مکتبہ ارژنگ پشاور
۲فروری ۱۹۹۷ء
محترم افتخارشفیع صاحب
السلام علیکم
یہ خط ایک ضروری کام کی غرض سے لکھ رہا ہوں۔مجیدامجد نے کسی زمانے میںدوستوں کی شادیوں پر سہرے لکھے تھے۔یہ بات مجھے ناصر شہزاد نے بتائی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھاکہ وہ ان کے پاس ہیں ،تلاش کرکے بھجوائیں گے۔اس بات کو کہے ہوئے برسوں گزر گئے۔اب مجھے مجیدامجد کے بارے میں ایک کتاب مرتب کرنی ہے ،اس کے لیے اگریہ متاع بے بہاکسی طرح سے دستیاب ہوجائے تو میں اسے بھی اس کتاب میں شامل کرلوںگا۔ناصر شہزاد کو کچھ عرصہ پہلے خط لکھا تھا،پہلے وہ میرے خطوں کا جواب دے دیا کرتے تھے،لیکن موجودہ خط کا جواب ابھی تک نہیں آیا۔اگر آپ کو زحمت نہ ہو توآپ ان سے مل کر مجیدامجدکا یہ کلام نکلواسکیںتو میں عمربھرآپ کا ممنون رہوں گا۔یہ ایک طرح کی خدمت ہے۔
والسلام
آپ کا مخلص
تاج سعید
(تاج سعید مرحوم بنام افتخارشفیع)
٭
۱۔ایک تحریرجس نے تازگی کے باعث راقم کی توجہ خاص طورپرحاصل کی ہے محمدافتخارشفیع کی ہے جس کی نوعیت تحقیقی ہے۔افتخارشفیع نے روایتی صنف سہرا کا تعارف کرواتے ہوئے۔مجیدامجد کے تحریر کردہ چھے سہرے یک جاکیے ہیں۔یہ سہرے صاحب زادہ فرخ سئیر،سیدناصرشہزاد،سیدمراتب اختر،سیددانیال ساجد،پرویزانجم صدیقی اور عبدالعزیز خان یوسفی کی تقاریب شادی خانہ آبادی پر پیش کیے گئے۔افتخارشفیع نے حوالہ جات وحواشی میں مآخذ کی نشان دہی کرنے کے علاوہ مذکورہ ’’دولھوں‘‘کا مختصرتعارف بھی کروایاہے اورسہرے کی روایت کے حوالے سے مفیدمعلومات بھی فراہم کی ہیں۔اگرچہ مجیدامجد کی شعری کائنات میںیہ سہرے کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں کرپائے تاہم نجی نوعیت کی شاعری میں ان کی خاص اہمیت ہے اور مجیدامجد کا فن ان میں بھی اپنا اظہار کرنے میں کامیاب ہواہے۔ ۲۔کہا جاتاہے کہ حب الوطن من الایمان ۔یہ محبت اس وقت اور زیادہ جاگتی ہے،جب وطن عزیز کے دشمن نے اسے للکارا ہو۔پاکستان اور بھارت کے بیچ میں دشمنی کا جو بیج آغاز میں بو دیا گیا تھا اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں۔۱۹۶۵ء اور۱۹۷۱ء کی جنگیں تو خاص طور پرتباہی کا باعث بنیں۔مجیدامجدنے ان جنگوں کے پس منظر میں بھی کچھ نظمیں لکھی ہیں جوان کے قومی درد کی آئینہ دار ہیں۔مثال کے طور پر ان کی نظم ’’اے قوم‘‘۱۹۷۱ء کے پس منظرمیں لکھی گئی ہے۔یہ نظم مجیدامجد کے حب وطن سے بھی لبریزہے اور قوم کے لیے ایک پیغام کا درجہ بھی رکھتی ہے۔یاد رہے کہ ۱۹۷۱ء کی جنگ کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوگیاتھا اور سقوط ڈھاکہ کا سانحہ برداشت کرنا پڑا تھا۔مجیدامجد ایک طرف تو قوم کوجرات مندانہ قدم اٹھانے کی ترغیب دیتے ہوئے کہتے ہیں:
بندوق کو بیان غم دل کا اذن دے
