“کیا بات ہے معیز؟ نماز کیلیے نہیں جانا؟ بیٹا جماعت نکل جائے گی—” کمرے میں گھپ اندھیرا تھا جب سوئچ بورڈ پر ہاتھ مارتے لائٹ آن کر کے وہ بیڈ پر اوندھے لیٹے معیز کے پاس آئیں—آج وہ اکیڈمی بھی نہیں گیا تھا—
“معیز! ” حسنہ بیگم نے اسکا بازو ہلایا—وہ ہاف سلیوس شرٹ پہنے تھا—اسکے جسم کی حدت نے انہیں تشویش میں مبتلا کردیا—
“معیز؟ معیز؟” انہوں نے اسکو بمشکل سیدھا کیا اور پیشانی پر ہاتھ رکھا—وہ لمبے لمبے سانس لے رہا تھا–
“یااللہ! ” وہ پریشان سی اُٹھیں اور واپس سیڑھیاں اُتر گئیں—اپنے فیملی ڈاکٹر کو فون کیا جنہیں کئی بار معیز بھی امیرجنسی میں ان کے چیک اپ کیلیے بلوا لیتا تھا—
ٹون! ٹون!
“شکر ہے جلدی آگئے ہیں–” وہ تیزی سے باہر کی طرف بڑھیں–
“اسلام و علیکم! ” سامنے ہی جنت کھڑی تھی— مسکرا کر سلام کیا—
“وعلیکم السلام!” انہوں نے ہلکے سے اسے اپنے ساتھ لگاتے پیار کیا— جنت نے اپنا بیگ گھسیٹ کر اندر کیا—
“آپ کیوں وہاں کھڑی ہیں امی؟” جنت لانج کا دروازہ کھول کر بیگ اندر رکھ کر مُڑتے بولی—
“ڈاکٹر کا انتظار کررہی ہوں—معیز کو بخار ہورہا ہے—” ان کے جواب پر جنت کے چہرے پر پریشانی جھلکی
“کہاں ہیں معیز؟ گھر پر ہیں؟” حسنہ بیگم نے اثبات میں سر ہلایا–
“میں دیکھتی ہوں—” وہ تیزی سے اندر بڑھ گئی—بیگ لانج کے دروازے میں ہی پڑا رہ گیا— ہینڈ بیگ صوفے پر پھینک کر وہ سیڑھیاں پھلانگتی اپنے کمرے میں پہنچی—
“معیز؟ معیز؟” اس نے آنکھیں موندے سُرخ ہوتے چہرے کے ساتھ گہرے گہرے سانس لیتے معیز کو دیکھا—اسکے پاس بیٹھ کر پیشانی پر ہاتھ رکھا—
“معیز!” اسکی ہلکی ہلکی بڑھی شیو پر ہاتھ رکھتے گال تھپتھپائے—
اتنے میں حسنہ بیگم اور ڈاکٹر باتیں کرتے اندر داخل ہوئے—جنت اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی—ڈاکٹر نے اسکا مکمل معائنہ کرنے کے بعد چند دوائیں لکھ کر دیں—
“موسم تو ٹھیک ہے— بخار یقیناً کمزوری کا نتیجہ ہے ڈائٹ کا خیال رکھیں جو دوائیں دیں ہیں وقت پر کھائیں—ٹھیک ہوجائے گا—” آخری جملے پر وہ تسلی آمیز مسکان لاتے بولے—حسنہ بیگم ڈاکٹر کو نیچے چھوڑنے گئیں جبکہ جنت نے روم فریج سے برف نکالی ایک ڈبے میں ڈال کر واش روم سے پانی بھر کر لائی—الماری سے معیز کا رومال نکالا اور اسکے سرہانے بیٹھ کر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کرنے لگی—چہرے پر فکر و پریشانی کے آثار نمایاں تھے— کافی دیر پٹیاں کرنے کے بعد وہ اسکے گھنے سیاہ بالوں میں اُنگلیاں پھیرنے لگی—
