کیا ابھی ہم کہیں گھومنے جاٸیں گے؟؟؟
ہر گز نہیں۔۔۔
آپ پہلے ہی میرا بہت دماغ خراب کر چکی ہے مزید بالکل نہیں اب ہم بس ہوٹل جاٸیں گے۔۔۔۔
ظہیر سپاٹ انداز میں بولا۔
دونوں ہی خاموش بیٹھے تھے۔ گاڑی اپنے سفر پہ رواں دواں تھی کہ اچانک ہی جھٹکے کھا کر بند ہو چکی تھی۔
ظہیر خان نے بمشکل گاڑی کنارے لگاٸ۔ اب وہ ہوٹل کال کر کے اپنی لوکیشن بتا رہا تھا اور کسی مکینک کو بھیجنے کا کہہ رہا تھا۔
اسے جتنی ہوٹل پہنچنے کی جلدی تھی اتنی ہی دیر ہو رہی تھی۔
اسکا غصے سے برا حال تھا مگر عاٸشہ اس سے بےپرواہ شہر کی رنگینیاں انجواۓ کر رہی تھی۔
You make me smile take away all my fears
You hold me real close
When you wipe my tears
You love me for me and
I’m thankful to have you with me
Soon enough girl I’mma give you everything
I’ll get on one knee and I’ll give you this ring
It’s symbolizes our love it’s you and me for Eternity
You are my rainbow after the rain
You are my medicine after the pain
Hold me close, don’t let go,and stay with me
When i hold your hand girl I’ll keeping you safe
I’m looking at your eyes and the all details on your face
You mean the world to me and
I wanna prove that to you
You are my rainbow after the rain
You are my medicine after the pain
Hold me close, don’t let go,and stay with me
Girl close your eyes, cause’ i want you to see
The future i have planned for you and me
Hold me close, don’t let go,and stay with me
And stay with me
And stay with me…..
دور کہیں جسٹن واز کوٸیز کا گانا پلے ہوا تھا۔
کیا ہم وہاں چلیں؟؟؟ پلیز پلیز پلیز۔۔۔۔
گاڑی میں بیٹھے رہنے سے گاڑی ٹھیک تو نہیں ہو گی نہ پلیز چلیں؟؟؟؟
اتنی معصوم شکل بنا لی تھی اس نے کہ کوٸ بھی پگھل جاتا۔
کوٸ اور ہوتا تو ضرور پگھل جاتا مگر وہ ظہیر خان تھا جس نے اسے صفا چٹ انکار کر دیا تھا۔
ہونہہ خود تو بورنگ انسان ہیں مجھے بھی ایسا کر دیں گے۔
عاٸشہ منہ بناۓ بیٹھی تھی۔
تبھی مکینک آ گیا تھا اس نے گاڑی چیک کی۔
ہاٶ مچ ٹاٸم اٹ ٹیک؟؟؟؟
اباٶٹ تھرٹی منٹس۔۔۔۔
اوکے۔۔۔۔
چلیں عاٸشہ۔۔۔۔
اب کہاں؟؟؟؟
چلیں پھر بتاتا ہوں۔
وہ ویسے بھی گاڑی میں بیٹھی بور ہو رہی تھی۔ اسلیے چل دی۔۔۔
********************************
اوفوہ کیا مصیبت ہے یہ لوگ ایسے ڈریسز بناتے ہی کیوں ہیں آخر؟؟؟؟؟
سارے راستے وہ اس ڈریس سے الجھتی آٸ تھی۔
اب جو نظر اٹھا کر دیکھا تو ہپناٹاٸز ہو گٸ۔
امیزنگ۔۔۔۔۔
وہ امپریس ہوٸ تھی۔
