کرب سے شیشۂ ساعت کی ہوئی ریگ کثیف
ایک اک پَل کئی صدیوں میں جیا ہے میں نے
جس میں اک قطرۂ سیماب تھا ہر دم حیراں
آج وہ کاسۂ دل توڑ دیا ہے میں نے
لوگ سمجھے، نئی دنیا کی طلب میں نکلا
سچ تو بس یہ ہے کہ بن باس لیا ہے میں نے
اس گھنی رات میں ہنسنے کی نہ فرمائش کر
عمر بھر کرب کا زہراب پیا ہے میں نے
قہقہے پر مرے احباب پریشاں کیوں ہیں
یعنی شاید یہ نیا کام کیا ہے میں نے
ہونٹ سوکھے ہیں، نہ نالہ ہے نہ آنکھیں نم ہیں
اور یہ سچ ہے بہت رو بھی لیا ہے میں نے
ایک اک چہرے نے آنکھوں پہ مری دستک دی
وہ بھی اس شب میں کہ در بھیڑ لیا ہے میں نے
اک نظر دیکھ مرے زیست کے پیراہن کو
جس کے ہر چاک کو حسرت سے سِیا ہے میں نے
خواب کیا دیکھے کہ اس دل پہ مصیبت ڈھا دی
اس بچارے پہ بہت ظلم کیا ہے میں نے
میرے پہلو ہی میں موجود ہے اسلمؔ ہر پَل
کون کہتا ہے دکن ۱؎ چھوڑ دیا ہے میں نے
۔۔۔
۱؎ حیدر آباد، کہ گہوارۂ تہذیب و خلوص
٭٭٭