****************
رات تک اسکا بخار بالکل کم ہوچکا تھا—اچانک ہی چڑھا تھا اور اسی طرح کم بھی ہوگیا—حسنہ بیگم اسکے لیے سبزیوں کا سوپ بنا کر لائیں تھیں—جنت کمرہ سمیٹ رہی تھی—معیز بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھا تھا—
“آپ بیٹھے کیوں ہیں لیٹ جائیں—” جنت اپنے بیگ سے چند سوٹ نکال کر الماری میں ہینگ کر رہی تھی پلٹ کر بولی—
“بخار تو کم ہوگیا ہے مگر ریسٹ کی بہت ضرورت ہے آپ کو—” وہ اسکے پاس آتی اسکی پیشانی چھو کر بولی—معیز نے کسی قسم کا ردِعمل ظاہر نہیں کیا— حسنہ بیگم سوپ لے کر اندر داخل ہوئیں—
“جنت تم بھی فریش ہو کر کھانا کھالو—” ٹرے بیڈ پر معیز کے پاس رکھ کر وہ اس سے مخاطب ہوئیں–
“جی امی—” وہ ایک نظر معیز کو دیکھ کر واپس اپنے کام میں مشغول ہوگئی—
ایک گھنٹے تک وہ فریش ہو کر کھانا کھا کر واپس اوپر آگئی تھی— کمرے کی گُل بتی بتا رہی تھی کہ وہ سو چکا ہے—جنت خاموشی سے اسکے برابر خالی جگہ پر لیٹ گئی— ایک بےنام سی اُداسی تھی ان لمحات میں— وہ اسکی جانب سے اپنے پُرتپاک استقبال کی منتظر تھی وہ نا سہی مگر ناراضگی تو بنتی تھی آخر وہ اتنے دنوں بعد آئی تھی لیکن معیز کا یوں نظرانداز کرنا جنت کیلیے تکلیف دہ تھا—
***************
“آپ آفس جارہے ہیں؟ مگر آپ ابھی مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئے کچھ دن آرام کرلیں—” جنت آملیٹ والی پلیٹ کچن کاؤنٹر سے اُٹھا کر ڈائننگ ٹیبل تک لاتے بولی— معیز چیئر گھسیٹ کر بیٹھ گیا—حسنہ بیگم اپنے ناشتے میں مصروف تھیں—
“کیا ناشتہ کریں گے آپ؟ میں سمجھی آپ سو رہے ہیں تو بنایا نہیں–” وہ کچھ شرمندگی سے بولی—بھاری پیوٹے اور بخار کی تپش سے سُرخ ہوتا چہرہ جنت کو تشویش میں مبتلا کررہا تھا—سفید کلف لگی بےداغ شرٹ کی آستینیں کہنیوں تک فولڈ کیے—گریبان کے دو کھلے بٹن, ہلکی ہلکی بڑھی شیو, گھنے بال— کیا یہ شخص ابراہیم حسین کی دولت کا متبادل ہوسکتا ہے؟ اسکی ذرا سی بےنیازی, ذرا سی ناراضگی جنت سے برداشت نہیں ہورہی تھی اور وہ اسے چھوڑنے کا مشورہ دے رہا تھا—
“میں آفس میں کھالوں گا—” وہ اپنی کلائی پر بندھی واچ کی جانب دیکھتا بولا اور تیزی سے اُٹھ کر باہر نکل گیا اس سے پہلے کہ حسنہ بیگم کچھ کہتیں جنت اسکے پیچھے گئی وہ گاڑی میں اپنا لیپ ٹاپ بیگ رکھ کر اب گیٹ کھولنے جارہا تھا—
“کوئی ضروری میٹنگ ہے تو وہ اٹینڈ کر کے جلدی آجائیے گا—آپ کی طبیعت مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی—” جنت بول رہی تھی مگر وہ دروازہ کھول کر واپس گاڑی کی طرف پلٹ گیا—ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور اسکی جانب دیکھے بغیر گاڑی نکال گیا—جنت نے خالی لان اور باہر کے کھلے بڑے دروازے کو دیکھا پھر ہونٹ کاٹتی دروازہ بند کرنے آگے بڑھ گئی—