جھیل کنارے بنی یہ جگہ انتہاٸ خوبصورت لگ رہی تھی۔
پوری جھیل کے کناروں کو اور کشتیوں کو پھولوں اور فیری لاٸٹس سے سجایا گیا تھا۔
درختوں پر بھی فیری لاٸٹس لگاٸ گٸ تھیں۔
اتنا خوبصورت منظر دیکھ کر وہ کھل اٹھی تھی۔
ظہیر خان کو وہ اسی منظر کا حصہ لگی تھی۔
وہ پریوں کی رانی تھی اور اس کے لیےیہ جگہ بالکل پرفیکٹ تھی۔
وہ پہلے بھی یہ منظر دیکھ چکا تھا۔
ہر سال سوٸیزر لینڈ میں بہار کو اسی طرح خوش آمدید کہا جاتا تھا۔
مگر پہلے وہ منظر اسکی آنکھوں کو اتنا بھایا نہیں تھا جتنا اب بھا رہا تھا۔
وجہ سے وہ واقف تھا اور اس وجہ کو اس نے دل و جان سے تسلیم کیا تھا۔
وہ جو سمجھتا تھا کہ کوٸ لڑکی ظہیر خان کو تسخیر نہیں کر سکتی آج وہ خود اس لاپرواہ سی لڑکی کے آگے چاروں خانے چت ہوا تھا۔
جب شکست اتنی خوبصورت ہو تو کون نہیں چاہے گا۔
*********************************
ظہیر سر مجھے وہ لینٹرنز جلانے ہیں پلیز۔۔۔۔
آٶ۔۔۔۔
سنبھل کے۔۔۔۔
وہ گرنے لگی تھی مگر ظہیر خان نے اسے تھام لیا تھا۔
انہوں نے کتنے ہی فاٸر بیلون اڑاۓ تھے۔۔۔
عاٸشہ بچوں کی سی خوشی سے چہک رہی تھی۔
آٶ بوٹنگ کرتے ہیں۔۔۔
اس وقت بوٹنگ۔۔۔ وہ حیران ہوٸ۔
ہاں تو اس وقت بوٹنگ کرنا منع ہے کیا آ جاٶ۔
وہ اسے کشتی پہ لے آیا۔
اپنا ڈریس پھیلاۓ شہزادیوں کی طرح بیٹھی عاٸشہ اور اسکا پرنس چارم ظہیر خان۔
پتا نہیں وہ اسے پرنس سمجھتی بھی ہے یا نہیں جتنی یہ نان سینس لڑکی ہے مجھے تو نہیں لگتا کہ کبھی مجھے یہ پرنس سمجھے گی۔
ظہیر خان نے بے چارگی سے سوچا۔
مگر یہ سچ تھا کہ یہ رات اسکی زندگی کی حسین ترین رات تھی۔
********************************
اگلی صبح پھر ظہیر عاٸشہ کے روم کا دروازہ بجا رہا تھا۔
آج اس نے کال کر کے وقت ضاٸع کرنے والی بے وقوفی نہیں کی تھی۔
عاٸشہ کی نیند فون کال سے نہیں ٹوٹتی تھی۔
سر آپ اتنی صبح صبح کیوں اٹھ جاتے ہیں اور پھر یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہر کوٸ سویرے اٹھے۔
وہ جماٸ روکتے ہوٸ بولی۔
اوکے آپ سو جاٸیں ویسے بھی کل ہم نے واپس جانا ہے۔ میرا تو ارادہ تھا کہ ہم آج گھوم پھر لیں گے آپ کا نہیں ارادہ تو۔۔۔۔۔ اس نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑی۔۔۔
عاٸشہ کی آنکھیں پوری کی پوری کھل گٸیں۔
نہیں نہیں میری نیند پوری ہے میں بس ابھی تیار ہو کر آتی ہوں۔۔۔۔۔
کیا سچ میں۔۔وہ ابرو اچکاتے بولا۔
جی بالکل سچی مچی میں۔۔۔
********************************
وہ ببل گم کے غبارے بناتی سیلفیز لیتی اسکے ساتھ گھوم پھر رہی تھی۔
مجھے کاٹن کینڈی لینی ہے۔
لمبی سی سٹک ساتھ لگاۓ وہ کھا رہی تھی۔
