“کیا کہا سر نے؟” جدوہ روحان کو پریشان آتا دیکھ کر فکر سے اس سے پوچھتی ہے۔
“یار وہ سر کہہ رہے تھے کہ ادینہ کے فادر مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔” وہ کرسی پر بیٹھتے ہوئے اسے بتاتا ہے۔
“لیکن کیوں؟”
“یار یہ تو نہیں پتہ مگر سر نے کہا کہ انہوں نے مجھے کل بُلایا ہے۔”
“مجھے تو بہت ٹینشن ہو رہی ہے روحان۔”
وہ اسے دیکھ کر مسکراتا ہے۔ وہ اسکے لیے ایسے پریشان سی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
“اچھا میری بل بتوڑی پریشان نہ ہو۔” وہ اسکا دھیان بٹانے کے لیے اسے چھیڑتا ہے۔
“ڈائناسور تم کبھی باز نہ آنا۔” وہ چڑ کر کہتی ہے۔
“اچھا امی کی کال آئی تھی، وہ کہہ رہی تھیں کہ آج میں تمہیں ساتھ لے کر تمہارے گھر آجاؤں۔ وہ ابو کے ساتھ وہاں ہی آرہی ہیں، انہوں نے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔”
“اچھا چلو اٹھو اب کلاس سٹارٹ ہونے والی ہے۔” وہ اٹھتے ہوئے اسے کہتی ہے۔ وہ دونوں کلاس کی طرف جارہے ہوتے ہیں جب راستے میں انہیں ادینہ اور علیشا ملتی ہیں۔
“روحان! ”
“جی” ادینہ کی آواز پر وہ رُک جاتے ہیں۔
“تھینکس مجھے بچانے کے لیے۔”
“مینشن ناٹ!” وہ مسکراتے ہوئے اسے جواب دیتا ہے۔
“مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی۔”
“جی!”
“وہ میرے ڈیڈ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے انہیں آپ کے بارے میں بتایا تھا، وہ آپ سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ اس لیے انہوں نے مجھ سے آپکو گھر پر انوائٹ کرنے کے لیے کہا تھا۔ ”
“جی مجھے سر عظیم نے اس بارے میں بتا دیا ہے۔”
“تو کیا آپ کل آئیں گے؟”
“جی! میں پوری کوشش کروں گا۔”
“تھینکس!” وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہے۔
“چلو اب کلاس میں چلیں، کہیں لیٹ نہ ہو جائیں۔” علیشا سب کو کلاس میں جانے کا کہتی ہے جبکہ جدوہ چُپ کھڑے ہو کر یہ سب دیکھ رہی تھی۔
*******************
“آؤ جی! تم لوگوں کا ہی انتظار کر رہے تھے ہم۔” وہ دونوں گھر داخل ہوتے ہوئے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہ ہوتے ہیں جبھی سب انکی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
“السلام علیکم خالہ جان!” جدوہ اپنی خالہ کے پاس جا کر بیٹھ جاتی ہے۔
“میری گڑیا کیسی ہے؟ یہ تمہیں زیادہ تنگ تو نہیں کرتا۔” وہ اس کے چہرے پر پیار کرتے ہوئے کہتی ہیں۔
“بہت زیادہ خالہ جان! یہ ڈائناسور مجھے کبھی سکون سے رہنے نہیں دیتا۔” سب اسکی اس بات پر مسکرا دیتے ہیں۔
“بل بتوڑی جھوٹ کم بولو۔” وہ اس کے سر پہ ہلکا سا تھپڑ لگاتے ہوئے کہتا ہے۔ وہ ان دونوں کے پیچھے ہی کھڑا ہوتا ہے۔
”اچھا اب لڑنا بند کرو، تم دونوں کو دیکھ کر کون کہے گا کہ تم لوگوں کا نکاح ہوا ہے۔ جدوہ اب تم اسے عزت سے بلایا کرو” اقرا۶ بیگم اسے ڈانٹتی ہیں۔
“اچھا امی!”