*************
جنت اپنے کیبن سے چند ضروری فائلز لے کر باہر نکلی تھی جب سامنے سے تحریم آتی دکھائی دی اس نے بھی جنت کو دیکھ لیا تھا
“اسلام و علیکم! ” جنت اسلام میں پہل کی—
“وعلیکم السلام! دل بھر گیا تمہارا دبئی سے؟ ایٹ لیسٹ اپنے ہسبینڈ کو تو اپنے پلانز سے آگاہ کردیا کرو آفس کے چکر لگاتا رہا ہے بےچارہ–” جنت نے ناسمجھی سے اسے دیکھتے نفی میں سرہلایا—
“میٹنگ کینسل ہوگئی تھی تو تم جلدی واپس آجاتی اور اگر رُکنے کا پلان تھا تو معیز کو بتادینا چاہیے تھا نا وہ آفس آکر باس پر چڑھائی کرنے والا تھا وہ تو میں نے اسکی مس انڈرسٹینڈنگ کلیئر کی کہ تم ابراہیم حسین کے ساتھ دبئی گھوم رہی ہو وہ بلاوجہ پریشان نہ ہو—” تحریم عجیب مسکراہٹ کے ساتھ بتارہی تھی جنت کی پیشانی پر بل پڑنے لگے—
“میٹنگ کے انتظار میں ہی رُکی تھی میں اور جب کینسل ہوگئی واپس آگئی—” جنت نے کہا
“سیریسلی؟” تحریم اسے دیکھ کر طنزیہ مسکرائی—
“میٹنگ اگلے روز ہی کینسل ہوگئی تھی اور تم آج تین روز بعد آرہی ہو–” اب جنت کی ناگواری حیرت میں بدل گئی—
“مجھے کسی نے نہیں بتایا میٹنگ کینسل ہونے کا—مجھے کوئی آفیشل میل نہیں ملی—”
“اب یہ مت کہنا کہ ابراہیم حسین کے مینجر نے تمہیں میٹنگ کینسل ہونے کا بھی نہیں بتایا تھا اور نہ تمہارا ٹکٹ کروایا تھا–” تحریم تیکھے لہجے میں بولی—
“مجھے سمجھ نہیں آرہی آپ کیا کہے جارہی ہیں کون سا ٹکٹ؟” جنت بری طرح اُلجھ رہی تھی—
“ڈرامہ کیوئن! ” تحریم اپنے بال ایک ادا سے جھٹکتی نخوت سے کہتی چلی گئی—
“مِس جنت آپکو باس بلا رہے ہیں—“اس سے پہلے کہ وہ اسکی باتوں پر زیادہ دھیان دیتی اسکے ایک کولیگ نے آکر پیغام دیا—جنت سر ہلاتی باس کے روم کی جانب چل دی—
باس کا سڑا منہ اور کرسی گھمانے کا انداز بتارہا تھا کہ حالات کچھ اچھے نہیں ہیں—
“مِس جنت آپ کے انتہائی غیر ذمے دار رویے نے آج مجھے مجبور کردیا ہے کہ میں آپ کو وارننگ دینے کے بجائے سیدھا خدا حافظ کہہ رہا ہوں—” جنت کے لیے یہ جملہ بالکل غیر متوقع تھا وہ فوری طور پر کوئی اظہار نہیں کرسکی—
“میٹنگ کینسل ہوگئی تھی اور آپ کا رِٹن ٹکٹ بھی کروا دیا گیا تھا ابراہیم گروپ آف انڈسٹریز کی جانب سے تو پھر آپ کا مسلسل وہاں دو دن کے سٹے کا کیا مطلب نکالا جائے؟ مانا آپ نے کبھی دبئی نہیں دیکھا مگر کیا یہ بات اپنے کلائنڈ کو ظاہر کرنا ضروری تھی؟ آپ کے وہاں رہنے کے اخراجات بھی ابراہیم حسین نے پورے کیے پھر آپ ان کے ولاء میں بھی ٹہر گئیں—مطلب کوئی سینس ہے آپ میں کہ نہیں؟ آپ کو ایک میٹنگ کیلیے رُکنے کا کہا آپ تو ابراہیم حسین کے ساتھ اتنی انوالو ہوگئیں کہ اُنہیں خود مجھے انفارم کرنا پڑا— کانٹریکٹ تو سائن ہوچکا ہے لیکن اگر آپ ہی مارکٹنگ مینجر رہیں تو وہ کسی صورت اس کانٹریکٹ کو قائم نہیں رکھیں گے–بہتر یہی ہے کہ آپ اپنا سسپنشن لیٹر لیں اور کہیں اور ٹرائی کریں—” انہوں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے جانے کا کہا—
“سر آپ کو مِس انڈرسٹینڈنگ ہوگئی ہے ایسا—” جنت کی سب سے بڑی کمزوری تھی کہ بحث کرتے یا اپنی صفائی پیش کرتے اسکے آنسو نکل پڑتے تھے—ابھی بھی آنسوؤں کے گولے نے اسے مزید بولنے نہ دیا—
“پلیز لیو–اپنا اور میرا وقت برباد مت کریں—” انہوں نے نہایت ناگواری سے باہر کی جانب اشارہ کیا—
“ہاں ایک بات اور مس جنت!” ان کی آواز پر جنت پلٹی—
“ایسے شارٹ کٹ تلاش کرنا چھوڑ دیں— زندگی میں جو کمائیں محنت کا اور اپنے نام کا کمائیں—”
****************
ریسیپشن سے اپنا سسپنشن لیٹر لیتے اس نے بمشکل اپنے ہاتھوں کی کپکپاہٹ پر قابو پایا تھا—آنکھوں کے آگے اندھیرا چھارہا تھا اور دماغ مکمل طور پر سُن ہوچکا تھا—دوپٹے کو سر پر جمائے چہرہ جھکائے وہ مین روڈ پر چلتی اپنے آنسو چھپارہی تھی—
یہ کیسا کامیابی کا پہاڑ تھا وہ تھوڑا ہی اوپر چڑھتی تھی کہ دوبارہ پھینک دی جاتی—
آج پھر وہی بس تھی, وہی دھکے, وہی مایوسی اور وہی اپنے کم اثر ہونے کا افسوس!
***************
جنت تھکن سے نڈھال گھر میں داخل ہوئی اور لانج میں پڑے صوفے پر بیٹھ کر دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی—
“نوکری جانے کا دکھ الگ اور کردار کشی کا الگ, ابراہیم حسین نے اپنی دولت و طاقت کے مظاہرے کی ہلکی سی جھلک دکھائی تھی ابھی اسے—
اگر وہ ان میں سے کسی کو یہ بتاتی کہ ابراہیم حسین نے اسے شادی کی آفر دی تھی اور اُسکو ٹھکرانے پر اس نے جنت پر الزامات لگائے ہیں تو سب نے ہنسنا ہی تھا بلکہ ممکن تھا کہ وہ اسکی دماغی حالت پر شک کرنے لگتے—اتنے امیر آدمی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ اسکے خلاف محاذ کھڑا کرے—
حسنہ بیگم ظہر کی نماز پڑھ کر روم سے نکلیں–جنت نے اپنے پاس موجود چابی سے گیٹ کھولا تھا—
“کیا ہوا ہے جنت؟ سب ٹھیک ہے؟ تم رو کیوں رہی ہو؟”وہ اسکے روئے ہوئے بھیگے و سرخ ہوتے چہرے کی جانب دیکھ کر فوراً آگے بڑھیں—جنت ان کا سہارا پا کر مزید رونے لگی—
“جنت بیٹا مجھے پریشان نہیں کرو— بتاؤ ہوا کیا ہے؟ گھر میں سب ٹھیک ہیں؟ تم جلدی کیوں آئی ہو؟” وہ اپنے کندھے سے لگی جنت کا سر سہلاتے پوچھ رہی تھیں—