اچھلتی کودتی سیڑھیوں پر سے چھلانگیں لگا کر اترتی وہ کوٸ چھوٹی بچی لگ رہی تھی۔
لوگ مڑ مڑ کر اسے دیکھ رہے تھے۔
مگر اسے کیا پرواہ۔۔۔۔
اسکی خوشی دیکھ کر ظہیر خان نے بھی ٹوکنا ضروری نہ سمجھا۔
وہ بدل رہا تھا اس کے لیے اب پرفیکشن سے ذیادہ خوشیاں امپورٹنٹ تھیں۔
اسے عاٸشہ کی صحبت کا اثر ہو رہا تھا۔
مگر شاید صرف عاٸشہ کے معاملے میں ہی۔ اسے اسکا یہ بے فکر لاپرواہ انداز اچھا لگتا تھا۔
اور پھر عاٸشہ نے کہا بھی تو تھا۔
جس سے محبت کرتے ہیں اس میں اپنی پسند کی تبدیلیاں نہیں کرتے۔
مجھے آٸسکریم لینی ہے۔
وہ اسکا بازو جھنجوڑتے ہوۓ بولی۔
وہ یکدم جیسے ہوش میں آیا۔
آٸسکریم کھاتے اچھلتے کودتے وہ چل رہی تھی کہ اچانک دھڑام سے گری۔۔۔۔۔
اسکا بیلنس بگڑا تھا اور وہ گر گٸ تھی۔ آٸسکریم اس کے ناک پر لگ گٸ تھی۔ بالکل کارٹون لگ رہی تھی۔
وہ گری بھی کچھ اس انداز سے تھی کہ ظہیر خان کا بے ساختہ قہقہہ نکلا تھا۔ وہ ہنس رہا تھا بے تحاشہ۔۔۔۔۔
بجاۓ اسے اٹھانے کے وہ پیٹ پہ ہاتھ رکھے ہنس رہا تھا۔۔۔
ہاہاہا ویری فنی بجاۓ مجھے اٹھانے کے آپ ہنس رہے ہیں۔ لوگوں کا خون سفید ہو گیا ہے۔ ان میں انسانیت کاجذبہ بھی نہیں رہا۔۔۔
اسکی دہاٸیاں عروج پہ تھیں۔
اوکے اوکے میں اٹھاتا ہوں مگر پہلے یہ دیکھو۔۔۔
اس نے فون کا فرنٹ کیمرہ اوپن کر کے اسے دکھایا۔
عاٸشہ کی اپنی ہنسی چھوٹ گٸ۔ کتنی ہی دیر وہ دنیا سے بے خبر ہنستے رہے۔
عاٸشہ نے آگے ہو کر اپنا منہ ظہیر کے کوٹ سے صاف کر لیا۔۔۔
عاٸشہ یہ کیا ہے؟؟؟؟ وہ چڑ کر بولا۔
یہ مجھ پر ہنسنے کا بدلہ ہے۔
مگر خود بھی رو ہنسی تھی نہ۔۔۔
ہاں مگر پہلے مجھے اٹھانے کے بجاۓ آپ ہنس رہے تھے۔
اور اب اٹھاٸیں مجھے میرا پَیر مڑ گیا ہے۔
جس انداز سے کہہ رہی ہیں آپ ویسے لگ تو نہیں رہا۔
ہاں تو کیا ہو گیا گری تو ہوں نہ میں۔۔۔ ڈھٹاٸ سے بولی۔۔۔
میں نہیں اٹھانے والا کس نے کہا تھا کہ بندروں کے جیسی حرکتیں کرو۔
مگر نہیں مس عاٸشہ نے سب کچھ بن جانا ہے بس انسان نہیں بننا۔۔۔
ہاہہہہہ۔۔۔۔۔۔ اوکے میں نے نہیں جانا اب آپ کے ساتھ۔۔۔۔
کیوں نہیں جانا ہممم؟؟؟
کیونکہ آپ ان ڈاٸریکٹلی مجھے یہ کہ رہے ہیں کہ میں انسان نہیں ہوں۔ وہ منہ پھلاتے بولی۔
نہیں میں ڈاٸریکٹلی کہہ رہا ہوں آپکو بندریا کہہ رہا ہوں۔ مزے سے اسے چڑاتا وہ آگے چل دیا۔
ہونہہ خود کیا ہیں۔
ڈاٸنوسار۔۔۔۔ نہیں اینا کونڈا۔۔۔ بلکہ مینڈک ہیں۔
حرکتیں توآپکی ہیں مینڈکوں والی۔
یو۔۔۔۔۔۔ وہ دانت پیس کر رہ گٸ۔
وہ آگے جا کر انتظار کرتا رہا مگر عاٸشہ ٹس سے مس نہ ہوٸ۔
عاٸشہ کبھی نہیں سدھر سکتی۔ زچ ہوتے ہوۓ وہ پلٹا اور اسکو اٹھا لیا۔
آپ کبھی نہیں سدھریں گی ہے نہ۔۔۔
