھ کر ان کا دل بیک وقت متضاد کیفیات کا شکار ہوا تھا. لیکن دل کا کیا ہے، وہ تو پاگل ہے، اور دنیا دل والوں کا جینا محال کر دیتی ہے. دیوانوں کی اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہوتی. انھوں نے ہر خیال کو ذہن سے جھٹکا تھا. اب انھیں نئی فکر نے آ گھیرا تھا. وہ اس وقت وہاں… دل میں چور نہ ہوتے ہوئے بھی انھوں نے چور نظروں سے دائیں بائیں دیکھا. صد شکر کوئی اس طرف متوجہ نہیں تھا. وہ اس کے سامنے آ کھڑے ہوئے تھے.
“نہیں پتر.!” انھوں نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے تھے.
“یہیں سے واپس چلے جاؤ، اور کبھی پلٹ کر مت آنا. تمھارا آگے کی طرف اٹھنے والا ایک قدم اس کی زندگی میں بہت مشکلات پیدا کرے گا پتر.” ان کی آواز رندھ گئی. وہ دانستہ اس سے نظریں نہیں ملا رہے تھے، ان ساحر آنکھوں کی سحر انگیزی اور تڑپ کا سامنا کرنے کی ان میں ہمت نہیں تھی.
“میں آج آخری بار اسے ایک نظر دیکھنا چاہتا ہوں.” زرک جہاں نے ان کے جڑے ہاتھ تھامے، اور ملتجی لہجے میں بولا.
“میں وعدہ کرتا ہوں، آج کے بعد کبھی نہیں آؤں گا.”
“نہیں پتر.!” انھوں نے آہستگی سے اپنے ہاتھ اس کے ہاتھوں سے نکالے تھے.
“یہ ایک باپ کی تم سے گزارش ہے، چلے جاؤ. کسی نے بھی تمھیں یہاں دیکھ لیا، تو… بات کا بتنگڑ بنتے دیر نہیں لگے گی.” وہ دوبارہ کچھ کہہ نہیں پایا. کہتا بھی کیا؟؟ تقدیر بھی نے عجب کھیل کھیلا تھا. کس مقام پہ لا کر بےبس کیا تھا.
“کل اس کی شادی ہے پتر.!” اس نے انھیں کہتے سنا. دل پہ جیسے خنجر چلے تھے. کان سائیں سائیں کرنے لگے. سماعت کو دھوکہ بھی تو ہو سکتا تھا، اس نے گہرے صدمے سے انھیں دیکھا.
“وہ کل یہاں سے رخصت ہو کر چلی جائے گی.” لیکن یہ سماعتوں کا دھوکہ نہیں، ایک دل دہلا دینے والا سچ تھا.
“اللہ خوش رکھے.” نجانے کون سا احساس تھا، جس نے زرک جہاں کی زبان سے یہ الفاظ ادا کروائے تھے. وہ واپسی کے لیے پلٹا، آنکھیں بھیگنے لگی تھیں. ارد گرد کے سارے منظر دھندلانے لگے تھے.
؎ دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
ٹوٹے دل اور بکھرے وجود کو لیے وہ گاڑی میں بیٹھا، دھڑکنیں مضطرب اور خیالات منتشر تھے. چابی گھمائی اور گاڑی اسٹارٹ کی.
“کیوں اللہ کیوں..؟؟” دل شکوہ کر ہی بیٹھا،
“ساری زندگی ہر ہر چیز بن مانگے دیتا آیا، زبان پہ طلب بعد میں آتی تھی، تو پوری پہلے ہی کر دیتا تھا. پھر اب کیوں؟” اس نے گاڑی موڑ کر مرکزی سڑک پہ ڈالی، کچھ ہوش نہیں رہا تھا کہ کدھر جا رہا تھا.
**…**…**…**…**..**
“میرے مانگنے میں کیا کمی تھی اللہ؟” گاڑی کی رفتار بڑھنے لگی تھی لیکن وہ تو شاید ہوش میں ہی نہیں تھا.
“میرا غرور و تکبر، میری شان و شوکت اور میرا کروفر سب خاک میں مل گیا، پھر بھی مجھے منھ مانگی مراد نہ ملی.” وہ جو ہر احساس سے عاری ہو چکا تھا، اس کی آنکھوں پہ پانی کے دبیز پردے پڑنے لگے تھے.