“میری جاب چلی گئی—مم— میری کوئی غلطی نہیں تھی—میری اتنی بےعزتی کی—“وہ ہچکیوں سے روتے بتانے لگی—حسنہ بیگم کو کچھ سکون ہوا—
“کوئی بات نہیں بیٹا—رزق اللہ کی دین ہے بندے کی نہیں, کوئی کسی کی روٹی نہیں چھین سکتا— تقسیم کرنے والا اوپر بیٹھا ہے—” انہوں نے جنت کو اپنے سے الگ کرتے اسکے آنسو پونچھے
“باس نے میری اتنی بےعزتی کی کہ—” وہ پھر رونے لگی—
“کوئی کسی کو بےعزت نہیں کرسکتا عزت و ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے—جو آج تمہیں بےعزتی لگ رہی ہے اُس میں بھی اللہ کی کوئی نہ کوئی مصلحت چھپی ہے—جو لوگ اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں وہ اُمید کا دامن نہیں چھوڑتے اور نہ ہی اُسکے کیے پر سوال اُٹھاتے ہیں–جو چیونٹی کو بھی اسکا رزق مہیا کررہا ہے وہ جنت ستار کو کیسے بھول سکتا ہے جس سے وہ ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے—” انہوں نے اُسکی ٹھوڑی پکڑ کر پیار سے سمجھایا—
“اللہ تعالٰی کے پاس تو اختیار ہے نا امی تو وہ کیوں مجھے وہ سب نہیں دے دیتا جسکی مجھے خواہش ہے؟” اس نے حسنہ بیگم کی جانب دیکھا تو وہ گہرا سانس لیتے کہنے لگیں—
“یہ نظامِ زندگی ہے جنت یہاں اگر سب امیر و رئیس پیدا ہونے لگے تو ان کا ڈرائیور, ان کا کُک, ان کے آفس امپلائی کہاں سے آئیں گے؟ اور اگر سارے امپلائز بن جائیں تو باس کہاں سے آئے گا؟ یہ سب انسان کے اپنے عمل, اپنے پیدا کردہ نظام ہیں— اللہ تعالٰی نے کسی کے ساتھ ملازم و مالک کا سٹامپ لگا کر نہیں بھیجا یہ سب ان کی اپنی محنت, اپنی ذہانت کا نتیجہ ہے یا کچھ لوگوں کے گناہوں کا— ہر کوئی ذہانت و محنت سے کاروبار نہیں چلا رہا کوئی سود, کوئی رشوت, کوئی دوسروں کے حق پر ڈاکہ ڈال کر چلا رہا ہے— یہ اعمال ہیں ان کے اور انہیں جواب دہ ہونا ہے اس کے لیے—اللہ تعالٰی نے تو اپنی کتاب میں بڑے انصاف کا نظام متعارف کروایا ہے—زکوۃ کا, اُس نے فرمایا کہ ہم نے تمہارے مال میں غرباء و مساکین کا بھی حصہ رکھا ہے— اللہ نے تو انہیں آزمائش میں ڈال رکھا ہے کہ میں نے تمہیں عطا کیا اور تم نے میری راہ میں خرچ کرنے سے انکار کردیا—تم نے میرے بندوں کی مدد کرنے سے انکار کردیا—تم نے زکوۃ نہیں نکالی تو تمہارا مال پاک کیسے ہوا؟” جنت کو کونسا یہ سب نہیں معلوم تھا—
کون سا مسلمان ہے جسے زکوۃ کا نہ معلوم ہو؟
“اللہ تعالٰی نے تو مال کو فتنہ قرار دیا ہے— فتنے کے پیچھے بھاگنے والا بھلا کامیاب کیسے ہوسکتا ہے؟” انہوں نے جنت سے پوچھا—