بالکل بھی نہیں سدھروں گی۔
میں نیچے پھینک دوں گا۔۔۔۔
اٹھانا خود ہی پڑے گا۔
مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔
کس خوشی میں۔
ویسے ہی میرا دل چاہ رہا ہے۔
وہ چڑ کر بولی۔۔۔
اوکے آپ کا شوق پورا کر دیتے ہیں۔۔۔
وہ اسے اٹھاۓ چل دیا۔
مگر یہ بھی نرا سیاپا تھا۔ عاٸشہ اسے خوب تنگ کر رہی تھی۔
منہ بناتی نقلیں اتارتی وہ اسے زچ کر رہی تھی۔
خدا خدا کر کے کلینک آیا تو وہ اس نے شکر کیا۔
********************************
اسے لگا عاٸشہ مذاق کر رہی ہے۔
اسلیے بے زاری سے کھڑا تھا۔
تبھی عاٸشہ نے اپنا جاگراتارا۔
اسکا سوجا پاٶں دیکھ کر وہ حیرت ذدہ رہ گیا۔
اسے سچ میں چوٹ آٸ تھی مگر وہ بے فکری سے بیٹھی تھی۔
یہاں تک کہ اسے احساس بھی نہ ہونے دیا تھا۔
ڈاکٹر نے چیک اپ کر کے دواٸ دے تھی۔
ظہیر نے گاڑی منگوا لی۔
وہ اسے لیے باہر آگیا۔
ہوٹل جاتے بالآخر وہ پوچھ بیٹھا۔
جب آپ کو چوٹ لگی تھی تو بتایا کیوں نہیں؟؟؟
بتایا تو تھا کہ میرا پَیر مڑ گیا ہے۔
ہاں تو جب اس طرح بتاٶ گی تو کیسے یقین آۓ گا۔
عجیب ہی لڑکی تھی وہ۔
ہم خوشیوں کے بادشاہ ہیں
درد کو ذیادہ منہ نہیں لگاتے
شانِ بے نیازی سے بولتی اسے مٹھیاں بھینچنے پر مجبور کر گٸ۔
*********************************
اگلے دن وہ پاکستان لوٹ آۓ تھے۔
انکی ڈیل کامیابی سے مکمل ہو گٸ تھی۔
انہیں روم میں فیشن شو کا کانٹریکٹ ملا تھا۔
بلاشبہ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔
جو ان دونوں کی محنت کا نتیجہ تھی۔
دو ماہ بعد شو ہونا تھا۔ وہ دونوں ہی بھرپوذ محنت کر رہے تھے۔
ارتضیٰ خان بھی انکی مدد کر رہے تھے۔
انکی زندگی کا محور اب انکی بیوی اور بیٹی ہی تھی۔ پیسہ کمانے کی دھن میں وہ ان خوبصورت رشتوں سے دور نکل گۓ تھے۔ مگر اب وہ مزید دور نہیں رہ سکتے تھے۔
وہ فاصلے سمیٹ رہے تھے۔
انہیں وہ وقت اور محبتیں دے رہے تھے جو وہ اتنے سالوں میں نہ دے پاۓ تھے۔
******************************
مما جانی اب تو آپ بابا سے بات کر لیں نہ۔
اور دیکھنا وہ انکار نہیں کریں گے۔ عاٸشہ ہر طرح سے لالہ کے ساتھ سوٹ کرتی ہیں۔
اچھا زری میں بات کروں گی آج ان سے۔۔۔
سچ میں مما جانی تھینک یو سو مچچچچ۔ یو آر دا بیسٹ مام ان دا ورلڈ۔۔ وہ پیار سے انہیں گلے لگاتے ہوۓ بولی۔
اور پھر اسی شام ہی خان بیگم نے بات کی۔
شہروز خان ارتضیٰ خان کو اچھی طرح جانتے تھے۔
وہ عاٸشہ سے بھی مل چکے تھے۔
اوکے بیگم میں کل ہی ارتضیٰ خان سے بات کرتا ہوں۔
یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ بزنس پارٹنر ہونے کے ساتھ ساتھ ہم رشتہ دار بھی بن جاٸیں تو یقیناً یہ بہت اچھی بات ہو گی۔ ہم خود بھی ایسا ہی چاہ رہے تھے مگر ظہیر خان کی وجہ سے خاموش تھے۔