“کل اس کی شادی ہے.!” سماعت میں وہ جان لیوا الفاظ گونجے تھے. سامنے کا منظر بھی دھندلا رہا تھا.
“میرا دل خاکستر ہو چکا، وجود خاک ہو گیا. اب زندگی فنا کیوں نہیں ہوتی.؟؟” وہ پانی نہیں، اس کا دل تھا جو آنسوؤں کی صورت قطرہ قطرہ آنکھوں سے بہہ رہا تھا. اس نے اسٹیئرنگ چھوڑ کر ایک ہاتھ سے چہرے پہ بہتے آنسو صاف کرنا چاہے تھے، بس ایک لمحے کی بات تھی. صرف ایک لمحہ ہی تو تھا، جب گاڑی ڈگمگائی تھی اور وہ گاڑی پہ دوبارہ قابو پانے کی کوشش میں دائیں جانب سے آتے موٹر سائیکل سوار کو بچاتے، پیچھے سے آتے ٹرالر کی زد میں آیا تھا اور گاڑی بری طرح قلابازیاں کھاتی دور تلک چلی گئی تھی، کئی گاڑیوں کے ٹائر چرچرائے تھے، کئی لوگ اس طرف بھاگے تھے، ٹوٹی پھوٹی گاڑی جب اس بکھرے دل والے شخص کا ٹوٹا وجود لیے رکی تو ڈرائیور کی جانب والا دروازہ ٹوٹ کر گرا تھا اور اندر سے زرک جہاں کا خون میں لت پت، زخموں سے چور ہاتھ زمین پہ آ لگا تھا. زندگی سے عاری، بے حس و حرکت.
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابشؔ
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں
**…**…**…**…**..**
یوسف محمد نے اس گاڑی کو نظروں سے اوجھل ہو جانے تک دیکھا تھا. وہ گھر آئے تھے.
“حور عين کیا کر رہی ہے زلیخا.؟” اور رات کو ہونے والی مہندی کی تقریب کے لیے چھوٹے سے صحن کی صفائی کرتی بیوی سے پوچھا.
“سو رہی ہے. صبح سے جاگ رہی تھی، میں نے زبردستی لٹایا ہے کہ رات کو بھی نجانے کب سونے کا موقع ملے. ہادیہ اس کے ساتھ ہی ہے.” وہ کام چھوڑ کر ان کے پاس آئیں.
کیا ہوا یوسف؟”
“کچھ نہیں زلیخا.! بس دل ڈوب رہا ہے.” وہ تھکے تھکے سے انداز میں چارپائی پہ بیٹھے، زلیخا نے ان کی اداسی کو حور عین کی کل ہونے والی رخصتی کا نتیجہ سمجھا تھا. جبکہ یوسف محمد کی اداسی کی اصل وجہ اس جوان کا خیال تھا. جو آج ان کے پاس سے ایسے رخصت ہوا تھا جیسے کوئی جواری اپنی کل مال و متاع لٹا کر رخصت ہوتا ہے.
“میں وعدہ کرتا ہوں، آج کے بعد کبھی نہیں آؤں گا.” انھیں اس کے کہے الفاظ یاد آئے. پتا نہیں کیوں دل نے کہا کہ شاید وہ دوبارہ کبھی اسے دیکھ نہیں پائیں گے. سیاہ چمکتی آنکھوں اور کشادہ پیشانی والا، شاہوں سی آن بان والا وہ چہرہ، ان کی یہ آنکھیں پھر کبھی نہ دیکھ سکیں گی. یہ خیال کنڈلی مار کر ان کے دماغ کے نہاں خانوں میں بیٹھ گیا تھا. وہ بےتابانہ اٹھ کھڑے ہوئے تھے. حور عین کی چیخ ہی ایسی دل دہلا دینے والی تھی.
حور عین کو لگا جیسے اس کا دل نازک آبگینے کی طرح چھن سے ٹوٹ گیا ہو. ایک لمحے کو اسے خود کے زندہ ہونے پہ بھی شک گزرا تھا. وہ چیخ مار کر نیند سے بیدار ہوئی تھی.
