تاریخ یونان کا ایک گمشدہ ورق
سکندر، کرہ ارض کا فاتح اعظم سکندر، ممالک محروسہ سے خراج لیتا، اپنی سلطنت کے حدود کو وسیع کرتا، گرجتے ہوئے بادل اور کڑکتی ہوئی بجلی کی مانند تباہی و بربادی کا طوفان لے کر ہمت و استقلال اور عزم و ارادہ کو سینے میں لیے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ موسم گرما کے جھلستے ہوئے آفتاب کی شعاعیں، موسم سرما کی خون منجمد کر دینے والی ہوا کے تیز و تند جھونکے اس کی نظر میں کچھ وقعت نہ رکھتے تھے۔
اسی دوران میں اس کا گذر ایک ایسی سرزمین میں ہوا جس کی عنانِ حکومت صنفِ نازک کے قوی ہاتھوں میں تھی اور بیشتر آبادی بھی اسی جنس پر مشتمل تھی۔ سکندر اس سے بے خبر تھا کہ کائناتِ عالم کا نظم و نسق صرف عورت ہی کے دم سے ہے۔ اس لیے ارادہ کیا کہ حسبِ معمول فوج کشی کر کے اس ریاست کو بھی فتح کر لے۔
سمندر میں یکے بعد دیگرے بڑھنے والی موجوں کی طرح فوج کی قطاریں آراستہ کی جا رہی تھیں کہ سکندر کی بارگاہ میں ایک عورت آلاتِ حرب سجائے لوہے میں ڈوبی ہوئی حاضر ہوئی اور مودّبانہ طریقے پر ایک منقّش شمشیر نذر کرتے ہوئے اپنی ملکہ کا پیغام پیش کیا:
“اے سکندر! یہ حقیقت ہے کہ اس وقت بڑی بڑی سلطنتوں پر تیرا پرچم لہرا رہا ہے اور تیرے نام کا سکّہ خشکی اور تری پر رواں ہے۔ لیکن تیرے حق میں بہتر یہی ہے کہ ہمارے مقابلہ میں نبرد آزمائی کے خیال خام کو ترک کر کے اپنی راہ لے۔ اگر اس میدانِ کارزار میں تجھ کو فتح بھی ہو گئی تو بے سود ہے۔ کیا تاریخِ عالم میں تیرے نام کے ساتھ یہ حرف نہیں لکھے جائیں گے کہ بے رحم سخت دل سکندر نے صنف نازک کے مقابلہ میں شمشیر اٹھائی اور اس کے بہادر سپاہیوں نے کمزور عورتوں کو تہ تیغ کیا؟
تصویر کے دوسرے رخ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے سوچا جائے کہ اگر حُسنِ اتفاق سے ہمیں فتح ہوئی جس کا ہمیں یقین ہے۔ کیونکہ ہماری فوج کا ہر رکن فن سپہ گری میں یکتاے روزگار ہے تو کیا یہ امر تیرے لیے زبردست ذلت کا باعث نہیں ہوگا کہ سکندّر کو، سکندرِ اعظم کو، صنفِ نازک نے شکست دے دی اور اس کے بہادر سپاہیوں کو کمزور خواتین کی تیز تلواروں نے خون میں نہلا دیا۔ لہذا قبل اس کے کہ تیر اپنی کمان سے جدا ہو انجام پر نظر ڈال لینی ضروری ہے۔”
سکندّر جس کا عزم راسخ، جس کا ارادہ قوی، جس کا قانون اٹل اور جس کا فیصلہ قطعی ہوتا تھا، یہ معقول بات سن کر دنگ رہ گیا اور فوراً اپنی فوجوں کو وطن کی طرف مراجعت کا حکم دے دیا۔ نیز شہر پناہ کے صدر دروازے پر خود اپنے ہاتھ سے یہ عبارت کندہ کر دی:
“کج فہم سکندر بے شمار سلطنتوں کو مغلوب کرنے کے بعد اس زمین پر آیا اور اس نے عورت کی دانشمندی کے سامنے سر تسلیمِ خم کیا۔ مرد قوتِ بازو سے فتح حاصل کرتے ہیں اور صنفِ نازک عقل و دانائی سے۔”