پتا نہیں اسکی مرضی کیا ہے۔
آپ ظہیر کی فکر نہ کریں یقیناً وہ بھی بہت خوش ہو گا۔
چلیں پھر کل ہی چلتے انکی طرف۔۔۔
**********************************
اگلے دن وہ تینوں ارتضیٰ ہاٶس گۓ تھے۔
ان کے آنے کا مقصد جان کر ارتضیٰ خان بہت خوش ہوۓ تھے۔
وہ بھی یہی چاہتے تھے۔ بلاشبہ ظہیر خان عاٸشہ کے لیے بہترین ہمسفر تھا۔
طے یہ پایا کہ انکے شو کے بعد گرینڈ پارٹی رکھی جاۓ۔ اور تبھی اناٶنسمنٹ کر دی جاۓ۔
اور یہ بات ان دونوں کو کوٸ بھی نہیں بتاۓ گا۔
انکے لیے یہ سرپراٸز ہو گا۔
اوکے بیٹا جیسے آپکی خوشی۔
شہروز خان نے ہنستے ہوۓ زرش کی حمایت کی۔
*********************************
بیٹا آپ فری ہو کیا۔۔۔؟؟؟
جی مام ڈیڈ آپ آٸیں نہ۔۔۔
بہت بزی ہو گیا ہے میرا بیٹا۔۔۔۔
ارتضیٰ خان عاٸشہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولے۔
بس بابا ایک ہفتہ رہ گیا ہے۔ بس ایک بار یہ شو سپر ہٹ ہو جاۓ تو پھر میں دنیا گھومنے جاٶں گی۔
اور لالی کے پاس بھی ہم جاٸیں گے۔
اوکے نہ ویسے بھی مجھے ان سب کی بہت یاد آرہی ہے۔
اوکے بیٹا جو آپ کہیں۔۔۔۔
دراصل ہم سے کچھ بات کرنے آۓ ہیں۔۔۔
جی ڈیڈ بولیں۔۔۔
بیٹا اگر میں اور آپکی مام آپ کے لیے کوٸ فیصلہ لیں تو۔۔۔
تو مجھے کوٸ اعتراض نہیں ڈیڈ میں جانتی ہوں جو فیصلہ آپ لیں گی وہ بیسٹ ہو گا۔
انکی بات سمجھتے وہ بول پڑی۔
خوش رہیں میرا پیارا بیٹا بلکہ نہیں میری پیاری بیٹی میرا فخر میرا غرور۔۔۔۔ وہ اسکا سر چومتے بولے۔
اور عاٸشہ نے اسی محبت کی تو خواہش کی تھی اس نے کچھ بھی پوچھنے کی زحمت نہیں کی تھی وہ جانتی تھی جو کوٸ بھی تھا یقیناًہاس کے ڈیڈ کو بہت پسند تھا۔
اسلیے وہ مطمٸن تھی۔
مگر یہی خبر ظہیر خان پہ قیامت بن کر ٹوٹی تھی۔
ابھی تو دل اس کے نام پہ ڈھڑکنا بھی نہ سیکھا تھا اور ابھی سے ہی اس کو خاموش کروانا پڑ جاۓ گا۔ اس نے یہ سوچا بھی نہ تھا۔
اسکے ماں باپ رشتہ پکا کر آۓ تھے اور اسے اب بتا رہے تھے۔
غلطی انکی بھی تو نہیں تھی اس نے ان پہ ہی تو سب چھوڑا ہوا تھا۔
مگر دل کا کیا کرتا جو بغاوت پہ اتر آیا تھا۔
اس ایک ہفتے میں اس نے عاٸشہ سے دور رہنے کی بہت کوشش کی تھی مگر یہ کیسے ممکن ہوتا۔ ابھی دل کی سنتا تو دو مہینے کی محنت اکارت جاتی عاٸشہ بہت پر امید تھی اس پراجیکٹ کے لیے۔
وہ اس کی امید نہیں توڑنا چاہتا تھا اسلٸیے دل پر جبر کر کے اس کے ساتھ روم چلا گیا۔
ان کا شو سپر ہٹ ہوا تھا۔ ان کی کلیکشن ورلڈ ٹاپ ٹین میں آگٸ تھی۔
مگر وہ خوش نہیں تھا۔
عمر بھر کی پونجی لٹ گٸ