“کیوں نہیں ہوسکتا امی؟ بلکہ ہر وہ انسان ہی کامیاب تصور کیا جاتا جس کے پاس دولت ہو, شہرت ہو—معاشرہ اُسکی ہی عزت کرتا ہے اُسے ہی اہمیت دیتا ہے— لوگ اُسکے کنٹرول میں آجاتے ہیں–” جنت نے ان کی تردید کی—
“مسئلہ ہماری success defination کا ہے جو ہم نے اپنے بچوں کے دماغ میں فیڈ کردی ہے—اُنہیں سارے فلم سٹار, سارے سنگرز کامیاب نظر آتے ہیں بلکہ وہ ان کی motivational speeches سنتے ہیں جبکہ اُس کے مقابلے میں ہمارے پی ایچ ڈی ہولڈر, ہماری ہنر مند افراد, ہمارے انونٹرز کو کوئی نہیں سنتا کیوں؟ کیوں کہ اُن کے پاس اپنی کامیابی کے پروف میں بتانے کو اپنا بینک بیلنس نہیں ہے—کامیاب انسان وہی ہے جو اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوجائے اور جب ہم اپنے بچوں کو یہ سکھائیں گے کہ تمہاری زندگی کا حصول ہی بنگلہ گاڑی ہے تو کامیابی کہاں سے آئی گی میری جان؟” انہوں نے جنت کا گال تھپتھپایا—
“جو اللہ تعالٰی پر ایمان نہیں لاتے اللہ نے تو ان کو بھی ایمان والو سے زیادہ نواز رکھا ہے—” اس نے ایک اور اعتراض اُٹھایا–
“یہی تو فرق ہے ہماری سوچ میں اور اُسکی تقسیم میں—ہمیں جو مہنگا تحفہ دے دے اسے ہی محبت کرنے والا سمجھتے ہیں کہ وہ ہم پر خرچ کررہا ہے— کیوں کہ ہماری دنیا میں پیسہ سب سے بڑی دولت ہے اور اسی کی بنیاد پر جج کیا جاتا ہے مگر اللہ کے نزدیک تقوٰی بڑی دولت ہے, ایمان کی دولت سے وہ جسے نواز دے وہی رئیس ہے— اللہ تعالٰی نے کہیں نہیں فرمایا کہ جس کا بینک بیلنس زیادہ ہوگا وہی قطار میں آگے ہوگا— یہ تو ہمارے, ہم انسانوں کے بنائے گئے اصول ہیں بچے— اُس کی قطار میں تو ایمان والے آگے ہوں گے اور دولت قبر میں نہیں جانی میرے بچے—” جنت اب بھی ان کے کندھے سے لگی بیٹھی تھی ایک سکون تھا ان کا میسر ہونا بھی—
***************
وہ الماری کی صفائی کررہی تھی—معیز کے سارے کلف لگے کپڑے پریس کرنے کو دینے کیلیے نکالے اور سادے سوٹ استری اسٹینڈ پر ڈال دیے— وہ اسی کام میں مصروف تھی جب معیز کمرے میں داخل ہوا—کھلے گریبان کے ساتھ ایک ہاتھ میں ٹائی لٹک رہی تھی جنت کو مکمل طور پر نظرانداز کیا—
“معیز آپ جلدی آگئے آج؟” گھڑی شام کے چار بجا رہی تھی—
“کیا ہوا ہے آپ مجھ سے بات کیوں نہیں کررہے؟” جنت نے لیپ ٹاپ بیگ ٹیبل پر رکھتے معیز سے کہا—وہ اب گھڑی اُتار رہا تھا—
“ناراض ہیں؟” جنت نے دھیمی آواز میں پوچھا—
“طبیعت تو ٹھیک ہے نا آپکی؟ کہیں اس لیے تو جلدی نہیں آئے؟” جنت کہتے ہوئے اسکے قریب آئی—ایڑیوں کے بل اونچے ہو کر اسکی پیشانی چھونا چاہی تو اس نے آرام سے اسکا ہاتھ دور کیا اور پینٹ کی پاکٹ سے ایک لفافہ نکال کر اسے تھمادیا–جنت نے لفافہ کھول کر دیکھا اندر موجود لیٹر کو غور سے پڑھنے لگی— وہ معیز کا سسپنشن لیٹر تھا—