اک آگ بن کے پوربوں اور پچھموں میں جی
اور دوسری طرف اپنے مقدس غموں کو ہمیشہ یاد رکھنے کی تلقین کرتے ہیں:
وہ مائیں جن کے لال لہو میں نہا گئے
صدیوں اب ان کے آنسوئوں اکھڑے دموں میں جی
محمدافتخارشفیع نے اپنے مقالے میں پاک بھارت جنگوں کے حوالے سے لکھی گئی مجیدامجد ایسی ہی نظموں کا ایک مکمل مطالعہ کیا ہے۔اس مضمون کوپڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مجیدامجد اپنی دھرتی سے کس قدر جڑے ہوئے تھے اوران کی شاعری محض اپنی ذات کے لیے نہ تھی بل کہ اپنے ہم وطنوں کے لیے بھی تھی۔
(ڈاکٹرمحمدفخرالحق نوری :مطبوعہ مضمون سے مقتبس )
٭
آںحضرت صلٰی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفعت شان کی عکاسی کی گئی ہے لیکن خاص طور پرمجیدامجد کی رسالے ’’الفلاح‘‘کے نومبر ۱۹۳۷ء کے شمارے میں شامل نعت پرافتخارشفیع کا مضمون اورمجیدامجدکی نعت پڑھ کر ایک کیف طاری ہوگیا۔خاص طور پر اس نعت کے معراج نامہ کے انداز واسلوب نے بہتر اثر چھوڑا:
حوروں نے آسمان کے ایواں سجادیے
ہے سب یہ اہتمام برائے رسول آج
(ڈاکٹر عزیز ابن الحسن خط بنام مدیر نعت رنگ کراچی)
٭
مجید امجد کے مسودے ’’فسانہ آدم ‘‘کے بارے میں مجیدامجد شناسوں کی اب تک رائے یہ تھی کہ یہ ان کی ادھوری کتاب ہے۔ڈاکٹرافتخارشفیع نے پہلی دفعہ ثبوتوں کے ساتھ اسے مارٹن ڈیوڈسن کی کتاب کا ترجمہ قرار دیا ہے۔افتخارشفیع نے اس مضمون میں بالکل نیا زاویہ پیش کیا ہے۔
(ڈاکٹررفیق الاسلام :مضمون سے مقتبس)
٭
مجیدامجدشناسی کی روایت میںڈاکٹروزیرآغا،ڈاکٹرخواجہ محمدزکریا،ڈاکٹرناصرعباس نیر،ڈاکٹرنوازش علی ،ڈاکٹرمحمدامین اور ڈاکٹرعامرسہیل کے ساتھ اب ڈاکٹرافتخارشفیع کا نام بھی تواترسے لیاجانے لگا ہے۔انھوں نے گذشتہ دودہائیوں میں مجیدامجدشناسی کے مخفی گوشوں کی تلاش کا کام جاری رکھا ہے۔افتخارشفیع اسی شہر(منٹگمری)سے متعلق ہیں جہاں مجیدامجد نے اپنی زندگی کے شب وروز گزارے ،اسی لیے ان کی رسائی بنیادی ماخذات تک ہوئی ہوگی۔اس کی ایک مثال مجیدامجد کے نام سے منسوب ’’فسانہ آدم ‘‘نامی مسودہ ہے۔اولین درجے کے مجیدامجدشناسوں نے اسے مجیدامجد کی علم فلکیات پرلکھی گئی کتاب قرار دیا،اس پر مقالات تحریر کیے۔افتخارشفیع نے اپنے مبسوط مقالے میںاس مسودے کو ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ قرار دیا۔اپنے مندرجات کوانھوں نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا۔مجیدامجدکی ’’کلیات نثر‘‘کوجدید خطوط کے ساتھ مرتب کرکے انھوں نے مجیدامجدکے کمال فن کو نئی جہت دی ہے۔
(ڈاکٹرحسن محمدخان :مضمون سے مقتبس)
ڈاکٹرمحمد افتخار شفیع ـ
تاریخ پیدائش: ۱۷ اگست ،۱۹۷۳ء(ساہیوال) تعلیم:ایم فل۔پی ایچ ڈی (اردو)۔ایل ایل بی(شریعہ)
پیشہ: درس وتدریس