اب ہمیں دنیا بھی نہیں چاہیے
وہ کتنی ہی دیر عاٸشہ کو تکتا رہتا۔ شاید پھر کبھی موقع مل سکے یا نہ۔۔۔۔
اسکی حالت سے بے خبر عاٸشہ بہت خوش تھی وہ بڑھ چڑھ کر انٹرویوز دے رہی تھی۔ اپنی اور ظہیر خان کی محنت کے بارے میں بتا رہی تھی۔ لوگوں کو انسپاٸر کر رہی تھی۔
*******************************
ارتضیٰ خان اور شہروز خان نے گرینڈ پارٹی آرگناٸز کی تھی انکے شو کی کامیابی کے لیے۔
ظہیر خان کو کسی میں دلچسپی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
بات بات پہ غصہ کرنا ڈانٹنا وہ پہلے جیسا ہو گیا تھا۔
آج پارٹی تھی خان ولا میں۔۔۔
عاٸشہ آج خاص طور پر تیار ہو کر آٸ تھی۔ ظاہر ہے یہ اسکی محنت کا صلہ تھا۔
گڈ ایوننگ لیڈیز اینڈ جینٹل مین۔۔۔۔
آج کی یہ شام ظہیر اور عاٸشہ کے نام۔۔۔۔۔
شہروز خان ماٸیک لیے بول رہے تھے۔
آج میں بہت خوش ہوں۔ میرے بیٹے نے بہت بڑی کامیابی اپنے نام کی ہے۔۔۔
لیکن آج کی پارٹی کسی اور مقصد کے لیے بھی رکھی گٸ ہے میرے بیٹے کی انگیجمنٹ کی ۔
ظہیر خان نے کرب سے آنکھیں بند کی تھیں۔
تو یہ لمحہ بھی آنا تھا۔
ظہیر خان کی انگیجمنٹ طے کی گٸ ہے ہمارے بزنس پارٹنر کی بیٹی اور بہت ہی پیاری سی بچی عاٸشہ خان کے ساتھ۔
ظہیر خان نے حیرت سے آنکھیں کھولی تھیں اسے اپنی سماعت پر شبہ ہوا تھا۔
کیا بن مانگی دعاٸیں بھی اس طرح قبول ہوتی ہیں۔ وہ رب کی اس عنایت پہ نہال تھا وہ بے شک نہ بتاتا مگر رب تو جانتا تھا کہ اسے کیا چاہیے۔
تالیوں کے جھرمٹ میں وہ سٹیج پر گیا جہاں ارتضیٰ خان کے ساتھ عاٸشہ کھڑی تھی۔
یہ سرپراٸز اسکے لیے بھی حیرت ذدہ تھا مگر وہ ارتضیٰ خان کی خوشی میں خوش تھی۔
ظہیر نے اسے انگوٹھی پہناٸ تھی۔
وہ بے حد خوش تھا۔ وہ اسکی زندگی کا حاصل تھی۔
وہ کیوں خوش نہ ہوتا اپنی خوشی میں اس اسنے عاٸشہ پہ غور ہی نہ کیا۔
آٶچ۔۔۔۔۔
عاٸشہ نے زور سے اپنا پاٶں اسکے پاٶں پہ مارا تھا۔
کیا ہے عاٸشہ؟؟؟؟؟ وہ غصے سے بولا۔
آپ خوش ہیں تو بھی نہیں خوش تو بھی۔ آپ مجھے ورلڈ ٹور کرواٸیں گے۔۔۔
سامنے دیکھتی وہ اس سے مخاطب تھی۔
اور میرے ہاتھ کی کافی بھی پیا کریں گے۔
عاٸشہ میں ہلاک نہیں ہونا چاہتا۔
اور ڈھیر ساری شاپنگ کروایا کریں گے اور کھانے پینے سے منع نہیں کریں گے۔
اور نہ ہی ڈور ناک کرنا سکھاٸیں گے تمیز پہ لیکچر پہ نہیں دیں گے۔
اسکی پٹر پٹر شروع ہو چکی تھی۔
اور ظہیر خان مسکرا کر اسے سن رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ پٹر پٹر نہیں ختم ہونے والی اور اب تو اسے سننے کی عادت ہو چکی تھی۔
کیونکہ ایک وہی تو تھی جس نے دی تھی دستک دل پہ۔۔۔۔۔۔
ختم شد