“یی—یہ؟ یہ کیا ہے؟ مم—مطلب— معیز—” جنت کا دماغ سنسنا اُٹھا تھا اسکی اتنی اچھی پوسٹ تھی وہ ان کا سات آٹھ سال پرانا ملازم تھا وہ اس پر اتنا بھروسہ کرتے تھے وہ ان کے اتنے انتظامات دیکھتا تھا—وہ پرسنلی بھی اسے بہت پسند کرتے تھے یہ ممکن کیسے تھا کہ وہ خود اسے نکال دیتے—
“مجھے جاب سے نکال دیا ہے—” معیز نے قدرے بلند آواز میں مگر بغیر کسی تاثر کے اطلاع دی—
“ایسے کیسے جاب سے نکال دیا آپ کو کوئی وجہ؟ کوئی غلطی؟ کچھ تو ہوگا نا—” جنت شاک کے عالم میں ہاتھ میں پکڑے سسپنشن لیٹر کو دیکھ رہی تھی—چہرے پر پریشانی و غصہ جھلک رہا تھا—
“معیز میں آپ سے پوچھ رہی ہوں— ستر اَسی ہزار کی جاب تھی وہ– بینک اکاؤنٹ بھی خالی پڑا ہے, گاڑی بھی چوری ہوگئی, نوکری بھی گئی آپ کی—” وہ پہلے چیخ کر بول رہی تھی آخری جملے پر اسکی آواز مدھم ہوگئی—معیز الماری میں منہ دیے جانے اتنی دیر سے کیا تلاش کررہا تھا—
“میری زندگی ہی منحوس ہے—اتنی جدوجہد کے باوجود آج بھی وہیں کھڑی ہوں—” اس نے سسپنن لیٹر دور پھینکا–
“تو کون کہہ رہا ہے تمہیں وہیں کھڑے رہنے کو؟ اپنی زندگی میں آگے بڑھ جاؤ— تمہارے پاس تو ایک شاندار آپشن ہے—” معیز الماری بند کرتا اسکی جانب بڑھا—جنت نے ناسمجھی سے اسے دیکھا—
“دنیا کا امیر ترین شخص نہ سہی پاکستان کا امیر ترین ہی سہی—“وہ زخمی ہنسی ہنسا—
“تمہارا دل ذرا بھی نہیں کانپا مجھے دھوکہ دیتے ہوئے؟ کیوں اتنے پاپڑ بیل رہی ہو؟ اتنی وجوہات تلاش کررہی ہو؟ ایک بار, ایک بار کہا ہوتا تمہارا دم گھٹتا ہے میرے اس چھوٹے سے آشیانے میں, نہیں رہنا چاہتی میرے ساتھ میں کبھی تم پر مسلط نہ ہوتا, کک–کبھی—” معیز سے بولا نہیں گیا اسنے ہونٹ چبانا شروع کردیے—جنت نے اسکی آنکھوں میں نمی دیکھی تھی—
“آ—-آپ کیا کہہ رہے ہیں مم—معیز مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا—“جنت نے اپنی مخروطی نازک اُنگلیاں اسکے بازو پر رکھتے کہا—معیز نے سختی سے اسکا ہاتھ جھٹکا—
“ہاتھ مت لگانا مجھے—” وہ اپنی پوری قوت لگا کر اُنگلی اُٹھا کر دھاڑا— اسکی آنکھیں سُرخ ہورہی تھیں—جنت نے آج تک اسے اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا—
“دور رہو مجھ سے—بہت دور—“جنت کو لگا اسکی آنکھیں اب جھلکیں کہ اب— چہرہ اتنا سُرخ ہورہا تھا کہ جنت کو اس سے خوف آنے لگا—
“کتنا حقیر سمجھا تم نے مجھے, ہمیشہ مجھے جتایا کہ میں تمہارے اخراجات نہیں اُٹھا سکتا, تمہاری خواہشات نہیں پوری کرسکتا, ہمیشہ بتایا کہ تمہیں مالدار آدمی چاہیے تم نے انکار کیا مگر میں بضد رہا— میری غلطی ہے—” معیز نے اپنی پیشانی مسلی اسکی پلکیں بھیگ رہی تھیں—