ایڈریس: صدرنشیں/ایسوسی ایٹ پروفیسر،شعبہ اردو
گورنمنٹ کالج ساہیوال
کتب:
۱۔ نیلے چاند کی رات (شعری مجموعہ) فکشن ہائوس لاہور ۱۹۹۹ء
۲۔ اردو ادب اور آزادی فلسطین(تنقید و تحقیق) کتاب سرائے لاہو ر ۲۰۱۱ء
۳۔اصناف شاعر ی(تنقید و تحقیق)باراول و دوم کتاب سرائے لاہور ۲۰۱۱ء
۴۔اصناف نثر(تنقید و تحقیق) کتاب سرائے لاہور ۲۰۱۲ء
۵۔ڈاکٹر اسلم انصاری،شخصیت و فن(تنقیدو تحقیق) اکادمی ادبیات پاکستان ۲۰۱۲ء
۶۔ اردو غزل میں سراپا نگاری الوقار پبلی کیشنز لاہور ۲۰۱۷ء
ٔٔٔٔٔٔٔ۷۔پاکستانی ادب کا منظر نامہ(ترتیب) بک ہوم لاہور ۲۰۰۵ء
۸۔ آثار جنوں (تدوین و ترتیب) شعبہ اردو گورنمنٹ کالج ساہیوال ۲۰۰۹ء
۹۔شہر غزل کے بعد( ترتیب )بہ اشتراک ادارہ صوت ہادی ساہیوال ۲۰۱۰ء
۱۰۔حفیظ الرحمٰن خان :شخصیت اور فن (ترتیب) دارلنوادر لاہور ۲۰۱۴ء
۱۱۔کلیات نثر :مجید امجد (ترتیب) کتاب سرائے لاہور ۲۰۱۷ء
۱۲۔شواہدالالہام:مولانا حالی(ترتیب) ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور ۲۰۱۸ء
۱۳۔مجیدامجد:نئے تعینات ورلڈویو پبلشرز لاہور ۲۰۲۱ء
تعیناتی تنقید معاصر عہد میںامجد شناسی کا وصف خاص ہے ۔ تجریدی، ہیولائی اورغیر متعین معانی کو حسابی کتابی منطق کا بلیک ہول نگل چکا ہے۔ڈاکٹر افتخار شفیع نے اپنی علمی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے مجید امجد کے ذہنی اور تخلیقی سفر کے بعض لا ینحل زاویوں کی قیمت نمائی کی ہے۔تعین میں بے رنگی کو لباس رنگ میسر آ سکتا ہے۔مجید امجد کے شعور کے آئینوں میں اترتے کائنات کے مسحور کن منظر ان لفظی بیانیوںکے بغیر احاطہ شہود میں نہیں آ سکتے تھے جنہیں ہم مجید امجد کی تخلیقی زرخیزی کا وصف خاص سمجھتے ہیں۔اس وصف کو متعین کرنا اور اس کی روشنی میں مجید امجد کی ذہنی وسعتوں کا اندازہ لگانا آسان کام نہیں تھا۔ڈاکٹرافتخار شفیع نے اس مشکل مرحلے کو بہ آسانی طے کیا ہے ۔ ان کی کتاب ’’ مجید امجد : نئے تعینات‘‘ میں شامل مضامین اس لحاظ سے وقیع ہیں کہ ان میں انھوں نے مجید امجد کی مذہبی ، علمی، لسانی، مجلسی، تحقیقی اور ذاتی زندگی کے کثیررنگی پہلوئوں کی تعیناتی نشاندہی کی ہے۔ڈاکٹر افتخار شفیع نے اپنے مضمونوں میں جا بجا مجید امجد کی لسانی مہارتوں کا تعین بھی کیا ہے۔ ان لسانی اور تخلیقی مہارتوں کے پیش نظر آئندہ زمانوں میں مجید امجد کے متعینہ شعر ناموں کے اور بھی کئی نئے رخ سامنے آ سکتے ہیں کہ مجسم کو مجرد کرتے ، ساکن کومتحرک دیکھتے اور متعینہ معنی کو غیر متعینہ صورتوں میں ڈھالتے تخلیقی اپج رکھنے والے شاعروں کی معنی بندی بہر حال ایک کھلا چیلنج ہے۔ ہماری تنقید اس امر کی عادی ہے کہ وہ صرف اسی بات کو سند دینے کا کام کرتی ہے جو کسی نہ کسی متعینہ ماخذ سے ان تک پہنچی ہو۔
پروفیسرڈاکٹرسعادت سعید