“کیا ہوا حور عین.؟” ہادیہ اسے جھنجھوڑ رہی تھی. رنگ لٹھے کی مانند سفید ہو رہا تھا. یوسف محمد اور زلیخا بھی افتاں و خیزاں اس کے پاس آئے تھے.
“ابا جی..!” اس نے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے ہوسف محمد کو دیکھا.
“میرے اندر کچھ ٹوٹ گیا ہے ابا جی.!” ہر بات ان سے کہہ دینے کی عادی حور عین نے انھی کو مخاطب کیا تھا. ان کے دل کو کچھ ہوا تھا. انھوں نے آگے بڑھ کر اس کا سر سینے سے لگایا. ان پتھرائی ہوئی آنکھوں کی بنجر زمین پر آنسوؤں کے سوتے پھوٹ پڑے.
“میں آپ کی صابر و شاکر اور اچھی حور عین نہیں رہی ابا جی..!” وہ اعتراف کر بیٹھی. زلیخا کے لیے اس کی باتیں سمجھنا دشوار ہو رہا تھا.
“مجھے لگتا ہے ابا جی..! آج آپ کی بیٹی اندر سے مر گئی، کبھی نہ زندہ ہونے کے لیے. میں اپنے دل کی دھڑکن نہیں سن پا رہی ابا جی..!” ان کے سینے پہ سر ٹکائے وہ بے تحاشا بلک بلک کر روئی تھی.
؎ زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ
موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں
**…**…**…**…**..**
گاڑیوں کے ٹائروں کی چرچراہٹ فضا میں گونجی تھی، اسفند جہاں نے بے اختیاری طور پہ دائیں جانب دیکھا اور ان کا پاؤں بریک پہ جا پڑا. وہ خود حادثے کا شکار ہوتے بال بال بچے تھے. دروازہ کھول کر باہر نکلے، سامنے نظر آتی ٹوٹی ہوئی گاڑی کے کھلے دروازے سے نکلے، زمین پہ گرے خون میں لت پت ہاتھ کو دیکھتے… ان پہ سکتہ طاری ہوا تھا، آنکھیں پتھرا گئی تھیں. اتنے فاصلے سے وہ آنکھیں بند کرکے بھی پہچان سکتے تھے کہ زخموں سے چور فنکارانہ انگلیوں والا خوبصورت مردانہ ہاتھ، کسی اور کا نہیں ان کے اپنے بیٹے زرک جہاں کا تھا. وہی ہاتھ کہ بچپن میں جس کی انگلی پکڑ کر انھوں نے چلنا سکھایا تھا. وہی ہاتھ تھا جو اس کے بچپن میں وہ ہاتھ میں لیے بار بار چوما کرتے تھے. وہ کیسے سڑک پار کرکے وہاں تک پہنچے کچھ خبر نہیں تھی. اسید بھی تقریباً بھاگتے ہوئے اسی وقت وہاں آیا تھا. لٹا لٹا سا، اجڑا ہوا، جیسے متاع عزیز لٹ گئی ہو. اسید اس کے قریب بیٹھا تھا… روتا بلکتا ہوا… وہ گھٹنوں کے بل اس کے پاس گرنے کے سے انداز میں بیٹھے تھے، اس کا ہاتھ، ہاتھ میں لیا تھا.
؎ وہ جن کے ذکر سے رگوں میں دوڑتی تھیں بجلیاں
انہیں کا ہاتھ ہم نے چھو کے دیکھا کتنا سرد ہے
جب وہ دنیا میں آیا تھا تو سب سے پہلے انھوں نے ہی اس کا ننھا سا، کمزور ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لیا تھا. اور آج جب… جب وہ دنیا سے گیا تو بھی سب سے پہلے انھوں نے ہی اس کا مضبوط ہاتھ اپنے کانپتے، کمزور ہاتھ میں لیا تھا. آنکھ سے بہتے آنسوؤں نے ہر منظر دھندلا دیا تھا.
؎ رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
اس کا زخم خوردہ بےجان ہاتھ، ہونٹوں سے لگاتے وہ آج اس کے دنیا سے جانے پر ایسے بلک بلک کر روئے تھے، جس طرح دنیا میں آتے ہوئے وہ بلک کر رویا تھا.
**…**…**…**…**..**
(ختم شد)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...