“تت—تم واپس کیوں آئی ہو؟” جنت کو وہ اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہا تھا—
“مجھے بےوقوف بنانے میں, میرے جذبات کے ساتھ کھیلنے میں مزہ آتا ہے تمہیں؟ تمہیں اتنے پاپڑ بیل کر حالات پیدا کرنے کی ضرورت نہیں تھی تم سیدھا کہہ سکتی تھی کہ تمہیں ایک امیر آدمی مِل گیا ہے جو تمہاری خواہشات پوری کرسکتا ہے میں تمہیں بالکل باؤنڈ نہ کرتا—” وہ بولے جارہے تھا جنت کو زمین آسمان گھومتے محسوس ہورہے تھے وہ ان دو دنوں میں اس سے اتنا بدگمان ہوگیا تھا–
“کیا کہے جارہے ہیں آپ؟ آپ ہوش میں تو ہیں؟ کون سا امیر آدمی؟” جنت بھی تیز لہجے میں بولی—
“ابراہیم حسین جس کے ساتھ—-“اس نے ہونٹ بھینچے جیسے کچھ کہتا کہتا رُک گیا ہو–
“جسکے ساتھ کیا؟”جنت نے اسکا بازو تھاما—معیز نے ہاتھ جھٹکا–
“جس کے ساتھ کیا؟ معیز” جنت اسکا بازو کھینچ کر بلند آواز میں چیخی—
“تم اُسکے ولاء میں رہ کر آئی ہو کہ نہیں؟ وہ بھی اُس وقت جب—جب وہاں کوئی نہیں تھا—” معیز کے سوال پر جنت کی اسکے بازو پر گرفت کمزور پڑ گئی اسکی آنکھ سے کب آنسو لڑی کی صورت بہہ کر ٹھوڑی سے جھلکا اسے خبر نہیں ہوئی صرف ساکت حالت میں اپنے سامنے کھڑے معیز کو دیکھ رہی تھی—
“بولو جنت؟ تم وہاں رہ کر آئی ہو کہ نہیں؟” وہ دھڑکتے دل کے ساتھ اس سے سوال کررہا تھا—جسم کا ایک ایک عضو جنت کے “نہیں” کہنے کا ورد کرنے لگا—
“گئی تھی میں—اب؟”جنت نے بائیں ہاتھ کی پُشت سے گال رگڑتے اکڑ کر کہا—
“پھر واپس چلی جاؤ—” وہ اسی سرد لہجے میں اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا بولا—جنت کے قدم لڑکھڑائے تھے—
“چلی جاؤ—تمہاری عیش و عشرت بھری زندگی تمہیں مبارک ہو” معیز اسکی جانب سے پُشت کر کے کھڑا ہوگیا—
بادِ صبا چلی گٸی
نازک فضا چلی گٸی
غُل مچا او عندلیب
دل رُبا چلی گٸی
کلی کلی نراش ہے
فسانہ دلخراش ہے
گلشنِ دلِ زار میں
غم کی بوُد و باش ہے
دَر درد کا جانِ جاں
کر کے وا چلی گٸی
دل رُبا چلی گٸی
۔
زندگی کا باب تھی
حسین تر خواب تھی
تھی راگنی آواز خود
رباعی تھی رباب تھی
بوُٕ حِنا چلی گٸی
دل رُبا چلی گٸی
۔
لحد سے جون اٹھ ذرا
آ دیکھ کیا ہے ماجرا
پھر وہی تاریخ نے
ظلم کِیا ستم کِیا
جیسے تجھ کو چھوڑ کر
زاہدہ چلی گٸی
فارہہ چلی گٸی
ویسے مجھ کو چھوڑ کر
شکستہ پا چلی گٸی
دل رُبا چلی گٸی
پکڑ کے گھر کا باہری
راستہ چلی گٸی
غُل مچا او عندلیب
دل رُبا چلی گٸی
مصورہ چلی گٸی!
(مبارک احمد)
****************