“ارے میری گڑیا کو کیوں ڈانٹ رہی ہو؟” حسینہ بیگم جدوہ کے حق میں بولتی ہیں۔
“باجی آپ نے اسے بہت سر پہ چڑھا لیا ہے۔”
“کچھ نہیں ہوتا باجی کی بہن! اب کیا ہم بات کو شروع کریں؟” رحیم صاحب(جدوہ کے والد) انکی گفتگو کو روکتے ہو ئے کہتے ہیں۔
“ہاں امی! آپ لوگ آج اچانک کیوں اکٹھے ہوئے ہیں؟” روحان حسینہ بیگم سے پوچھتا ہے۔
“بیٹا ہم لوگ سوچ رہے ہیں کہ اب تم لوگوں کے رشتے کو مکمل کر دیں۔”
“مطلب؟؟؟” روحان اپنے ابا سے پوچھتا ہے۔
“ہم چاہتے ہیں کہ اب تم لوگوں کی شادی کر دیں۔ ہم لوگ اب جدوہ کو رخصت کروا کر لے جانا چاہتے ہیں۔”
“ک ک کیا؟؟؟” وہ دونوں ایک ساتھ چیختے ہیں۔
“کیا ہوگیا تم دونوں کو؟ تم دونوں کا نکاح تو ہو چکا ہے۔ پھر اب کیا مسئلہ ہے؟”
“امی میں ابھی پڑھ رہی ہوں۔”
“ہاں وہ تو تم اس گھر میں جا کر بھی پڑھ سکتی ہو۔”
“لیکن امی! ہم نے یونیورسٹی میں کسی کو ابھی تک ہمارے رشتے کے بارے میں نہیں بتایا۔”
“پر بیٹا اس میں مسئلہ کیا ہے؟” صدیق صاحب روحان سے پوچھتے ہیں۔
“ابا! آپ لوگ بس ہمیں یہ سیمسٹر پورا کر لینے دیں۔ اس کے بعد آپ جیسا کہیں گے ہم کر لیں گے۔”
“روحان بیٹا یہ تو کوئی وجہ نہ ہوئی۔”
“پلیز امی مان جائیں نہ!” روحان اپنی امی سے ریکویسٹ کرتا ہے۔
“اچھا چلو ٹھیک ہے۔ ہم تم لوگوں کی خوشی کے بغیر کچھ نہیں کریں گے لیکن صرف یہ سیمسٹر! میں اب اپنی بیٹی سے زیادہ دور نہیں رہ سکتی۔ ” حسینہ بیگم ان کی بات مانتے ہوئے کہتی ہیں۔
“تو میری پیاری خالہ جان ! آپ میرے پاس رہ جائیں نا۔۔” جدوہ ان کے کاندھے پر سر رکھ کر پیار سے کہتی ہے۔
“میری گڑیا میں تمہارے پاس رہ تو جاؤں لیکن تمہارے خالو اور تمہارے ڈائناسور شوہر کا خیال کون رکھے گا؟” وہ اسکو پیار کرتے ہوئے کہتی ہیں۔
“امی آپ بھی!!!” روحان چِڑ کر کہتا ہے۔
“چلو اب تم دونوں فریش ہو جاؤ پھر ہم لوگ کھانا کھات ہیں۔”
“اوکے امی جی!!”
“چلیں باجی ہم دونوں ٹیبل پر کھانا لگا لیں۔ ”
“خالہ جان! آپ نے میرے لیے بریانی بنائی؟” روحان اقرا۶ بیگم سے پوچھتا ہے۔
“روحان بہت غلط بات ہے۔” حسینہ بیگم اسے ڈانٹتی ہیں۔
“جی میرے شہزادے! میں نے بنائے ہیں سارے تمہارے پسندیدہ کھانے۔”
“چلیں ہم ابھی آتے ہیں۔”
********************
“السلام علیکم سر!” وہ اس وقت اپنے صوفے پر بیٹھے اپنے منیجر سے کچھ باتیں کر رہے ہوتے ہیں جب وہ اندر داخل ہوتا ہے۔
“آؤ بیٹا بیٹھو! میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔ مجھے پوری امید تھی کہ تم آؤ گے۔”وہ اس سے مخاطب ہوتے ہیں۔
“سر! آپ نے مجھے کیوں بلایا؟ میں ابھی تک اسکی وجہ نہیں سمجھ پایا ہوں۔” روحان ان سے ملاقات کا سبب پوچھتا ہے۔
“بیٹا میں تم سے اس لیے ملنا چاہتا تھا کیونکہ میں بہت حیران ہوں کہ میری بیٹی تم سے اس قدر متاثر ہوئی ہے۔ میں نے اسے کبھی کسی سے متاثر ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ دیکھو بیٹا! ادینہ میری اکلوتی بیٹی ہے جسے میں نے بہت نازوں سے پالا ہے، اس کی ہر خواہش پوری کی ہے۔ میں نے آج تم سے اس مقصد کی خاطر ملاقات کی ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ تم میری بیٹی کو سوسائٹی میں ایڈجسٹ ہونا سکھا دو۔
بیٹا اس نے آج تک کبھی خود کو ایڈجسٹ کرنا نہیں سیکھا ہے۔ اور تم وہ پہلے انسان ہو جسے اس نے پسند کیا ہے۔”
“انکل اب آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟” روحان ان کی بات سننے کے بعد ان سے پوچھتا ہے۔
“بیٹا میں تم سے ریکویسٹ کرتا ہوں کہ تم اس کے ساتھ فرینڈشپ کر لو تاکہ وہ دوسروں کے ساتھ ایڈجسٹ ہونا سیکھ لے۔ میں نے اسے بہت مشکلوں سے پالا ہے۔ اس نے ساری زندگی ماں کے بغیر گزاری ہے اور اب میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔” وہ اس سے اپنے احساسات شیئر کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ انکی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ ہہے ہوتے ہیں۔
“انکل میں سمجھ سکتا ہوں۔ آپ پلیز پریشان نہ ہوں۔ میں پوری کوشش کروں گا کہ آپ کی بیٹی کی مدد کروں۔” وہ ان کا ہاتھ تھامے انکو تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے۔
“اچھا انکل ! میں اب چلتا ہوں۔”
“ٹھیک ہے بیٹا، پھر ضرور ملنے آنا۔ ” وہ اسے دروازے تک چھوڑ کر اتے ہوئے کہتے ہیں۔
******************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...